چچا غالب: سی اے اے کے مخالف

چچا غالب: سی اے اے کے مخالف

طیب فرقانی
رات کے دو بجے جب غالبا چور اچکے بھی سوجاتے ہیں، الو اونگھنے لگتے ہیں حتی کہ وزیر اعظم نریندر مودی بھی اٹھارہ گھنٹے کام کرکے (اگر وہ کرتے ہیں تو) بستر وزارت پہ تشریف لے جاتے ہیں، میرے موبائل کی گھنٹی کھرکھرائی۔ میں گہری نیند سے ہڑبڑا کر اٹھا۔پہلے تو لگا جیسے وزیر داخلہ امت شاہ یا یوپی کے وزیر اعلی یوگی جی کی پولیس آگئی۔کیوں کہ خدا جھوٹ نہ بولوائے، ان کی پولیس کوطلبا،بے قصورنوجوانوں اور حکومت کے خلاف احتجاج کرنے والوں کومفت پیٹنے میں ید طولی حاصل ہے۔ لیکن یہ میرا وہم تھا۔اصل میں یہ کال تھی ہمارے ہر دل عزیز،مشفق و مہربان عبدل بھائی کی۔انھوں نے مان نہ مان میں تیرا مہمان کی طرز پہ حکم دیا کہ فرقانی جلدی سے میرے یہاں آجاؤ۔ میری حیرت کی انتہا نہ رہی۔یا خدا اتنی رات کو۔نہ جانے کون سا غضب ہوگیا۔ کہنے لگے”ایک انکشاف ہوا ہے۔“کیا مودی سرکار نے شہریت ترمیمی بل واپس لے لیا ہے؟ میں نے چھوٹتے ہی سوال داغا۔ کہنے لگے ”نہیں۔غالب کے سلسلے میں ایک انکشاف ہوا ہے۔“ میں جھلا گیا۔ ما بعد جدیدیت کے زمانے میں غالب کے سلسلے میں کون سا انکشاف ہوا ہے رے بابا۔ اس وقت جب کہ اہل جدیدیت پوری طرح سوچکے ہیں۔ادبی اندھیرا اس قدر کہ مابعد جدیدت کو کوئی راہ نہیں سوجھ رہی۔حد تو یہ ہے کہ ہندوستان میں شاعروں کی اکال ہے۔لوگ سر حد کے اس پار سے باغی شاعروں کی شاعری (ہم بھی دیکھیں گے اور دستور)امپورٹ کر رہے ہیں اور وہ بھی فیض اور حبیب جالب جیسوں کی شاعری۔ایسے میں تخت گرائے جانے اور تاج اچھالے جانے کا انکشاف ہونا چاہیے نہ کہ غالب کے سلسلے میں۔ میں نے شک بھرے لہجے میں پوچھا کہ حضور کہیں آپ وزیر اعظم نریندر مودی کی طرح اچھے دن لانے کا وعدہ کرکے سی اے اے جیسا کوئی کھیل کھیلنے کا ارداہ تو نہیں رکھتے۔ مودی جی نے ہم ہندوستانیوں سے جس”اچھے دن“ کے لانے کا وعدہ کیا تھا وہ لوح ازل میں کبھی لکھا ہی نہیں گیا۔ تو ہم دیکھیں گے کیا؟ لوگ بے وجہ سڑکوں، گلیوں اور کالج کے احاطوں میں گاتے پھررہے ہیں کہ ”ہم دیکھیں گے“۔بھڑک کر فرمانے لگے کہ تم فیض اور حبیب جالب کو چھوڑو۔یہ لوگ کمیونسٹ تھے۔ میں تمھیں غالب جیسے سچے شاعر کے بارے میں کچھ بتانا چاہتا ہوں۔“ تو فون پہ بتادیجئے۔ گھر پہ بلانے کی کیا ضرورت ہے۔ کہنے لگے”تم سمجھتے نہیں۔ اس وقت ملک میں غیر اعلانیہ ایمرجنسی نافذ ہے۔ فون پہ نہیں بتا سکتا۔“غیر اعلانیہ ایمرجنسی؟ یہ کون سی بلا ہے۔ ”یہ بلا نہیں ہے بے وقوف۔ یہ بالائی کھانے کا ہتھیار ہے۔ جمہوری حکومتوں کے ہاتھ سے جب بالائی پھسلنے لگتی ہے تو ایسی”پاکیزہ حرکتیں“ کی جاتی ہیں۔“ لاحول ولا قوۃ۔بالائی بھی بھلا ہتھیار سے کھائی جاتی ہے۔یہ تو جمچ سے بھی کھائی جاسکتی ہے۔ ”رہو گے بدھو کے بدھو ہی۔ ہتھیاروں کی معاشی تاریخ کبھی پڑھی ہوتب نہ سمجھ میں آئے۔ ہتھیارو ں میں جب زنگ لگتی ہے تو انھیں خون کی دھار سے تیز کیا جاتا ہے۔ بموں کی ایکسپائری ڈیٹ ختم ہورہی ہو تو تیسری دنیا کو بیچ دیے جاتے ہیں۔اگر وہ نہ خریدیں تو ان کے اوپر پھینک دیے جاتے ہیں۔اور حکومتیں جب اپنے وعدے پورے نہ کر پارہی ہوں تو ایمرجنسی لاد دی جاتی ہے۔“میں نے جھلا کر کہا آپ جیسا ظالم شخص میں نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھا۔ ارے جناب مجھے نیند کی ضرورت ہے فلسفے کی نہیں۔ ”دیکھو یہ سونے کا وقت نہیں ہے۔ اگر اب بھی نہ جاگے تو۔۔۔“ میں نے جلدی سے حامی بھری کہ آرہاہوں۔ کہنے لگے”کاغذ اوڑھ کر آنا۔“میرا پارہ ساتویں آسمان پر چڑھا اور پھر بڑی تیزی سے اتر گیا۔ کیوں کہ یہ بات طے تھی کہ”ہم کاغذ نہیں دکھائیں گے۔“
عبدل بھائی اپنی ڈیوڑھی پہ میرے منتظر تھے۔ ان کے ہاتھ میں غالب کا دیوان تھا۔ مجھے دیکھتے ہی میری اورلپکے اور دونوں شانوں کو پکڑ کر میرا گویا استقبال کیا۔ مجھے اپنی لائبریری میں لے گئے۔ حکم دیا بیٹھ جاؤ۔ میں ان کے انکشاف کے بارے میں جلد از جلد جاننا چاہتا تھا۔ انھوں نے غالب کا دیوان کھولااور میر ی طرف متوجہ ہوکر فرمایا کہ”میں اس بات کو ثابت کرنے جارہا ہوں کہ غالب شہریت ترمیمی ایکٹ کے مکمل خلاف تھے۔“میں نے بمشکل اپنی ہنسی دبالی۔کیوں کہ شہریت ترمیمی ایکٹ ایک سنجیدہ مسئلہ تھا۔تب عبدل بھائی نے جو کچھ کہا اس کا خلاصہ یہ ہے۔
”ایران میں رسم تھی کہ فریادی کاغذ کا لباس پہن کر بادشاہ وقت کے سامنے جاتا تھا۔چوں کہ غالب عندلیب گلشن ناآفریدہ تھا اس لیے اس کو معلوم تھا کہ اس کی موت کے ڈیڑھ سو برس بعد ہندوستان میں غیر اعلانیہ بادشاہت آئے گی۔ وہ بادشاہ خود کو جھولاچھاپ فقیر کہے گا۔لیکن ملک کی حالت ایسی کردے گا کہ ملک کے سارے لوگ فریادی بن جائیں گے۔ ہر طرف کاغذ کاغذ کا کھیل شروع ہوگا۔ لوگ کاغذوں کی حمایت و مخالفت میں نظمیں اور کویتائیں لکھیں گے۔ اور گلی گلی کاغذ کی صدا ئیں بلند ہوں گی۔ تب میں اپنی قبر سے اٹھ کر کہوں گا۔
نقش فریادی ہے کس کی شوخئی تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا
ایسے میں لوگوں کی حالت انتہائی سخت ہوجائے گی۔صبح شام بس کاغذ کاغذ کے حصول اور رد کے لئے لوگ تگ و د وکر رہے ہوں گے۔حالاں کہ وہ جھولا چھاپ فقیر ملک میں دودھ کی نہر نکالنے کا وعدہ کرے گا۔ لیکن لوگوں کوصبح سے شام کرنا ہی سخت گراں ہو گا۔ تب میں اپنی قبر سے اٹھ کر کہوں گا:
کا و کاو سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ
صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا
لوگوں کی ایسی بری حالت دیکھ کر اس جھولا چھاپ فقیر اور اس کے بہادر سپہ سالار جس کا نام ہی شہنشاہ سے ماخوذ ہوگا دونوں ملک اور اہل ملک کی بھلائی کا ایسا جذبہ پیش کریں گے کہ بس تم دیکھتے رہ جاؤگے۔ وہ اپنے جذبے کے اظہار کے لیے لاٹھی ڈنڈوں اور تلواروں کا بھی استعمال کریں گے۔تب میں اپنی قبر سے اٹھ کر کہوں گا:
جذبہ بے اختیار شوق دیکھا چاہیے
سینہء شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا
لوگ جب اپنی پریشانیاں بیاں کرنے کے لیے آواز دو ہم ایک ہیں کے نعرے لگائیں گے تو وہ جھولاچھاپ فقیر اور اس کا سپہ سالار کہے گا کہ تم لوگ سمجھ نہیں رہے۔تمھیں الجھا یا جا رہا ہے۔ تمھیں گمراہ کیا جارہا ہے۔ ہم کسی کے دشمن نہیں ہیں۔ کسی کو بھی کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔ لیکن در اصل یہ ایک جال ہوگا جس میں وہ پھنسانے کی کوشش کریں گے۔ ان کی تقریروں اور بھاشنوں کا کوئی مطلب نہیں ہوگا۔لوگ جتنا بھی سمجھنے کی کوشش کریں گے ان دونوں کی تقریریں اتنی ہی بے معنی لگیں گی۔ تب میں اپنی قبر سے اٹھ کر کہوں گا:
آگہی دام شنیدن جس قدر چاہے بچھائے
مدعا عنقا ہے اپنے عالم تقریر کا
تب ہوسکتا ہے کہ عورتیں جن پہ زیادہ بچے جننے کا الزام ہو، جن کو گھر کا قیدی بنا دیے جانے کا طعنہ ملتا رہا ہو۔ جن کو مردوں کی کٹھ پتلی کہہ کر چڑایا جاتا رہا ہو۔ جن کو دیکھ کر صاحب جبہ و دستار لاحول و لا قوۃ پڑھنے لگتے ہوں۔ جن کی تعلیم کو فتنہ قرار دیا جارہا ہو۔ دہلی کے شاہین باغ میں ترنگا لے کر بیٹھی ہوں۔پٹنہ کے سبزی باغ میں جن گن من گارہی ہو ں اور گیا کے شانتی باغ میں امبیڈکر کی تصویر گود میں رکھ کر قانون قانون کی دہائی دے رہی ہوں اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ہاتھوں اور گلے میں زنجیریں باندھ کر نکلیں اور میری بے تکی شاعری سن کر کہنے لگیں:
بسکہ ہو ں غالب اسیری میں بھی آتش زیر پا
موئے آتش دیدہ ہے حلقہ میری زنجیر کا
اور وہ جھولا چھاپ فقیر کے کرتوتوں کو گنوائیں جولوگوں کے کپڑوں سے ان کی پہچان کرتا ہے۔ جو شمشان اور قبرستان کا فرق بتاتا ہے۔ جو ملک کے ایک خاص طبقے کو کتے کا پلہ قرار دیتا ہے۔ اور میرے منہ پر ریختے کے استاد میر تقی میر کے ہم عصر مرحوم انشاء اللہ خاں انشا کی غزل کے یہ دو شعر سنائیں گی۔
کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں
بہت آگے گئے باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں
نہ چھیڑ اے نکہت بادبہاری راہ لگ اپنی
تجھے اٹکھیلیاں سوجھی ہیں اور ہم بیزار بیٹھے ہیں۔“

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے