شِلپی

شِلپی

Mohammad Ehsanul Islam

احسان قاسمی
نوری نگر ، خزانچی ہاٹ ، پورنیہ ( بہار ) انڈیا
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

اسکول انتظامیہ کے سکریٹری شری دیباشیش راۓ نے اپنی تقریر کا آغاز کچھ اس انداز سے کیا ـــــــ ” عالی جناب پرفل کمار سین ایم ایل اے جو ہماری خوش بختی سے اس اسکول کے صدر اور سرپرست اعلی بھی ہیں ، جناب چودھری خیرالدین صاحب نائب صدر ، جناب سُجیت منڈل ہیڈ ماسٹر صاحب اور اس خصوصی بیٹھک میں شامل اراکین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آج کی یہ خصوصی بیٹھک ایک خاص مسئلہ کا حل تلاش کرنے کے لۓ بلائ گئ ہے – لیکن اس سے قبل میں چند باتیں اسکول سے متعلق آپکے گوش گذار کرنا چاہتا ہوں – سال رواں ہمارے اسکول کا سلور جوبلی سال ہے – ان پچیس سالوں میں ہم نے ترقی کی نئ نئ منزلیں طۓ کی ہیں – سخت ڈسپلن ، کڑی محنت اور آپ سب کے ایثار کی بدولت ایک معمولی سے قصبہ میں قائم ہمارا یہ سیوا گرام ہائ اسکول تعلیم ، تربیت اور رزلٹ کے اعتبار سے پورے سب ڈویژن کی ناک بن چکا ہے – پہلے ہمارے قصبہ سے بچے حصول تعلیم کیلۓ شہر جانے پر مجبور تھے لیکن اب حالت یہ ہے کہ شہر کے بچے ہمارے اسکول میں داخلہ لینے کو کوشاں رہتے ہیں – اب ہمارے اسکول کی شہرت ضلع بھر میں ہونے جا رہی ہے کیونکہ ضلعی جونیر فٹ بال ٹیم کیلۓ ہمارے اسکول سے تین کھلاڑیوں کا انتخاب کیا گیا ہے جو کہ ہمارے لۓ نہایت فخر کی بات ہے – ہمارے اولوالعزم صدر کی کاوشوں سے اسکول کو ایک نئ عمارت کا تحفہ بھی بہت جلد ملنے جا رہا ہے – یہ بھی ہمارے لۓ نہایت مسرت اور شادمانی کی بات ہے – اب آتا ہوں اصل مسئلہ کی جانب
– جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ درگا پوجا کا وقت نزدیک آچکا ہے – اسکول میں ہر سال درگا پوجا کا اہتمام نہایت دھوم دھام کے ساتھ کیا جاتا رہا ہے – گذشتہ کئ برسوں سے پورے سب ڈویژن میں پوجا کا پہلا انعام ہمارا اسکول ہی حاصل کرتا رہا ہے – لیکن اس جیت کا سہرا صحیح معنوں میں اگر کسی شخص کے سر جاتا ہے تو وہ ہے شلپکار پنچ رتن پال – یہ شخص اعلی درجہ کا شلپکار ہے – حقیقت یہ ہے کہ اسکا ثانی دوسرا کوئ فنکار دور دور تک نظر نہیں آتا – لیکن مسئلہ یہ ہے کہ گذشتہ کئ ماہ سے پنچ رتن دا بیمار ہیں – گھر سے باہر نکلتے نہیں ، کسی سے ملتے جلتے بھی نہیں – ایسی حالت میں ماں کی پرتیماکیسے بنے گی اور کون بناۓ گا یہ طۓ کرنا ضروری ہو گیا ہے – لہذا آپ سبھوں سے گذارش ہے کہ اس مسئلہ پر اپنی راۓ پیش کریں -کافی غور و خوض کے بعد شری بھانو گھوش نے یہ راۓ دی کہ اس کام کے لۓ ایک چار رکنی کمیٹی تشکیل دی جاۓ جسمیں سکریٹری صاحب اور ہیڈ ماسٹر صاحب کے علاوہ آرٹ ٹیچر سُبرتو نیوگی اور خصوصی طور پر نائب صدر چودھری خیرالدین صاحب کو شامل کیا جاۓ – یہ چاروں سب سے پہلے شلپکار پنچ رتن پال کے گھر جاکر ان سے ملاقات کریں اور انہیں پرتیما بنانے پر آمادہ کریں – ناکامی کی صورت میں ان کو اختیار ہوگا کہ کسی دوسرے اچھے شلپکار سے رابطہ قائم کریں – انہوں نے یہ امید بھی ظاہر کی کہ پنچ رتن دا ہر شخص کی بات کاٹ سکتے ہیں لیکن اگر چودھری خیرالدین صاحب بنفس نفیس انکے گھر تشریف لے جائیں تو شاید وہ انکار نہ کر سکیں – یہ تجویز سارے ممبران کو پسند آئ اور ایک چار رکنی کمیٹی بنا دی گئ –
——————————————–
شلپکار پنچ رتن پال کا گھر کیا تھا ، بس ایک بوسیدہ سی جھونپڑی – جھونپڑی کے سامنے چند قدموں کے فاصلے پر نہایت بوسیدہ حالت میں ایک اور چھوٹی سی جھونپڑی جو شاید چولہا گھر تھا – دونوں جھونپڑیوں کے درمیان خالی جگہ کچا آنگن جسے جوٹ کی سنٹھیوں سے بنی ٹٹیوں سے گھیرا گیا تھا – ٹٹیاں سڑ گل کر جگہ جگہ سے ٹوٹ پھوٹ گئ تھیں جس سے کتے بلیاں بآسانی آ جا سکتے تھے – گھر کے پیچھے بانس کا جھاڑ جسکی سوکھی پتیاں ادھر ادھر بکھر کر ایک عجیب سا سوگوار ماحول بنا رہی تھیں – پورا ماحول گہری یاسیت میں ڈوبا سا نظر آرہا تھا – چاروں ممبران جھونپڑی کے سامنے کھڑے ایک دوسرے کا منھ تک رہے تھے – آخر کار سکریٹری صاحب نے آواز لگائ ـــــــــ ” پنچ رتن دا ۔۔۔۔۔۔۔ !! مگر بوسیدہ جھونپڑی کے بند دروازہ کے پیچھے مکمل خاموشی رہی – کچھ وقفہ کے بعد سکریٹری صاحب نے آگے بڑھ دروازے کی کنڈی بجاتے ہوۓ دوبارہ زور سے آواز لگائ ــــــــــ ” رتن دا ! ۔۔۔۔۔۔ رتن دا !! ۔۔۔۔۔۔دیکھۓ آپ سے کون لوگ ملنے آۓ ہیں ؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔ "چند لمحوں بعد دروازہ کھلا اور شلپکار باہر آیا – مگر یہ وہ شلپکار تو ہر گز نہ تھا جسے اس سے قبل ان لوگوں نے بارہا دیکھا تھا – یہ تو کوئ سال خوردہ مردہ تھا جو ابھی ابھی قبر سے برآمد ہوا تھا – جھریوں بھرا چہرا ، دھنسی ہوئ بےنور آنکھیں ، آنکھوں کے نیچے ابھری ہوئ ہڈیاں ، لمبی ستواں خمدار ناک باہر کو نکلی ہوئ ، زرد چہرہ جیسے جسم میں خون کی ایک بوند تک باقی نہ بچی ہو – پیٹ پیٹھ سے سٹا ہوا ، ایک میلی دھوتی کس کر بندھی ہوئ ، پیٹ پر چہرے سے زیادہ جھریاں پڑی ہوئیں – دونوں ہاتھ پرنام کی مُدرا میں جوڑے ، سوالیہ نگاہیں سب پر ٹکی ہوئیں – ہیڈ ماسٹر صآحب نے آگے بڑھ کر دونوں ہاتھ تھام لۓ ــــــــــ ” دادا ! کیسے ہیں آپ ؟ ” ایک پھیکی سی مسکراہٹ ـــــــــــ "
کیسا ہوں ؟ ماں کا آشیرواد ، زندہ ہوں ۔۔۔۔۔۔۔ مِرتیو کی راہ دیکھ رہا ہوں – ” آرٹ ماسٹر سُبرتو نے کہا ـــــــ ” دادا ! ہم آپکے پاس بہت امید لے کر آۓ ہیں -” ــــــ ” لیکن میں تو بہت بیمار اور کمزور ہوں ۔۔۔۔۔۔۔ ” کہتے کہتے رتن دا دھیرے دھیرے زمین پر بیٹھ گۓ جیسے گھٹنوں میں دم ہی نہ رہا ہو – چودھری صاحب نے بڑھ کر انکے شانوں پر ہاتھ رکھا تو رتن دا ان کا داہنا ہاتھ پکڑ کر بے تحاشہ ہچکیوں میں رونے لگے جیسے ناگر ندی کا باندھ ٹوٹ گیا ہو – دیر تک روتے رہے – رفتہ رفتہ ہچکیاں سسکیوں میں تبدیل ہوئیں – انکا کمزور جسم دیر تک یوں لرزتا رہا جیسے بانس کا زرد خشک پتہ – کافی دیر بعد کچھ نارمل ہوۓ – چودھری صاحب کا ہاتھ پکڑ کر دھیرے دھیرے کھڑے ہوۓ ، پھر جیسے خود سے بڑبڑانے لگے ــــــ ” ماں کا بھکت ہوں – شاید یہ میرے جیون کے انتم چھن ہیں – شاید یہ ماں کی انتم پرتیما ہے – شاید یہی ماں کی اِچھا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں بناؤنگا ماں کی پرتیما ، آپلوگ نِراش مت ہوئیے – جیون میں جو کچھ کلا میں نے سیکھا اس انتِم پرتیما کو سمرپِت کردونگا ، کچھ بچا کر نہیں رکھونگا – کوئ معاوضہ بھی نہیں لونگا -” سکریٹری صاحب کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے – دونوں ہاتھ جوڑ کر بولے ” دادا آپ دھنیہ ہیں -” رتن دا نے کہا ــــــ ” لیکن میری کچھ شرائط ہیں – آپ بانس ، پوال ،سُتلی وغیرہ کا انتظام کریں – تین دنوں بعد مجھے ایک ٹریکٹر دیں – میں لہوجگرام سے مٹی لاؤنگا اپنی پسند کی – کامگار رکھونگا اپنی پسند کا – درگااستھان کے سامنے والے کھلے حصہ کو بہترین ڈھنگ سے گھیر کر پردے کا انتظام کردیں – کسی کو بلاوجہ آنے کی اجازت نہ ہوگی – ” سکریٹری صاحب نے مسکرا کر کہا ـــــ ” آپکی تمام شرائط ہمیں منظور ہیں مگر امسال بھی پورے سب ڈویژن میں اسکول کو اول انعام ہی حاصل ہونا چاہئیے – ” رتن دا کے چہرے پر ایک پرسکون مسکراہٹ سی پھیل گئ ــــــــ ” آپ اطمینان رکھۓ سکریٹری صاحب ! ایسی مورتی بناؤنگا کہ سب ڈویژن اور ضلع کیا پورے صوبہ میں اسکی چرچا ہوگی -"
———————————————
طویل انتظار کے بعد آخر سپتمی کی صبح آ ہی گئ – سشٹھی کی رات شلپی نے ماں کی آنکھیں بنائ – پنڈت نے پران پرتِشٹھا کی – پرتیما ایک بڑے سے چادر نما کپڑے سے ڈھکی تھی – درگا استھان اسکول کے میدان کنارے بنا ایک بڑا سا ہال تھا – اسکی چھت اور تین اطراف کی دیواریں پختہ تھیں صرف سامنے کا حصہ کھلا تھا -ہال کے اونچے چبوترے پر چڑھنے کیلۓ سامنے پکی سیڑھیاں بنی تھیں -ہال کے سامنے بڑا سا پنڈال لگا تھا – پنڈال کا مُکھیہ دوار ( داخلی دروازہ ) نہایت شاندار گویا کسی راجا کا راج محل ہو – یہ بردوان سے خاص طور پر بلاۓ گۓ کاریگروں کا کمال تھا – پنڈال کے اندر سینکڑوں کرسیاں ترتیب سے لگائ گئ تھیں – درمیان سے چھ فٹ چوڑا راستہ تھا جس پر سرخ رنگ کی قالین بچھائ گئ تھی – ہال کو برقی قمقموں اور دیگر سجاوٹ کے سامانوں سے بہترین ڈھنگ سے آراستہ کیا گیا تھا – میدان کے بائیں جانب حلوائیوں ، چاٹ پکوڑا ، گُپ چُپ، چاۓ سنگھاڑا اور کھلونے کی دوکانیں تھیں – التا،سیندور،ٹِکلی بیچنے والوں نے زمین پر پلاسٹک بچھا کر دوکان لگا لی تھی – غبارے والے گھوم گھوم کر غبارے فروخت کر رہے تھے – ہوائ لڈو والے نے اپنی سائیکل کے کیرئیرپر مشین فٹ کر رکھی تھی – ڈھاک ڈھول بج رہے تھے – دھوپ دانوں میں سلگتے دھوپ اور گوگل سے اٹھتے دھوئیں کی خوشبو پورے پنڈال میں چکراتی پھر رہی تھی – پنڈت جی لگاتار درگا پاٹھ کر رہے تھے
گویا کہ پوجا اور میلے کا پورا ماحول بن چکا تھا – لوگوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا – دیر تھی تو صرف اس بات کی کہ وقت مقررہ پر مقامی ایم ایل اے صاحب جو اس اسکول کے صدر اور سرپرست اعلی بھی ہیں تشریف لائیں اورتمام لوگوں کے درشن کیلۓ پرتیما کی نقاب کشائ کریں –
ایم ایل اے صاحب کا کارواں وقت مقررہ پر پہنچتے پہنچتے اس قدر بھیڑ لگ گئ کہ پورا پنڈال عورتوں اور بچوں سے ہی بھر گیا – مرد سینکڑوں کی تعداد میں پنڈال سے باہر کھڑے رہے – سکریٹری صاحب اور ہیڈ ماسٹر صاحب کی معیت میں ایم ایل اے صاحب سرخ قالین پر چلتے ہوۓ سیڑھیوں تک پہنچے ، جوتے اتارے پھر پوجا ہال میں داخل ہوۓ – ڈھاک ڈھول زور زور سے بجنے لگے ، کاسا ( جھال ) بجانے والے جھوم جھوم کر کاسا بجانے لگے ، گھنٹا بجانے والے پر وجدانی کیفیت طاری ہوئ ،شنکھ پوری قوت سے بجاۓ جانے لگے ، پنڈت جی زوروشور سے اشلوک پاٹھ کرنے لگے ، عورتوں نے زور زور سے منھ سے اُلُو دَھونی نکالنا شروع کیا اور بھکت ایک آواز میں جوۓ ماں درگے ، جوۓ ماں درگے کا نعرہ بلند کرنے لگے – پرتیما پر ڈالے گۓ چادر نما کپڑے کا ایک کونہ ایم ایل اے صاحب نے پکڑا – سکریٹری اور ہیڈ ماسٹر صاحب مدد کو آگے آۓ – پردہ ہٹتے ہی آنکھیں خیرہ ہو گئیں – واہ
! کیا کمال کی پرتیما بنائ تھی شلپی نے – اپنا سارا علم ، سارا ہنر اور فنکاری خرچ کر ڈالا تھا اس نے اس پرتیما پر – ماں سنگھ واہنی اپنی سواری سنگھ پر سوار تھیں – سنگھ نہایت غیض و غضب کی کیفیت میں تھا – اسکے جسم کے عضلات تنے ہوۓ اورچہرہ کچھ اوپر کی جانب اٹھا ہوا تھا – گردن کے لمبے بال نیچے جھول رہے تھے اور منھ کچھ یوں کُھلا تھا گویا ایک غضبناک اور ہیبتناک دہاڑ سے سارے ماحول کو تھرا دینے پر آمادہ ہو – مَہِیشا سُر کی سواری مہِیش زخمی حالت میں نیچے پڑا تھا اور اسکی گردن سے خون کی دھارا بہہ رہی تھی – ماں نے گہرے پیلے چمکدار رنگ کی کامدار ساڑی زیب تن کر رکھی تھی جس پر سلمٰی ستارے جھلملا رہے تھے – پاؤں میں پازیب ، کمر میں کٹی بند ، دسوں ہاتھوں میں چمکتے کنگن اور چوڑیاں ، گلے میں چِک ، ہار ، سیتاہار ،موتیوں کی مالا ،ناک میں نتھ ، سرپر چمچماتا مکٹ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن صرف زیورات ہی نہ تھے – برائ اور ظلم کے خلاف لڑنے کیلۓ ہاتھوں میں تمام طرح کے استرشستر بھی تھے – شنکھ ، گدا ، ترشول ، کرپان، چکر ، پودّو ( کنول ) بلّم ، تیر ، دھنُش ،تلوار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ماں کی آنکھیں بڑی بڑی تھیں – انکے ہونٹوں پر ایک شانت مسکان تھی – لیکن ماں کا چہرہ ؟ یہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ماں کا چہرہ تو نہ تھا – یہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ تو کرونامئ تھی ، شلپکار کی اکلوتی اولاد اور بیوی کے گذر جانے کے بعد اسکے بڑھاپے کا آخری سہارا – ہاں ! وہی کرونامئ جسے بہت منت سماجت اور پیروی کرکے شلپکار نے سیواگرام ہائ اسکول میں عارضی طور پر بحیثیت ٹیچر بحال کروایا تھا – ہاں ! وہی کرونامئ جو آج سے آٹھ ماہ قبل اسکول جاتے ہوۓ راستے سے غائب ہو گئ تھی اور آٹھ دنوں بعد ایک کھیت میں اسکی مسخ شدہ لاش ملی تھی جسے کسی درندے نے بری طرح بھنبھوڑ ڈالا تھا – پولیس آج تک اس کیس کی تحقیقات ہی کر رہی تھی اور قصبہ کا کوئ فرد کسی بھی طرح کا بیان دینے سے قاصر تھا گویا کسی شخص کو اس بارے میں کوئ علم ہی نہ ہو یا پھر سب کے ہونٹ سل گۓ ہوں – وہ ماں تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ کرونامئ تھی اور اس کا بلّم ( نیزہ ) مہیشاسر کے سینے کے آرپار تھا – لیکن وہ مہیشاسر بھی تو نہ تھا – سارے لوگوں نے صاف طور پر پہچان لیا وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ تو شری پَرفُلّ کمار سین ایم ایل اے ، سیواگرام ہائ اسکول کے صدر اور سرپرست اعلیٰ تھے -سکریٹری اور ہیڈ ماسٹر صاحبان یوں کھڑے تھے گویا پتھر کے مجسمے بن گۓ ہوں – ایم ایل اے صاحب ماں کی پرتیما کے سامنے ہاتھ جوڑے سر جھکاۓ نِشچَل کھڑے تھے – مجمع پر ایک بھاری سناٹا چھایا تھا -وہاں موجود ہر نگاہ بس ایک ہی شخص کو ڈھونڈ رہی تھی – وہ پھر کبھی کسی کو نظر نہ آیا –
شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے