ایک کہانی

ایک کہانی

احسان قاسمی پورنیہ ( بہار ) انڈیا
رابطہ ۔ 9304397482

مٹ میلے رنگ کی ہیٹ ، گورا رنگ ، ستواں ناک ، پتلا لمبوترا چہرہ جو شاید کبھی بھرا بھرا سا رہا ہوگا مگر اب گزرتے وقت نے دونوں جانب گالوں پر دو موٹی موٹی لکیریں سی کھینچ دی تھی ۔ چھوٹی سی سفید داڑھی جو ٹھڈّی کے آس پاس کے علاقہ تک محدود تھی ۔ کوٹ اور پینٹ بھی ڈھیلے ڈھالے سے تھے مگر بوڑھے کی آنکھوں میں ابھی زندگی کی رمق قائم تھی ۔ اس کے ساتھ ایک ننھا سا بچہ ہوا کرتا جو اس کے بائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی پکڑ دھیرے دھیرے اس کے قدموں سے قدم ملاتا چلتا اِس چھوٹے سے پارک میں آیا کرتا ۔ یہ ایک چھوٹا سا پارک ہے جس میں لکڑی کے موٹے تختوں سے بنے چند بینچ کنارے کنارے نصب ہیں ۔ پارک کے درمیان ایک چھوٹا سا میدان ہے جس میں مختلف مقامات پر کامنی ، مولسری ، ہر سنگار ، رات رانی وغیرہ کے پودے لگے ہیں ۔ جب موسم کے لحاظ سے ان میں پھول لگتے ہیں تو ان کی خوشبو ارد گرد کے پورے ماحول کو معطر کر دیتی ہے ۔
سب سے کنارے ساگوان کا ایک درازقد اور قدیم پیڑ بھی ہے جس کے ارد گرد لینٹانا کمارا ( Lantana Camara ) کی خاردار جھاڑیاں بے ترتیبی سے پھیلی ہیں ۔ ان میں سفید ، گلابی ، چمپئ پھول گچھوں کی شکل میں کھلتے ہیں جن پر دن بھر تتلیوں کے جھنڈ منڈلاتے رہتے ہیں ۔ لیکن ان کنٹیلی جھاڑیوں کے قریب آنا کوئی پسند نہیں کرتا ۔ لہٰذا ہمارے لئے یہ محفوظ ترین ٹھکانہ ہے ۔
دراصل یہ پارک اس مقامی چرچ کا ایک حصہ ہے جو اکثر ویران ہی رہا کرتا ہے ۔ اتوار کے دن یہاں ضرور کچھ چہل پہل ہو جایا کرتی ہے ۔ کسی زمانے میں اس قدیم چرچ میں شاید کافی رونق رہا کرتی ہو مگر اب اس میں اکثر سناٹا ہی چھایا رہتا ہے جیسے چرچ کے عقب واقع شہرِ خموشاں میں ایک یاس انگیز پراسرار سناٹا ہر وقت پَسرا رہتا ہے ۔ ہاں ! جاڑوں کے موسم میں جب کڑاکے کی ٹھنڈ پڑتی ہے ہر سال ایک دن اس چرچ کی قسمت جاگ اٹھتی ہے ۔ اسے خوب سجایا سنوارا جاتا ہے ۔ شمعیں روشن کی جاتی ہیں ۔ خوب چہل پہل رہتی ہے ۔ چند لوگ بچوں کے ہمراہ پارک میں بھی آجاتے ہیں اور بینچوں یا گھاس پر بیٹھ گنگنے دھوپ سے لطف اندوز ہوتے ہیں ۔ بچے اِدھر اُدھر دوڑتے بھاگتے پھرتے ہیں ۔ ان میں سے چند پیڑوں پر بھی چڑھنے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں مگر دوسرے دن سے پھر وہی سنّاٹا چرچ اور اس کے اطراف کو اپنے حصار میں لے لیتا ہے جس کا برسوں سے یہ عادی ہو چکا ہے ۔ میں اکثر چرچ کے اندر بھی جایا کرتی ہوں ۔ وہاں پتھر سے تراشیدہ ایک بُت مجھے بہت پسند ہے جس میں ایک ماں اپنے شیر خوار بچے کو گود میں لئے کھڑی نظر آتی ہے ۔
بوڑھا ہر اتوار کو چرچ میں ہونے والی عبادت اور دعا میں شریک ہوا کرتا مگر پارک وہ تقریباً بلا ناغہ آیا کرتا ۔ ہاں ! موسم کے اعتبار سے اوقات میں تبدیلی ہوتی رہتی ۔ اس کے ساتھ وہ معصوم ننھا سا بچہ بھی ہوا کرتا جو اس کی انگلی پکڑ چلا کرتا ۔ پارک میں پہنچ کر بوڑھا تھوڑی دور مزید چل کر کسی بینچ پر بیٹھ جاتا ۔ بچّہ ہری ہری نرم گھاس پر اِدھر اُدھر دوڑنے اور قلقاریاں مارنے لگتا ۔ بوڑھا اپنے ڈھیلے ڈھالے پینٹ کی جیب سے ایک چھوٹی سی گیند نکال کر بچّے کے سامنے لُڑھکا دیتا جسے بچہ بار بار اپنے ننھے ننھے پیروں سے مارنے کی کوشش کرتا ۔ اکثر وہ کامیاب بھی ہو جاتا اور کبھی ہاتھ سے بھی اٹھا کر گیند کسی جانب پھینک دیتا اور پھر گیند کے پیچھے بھاگتا نظر آتا ۔ میں اکثر اس کے قریب چلی جاتی ۔ وہ مجھے دیکھ کر یکلخت ٹھٹھک پڑتا ، پھر تالیاں بجاتا یا میرے پیچھے لپکنے کی کوشش کرتا ۔ کبھی کبھی جب وہ دور کسی کنارے کی جانب چلا جاتا تو بوڑھے کو اس کے پیچھے بھاگنا بھی پڑتا ۔ مجھے یہ سارا منظر بہت پیارا اور من موہک لگتا ۔ وقت ختم ہوجانے پر بوڑھا اسے اشارہ کرتا تو وہ بوڑھے کی انگلی تھام گھر کی جانب روانہ ہو جاتا ۔ لیکن کبھی کبھی وہ مزید ٹھہرنے اور کھیلنے کی ضد پر بھی اڑ جایا کرتا ۔
پارک کی داہنی جانب لوہے کا جو چھوٹا داخلی گیٹ ہے اس سے باہر نکل تھوڑا فاصلہ طے کرتے ہی قدیم طرز اور سفید رنگ کی ایک پختہ عمارت نظر آتی ہے ۔ عمارت کی سفیدی عرصہ قبل اپنی چمک کھو چکی ہے ۔ باہری دیواروں پر اکثر جگہہ کائی کے سیاہ بھدے نشانات نظر آتے ہیں ۔ چھت کی منڈیروں پر پیپل کے نوزائیدہ پیڑ اپنی جڑیں مضبوطی سے جمانے کی کوشش میں مصروف نظر آتے ہیں ۔ سامنے بڑا سا برآمدہ ، جو تین اطراف سے بالکل کُھلا ہے ۔ برآمدے تک پہنچنے کے لئے کئ سیڑھیاں چڑھنی پڑتی ہیں ۔ عمارت کے عین سامنے لان کی شکل میں مختصر کھلی جگہ موجود ہے ۔ بائیں جانب بھی وافر جگہ ہے جس میں آم ، کٹہل اور سپاٹو ( چیکو ) کے درخت لگے ہیں ۔ مگر تمام پیڑ پودے دیکھ بھال کی کمی کا شکار محسوس ہوتے ہیں ۔ احاطے کے اندر جا بجا جھاڑیاں اُگ آئی ہیں ۔ چہاردیواری موٹی ، کم اونچائی والی اور ایک دو جگہوں پر شکستہ ہے ۔ عمارت کے عین سامنے چہار دیواری میں بڑا سا لوہے کا پھاٹک ہے جس کا ایک پَلّا موجود اور دوسرا غائب ہے ۔ اکثر گندے جانور خوراک کی تلاش میں عمارت کی چہاردیواری کے اندر گھس آتے اور زمین میں گڑھے بنا دیا کرتے ہیں ۔ عمارت کے داخلی کمرے کے برابر دائیں جانب دو اور کمرے بنے ہیں ۔ عمارت کے پچھلے حصے میں بھی بڑا سا صحن ہے ۔ صحن کے نیچے کچا آنگن ہے جس میں امرود اور شریفے کے کئ پیڑ لگے ہیں ۔ میرا تو یہ گھر بچپن سے ہی دیکھا بھالا ہے ۔ یہی عمارت بوڑھے کی ملکیت ہے ۔ بوڑھے کے علاوہ اس گھر میں اس کی بیوی ، بیٹا ، بہو اور ننھا منا نٹ کھٹ سا اس کا پوتا ، یہ چند افراد ہیں ۔بوڑھے کا بیٹا روز صبح گھر سے نکلتا ہے ، پھر رات گئے ہی اس کی واپسی ہوتی ہے ۔
اس گھر کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ بوڑھے نے باہر برآمدے پر داخلی دروازے کے قریب ایک ڈور لٹکا رکھی ہے جو سامنے بنے روشن دان سے گزرتی اندر کمرے میں جاتی ہے اور چھت کی شہتیر سے لٹکتی ایک بڑی سی گھنٹی سے منسلک ہے ۔ گھنٹی کی شکل ویسی ہی ہے جیسی بیلوں کے گلے میں باندھی جاتی ہے مگر اس گھنٹی کا سائز کچھ بڑا ہے ۔ بوڑھا بازار سے سودا سلف یا سبزیاں لے کر ہاتھ میں تھیلا لٹکائے دھیمی چال چلتا گھر واپس آتا یا پارک سے واپسی پر برآمدے پر چڑھ داخلی دروازے کے سامنے کھڑے ہو کر تھوڑا دم سا لیتا ۔ پھر داہنا ہاتھ بڑھا کر لٹکتی ہوئی ڈور کے سرے کو دو تین دفعہ دھیرے سے اپنی جانب کھینچتا ۔ اندر گھنٹی بجتی ٹن ۔۔۔ ٹن ۔۔۔۔ ٹن ! ۔ بوڑھے کی بیوی مشکل سے چل پھِر پاتی تھی ۔ اس کے گھٹنوں میں شاید شدید تکلیف رہا کرتی کیونکہ اکثر پلنگ پر بیٹھی بیٹھی وہ خود اپنے گھٹنوں پر تیل کی مالش کرتی نظر آتی تھی ۔ لہٰذا بوڑھے کو اکثر دروازہ کھلنے کے لئے کچھ زیادہ دیر تک انتظار کرنا پڑتا ۔ بوڑھے کو شاید لوگوں سے زیادہ ملنا جلنا پسند نہ تھا یا شاید محلے والوں کو ہی بوڑھے سے کوئی خاص واسطہ نہ تھا کیونکہ میں نے شاذ و نادر ہی کسی شخص کو بوڑھے کے گھر آتا جاتا دیکھا ہو ۔ بوڑھے کے گھر کا داخلی دروازہ بیشتر بند ہی نظر آتا ۔

موسمِ سرما کا وہ ایک خوشگوار دن تھا ۔ کئ دنوں بعد دوپہر میں نکھری نکھری سی دھوپ پھیلی تھی ۔ تھوڑی دیر میں گھاس اور پتوں پر جمع شدہ شبنمی قطرے نگاہوں سے اوجھل ہو گئے ۔ میں نے دیکھا بچہ بوڑھے کی انگلی تھامے پارک میں داخل ہو رہا تھا ۔ بوڑھا کچھ مضمحل سا لگ رہا تھا ۔ وہ خاموش سا بینچ پر آ کر بیٹھ گیا ۔ بچہ منتظر تھا کہ وہ اپنے پینٹ کی جیب سے گیند نکال کر میدان میں اچھالے مگر وہ بجھا بجھا سا چپ چاپ بیٹھا رہا ۔ بچہ اس سے بار بار کچھ بول رہا تھا پھر وہ چند قدم آگے چل کر اکڑوں بیٹھ گھاس میں غور سے کچھ دیکھنے لگا ۔ بوڑھے نے ایک نظر بچے کی جانب دیکھا پھر اپنے کوٹ کی پاکٹ سے کاغذ کا ایک بڑا سا ٹکڑا نکالا اور اسے بینچ پر رکھ کر مخصوص انداز میں تہہ کرنے اور موڑنے لگا ۔ جلد ہی وہ اس کاغذ سے ایک ہوائی جہاز بنا لینے میں کامیاب ہو گیا تھا ۔ اس نے بچے کو آواز دی اور کھڑے ہوکر جہاز کو اوپر فضا میں ایک جھٹکے کے ساتھ اڑایا ۔ جہاز اس کے ہاتھ کی پکڑ سے آزاد ہوتے ہی ہوا میں تیرنے لگا ، پھر وہ ایک دائرے کی شکل میں اڑتا ہوا بتدریج نیچے اترنے لگا اور بالآخر زمین سے جا لگا ۔ بچہ حیرت اور خوشی کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ ہاتھ ہلاتا ، تالیاں بجاتا اس جانب دوڑ پڑا ۔ اس نے جہاز اٹھا کر بوڑھے کو لا دیا اور ہاتھ ہلا ہلا کر دوبارہ اسے اڑائے جانے کی فرمائش کرنے لگا ۔ بوڑھے نے پھر سے جہاز اوپر ہوا میں اڑایا ۔ یہ سلسلہ تا دیر جاری رہا ۔
دوسرے دن سورج نکلنے کے بعد میں بوڑھے کے گھر گئ ۔ دراصل عمارت کے احاطے میں موجود سپاٹو ( چیکو ) کے پیڑ پر پھل لگے تھے ۔ پچھلی دفعہ جب میں آئی تو کچھ زیادہ ہی کچے تھے ۔ منھ کسیلا ہو گیا ۔ مگر بھوک کے آگے تو ہر ایک بےبس ہے ۔ مجھے امید تھی کہ دو چار پھل ایسے ضرور مل جائینگے جو خواہ پورے طور پر نہ بھی پکے ہوں مگر کھانے لائق تو ضرور ہو چکے ہونگے ۔ ابھی میں ایک ڈال سے دوسری ڈال پھدک کر پھلوں کا معائنہ کر ہی رہی تھی کہ ایک پیلے رنگ کی گاڑی کو ٹوٹے ہوئے گیٹ سے اندر داخل ہوتے دیکھا ۔ برآمدے کے قریب پہنچ کر ڈرائیور نے ہارن بجایا ۔ بوڑھے کے گھر کا دروازہ کھلا ۔ اس کے بیٹے نے چند سوٹ کیس باہر نکالے اور گاڑی کی ڈکی میں رکھ دیا ۔ پھر اس کی بہو برآمد ہوئی ، بوڑھے کی انگلی تھامے بچہ اور سب سے آخر میں لڑکھڑاتے قدموں سے بڑھیا باہر برآمدے تک آئی ۔ بچہ باپ کی گود میں سوار ہو گیا ۔ وہ گاڑی میں بیٹھنے کو بیتاب بار بار ہمک رہا تھا ۔ بیٹا ، بہو اور بچّہ گاڑی میں جا بیٹھے ۔ گاڑی اسٹارٹ ہوکر دیکھتے ہی دیکھتے اپنے پیچھے دھول اور دھواں چھوڑتی مین گیٹ سے گزرتی باہر سڑک پر آگئی اور داہنی جانب مڑکر نگاہوں سے اوجھل ہوگئی ۔ بوڑھا واپسی پر تین سیڑھیاں چڑھ چوتھی پر بیٹھ گیا جیسے اس کی ٹانگوں میں مزید سیڑھیاں چڑھنے کی تاب نہ رہی ہو ۔ بڑھیا برآمدے کے گول ستون سے ٹیک لگائے لگاتار سونے پڑے راستے کو خالی الذہنی کے عالم میں تک رہی تھی ۔ میری نگاہوں کے سامنے یکایک چرچ کے اندر نصب اس مورتی کی تصویر رقص کرنے لگی جس میں ایک ماں اپنے بچے کو گود میں لئے کھڑی تھی ۔ مجھے یوں محسوس ہوا گویا کسی نے ماں کی گود سے بچہ چھین لیا ہو ۔ اپنوں سے بچھڑنے کا غم مجھ سے زیادہ کون جان سکتا ہے جس کی نگاہوں کے سامنے سے جنگلی بلّا اس کے ننھے معصوم بچّے کو اپنے منھ میں دبا اُٹھا لے گیا ہو اور وہ کمزور ناتواں ماں سوائے رونے ، سسکنے اور آہیں بھرنے کے کچھ بھی نہ کر پائی ہو ۔
اس دن کے بعد بوڑھے کا پارک میں آنا موقوف ہو گیا ۔ چند دنوں بعد ہمارا پروگرام بھی گرجا گھر کے دوسری جانب کچھ فاصلے پر واقع بیر کے جنگل میں جا کر رہنے کا بن گیا ۔ بیر پکنے لگے تھے اور مزید انتظار فضول ہی نہیں ناقابلِ برداشت بھی تھا ۔ پورا جھُنڈ بیر کے اس چھوٹے سے جنگل پر حملہ آور ہو چکا تھا ۔ تین دن خوب مزے میں گزرے مگر چوتھے دن نہ جانے کہاں سے دس پندرہ لڑکوں کا ایک ہجوم یکایک نمودار ہوا ۔ ان کے ہاتھوں میں اینٹ پتھر اور ڈنڈے تھے ۔ انہوں نے آتے ہی حملہ بول دیا ۔ پکے ہوئے بیروں پر وہ اندھادھند پتھر اور اینٹ کے ٹکڑے برسا رہے تھے ۔ ہمارا وہاں مزید ٹھہرنا جان جوکھم میں ڈالنا تھا ۔ شکر ہے کہ کسی کو چوٹیں نہیں آئیں اور ہم سب بخیر و عافیت اپنے ٹھکانے پر پہنچ گئے ۔
دوسرے دن میں نے بوڑھے کو پارک میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا ۔اس کے بائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی بچے نے نہیں پکڑ رکھی تھی مگر واکنگ اسٹک نے اس کا داہنا ہاتھ تھام رکھا تھا جس کے سہارے وہ لڑکھڑاتا ڈگمگاتا پارک کے اندر داخل ہوا اور بے دم سا سامنے پڑے بینچ پر لڑھک گیا ۔ اس کا سالخوردہ سوٹ پہلے سے بھی زیادہ ڈھیلا ڈھالا ہو چکا تھا اور چہرے پر پڑی لکیریں مزید نمایاں ہو چکی تھیں ۔ اس نے سر سے ہیٹ اتار کر بینچ پر رکھ دیا اور خالی خالی نگاہوں سے بس اِدھر اُدھر تکتا رہا ۔ تھوڑی دیر بعد اٹھا اور واکنگ اسٹک کے سہارے نہایت خاموشی سے سر جھکائے واپسی کے سفر پر گامزن ہوا ۔
اس دن کے بعد سے وقتاً فوقتاً اِسٹک ٹیکتا وہ پارک میں آتا مگر میں محسوس کر رہی تھی کہ روز بروز اس کی صحت اور توانائی میں گراوٹ آتی جا رہی ہے ۔ گرمیوں کے دن تھے ۔ آم میں ٹکولے لگ چکے تھے ۔ کٹہل کے تنے اور شاخوں سے جابجا ننھے منّے کٹہل پھوٹ پھوٹ کر نکل رہے تھے ۔ سپاٹو کے پیڑ پر پھل زیادہ تھے یا پتّے بتانا مشکل کام تھا ۔
بوڑھے کے آنگن میں موجود امرود اور شریفے کے پیڑوں پر بھی ایسا ہی جوبن چھایا تھا ۔ مجھے سب سے پہلے امرود کا مزہ چکھنا تھا لہٰذا میں اِس پیڑ اُس پیڑ ، یہ ڈالی وہ ڈالی کرتی کودتی پھاندتی بوڑھے کے گھر آ پہنچی ۔ مگر یہاں تو ماجرا ہی کچھ الگ نظر آیا ۔ سیاہ لباس میں ملبوس لوگ اِدھر اُدھر آ جا رہے تھے ۔ چند برآمدے اور نیچے لان میں رکھی کرسیوں پر بھی بیٹھے نظر آئے ۔ تھوڑی دیر بعد ہی گھر کا داخلی دروازہ کھلا اور چند لوگ ایک تابوت اٹھائے برآمد ہوئے ۔ پھر وہ تابوت اٹھا کر ایک جلوس کی شکل میں چرچ کی جانب روانہ ہوئے ۔ سب سے پیچھے بوڑھا نظر آیا جسے دو لوگوں نے سہارا دیا ہوا تھا ۔ چرچ کے عقب میں ایک اور کتبے کا اضافہ ہو گیا ۔

بوڑھے نے گھر سے باہر نکلنا کلّی طور پر موقوف کر دیا تھا ۔ شاید اب وہ اس لائق رہ بھی نہ گیا تھا ۔ میں وقتاً فوقتاً اس کے گھر کا ایک آدھ چکر لگا لیتی ۔ ایک ادھیڑ عمر عورت دوپہر سے قبل اور شام کے وقت روزانہ اس کے گھر آتی ، گھنٹی بجاتی ۔ بوڑھا بمشکل تمام آکر دروازہ کھولتا ۔ وہ کچن میں جاکر جو کچھ پکاتی بوڑھے کے پلنگ کے قریب پڑے چھوٹے سے ٹیبل پر رکھ دیا کرتی ، ساتھ میں ایک جگ پانی اور گلاس ۔ گویا کہ بوڑھے کی تمام تر کائنات خود اس کی اپنی ذات میں سمٹتی جا رہی تھی ۔
برسات کا موسم ہمارے لئے کچھ خوشگوار نہ رہا ۔ اس سال بارش خوب ہوئ اور طویل عرصہ تک ہوتی رہی ۔ ہفتوں سورج کا درشن نہ ہوا ۔ مجھے بخار نے آ گھیرا ۔ کئ دنوں تک اپنے کوٹر میں نیم بیہوشی کے عالم میں پڑی رہی ۔ خدا خدا کرکے بارش کا موسم ختم ہوا ۔ دھوپ نکلی ، ٹھہری ہوئی سی زندگی دوبارہ رواں دواں ہوئی ۔ مجھے بھی پیٹ بھرنے کی فکر لاحق ہوئی ۔ سوچا چلو بوڑھے کے گھر شاید امرود مل جائیں ورنہ چیکو ہی سہی ۔ تمام پھل سال میں ایک دفعہ لگتے ہیں مگر اوپر والا چیکو دو بار دیتا ہے ۔ ادھ پکے ، ادھ کچے جیسے بھی ہوں پیٹ تو بھر جاتا ہے ۔
بوڑھے کے کمپاؤنڈ میں داخل ہوئی تو بھونچکی سی رہ گئی ۔ یوں محسوس ہوا گویا گندے جانوروں کے کسی بڑے غول نے حملہ کر دیا تھا ۔ احاطے کے اندر پورے میدان کو جانوروں نے بری طرح تہس نہس کردیا تھا ۔ چاروں طرف از حد گندگی اور تعفن پھیلی تھی ۔ داخلی دروازہ ہمیشہ کی طرح بند نظر آیا ۔ آنگن میں پہنچی تو یہاں دوسرا دلدوز منظر میری راہ دیکھ رہا تھا ۔ نکاسی بند ہو جانے کے سبب پورے آنگن میں پانی اور کیچڑ بھرا تھا ۔ امرود اور شریفہ کے پیڑ سوکھ چکے تھے ۔ ان کے پھل سیاہ پڑ کر ڈالیوں سے لگے جابجا لٹک رہے تھے ۔ اندرونی صحن کی جانب کھلنے والا دروازہ اور کھڑکی بھی بند نظر آئے ۔ مگر میں ایک نظر بوڑھے کو دیکھنا چاہتی تھی ۔ میرے لئے یہ کوئی ایسا مشکل کام بھی نہ تھا ۔ آنگن کی دیوار سے چھت پر آئی اور پھر روشندان میں ۔ جھانک کر دیکھا تو میز پر کھانا رکھا تھا ، پانی سے بھرا جگ اور گلاس بھی ۔ بوڑھا پلنگ پر چِت پڑا اکھڑی اکھڑی سی سانسیں لے رہا تھا ۔ میں اسے اپنی جانب متوجہ کرنے کے لئے زور سے چیخی ” چی ۔۔۔ چی ۔۔۔۔ چی !!! "
بوڑھے کے پپوٹوں میں کچھ حرکت سی ہوئی ۔ اس نے آنکھیں کھول کر سامنے اوپر روشن دان کی جانب دیکھا ۔ اس کی دھندلاتی آنکھوں میں ایک لحظے کے لئے کچھ چمک سی پیدا ہوئی ۔ اس نے اپنا داہنا ہاتھ اٹھانا چاہا مگر اس کا ہاتھ اک ذرا سا اوپر اٹھ بیجان ہوکر گر پڑا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” ٹن ۔۔۔۔۔۔۔ !
میں اچانک اچھل پڑی تھی ۔
” ارے ! ابھی اس وقت کون ؟ "
روشندان سے چھلانگ مار آم کے پیڑ پر آئی ۔ لان کی جانب دیکھا ۔ پیلے رنگ کی ایک گاڑی واپس جا رہی تھی ۔ باہر برآمدے پر کئ سوٹ کیس رکھے تھے جن کے قریب ایک عورت کھڑی تھی ۔ بچہ پہلے سے قدرے بڑا ہو چکا تھا ۔ وہ باپ کی گود میں سوار بیل کی ڈور لگاتار کھینچتا چلا جا رہا تھا اور کمرے کے اندر سے مسلسل ایک ہی آواز آ رہی تھی ۔۔۔۔۔ ٹن ۔۔۔۔ ٹن ۔۔۔۔ ٹن ۔۔۔۔۔ ٹن ۔۔۔۔۔ !!!!

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے