سو واٹ کا بلب

سو واٹ کا بلب

ہم تعلیمی سلسلے کی تکمیل کے لیےگرلز ہاسٹل کے گراونڈ فلور میں مقیم تھیں اور ہمارے سامنے کے ٹیرس پہ سو والٹ کا جلتا بلب ، جس کے نیچے بیٹھنے والالڑکیوں کا پورا گروپ تھا جو کبھی دو لڑکیوں پہ محیط ہوتا ،کبھی پانچ،کبھی سات ،کبھی نو اور کبھی اکیلا بلب۔۔۔۔۔!
اس ٹیرس پہ ہنگامہ بھی رہتا اور خاموشی بھی ڈیرے ڈال لیتی،لڑائی جھگڑے بھی چلتے اور صلح بھی ہوتی رہتی۔ دروازہ کچھ اس طرح تھا کہ سامنے کا ہر منظر کمرے میں بیٹھے ہوئے بھی صاف دکھائی دیتا۔
ایک دبلی سی سانولی لڑکی روزانہ شام کے وقت جگ سے پانی انڈیل انڈیل کے چائے کے کپ دھویا کرتی،نیچے گزرتی لڑکیوں پہ کبھی کبھار پانی چلا جاتا تو تھوڑی بہت تلخ کلامی لازمی طور پر ہو جایاکرتی تھی۔ایک بار انھوں نے فلور بیڈنگ کی تو دو پونیوں والی موٹی لڑکی نے خوب واویلا کیا ،کتنی ہی دیر ٹیرس پہ ہنگامہ رہا،آخر اس لڑکی کو سنگل بیڈ دیا گیا اور معاملہ رفع دفع ہوا۔اکثر رات گئے ٹیرس پہ لڈو کی گیم کھیلی جاتی اور ہار جیت کے بعد موج مستی کے علاوہ ٹریٹ کا سلسلہ بھی چلتا رہتا۔
مجھے یوں لگتا تھا کہ جیسے وہ ٹیرس ایک ٹیلی ویژن کی مانند ہےلائٹ اور کیبل کنکشن ہو نہ ہو،سب کچھ صاف اور واضح نظر آتا تھا۔ میں اور میری روم میٹ دن کی روشنی میں تو ان مناظر سے دل بہلا لیتی تھیں مگر رات کی تاریکی میں سو والٹ کا بلب ہمارے لیے چبھتا ہواعذاب تھا۔ اس بلب کی پیلی روشنی آنکھوں میں چندھیانے لگتی تو ہم مکمل اندھیرا کیے کروٹیں بدلتیں کہ کب یہ بلب بند ہوگا اور ہم سکون کی نیند سو سکیں گی۔آنکھیں بند کیے لیٹے رہنے سے اعصاب پہ ایک بوجھ سا رہتا اور تکیہ منہ پہ رکھنے سے یوں لگتا کہ دم گھٹنے لگا ہے۔
اس بلب کی کرنیں چھن چھن کر کمرے میں اس طرح بسیرا کیے رکھتیں کہ گویا یہیں کی مکین ہیں۔ ہمارے لیے رات کاٹنا عذاب بن جاتا،اکثر مچھر اور پتنگے آس پاس منڈلاتے پھرتے اور پھر سامنے لان کی وجہ سے کیڑے مکوڑوں کا رخ بغیر کسی رکاوٹ کے ہمارے کمرے کی جانب ہوتا،گرمی کی وجہ سے دروازہ ہمیشہ کھلا رہتا۔ پنکھا چلنے کی گرج اتنی ناگوار محسوس نہ ہوتی جتنی آنکھوں کو کرچی کرنے والی پیلی روشنی۔۔۔۔!!
ہم دونوں روم میٹ رات کے وقت ناگواری سے اس بلب پہ بے لاگ تبصرہ کرتیں اور یوں گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ ہمارے رویوں میں شدت آتی گئی، کبھی ہم ان لڑکیوں کی بد ذوقی اور جہالت کو مو ضوع بناتیں اور کبھی بلب ایجاد کرنے والے پہ لعنت ملامت گفتگو کا حصہ ہوتی۔ جب کہ کئی بار بلب توڑنے کا خیال بھی گردش کرتا رہتا۔
ان بے سکون راتوں کی وجہ سے اکثر اگلی صبح سر میں شدید درد ہوتا یا آنکھیں بوجھل پن کا شکار ہو جاتیں۔
رات کی بے چینی نے ہم سے صبح کا سکون چھین لیا تھا۔
آخر کب تک لعن طعن تک بات محدود رہتی؟ایک رات تنگ آکر ہم اس ٹیرس کے سامنے لان میں کھڑی ہوگئیں ۔ وہاں دو لڑکیاں گپ شپ کر رہی تھیں ۔ ہم ان سے جھگڑ پڑیں،
تم لوگوں میں کچھ حیا شرم بھی ہے؟نجانے کہاں سے منہ اٹھائے آ جاتی ہو، کبھی کسی کا احساس تک نہیں ۔۔۔
نیچے پانی پھینکنے سے جو لڑائیاں ہوتی ہیں ،ہمیں اس سے کوئی واسطہ نھیں لیکن ہمسائیوں کے بھی حقوق ہوتے ہیں۔۔۔ایک لڑکی طنز سے بڑبڑائی ۔۔۔
رات کے ایک بجے آپ دونوں ہمیں یہ بتانے آئی ہیں؟
میری روم میٹ ہتھے سے اکھڑ گئی۔
منحوس ماری،چپ کر جا۔۔۔ زبان کھینچ لوں گی تمہاری ۔۔۔ میں تم لوگوں کی حرکتوں سے اچھی طرح واقف ہوں مگر میرے پاس اتنا وقت نہیں کہ سناتی رہوں،بس دوٹوک بات کر رہی ہوں کہ اپنا یہ پیلا بلب اتار کر بے شک اپنے سر میں دے مارنا مگر آج کے بعد ہمیں جلتا نظر نہ آئے ورنہ انجام برا ہوگا۔اس دوران دو اور لڑکیاں بھی آگئیں اور دو پونیوں والی لڑکی دھمکیوں کے باوجود ہنستے ہوئے کہنے لگی:جاؤ جاؤ۔۔۔ ۔ ہمارا جی کرے گا تو بلب جلائیں گی،یہاں کسی کے مشورے کی کوئی ضرورت نہیں۔
میں بول پڑی:دیکھو بات کو زیادہ مت بڑھاؤ،تم لوگوں کے بلب کی وجہ سے ہماری رات خدا خدا کر کے کٹتی ہے،بہتر ہے معاملہ یہیں ختم کردو ،میری بات ابھی جاری تھی کہ وہی دو لڑکیاں شور مچانے لگیں؛
ہمارا بلب ،ہماری مرضی
میری رومیٹ نے چلانا شروع کردیا۔۔۔’’سمجھ کیا رکھا ہے مجھے،میں تم سب کو ہاسٹل سے نکلوا دوں گی۔ پتہ ن0یں ایسی جاہل گنوار عورتوں کو کون یونی ورسٹی میں ایڈمیشن دیتا ہے،عقل گھاس چرنے گئی ہوئی ہے ان کی۔۔۔ میں پلٹ آئی تھی اور وہ ہاتھ نچا نچا کے بول رہی تھی جب کہ لڑکیاں ایک ہی سر میں راگ الاپنے لگیں:
عورت ہو گی تو۔۔۔’’
عورت ہوگی تو۔۔۔’’
خدا معلوم اس رات سو والٹ کا بلب جلتا رہا یا بند ہو گیا ،مگر ہم سو گئیں اور پھر یہ سلسلہ چل نکلا
ہم آدھی رات ٹیرس کے نیچے جا کھڑی ہوتیں،توتو میں میں ہوتی ،ہر رات بلب جلائے رکھنے کی ایک نئی وجہ سننے کو ملتی۔کبھی ضروری ٹیسٹ،کبھی اسائن منٹ ،کبھی تنگ آکے بلب بجھا دیا جاتا اور کبھی جلتا ہی رہتا۔۔۔!!
اب ہمارے لیے بھی سو والٹ کے بلب پہ بحث ایک معمول کی بات یا شاید ہماری عادت بن گئی تھی۔ان لڑکیوں کا سیشن ختم ہونے والا تھا اورآخری ہفتہ بھی انھیں رنجشوں میں گزر رہا تھا۔خود کو احساس شکست سے بچانے کے لیے ہم انھیں دھمکی دے آئیں کہ آج رات اگر بلب جلتا رہا تو کل صبح ہر حال میں کنکر مار کے توڑ دیا جائے گا۔ لڑکیاں خاموش ہوگئیں۔
اگلی صبح بلب ٹوٹ چکا تھا،ہم حیران ہوئیں کہ یہ کس کا کام ہو سکتا ہے؟ہماری تو صرف ایک بے وزن دھمکی تھی،لمحہ بھر کے لیے یہ خوف بھی دل میں ابھرا کہ وارڈن تک شکایت جا سکتی ہےاور ویسے بھی یہ معاملہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں تھا سو الزام کی بجائے ہم پہ یقین کیا جاتا۔خیر،ایک سکون سا بھی دل میں اتر آیا کہ آج رات سو والٹ کا بلب نہیں جلے گا۔
یہ ہماری خوش خیالی تھی،رات پھر بلب جل رہا تھا،ہم حسب معمول پہنچ گئیں۔اور میں شکایتی کلمات ادا کرتے ہوئے مخاطب ہوئی؛
تم لوگوں نے پھر بلب جلایا؟آخر تم سب چاہتی کیا ہوکہ اس پیلی روشنی سے ہماری نظر کمزور ہو اور ہم اندھی ہو جائیں۔کیوں ہماری دشمن بنی ہوئی ہو؟
اس موقع پر میری روم میٹ نے وضاحتی بیان دیا:
بات سنو،پہلے والا بلب ہم سے نہیں ٹوٹا تھا اور نہ ہی ہم تم سب کی طرح چھچھوری ہیں۔ ہمیں ایسی گھٹیا ذہنیت سے کام لینا ہوتا تو شروع میں ہی اس بلب کے ٹکڑے کر دیتیں،اب یہ ہماری شرافت ہے کہ۔۔۔۔۔۔!!!
دو پونیوں والی لڑکی پوری بات سنے بغیر ‘‘ہونہہ ’’ کرتے ہوئے اندر چلی گئی۔موٹی لڑکی جس کا کھانا پینا صاف نظر آ رہا تھا اور وہ چہرے سے اپنے بچپنے کی طرح معصوم لگتی تھی،بولی
آپ پلیز آج کی رات ہمیں برداشت کر لیں،کل صبح ہم سب چلی جائیں گی۔
پھر کبھی ملنا ہو نہ ہو۔۔۔!!!
میری روم میٹ لاپروائی سے بولی:
چلو ٹھیک ہے، بس آج کی رات کا کہتی ہو تو مان لیتے ہیں ورنہ تمہاری یہ سب چھچھوندر سہیلیاں اس لائق نہیں کہ ان کے منہ لگا جائے،اور ہاں۔۔۔
اپنی اس ‘‘نک چڑھی’’ دو پونیوں والی بچی سے کہہ دینا کہ اس نے کئی موقعوں پہ بد تمیزی کی ہے،ہم اس کا جینا حرام کر دیتیں مگر ظرف کی بات ہوتی ہے۔
موٹی لڑکی ‘‘جی اچھا’’ ،‘‘جی ٹھیک ہے’’ کہہ کے چپ ہو گئی۔
وہ بہت اداس تھی ، شایداسے اپنی سہیلیوں اور اس ماحول سے بچھڑ جانے کا صدمہ تھا۔
ہم اپنے کمرے میں واپس آگئیں۔
اس رات کبھی ایک دوسرے پہ پانی پھینکنے کا شور سنائی دیتا اور کبھی موسیقی کی دھنوں میں شور بلندہوتا۔
اگلی صبح خالی ٹیرس۔۔۔۔خالی کمرہ
مجھے شک گزرا کہ رات بھر کی جاگی لڑکیا ں بلب جلتا ہوا چھوڑ گئی ہوں گی ؛مگر وہاں بلب نھیں تھا۔خیال گزرا کہ شاید جاتے ہوئے توڑ دیا ہو یا ساتھ لے گئی ہوں گی۔
چلو جو بھی ہوا،ہماری مستقل پریشانی تو ختم ہوئی۔عجیب طرح کی خوشی محسوس ہو رہی تھی۔ جیسے ہر سال آزادی کے دن یہ احساس شدت پکڑ جاتا ہے کہ ہم آزاد ہیں۔
ہاسٹل میں ‘‘آزادی کی پہلی رات’’ نے اپنے ڈیرے ڈال لیے تھے ۔
ہر طرف سکوت اور گھپ اندھیرا۔۔۔’’
پنکھے کی غٹرغوں حسب معمول جاری تھی ،کسی کسی وقت مینڈک کے ٹرٹرانے کی آواز بھی سنائی دنے لگتی۔
گردوپیش کا ماحول اجنبیت کا احساس دلانے لگا،میرے دل میں عجیب سی بے چینی جنم لینے لگی۔آنکھیں بند ہوتے ہی کرنوں کے چھم سے اندر آنے کا خیال ذہن میں ابھرتا اور ادھ کھلی آنکھوں سے دیکھنے پہ کچھ نظر نہ آتا۔میری روم میٹ کی بھی کم و بیش یہی حالت تھی۔ہم رات بھر کروٹیں بدلتی رہیں۔مجھے اپنے آپ میں خالی پن سا محسوس ہوا
جیسے ‘‘قربت کا تعلق دوری میں بدل جائے تو لمحہ لمحہ کرب میں گزرتا ہے’’
نظر بار بار سامنےٹیرس پہ جا پڑتی،جہاں گھپ اندھیرا تھا۔
جاگتے سوتے رات کٹ گئی۔
اگلی صبح میں ٹک شاپ پہ گئی اور بولی۔
انکل ۔۔۔
‘‘مجھے سو والٹ کا ایک بلب چاہیے’’
کچھ دیر بعد بلب میرے ہاتھ میں تھا اور میں اسے نہایت احتیاط سے تھامے فرسٹ فلور پہ جارہی تھی۔

ڈاکٹر سائرہ ارشاد
بہاول پور ، پاکستان

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے