جاوید اختر ذکی خاں‌کی چار نظمیں

جاوید اختر ذکی خاں‌کی چار نظمیں

(1)مسلمانان ہند

تم نے ہمیں پاکستانی کہا
تم نے ہمیں دہشت گرد کہا
تم نے ہمیں جہادی کہا
آزادی کے بعد سے
ملک کی تقسیم کے بعد سے
ہم پر کتنے مظالم ڈھائے ہیں
کبھی دہشت گردی کے نام پہ
کبھی داڑھی کے نام پہ
کبھی مسجد کے نام پہ
کبھی گائےکے نام پہ
کبھی بیف کے نام پہ
کبھی مذہب کے نام پہ
کبھی کولاز کے نام پہ
کبھی آبادی کے نام پہ
کبھی لو جہاد کے نام پہ
تم نے قتل کیا ہے ہمارا
کیا ہم ختم ہو جانے والی
قوم ہیں
اے میرے سیاسی قاتل
ابھی ہم زندہ ہیں
ابھی ہم میں سانسیں باقی ہیں
ابھی قلب میں دھڑکن
کی صدائیں گونجتی ہیں
ابھی ذہن میں سوچنے کی
اتم صلاحیت قائم ہے
ابھی ہم زندہ ہیں
ابھی ہم زندہ ہیں!!!!
ہم لوٹ رہے ہیں رفتہ رفتہ
کبھی سول سروس جہادی بن کر
کبھی نیٹ جہادی بن کر
کبھی قلم کا خالد بن ولید بن کر
کبھی امن کا دوت بن کر
یہ ہماری زمین ہے
یہ ہمارا ملک ہے
یہ ہمارا وطن ہے!!!
دیکھو بعد از مرنے کے
اس ملک میں اپنی شناخت
نہیں کھوتے ہیں ہم
ہمارے ملک میں !!
ہماری شناخت ہے
ہم سب کی قبریں
ہاں!!!
خاموش قبریں

(2)زعفرانی رنگ کے خونی پنجے
زعفرانی خوشبو کے درمیان
انسانی لاشوں کی
بدبو ہے۔۔!!
زعفرانی خوشبوؤں کے درمیان
زمین سرخ ہے ۔۔۔
اب ہمارے لہو سے۔۔!!
اب یہ زعفرانی رنگ۔۔۔۔؟؟
خشبوؤں کے ہمراہ۔۔۔
چیخوں کا۔۔۔!!
عصمتوں کا۔۔۔!!
قوموں کا۔۔۔۔!!
نسلوں کا۔۔!!
تجارت کرتے ہیں۔۔۔۔
زعفرانی خشبوؤں کے درمیان۔۔۔۔
زندگی۔۔۔
مقتل گاہ پر برہنہ پا کھڑی ہے۔۔
مستقبل کا خوف تھامے۔۔۔۔۔۔
اب ہم سب۔۔۔۔۔
زعفرانی سورج کی شعاعوں کو
اب اپنے رخسار پر محسوس
کر رہے ہیں۔۔۔۔۔۔
میرا وطن۔۔۔۔
میرا چمن ۔۔۔۔۔۔
اب زعفرانی گلوں
سے بھرا پڑا ہے۔۔۔۔۔
ان زعفرانی گلوں سے۔۔۔۔
انسانی لہو۔۔۔۔
اور۔۔۔
انسانی لاشوں کی
بدبو آرہی ہے
زعفرانی خوشبوؤں کے درمیان۔۔
زندگی ۔۔۔۔۔ہاں زندگی—!!
اب سیسکیاں لے رہی ہو جیسے
زندگی۔۔۔۔۔ہاں زندگی۔۔!!
اب دم توڑ رہی ہو جیسے۔۔۔؟؟

(3) سرد راکھ میں انگارے تھے
تبسم فاطمه کی نذر

سرد راکھ میں انگارے تھے
انگاروں میں
گرماہٹ سے پر شرارے تھے
سیاہ راتوں کے
ڈرے ۔۔سہمے ۔۔اور بجھے
انگارے
اور شرارے ، سسکی بھی آوازیں تھیں
جلتی بجھتی سسکی کس نے دیکھی ہے
لیکن میں تو دیکھ رہا ہوں
سن بھی رہا ہوں
سرد راکھ میں انگارے تھے


( 4) ( میں زمین میں ستارے ہوتا ہوں)

میں زمین میں ستارے ہوتا ہوں
سوچتا ہوں
ان چمکتے روشن ستاروں کو
اپنی زمین کے کھردرے
پتھروں پر رکھ کر سجا دوں
زمین کی ہتھیلی سے
کہکشاں نکالوں
روشنی کی میناروں پر رکھ دوں
میں زمین میں ستارے ہوتا ہوں
اور خواب دیکھتا ہوں

جاوید اختر ذکی خان
شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

All Rights Reserved 2020