غزل

غزل

عزیز نبیل

مسافتیں کسی ہجرت کے انتظار میں ہیں
عقیدتیں ابھی بیعت کے انتظار میں ہیں

سرائے عشق میں بیٹھے ہوئے ہیں دل والے
اور ایک آخری تہمت کے انتظار میں ہیں

یہ کون لوگ ہیں جو لے کے نامہءاعمال
نہ جانے کب سے قیامت کے انتظار میں ہیں

یہاں کی خاک میں سورج دبے ہوئے ہیں کئی
اور آسماں کی رفاقت کے انتظار میں ہیں

نبیل کھول دو شہرِ سخن کے دروازے
بہت سی غزلیں اجازت کے انتظار میں ہیں


شاعرکا مختصر تعارف:مکمل نام: عزیزالرحمن محمد صدیق قلمی نام : عزیز نبیل

پیدائش: 26 جون 1976ء بمقام ممبئی موجودہ قیام : دوحہ، قطر
کتابیں:
1۔خواب سمندر ۔ شعری مجموعہ (2014) 2۔فراق گورکھپوری شخصیت، شاعری اور شناخت (2014)
3۔ عرفان صدیقی ۔حیات، خدمات اور شعری کائنات (2015)
4۔ پنڈت آنند نرائن ملّا شخصیت اور فن (2016)
5۔ پنڈت برج نرائن چکبست شخصیت اور فن ( 2018 )
6۔ آواز کے پَر کھلتے ہیں ۔شعری مجموعہ (2019)
7۔ پہلی بارش ۔ دیوناگری میں شعری انتخاب (2019)
سالانہ کتابی سلسلہ دستاویز (مدیر اعلی):
1۔ رفتگاں کے نام (2010) 2۔ اردو کے اہم ادبی رسائل و جرائد (2012)
3۔ اردو کے اہم غیر مسلم شعراءو ادباء (2014)
4۔ اردو کی اہم خودنوشت سوانح عمریاں (2016)

اہم ادبی اعزازات:
1 -مہاراشٹر اسٹیٹ اردو اکیڈمی کا ساحرلدھیانوی ایوارڈ
-2 بہاراسٹیٹ اردو اکیڈمی کا عبدالغفور شہباز ایوارڈ
-3اردو ، سنسکرت وراثت کارواں ، دہلی کا فراق گورکھپوری ایوارڈبرائے شاعری

عزیز نبیل کی مزید غزلیں:
سلسلے نور کے ’ مَیں خاک نشیں’ جانتا ہوں
کتنے سورج ہیں یہاں زیرِ زمیں جانتا ہوں

جان لیتا ہوں ہر اک چہرے کے پوشیدہ نقوش
تم سمجھتے ہوکہ میں کچھ بھی نہیں جانتا ہوں

بے صدا لمحوں میں، موہوم خیالوں سے پرے
دل کی آوازکو میں عین یقیں جانتا ہوں

کِن علاقوں سے گزرنا ہے اٹھائے ہوئے سر
اور کہاں مجھ کو جھکانی ہے جبیں جانتا ہوں

اُس کے ہی حسن کی تمہیدہیں سارے موسم
میں اُسے آج بھی اُتنا ہی حسیں جانتا ہوں

لاکھ جا بیٹھے کوئی اونچی فصیلوں پہ نبیل
جس کی اوقات جہاں کی ہو، وہیں جانتا ہوں

++
بے سبب ہی کبھی، آواز لگاو تو سہی
اپنے ہونے کا کچھ احساس دلاو تو سہی

سانس لیتا ہوا ہر رنگ نظر آئے گا
تم کسی روزمرے رنگ میں آو تو سہی

تاکہ پھر رات کی تصویر اتاری جائے
اِن چراغوں کو ذرا دیر بجھاو تو سہی

حوصلہ ہے تو جزیرہ بھی تمہارا ہوگا
خوف کی کشتیاںساحل پہ جلاو تو سہی

زندگی جسم سے باہر بھی نظر آئے کبھی
کوئی ہنگامہ سرِ راہ اٹھاو تو سہی

میری مٹّی میں محبت ہی محبت ہے نبیل
چھوکے دیکھوتو سہی، ہاتھ لگاو تو سہی

++
عجب کشش ہے پس ِ اسمِ ذات چلتی ہوئی
طویل سجدے میں ہے کائنات چلتی ہوئی

ملی تھی راہ میں اک بے قرار پرچھائیں
گھر آگئی ہے مرے ساتھ ساتھ چلتی ہوئی

طلوعِ صبج سے پہلے غروبِ شام کے بعد
ٹھہرگئی مرے سینے میں رات چلتی ہوئی

سو میں نے بحث نہ کی، گفتگوکو ختم کیا
نکل گئی تھی بہت دور بات چلتی ہوئی

بچھڑ گیا تھا وہیں وقت ساتھ چلتا ہوا
بھٹک گئی تھی جہاں کائنات چلتی ہوئی

کچھ اس طرح سے صدادی ہے اک نظر نے نبیل
ٹھٹھک کے رک گئی جیسے حیات چلتی ہوئی

++
دل پہ کچھ ایسے کسی یاد کے در کھلتے ہیں
جیسے صحراوں کی وسعت میں سفر کھلتے ہیں

ہم سے ملتے ہیں سرِ دشت بگولے جھک کر
پاوں دریاوں میں رکھّیں تو بھنور کھلتے ہیں

راہ گم کردہ ستاروں کے لیے آخرِ شب
ہم فقیرانِ درِ عشق کے گھر کھلتے ہیں

کون سے لوگ ہیں جو پھرتے ہیں تعبیر لیے
کن دعاوں کے لیے بابِ اثر کھلتے ہیں

آگ تخلیق کی جب روح کو لاوا کردے
تب کہیں جاکے مری جان، ہنر کھلتے ہیں

روز دستک سی کوئی دیتا ہے سینے پہ نبیل
روز مجھ میں کسی آواز کے پر کھلتے ہیں

++
جس طرف چاہوں پہنچ جاوں مسافت کیسی
میں تو آواز ہوں آواز کی ہجرت کیسی

سننے والوں کی سماعت گئی ، گویائی بھی
قصّہ گو تو نے سنائی تھی حکایت کیسی

ہم جنوں والے ہیں ،ہم سے کبھی پوچھو پیارے
دشت کہتے ہیں کسے ، دشت کی وحشت کیسی

آپ کے خوف سے کچھ ہاتھ بڑھے ہیں لیکن
دستِ مجبور کی سہمی ہوئی بیعت کیسی

پھر نئے سال کی سرحد پہ کھڑے ہیں ہم لوگ
راکھ ہو جائے گا یہ سال بھی ، حیرت کیسی

اور کچھ زخم مرے دل کے حوالے مری جاں
یہ محبّت ہے محبت میں شکایت کیسی

میں کسی آنکھ سے چھلکا ہوا آنسو ہوں نبیل
میری تائید ہی کیا، میری بغاوت کیسی

++
کوئی فریاد مجھے توڑ کے سَن سے نکلی
یوں لگا جیسے مری روح بدن سے نکلی

عادتاً میں کسی احساس کے پیچھے لپکا
دفعتاً ایک غزل دشتِ سخن سے نکلی

رنگ کس کاتھاجودستک سے نمودار ہوا
کس کی خوشبو تھی جو کمرے کی گھٹن سے نکلی

کس کاچہرہ تھا جو صدیوں کے بھنور سے ابھرا
کیسی وحشت تھی جو برسوں کی تھکن سے نکلی

ایک سائے کے تعاقب میں کوئی پرچھائیں
پیاس اوڑھے ہوئے صحرائے بدن سے نکلی

کچھ تو ایسا تھا کہ بنیاد سے ہجرت کرلی
خاک یونہی تونہیں اپنے وطن سے نکلی

راکھ جمنے لگی جب رات کی آنکھوں میں نبیل
نیند آہستہ سے بستر کی شکن سے نکلی

++
زمین آنکھوں کو مَل رہی تھی، ہوا کا کوئی نشاں نہیں تھا
تمام سمتیں سلگ رہی تھیں مگر کہیں بھی دھواں نہیں تھا

چراغ کی تھرتھراتی لو میں، ہر اوس قطرے میں، ہر کرن میں
تمھاری آنکھیں کہاں نہیں تھیں، تمہارا چہرہ کہاں نہیں تھا

دیارِ ہجراں کی وحشتوں کاطلسم ٹوٹا تو میں نے جانا
ہر ایک دستک ہواوں میں تھی، مکیں نہیں تھے ، مکاں نہیں تھا

وہ ایک لمحہ تھا سرخوشی کا، فسوں تھادریافت کے سفر کا
جو ریگِ جاں میں چمک رہا تھا ستارہ ء آسماں نہیں تھا

وہ کیسا موسم تھا، زرد شاخوں سے سبزبیلیں لپٹ رہی تھیں
وہ سبز بیلیں کہ جن کی آنکھوں میں کوئی خوفِ خزاں نہیں تھا

یگوں کے رتھ پر سوار گہری خموشیوںنے بتایامجھ کو
کہ تم سے پہلے بھی اور پہلے بھی بس یقیں تھا گماں نہیں تھا

اسی زمیں کی تہوں میں بہتا تھا میٹھے پانی کا ایک چشمہ
سراب زادوں کی تشنگی کو مگر کچھ اس کا گماں نہیں تھا

++
نہ روح سے دھواں اٹھا ، نہ آنکھ ہی لہو ہوئی
یہ کس طلب کی چاندنی میں رات سرخ رو ہوئی

ہمیںتو اپنی جستجو بھی خود سے دور لے گئی
تمہاری جستجو تو پھر تمہاری جستجو ہوئی

میں اپنی ذات کا سفر تمام کرکے رک گیا
پھر اس کے بعد راستوں سے میری گفتگو ہوئی

زمیں ٹھہر ٹھہر گئی، فلک سمٹ سمٹ گیا
کوئی صدائے نیم جان ایسے کو بکو ہوئی

ہر ایک آنکھ ریت تھی ہرایک دل سراب تھا
مگر وہ ایک تشنگی جو مجھ میں آب جو ہوئی

++
معجزے کا در کھلا اور اک عصا روشن ہوا
دور گہرے پانیوں میں راستہ روشن ہوا

جانے کتنے سورجوں کا فیض حاصل ہے اُسے
اُس مکمّل روشنی سے جو ملا روشن ہوا

مستقل اک بے یقینی، اک مسلسل انتظار
پھر اچانک ایک چہرہ جابجا روشن ہوا

آنکھ والوں نے چرالی روشنی ساری تو پھر
ایک اندھے کی ہتھیلی پر دیا روشن ہوا

ایک وحشت دائرہ در دائرہ پھرتی رہی
ایک صحرا سلسلہ در سلسلہ روشن ہوا

آج پھر جلنے لگے بیتے ہوئے کچھ خاص پل
آج پھر اک یاد کا آتش کدہ روشن ہوا

جانے کس عالم میں لکھّی ہے غزل تم نے نبیل
خامشی بجھنے لگی، شہرِ صدا روشن ہوا


سنو مسافر! سرائے جاں کو تمہاری یادیں جلاچکی ہیں
محبّتوں کی حکایتیں اب یہاں سے ڈیرا اٹھاچکی ہیں

وہ شہرِ حیرت کا شاہزادہ گرفتِ ادراک میں نہیں ہے
اس ایک چہرے کی حیرتوں میں ہزار آنکھیں سماچکی ہیں

ہم اپنے سرپر گزشتہ دن کی تھکن اٹھائے بھٹک رہے ہیں
دیارِ شب! تیری خواب گاہیں تمام پردے گراچکی ہیں

بدلتے موسم کی سلوٹوں میں دبی ہیں ہجرت کی داستانیں
وہ داستانیں جو سننے والوں کی نیند کب کی اڑاچکی ہیں

وہ ساری صبحیں تمام شامیںکہ جن کے ماتھے پہ ہم لکھے تھے
سنا ہے کل شب تمہارے در پر لہو کے آنسو بہاچکی ہیں

کہاں سے آئے تھے تیر ہم پر، طنابیں خیموں کی کس نے کاٹیں
گریز کرتی ہوائیں ہم کو تمام باتیں بتاچکی ہیں

دھوئیں کے بادل چھٹے تو ہم نے نبیل دیکھا عجیب منظر
خموشیوں کی سلگتی چیخیں فضا کا سینہ جلاچکی ہیں


شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے