بے حیا چولھا

بے حیا چولھا

شہروز مخفی

چولھا( چول+ ھا) ہندی الاصل لفظ ہے__اردو میں لام اور دوچشمی "ھ” کو ملا کر ایک مرکب حرف "لھ” بنا دیا گیا __ اس طرح” چول+ھا ” سے "چو+لھا ” بن گیا__ انسانی زندگی کے بغیر چولھا ایک ویران گڑھا ہے __ اور چولھا کے بغیر زندی کی گاڑی مشکل سے ایک میل تک نہیں جا سکتی__ گویا دونوں کے درمان چولی دامن کا رشتہ ہے__ دیہاتی زمین میں ایک سیدھی سرنگ کھود دیتے ہیں ، بعض مٹی سے سلاینڈر نما کوٹھی بناکر زمین میں گاڑھ دیتے ہیں ،اوپر حسب ذوق تین سے چار اچکن بنے ہوتے ہیں__چمنی چولھا میں تو اچکن بھی نہیں ہوتے__بس ایندھن کے لئے ایک بڑا سا منہہ ہوتا ہے__کھیت کھلیان کے فضلات،گوبر کے اوپلے،بانس بتی کی بوسیدہ ٹاٹیاں،درخت کی سوکھی ٹہنیاں،پتیاں وغیرہ اس کی خوراک ہیں __یہ جلاون بے چارے خود کو جلاکر انسان کو لذت بخش غذا فراہم کرتے ہیں _
سیلابی علاقوں میں جب چولھا پانی ابل نے لگے ، ٹین کاٹ کر عارضی چولھا تیار کر لیا جاتا ہے __ برسات سے قبل ہی سیلاب کی تیاری کر لی جاتی ہے __سوکھے ،عمدہ جلنے والے جلاون کسی اونچی، محفوظ جگہ پر سیلاب کے لیے مختص کر لیے جاتے ہیں _
گیس چولھا،بجلی سے جلنے والے نوع بہ نوع چولھوں کی وجہ سے زمین دوز چولھوں کی اہمیت بھلے ہی دن بہ دن گھٹتی جا رہی ہو ،مگر "چولھا پھونک نے "اور "چولھا جھونک نے” کا محاورہ اب بھی رائج ہے __
غصہ جتانے وقت "چولھے بھاڑ میں جاو” زبان زد خاص و عام ہے__ یہاں "بھاڑ” غالبا دوزخ یا دہکتے انگارے سے کنایا ہے __
سرجاپوری سماج میں ایک چولھا اور ہے __ اسے "بری چولھا” کہہ سکتے ہیں __(بری: بہ فتح با وکسر را)
عام چولھوں کی طرح اس کا رشتہ انسانی زندگی سے نہیں بلکہ محض شادی کی ایک رسم سے جڑا ہے__ شادی کی تاریخ متعین ہوتے ہی، آس پاس کی دوشیزاوں کی ہفتہ ،عشرہ کی اجتماعی محنت سے تیار ہونے والا مٹی کا یہ چولھا نفاست،لطافت،نزاکت میں پر کشش ہوتا ہے __ سجنی کی رات (بارت آنے یاجانے کی صبح سے پہلے کی رات)تقریبا دو، ڈھائی بجے، چنے اور چاول کے آٹے سے بنے ،ہندوستانی جنگلی کھجوروں کے مثل ،چھوٹے چھوٹے ٹکیہ (بری) کو تیل سے تلنے میں یہ چولھا کام آتا ہے __ یہاں اسے "بری بھاجنا” کہتے ہیں__ وقت مقررہ پر بیچ آنگن میں رسم "بری بھاجنا”شروع ہوتی ہے __شرفا سوچکے ہوتے ہیں،ذمہ داران صبح کی آمد بارات یا روانگی بارات کی تیاری میں مصروف ہوتے ہیں _ دوشیزائیں اس رسم کو نبھاتی ہیں _ کچھ منچلے لڑکے اس رسم کا حصہ بن نے کے شوق میں چمگاڈر کی طرح بیدار رہتے ہیں _ ایک نئی شادی شدہ خاتون بری بھاجتی ہے _ باقی دو شیزائیں منچلے لڑکوں سے تلے ہوئے بریوں کی حفاظت پر تعینات رہتی ہیں _ منچلے بھی دوچار میٹر دور قسمت آزمائی کے لئے تیار کھڑے ہوتے ہیں _ لڑکیاں حفاظت پر تعینات ہوں اور منچلوں کو بری اچک لے جانے کی چھوٹ ہو،ایسے میں دونوں کے درمیان نوک جھونک کی صورت کتنی حیا سوز ہوگی ، بیان کرنے کی چنداں ضرورت نہیں _
کبھی کوئی منچلا دونوں ہاتھ میں رومال باندھ کر چولے پر سے گرم کڑاہی لے کر فرار ہوجاتا ،پیچھے گرم چھلنی لے کر کوئی دوشیزہ اسے مزہ چکھانے دوڑتی __ بچپن کا واقعہ اچھی طرح یاد ہے، چولھا چلانے والی خاتون تلے ہوئے بریوں کی کٹوری اپنی ساڑھی سے چھپا کر گود میں رکھی ہوئی تھی _ پاس ہی شکل و صورت کا شریف ایک منچلا کھڑا تھا _ اس کی شرافت پر کسی کو شک نہیں ہو سکتا تھا_ اچانک موقع پاکر اس نے ساڑھی کے اندر سے مشت بھر بری لیا اور بھاگ کھڑا ہو گیا__
اس انہونی حادثہ سے خاتون سٹ پٹا سی گئی__ کپڑا وپڑا درست کرکے ادھر ادھر دیکھی تو چاروں طرف قہقہے لگ رہے تھے _ بیچاری شرمندہ ہو گئی _کچھ دیر خاموش رہی _ مگر زیادہ صبر نا کر سکی _ پھر کیاتھا کہ مغلظات کا سیلاب منہہ سے ابل پڑا _نفیس استعارات،عمدہ تراکیب،نئے نئے محاورات پر مشتمل گالیاں ایک ایک کرکے بڑی نفاست سے ،فراٹے کے ساتھ منہہ سے نکلتیں ، _ ادھر مجرم فاتحانہ شان میں دور کھڑا نسلی کتوں کی طرح گالیاں سنتا،بری کھاتا اور ہنستا جاتا _ غرض کہ اس رات انسانی چیل،آدمی شکل کا کتا،آدم زاد بندر سب دیکھنے کو ملیں گے _ حیرت کن بات یہ تھی کہ اس بے شرمی پر بیچاری اس عورت کے علاوہ کسی نے نوٹس نہیں لیا _ یہ سب کرامت ہے اس خوبصورت "بے حیا چولھے "کی جس سے یہ بیہودہ رسم جڑی ہے _ اس لئے اس چولھے کی حسن شکنی ،رسم کی بیخ کنی ہونی چاہیے _ اس تہذیب کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے _

انشائیہ نگار کے بارے میں‌:
نام :- محمد شہروز
تخلص:-مخفی
ولدیت:- محمد زین الدین (حاجی)
پیدائش:- 1983
تعلیمی اسناد:- فاضل،ایم _اے( اردو )،بی _ ایڈ
سکونت:- موہنا ،پوسٹ چوکی ،کدوا ،کٹیہار بہار
تدریس:- مترقی ہائی اسکول ،بانس کوٹا ،بارسوئی کٹیہار بہار
منکوحہ:-رقیہ پروین ،سنگھیا ٹھا ٹھول،ڈگروا،پورنیہ بہار
اثمار حیات:- محمد غزالی ،محمد معاذ،محمد دست گیر
رابطہ:7545976669

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے