نثار دیناج پوری: جاں نثار اردو

نثار دیناج پوری: جاں نثار اردو

Mohammad Ehsanul Islam

Nisar Dinajpuri :
( Poet, writer & editor )
DOB :- 01-01- 1987
دوستو! آج میں‌آپ کا تعارف ایک ایسے شخص سے کروانا چاہتا ہوں جن کا آبائی گاؤں‌ماضی میں‌پورنیہ ضلع کا حصہ ہوا کرتا تھا مگر اسٹیٹ‌ ری آرگنائزیشن ایکٹ 1956 کے تحت جب پورنیہ ضلع کا ایک بڑا حصہ مغربی بنگال میں شامل کردیا گیا تو انکے آبا بھی صوبہء بنگال کے شہری ہوگۓ . نثار صاحب کی پیدائش مغربی بنگال میں ہی ہوئ .
ضلع اتر دیناج پور کے سب ڈویژن اسلام پور کا یہ علاقہ سیاسی طور پر ضرور صوبہء بنگال کا حصہ بن چکا ہے مگر جغرافیائی ، لسانی ، تہذیبی اور ثقافتی طور پر آج بھی سیمانچل کا اٹوٹ حصہ ہے . آزادی کے بعد پورنیہ ضلع سے تعلق رکھنے والے اولین ممبرس آف پارلیامنٹ میں سے ایک جناب اسلام الدین صاحب اسی سب ڈویژن کے ایک گاؤں لکھی پور کے باشندہ تھے .
اسلام پور سب ڈویژن میں دو میونسپل شہر اسلام پور اور دالکولہ اور پانچ ڈیولپمینٹ بلاکس چوپڑا ، اسلامپور ، گوال پوکھر ایک ، گوال پوکھر دو اور کرن دیگھی ہیں. یہاں آج بھی ایسے لوگوں کی کثیر تعداد ہے جو اپنی زبان ، مذ ہب اور ثقافت و شناخت کو برقرار رکھنے اور اسکی حفاظت کے لۓ اردو زبان کو فروغ دینا اپنا فرض اولین سمجھتے ہیں .
مہانندا اور اسکی معاون ندیوں ناگر اور سریا کی گود میں بسے اور چاۓ باغات و انناس کے کھیتوں سے سجے اس خطہءارض کا ایک سرپھرا جوان ، زبان اردو کا شیدائ وسائل کے فقدان اور اپنی تنگ دامنی کے باوجود ” انجمن فروغ علم و ادب ” کی بنیاد گنجریا بازار ، اسلام پور ( بنگال) میں ڈالتا ہے اور اس انجمن کی جانب سے ایک ششماہی ادبی رسالہ ” وجدان ” کا نہ صرف اجرا کرتا ہے بلکہ تن من دھن سے اسے لگاتار جاری رکھنے کی سعی کرتا ہے . زبان اردو کے اس دیوانے ، شیدائ اور جاں نثار کا نام ہے …….. نثار دیناج پوری !!
…………………………………………………..
تعارف
……………
نام :- نثار احمد
والد :- مفتی محمد جلال الدین
والدہ :- نواسیء استادالعلماء مفتی نصیر الدین صاحب . پناسی ( کشنگنج)
تاریخ پیدائش :- 01 جنوری 1987 ء
آبائ وطن :- گوا باڑی چین پور – تھانہ : گوال پوکھر – ضلع : اتر دیناج پور ( بنگال )
شریک حیات :- نازنین فاطمہ ( عالمہ )
ثمر حیات :- محمد ذوالکفل جلالی ( عمر – ایک ماہ )
تعلیم ( ابتدائ ) :- گاؤں کے مدرسے میں
بنیادی تعلیم :- مدرسہ غوثیہ ، نٹوا پارہ ؛ کشنگنج
فاضل درس نظامی :- دارالعلوم افضل المدارس ، الہ آباد
بی اے :- مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی
اساتذہ :- مفتی ذاکر حسین فناءالقادری
سردار سلیم ، حیدر آباد
احمد کمال حشمی ، کانکی نارا / کولکاتا
مشورہء سخن :- جہانگیر نایاب ، بہادرگنج
پیشہ :- درس و تدریس
سکونت :- جیت پور ( گجرات )
اصناف ادب میں دلچسپی :- شاعری ، افسانہ نگاری ، مضمون نگاری
اشاعت :- نعت ، غزلوں اور افسانوں کی مختلف رسائل و جرائد مثلا” راشٹریہ سہارا ، رہنماۓ دکن ، وجدان ، خاتون مشرق ، اخبار مشرق ، سیاست ( حیدر آباد ) ، اعتماد ( حیدر آباد ) ، آبشار ، منصف وغیرہ
خدمات :- اجرا ششماہی ادبی رسالہ ‘ وجدان ‘ ( اب تک پانچ شمارے شائع ہوۓ )
ڈائریکٹر : انجمن فروغ علم و ادب ، اتر دیناجپور
بنگال اردو اکادمی کے پروگراموں میں بحیثیت نمائندہ شرکت
اتر دیناجپور میں چار آل انڈیا مشاعروں کا اہتمام
حمد
……..
اے خدا مجھ پہ ہو کچھ ایسی عنایت تیری
کہ میرے دل میں رہے صرف محبت تیری
تو نے پھر ناز سے قرآں میں قم الیل کہا
میرے آقا نے کی کچھ ایسی عبادت تیری
تو خدا ، بندہ ہوں میں ، اعلی تو ادنی ہوں میں
مجھ کو کافی ہے سدا کے لۓ نسبت تیری
جام جمشید سے کیا بڑھ کے پلایا آخر
مجھ کو ہر شۓ میں نظر آئ ہے صورت تیری
تیری قدرت کا احاطہ ہو بھلا ممکن کس سے
رات دن دیتی ہے ہر چیز بشارت تیری
تجھ کو حاجت ہی نہیں ہم سے گنہگاروں کی
ہاں! مگر ہم کو ہے ہر وقت ضرورت تیری
تو ہے معبود ، میرے آقا محمد ص نے کہا
جانتے ہیں فقط اتنی حقیقت تیری
محو حیرت ہوں میں تو دیکھ کے دنیا کی چمک
جانے کیا حال ہو جو دیکھ لوں جنت تیری !
….
نعت
….
دونوں جہاں میں مومنو عزت اس سر کی ہے
ماتھے پہ خاک جس کے محمد ص کے در کی ہے
‘ کلیاں کھلیں دلوں کی ، ہوا یہ کدھر کی ہے ‘
محسوس ہو رہا ہے مدینہ نگر کی ہے
محشر کی فکر ہے نہ کوئ بات ڈر کی ہے
الفت ہمارے قلب میں خیرالبشر کی ہے
جتنی چمک ہے میرے نبی ص کے جمال میں
سورج کی ہے چمک نہ یوں شمش و قمر کی ہے
اندازہ اس سے کیجۓ ان کے مقام کا
آیت کلام پاک میں شق القمر کی ہے
سدرہ پہ آکے رکنا پڑا جبرئیل کو
حاجت نہ مصطفی ص کو کسی راہبر کی ہے
جنت کی خواہشیں ہیں نہ حوروں کی جستجو
اس دل کو آرزو ہے تو طیبہ نگر کی ہے
خوشبو ہے جیسی ان کے پسینے کی باخدا
نہ عنبروگلاب کی نہ نیلوفر کی ہے
دیکھینگے کب بلاوا ہمیں آۓ گا نثار
مدت سے اپنے دل میں تو نیت سفر کی ہے !
……
اردو
……
کتنی میٹھی زبان ہے اردو
میرے بھارت کی شان ہے اردو
دیس میں بولیاں بہت ہیں مگر
فخر ہندوستان ہے اردو
ہر زباں کہہ رہی ہے اردو سے
تو بڑی ہی مہان ہے اردو
پیدا ہوکر گذر گئ صدیاں
پھر بھی اب تک جوان ہے اردو
یہ مہکتی ہے سارے عالم میں
پیار کا گلستان ہے اردو
کہہ رہا ہے نثار دنیا سے
میرا دل میری جان ہے اردو
…..
غزلیں
……
پیار اور محبت کے ہر طرف اجالے ہیں
پھر کہو دلوں میں کیوں داغ کالے کالے ہیں
ہم فقیر لوگوں کے حوصلے نرالے ہیں
آسماں سے تارے ہم توڑ لانے والے ہیں
اس کا نام مذ ہب سے جوڑنا نہیں ہرگز
جس کی زد پہ مسجد ہیں ، دیر ہیں ، شوالے ہیں
ان کی دوستی نے بس درد ہی دیا سب کو
تن کے گرچہ اجلے ہیں ، من کے خوب کالے ہیں
اپ کی جدائ میں وقت کیسے گذرا ہے
کیا بتائیں ہم خود کو کس طرح سنبھالے ہیں
کون رہنے آیا ہے حشر تک زمانے میں
تم بھی جانے والے ہو ، ہم بھی جانے والے ہیں
بچ کے تم ذرا ملنا اس نۓ زمانے سے
اپنی آستینوں میں لوگ سانپ پالے ہیں
مرغ بانگ نہ دیں تو صبح کیا نہیں ہوگی
ان کے منھ پہ ہم اک دن یہ بھی کہنے والے ہیں
وقت آ گیا ان پر جاں نثار کرنے کا
دیکھنا ہے اب کتنے بھاگ جانے والے ہیں
تھک کے ہار مانوں میں اے نثار نا ممکن
باقی اپنے پاؤں میں پڑنے اب بھی چھالے ہیں !
…….
زمانہ گذرا کھڑا ہوں قطار میں اب بھی
بہت مزہ ہے ترے انتظار میں اب بھی
نشاتہ ثانیہ ہوگی یہاں محبت کی
یقین رکھتے ہیں کچھ لوگ پیار میں اب بھی
مجھے تو لگتا ہے اس دور کا شہنشاہ ہوں
کہ میرا گھر ہے مرے اختیار میں اب بھی
عجیب شخص ہے بچپن گذر گیا اس کا
ہے تتلیوں کے مگر انتظار میں اب بھی
اگا تھا میرے زمانے میں ایک سورج جو
چمک رہا ہے وہی لالہ زار میں اب بھی
اگرچہ وقت نے دستار چھین لی اس کی
نثار اٹا ہے انا کے غبار میں اب بھی
…..
میرے پیچھے پیچھے اک لمبا سفر کرتی ہوئ
آگئ ہے وہ شب غم کی سحر کرتی ہوئ
اپنی ہستی معتبر سے معتبر کرتی ہوئ
لوٹ آئ ہے طواف ان کا نظر کرتی ہوئ
دور ہوں تجھ سے مگر یادیں تو تیری ساتھ ہیں
جاۓ گی تجھ کو ہوا میری خبر کرتی ہوئ
روح اک دن چھوڑ جاۓ گی بدن کی ملکیت
آسمانوں سے پرے اپنا سفر کرتی ہوئ
زندگی کو میری چاہت کے اجالے دیجۓ
چھپ گئ ہے یہ اندھیروں کا سفر کرتی ہوئ
یاد آجاتی ہے ان کی شام ہوتے ہی نثار
میری کائنات کو زیر و زبر کرتی ہوئ !
…..
حسن جب بے نقاب ہوتا ہے
رونما انقلاب ہوتا ہے
کوئ صورت نکل ہی آتی ہے
درد جب بے حساب ہوتا ہے
جب سے دیکھا ہے تیری صورت کو
میری آنکھوں میں خواب ہوتا ہے
اچھا لگتا ہے سایہ دار شجر
سر پہ جب آفتاب ہوتا ہے
ان کتابوں کو تم جلا دینا
ذہن جن سے خراب ہوتا ہے
میں نے پی ہے نثار ایسی شراب
جس کا پینا ثواب ہوتا ہے
…..
نا ہی گوروں پر اور نہ کالوں پر
کچھ کرم کیجے خستہ حالوں پر
تجھ کو مانوں گا وقت کا حاکم
پہرا لگوا میرے خیالوں پر
مسکراؤں فقط جوابا” میں
الٹے سیدھے ترے سوالوں پر
وہ اندھیروں میں چھوڑ جاتے ہیں
کیا بھروسہ کریں اجالوں پر
کوئ چھوٹا بڑا نہیں ہوتا
منحصر ہے یہ سب خیالوں پر
میری قسمت میں یہ لکھا ہے نثار
نام میرا ہے کن نوالوں پر !
….
دولت کی ریل پیل میں کردار گر پڑے
طرفہ تماشہ یہ ہے کہ ہشیار گر پڑے
جب غازیوں کے ہاتھ سے تلوار گر پڑے
سمجھو کہ دین کے سبھی معیار گر پڑے
تعلیم دین حق کی سکھادو کوئ انہیں
ہاتھوں سے تاکہ موت کا اوزار گر پڑے
سمجھا ہی کیا ہے تو نے بھلا مجھ فقیر کو
کروٹ بدل جو لوں تری سرکار گر پڑے
ساقی نے آج دریادلی تو دکھائ پر
افسوس بھیڑ بھاڑ میں حقدار گر پڑے
بوسیدہ ہو چکا ہے سیاسی محل ترا
کس کو پتہ ہے کب تری سرکار گر پڑے
جس نے نثار روکا ہے بھائ کا راستہ
ہے یہ دعا وہ بیچ کی دیوار گر پڑے !
….
کون آیا سر بازار کوئ کیا جانے
کیوں زلیخا ہے خریدار کوئ کیا جانے
مجھ کو کیوں آپ سے ہے پیار کوئ کیا جانے
آپ کے حسن کا معیار کوئ کیا جانے
سینکڑوں ماہ جبیں ہیں سر محفل لیکن
آنکھ کس کی ہے طلبگار کوئ کیا جانے
یہ مسیحا یہ دوائیں نہ کوئ کام آۓ
آپ کا کیسا ہے بیمار کوئ کیا جانے
دیکھ کر مجھ کو کہا سب نے دوانہ لیکن
حسن کے تلخ ہیں آثار کوئ کیا جانے
دل نثار آپ پہ جس دن سے کۓ بیٹھا ہوں
میں زمانے سے ہوں بےزار کوئ کیا جانے
….
دنیا میں رہ کے دنیا سے ہٹ کر ذرا چلے
ہم اپنی خواہشات کو دل میں دبا چلے
تیری محبتوں کا سدا سلسلہ چلے
دل کے چمن میں تیرے کرم کی ہوا چلے
نفرت کی آندھیوں سے رہیں دور ہم سدا
پروردگار ساتھ ہمارے وفا چلے
میرے چراغ ہاتھوں کو کھولے ہوۓ ہیں اب
کہہ دے کوئ ہوا سے کہ بچ کر ہوا چلے
کچھ ایسے لوگ بھی ہیں زمانے میں دوستو
سورج کی جو تلاش میں لےکر دیا چلے
رہتا تھا میرے گاؤں میں دیوانہ اک کبھی
جانے کہاں گیا ہے یہ کچھ تو پتہ چلے
کیا گردشیں ستائینگی مجھ کو بھلا نثار
میں جب چلوں تو ساتھ میں ماں کی دعا چلے !
…..
آپ کو اپنی محبت کا نشاں یاد رہے
دے رہا ہے کوئ کانوں میں اذاں یاد رہے
مجھ پہ پتھر تو اٹھاتے ہیں اٹھائیں لیکن
آپ کا بھی تو ہے شیشے کا مکاں یاد رہے
پھر سے لوٹے گی یقینا” مرے ماضی کی بہار
اے خدا ! مجھ کو مرا درد نہاں یاد رہے
دو قدم چل کے تجھے تھکنا نہیں ہے نثار
چاند تاروں سے بھی آگے ہے جہاں یاد رہے !
…….
تیغ سے تلوار سے بچ
نرگس و گلنار سے بچ
ہیں ہوس کے یہ سپولے
ان کی تو پھنکار سے بچ
جی لے تنہا زندگی پر
خود غرض دلدار سے بچ
دانا کہلا محفلوں میں
بےسبب گفتار سے بچ
شاعری کو کر نہ رسوا
محفل دربار سے بچ
اے نثار ! ان پڑھ کہیں کے
چپ ہی رہ تکرار سے بچ
شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے