مرگ انبوہ :ایک شاہکار

مرگ انبوہ :ایک شاہکار


جاوید اختر ممکن ہے اس مضمون کو ایک جذباتی بیان کہا جائے ، مگر حقیقت یہ ہے کہ آج سب جس دور پر آشوب سے گزر رہے ہیں ، وہا ں ایسے شاہکار ناول کے مطالعہ کے بعد کسی کا بھی جذباتی ہو جانا نا گزیر ہے . اس ناول میں ماضی بھی ہے ، حال کی لہو لہان شاہراہ بھی اور مستقبل کا خوف بھی . مجھے یہ لکھنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ وہ لفظوں کے ساتھ اظہار محبت وفا کرتے ہیں۔۔۔ ان کے قلوب میں اپنے قارئین کے لئیے ایک محبت کا سمندر موجزن ہے۔۔۔مشرف عالم ذوقی نے ادب کو محبت کرنے والوں کے لئیے وقف کر رکھا ہے۔۔۔۔۔
میں مولانا رومی کے بارے میں یہ بھی سوچتا ہوں ہوں کہ انہیں درس عشق و معرفت کے لئیے پیدا کیا گیا تھا۔۔۔ان کے قلب میں آتش عشق ودیعت فرمائی گی تھی عاشقوں کا درس تو ذکر محبوب ہوتا ہے۔۔۔

درس شاں آشوب وچرخ و زلزلہ
نے زیادات است و باب سلسلہ

مرگ انبوہ ہر سطر آگ سے گزرنا ہے . ہر باب آپ کو زندگی کی کشمکش کے درمیان کھینچ لاتا ہے . ہندوستانی سیاست ہمیں کہاں لے کر آ گیی ؟یہاں ہر قدم پر بلیو وہیل موجود ہیں .اور انسان خونی رقص سیاست میں الجھتا جا رہا ہے . ناول کا پہلا باب ہے ، موت سے مکالمہ۔۔ آپ جیسے جیسے پڑھتے ہوئے آگے بڑھنے لگتے ہیں،آپ متحیر ہی نہیں ہوتے بلکہ محسوس ہوتا ہے کہ آپ ہٹلر اور چنگیز کے دربار میں آ گئے ہوں . وقت کا طوفان بلا خیز آپکو بہا کر لے جا رہا ہے . یہ اقتباس دیکھئے
” میری آنکھیں کہی دور نکل گئی تھیں۔۔ممنوعہ اور غیر ممنوعہ کی بحث سے یہ نسل نہیں الجھتی۔۔۔پہلی نسل والوں کے لئے جو ممنوعہ نہ ہو اس نسل نے اسے قبول کر دیا ہو۔۔۔۔
یہاں ویلوز بدل گئے ہیں۔۔۔جینے کا نظریہ بدل چکا ہے۔۔۔پرانے زمانے کا بہت کچھ ہمارے لئیے ڈسٹ بن میں ڈالنے جیسا ہے۔۔۔جیسے ڈیڈ کی کتابیں کبھی راس نہیں آئیں۔۔۔۔۔ہاں! اگر کتابیں کما کر دے سکتی ہوں تو آپ ۔۔۔؟؟؟
یہ آج کے بچے ہیں .پیزا برگر کے دور میں آنکھولنے والے .وقت سے زیادہ تیز رفتار . ا۔۔۔یہ تبدیلیوں کا وقت ہے۔۔۔
مصنف نے ڈارون۔۔۔ ایسٹو جابس۔۔۔ ایان ویلموٹ۔۔۔۔۔اسٹیفن ہاکنگ ۔۔اور مارک زکر برگ کا کیا ہی خوبصورتی سے تذکرہ کیا ہے۔۔۔۔
ڈارون۔۔۔۔۔دی تھیوری آف ایوالیوشن .
ایسٹو جابس۔۔۔۔امریکی بزنس ٹائیکون اور ایپل انک کا بانی۔۔
ایان ویلموٹ۔۔۔۔کولون "ڈولی بھیڑ "کا ایجاد کرنے والا سائنس داں
اسٹیفن ہاکنگ۔۔۔۔۔کوسمولوجی کا ڈائیرکٹر اور دی بریف ہسٹری آف ٹائم کے مصنف۔۔
مارک ذکر برگ۔۔۔۔فیس بک کا بنانے والا اور جو راتوں رات ارب پتی بن گیا۔۔۔
نئی نسل کو راتوں رات دنیا کی ہر سہولت پا لینے کی خواہش اسے شیطان کی قوت کے قریب لاتی جا رہی ہے۔۔اورسب اپنے معاشرے میں اس Invisible web۔۔سے جکڑے جا چکے ہیں۔۔اور آسان شکار بن رہے ہیں ۔۔رشتوں ۔۔ادب ۔۔اور احترام کا دروازہ بند ہو رہا ہے ، ہم جارج آرویل کے اینمل فارم کا حصّہ بن چکے ہیں .
مرگ انبوہ کے ہر کردار کی اپنی دنیا ہے۔۔۔۔ایک فنتاسی سے پر دنیا مگر فنتاسی کے باوجود آنکھوں سے لہو ٹپکتا ہے . علامات ، استعارے بے چین کر دیتے ہیں . اور اس بات کا شدت سے احساس ہوتا ہے کہ کیا اردو زبان میں اس پائے کا بھی ناول لکھا جا رہا ہے ؟ مشرف عالم ذوقی نے ایک جگہ اپنے مضمون میں تذکرہ کیا ہے کہ آج کا ادب سیاسی بالیدہ شعور کے بغیر ممکن نہیں . یہ حقیقت ہے اور اس وقت دنیا کا بڑا ادب سیاست اور سماج کے بطون سے ہی پیدا ہو رہا ہے . ناول میں ایک ٹھہراؤ بھی ہے .
کردار اپنی پارسائی کا دعوا نہیں کرتے ۔۔بلکہ ہر کردار اسی انداز میں آگے بڑھتا ہے جس سے ہم اور ہمارا معاشرہ اس وقت گزر رہا ہے .
میرے لئیے کتابیں زندگی کی ضامن رہی ہیں۔۔اس ناول میں غضب کا جادو ہے .مگر مکمل مطالعہ کے بعد ایسا لگتا ہے جیسے یہ ناول صرف ہندوستانی سیاست پر مبنی نہیں بلکہ یہ پوری دنیا ناول کا حصّہ ہے .تیزی سے لپکتی ہوئی آگ ، سرخ چونٹیاں ،جادوگر کے تماشے ، احساس ہوتا ہے کہ ذوقی لفظوں پر حکمرانی کر رہے ہیں۔۔اس پر آشوب دور میں جو کچھ بھی وہ لکھ رہے ہیں وہ قابل ستائش ہے۔۔بدلتے ملک میں ۔۔اور ملک کے کھو جانے کا احساس مرگ انبوہ میںقدم قدم پر ملتا ہے .یہ اقتباس دیکھئے .
اس رات میں نے ڈائری کا آخری صفحہ لکھا، جسے تم پڑھنے جارہے ہو میرے بیٹے پاشا مرزا۔ زندگی نفرت اور محبت کے درمیان کہیں ہے۔ یہ ہم پر ہے کہ ہم اسے کہاں تلاش کرتے ہیں۔ میں نے تمہارے لیے تین برس کا انتخاب کیا، یہ میری مجبوری تھی۔ لیکن میں نہیں چاہتا تھا کہ آگے کے دوبرس تم اذیت میں گزارو۔ میں اب بھی چاہتا ہوں تم خوش رہو۔ خوشی، یہ پرندہ اب نہیں ہے۔ آلودہ فضا نے اس پرندے کو ہلاک کردیا ہے۔ دوسال بعد تم پورے بیس برس کے ہوجاؤگے۔تمہارے پاس منصوبوں کے لیے پورا ایک سال باقی ہے۔
میرے بیٹے، میں زندگی بھر تہی دامن رہا۔ میرے پاس کچھ نہیں تھا، سوائے محبت کے۔ مجھے احسا س ہے کہ کبھی بھی میری موت ہوسکتی ہے۔ چھوٹی چھوٹی نفرتیں مل کر جنگ کی فضا تیار کرتی ہیں۔ میں اپنی محبت تمہیں دکھا نہیں سکا۔ سارہ کا بہت خیال رکھنا۔ اور میری طرح زندگی سے شکست تسلیم مت کرنا۔ تم میرے بہادر بیٹے ہو۔ اچھا میرے بیٹے الوداع…..
آخر وہ کیسے تجربے تھے ، وہ کیا تھا جسے ایک باپ اپنے بیٹے کو بتانے کا خواہشمند تھا ، جبکہ بیٹا بھی لہو لہو مناظر سے واقف تھا . مگر اس طرح نہیں .جس طرح یہ دنیا ایک باپ نے دیکھی تھی . یہ اقتباس دیکھئے ..
’ تین برس….‘ میں ہکلارہا تھا۔ یہ بہت کم ہیں۔ مجھے جینے کی کوئی آرزو نہیں۔ مجھے ابھی سنگسار کردیجیے۔ کوئی سی بھی آسان موت جو آپ چاہتے ہیں مگر میرے بیٹے پر رحم کیجیے۔‘
’ رحم دل جادوگر رحم ہی تو کررہا ہے۔‘
’ میں زور سے چیخا۔ میری بیوی سارہ کہاں جائے گی؟‘
’ اوہ سارہ‘ تارا دیش پانڈے نے سگریٹ جلالیا۔ ’ہم نے کہا نا، عورتوں کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ وہ ہماری پراپرٹی ہیں۔ وہ ہمارے ساتھ رہیں گی۔‘
’ سارہ نازک ہے، وہ اس دنیا کے اچھے برے کے بارے میں نہیں جانتی۔‘
’ یہاں کون نازک نہیں جہانگیر۔‘ تارا محبت سے بولی۔ ملک کی تقسیم کے وقت بھی عورتوں کی ادلا بدلی ہوئی تھی۔ سب طور طریقے نیا ماحول سکھا دیتے ہیں۔ تم کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔‘
راکیش وید کا لہجہ اس وقت سرد اورسخت تھا۔’ہزار برس۔ غلامی کے ہزار برس۔ تم نے ہمارے آریہ ورت پر قبضہ کرلیا۔ پھر آریہ ورت کے ٹکرے کردیے۔ ہم غلاموں کی طرح خاموش رہے۔ تم مٹھی بھر تھے اورہم پر حکومت کررہے تھے۔ظلم سے، زور زبر دستی سے، شمشیر سے تم ہم کو اپنے مذہب میں کنورٹ کررہے تھے۔ ہم خاموشی سے سب کچھ برداشت کررہے تھے۔تم ہمیں موت دے رہے تھے۔ ہم نے کچھ کہا؟ نہیں کہا۔ برکتوں والے اور رحمتوں والے جادوگر نے موت کے انتخاب کی ذمہ داری بھی تم کو دی ہے۔ اس کا شکریہ ادا کرو۔‘
’ ہم نے ایسا کچھ نہیں کیا۔‘ میری آواز پھنسی پھنسی تھی۔’یہ غلط ہے۔‘
’ تم نے کیا۔ ہمیں اتہاس سے غائب کیا۔ چاروں طرف اپنے ہونے کی نشانیوں کو آباد کردیا۔ ہم اپنے ہی ملک میں اجنبی تھے۔ اور اب تمہیں کوئی حق نہیں ہے، یہاں رہنے کا۔ ملک کی خوشحالی کے لیے تمہارا نہیں ہونا ضروری ہے۔ اور ہم تمہیں وقت دے رہے ہیں۔‘
’ وقت نہیں۔ موت کا فرمان جاری کررہے ہیں۔ نسل کشی کررہے ہیں۔‘
خفیہ افسر زور سے ہنسا…. کیاان اموات کے لیے تم تیار تھے جب گائے رکشک تمہاری ہتیائیں کررہے تھے؟ یا بچہ چوری کا الزام لگا کر تمہیں مارا جارہا تھا۔؟یہ مشکل کام تھا۔ ایک کو مارو تب بھی الزام۔ کروڑوں کا صفایا کرو تو کوئی الزام نہیں۔ ہم تمہارے ہی راستے پر چلے….‘
’ مگر بیٹے کے لیے تین سال….؟ میں قبول کرنے کو تیار نہیں ہوں۔‘
’ تمہیں قبول کرنے کو کس نے کہا ہے۔ تمہیں بس اس فارم پر دستخط کرنے ہیں۔ اپنی مرضی سے تم نے تین برس کا وقفہ چنا ہے۔’بس ایک چھوٹا سا دستخط چاہیے‘اور کچھ نہیں۔‘
— مرگ انبوہ سے
ڈیٹینشن سینٹر ، موت کی وادیاں ، اور تباہی ..کیا یہ صفحات صرف اقلیتوں کے لئے لکھے گئے . یہ کون لوگ ہیں جو موت کا فرمان لئے گھوم رہے ہیں ؟ نفرت اور ہجوم اور ایک سیاسی پارٹی ۔۔۔۔ایک بے حس بہری بھیڑ۔۔۔اور زعفرانی رنگ نے ملک کو نفرت کی دیوی کے بھینٹ چڑھا دیا ۔۔۔اب گنگا جمنا جیسی ندیاں نہیں بہتی ہیں . ۔۔اب ندیوں کا رنگ بھی اب زعفرانی ہو گیا ہے۔۔۔ جو امنو شانتی ،محبت اور بھائی چارے کی بات کرے گا۔۔۔۔۔جو شخص بھی آئین کی ۔۔۔۔انصاف کی۔بات کرے گا .اسے منظر سے غائب کر دیا جائے گا۔۔۔۔ جوناتھن سوئفٹ کی کتابیں ۔۔۔A modest proposal..Gullivers travel اور A tale of tube یاد آتی ہیں . ۔۔۔وہ ایک ایریش رائیٹرز تھا جسکی زندگی1667-1745 کے درمیان لفظوں پر رقص کرتی تھی۔۔۔یہاں بھی جدید پروپوزل ہے ، اور وقت آپ سے موت کا کاروبار کر رہا ہے .ذوقی ایک جگہ لکھتے ہیں۔”۔زندگی بلیو وہیل سے زیادہ خطرناک ہے۔۔”؟ نیی نسل کے نوجوان موت کا Excitement خریدتے ہیں۔۔۔اور بلیو وہیل کا شکار ہو جاتے ہیں . آج کا ینگستان زندگی کے برہنہ رنگوں میں کھو کر خود کو ایک ایسی شاہراہ پر خود کو چھوڑ آیا ہے۔۔جہاں سے کوئی بھی راستہ امید و منزل کی طرف نہیں جاتا۔۔۔ مرگ انبوہ میں مصنف نے ان نوجوانوں کے Hormonal Regulation کا کیا ہی خوب جائزہ لیا ہے .لگتا ہے کہ مصنف Endocrinology کے سائنسدان ہیں۔۔یوٹوپیا میں کون جی رہا ہے۔۔؟شاید ہم سب ایک یوٹوپیا کا شکار ہیں .کیونکہ جب لوگ محو خواب تھے ۔کچھ طاقتیں مشن پر کام کر رہی تھیں . پورے ملک کی تصویردیکھیں تو شدت سے احساس ہوتا ہے کہ ہم آہستہ آہستہ غائب کئیے جا رہے ہیں۔۔۔اور یہ سلسلہ بڑھ رہا ہے۔۔۔ مشن کی شاخیں بڑھ رہی ہیں۔۔۔وہ اپنے لوگوں کو فوجی تربیت دے رہے ہیں اور۔۔ ملک گم ہو رہا ہے .
مشرف عالم ذوقی نے قارئین کے روبرو ایک آئینہ لا کر رکھ دیا ہے، جس میں ماضی۔۔حال۔۔مستقبل۔۔کے عکس نمایاں ہیں .سماج اور معاشرے۔۔۔کا علاج ممکن نہیں .اور جادوگر کا مذاق اب حد سے تجاوز کر چکا ہے . جادوگر نے اپنے قد میں اضافہ کرنے کے لئیے ملک کے میڈیا کو ہی خریدلیا ۔۔ہم آھستہ آھستہ Detention centre کی طرف دھکیلے جا رہے ہیں۔۔ زمین مسلمانوں کے لئیے سرخ ہو رہی ہے۔ ڈیٹینشن کیمپ اور گیس چیمبر تیار ہو رہے ہیں۔۔۔یہ وہ لوگ ہیں جو اقلیتوں اور دلتوں کو اذیت پہنچا کر خوش ہوتے ہیں ۔۔یہ طویل داستان مدتوں یاد رہنے والا شہ پارہ ہے . یہ ناول ہمیں مستقبل کی تنہایاں دکھاتا ہے اور ایسے سوالات سامنے رکھتا ہے جن کے جوابات ہمارے پاس نہیں ہوتے . ناول کے آخر میں پھر ایک یو ٹو پیا آتا ہے . اور اس بار احساس ہوتا ہے کہ یہ منظر بھی تبدیل ہو جائینگے . مرگ انبوہ اکیسویں صدی کا شاہکار ہے ، آپ ادب پسند ہیں ، تو اس ناول سے گزرنا آپ کے لئے ضروری ہو جاتا ہے .
شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے