پرائشچت

پرائشچت

 

احسان قاسمی
نوری نگر ۔ خزانچی ہاٹ، پورنیہ، بہار

دسمبر کی تاریک اور سرد ترین رات تھی ۔ باہر ہڈیوں تک کو چھید ڈالنے والی یخ بستہ ہواؤں کا سامراج پھیلا تھا ۔ گاؤں کے کتے بھی شاید کسی بجھتے الاؤ کی سرد پڑتی راکھ کے ڈھیر پر ایک دوسرے سے چِپکے خاموش اور ساکت پڑے تھے ۔ پھر وہ کیسی آواز تھی جس نے مجھے گہری نیند سے چونکا دیا تھا ؟ میں لحاف سے سر باہر نکال کر دوبارہ اُس آواز کی آمد کا منتظر تھا ۔ چند لمحوں بعد آواز دوبارہ آئی تھی ۔ شاید باہر کوئی دستک دے رہا تھا ۔ میں نے ٹارچ جلا کر دیوار گھڑی کا جائزہ لیا ۔ رات کے تقریباً پونے دو بج رہے تھے ۔ اِس بھیانک سرد رات میں اِس وقت کون آ سکتا ہے ؟ ضرور گاؤں میں کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما ہوا ہے یا پھر ضعیف اور علیل عبدالعزیز صاحب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے تیزی سے سوئٹر پہنا ، اوور کوٹ چڑھایا اور اونی ٹوپی سے سر اور کانوں کو محفوظ کرتے ہوئے کمرے کا دروازہ کھول باہر برآمدے میں آیا ۔ سنسناتی یخ بستہ ہواؤں نے خیر مقدم کیا ۔ ٹارچ کی روشنی باہر ڈالی ۔ لوہے کے جنگلہ نما داخلی گیٹ کے باہر سیاہ کمبل میں سر تا پا لپٹا ایک ہیولیٰ سا نظر آیا ۔
” کون ۔۔۔۔ ؟
” میں گھنشیام ۔۔۔۔۔ !
” ارے ! اتنی رات گئے ۔۔۔۔۔ کیا بات ہے ؟ اندر آؤ ۔۔۔۔۔۔۔
میں نے اوور کوٹ کی جیب سے چابیوں کا گچھا نکال کر داخلی دروازے کا تالا کھولا اور اُسے کمرے میں لے کر آیا ۔ اسی اثنا میں دو گھنٹوں سے مسلسل غائب بجلی بھی آ گئی تھی ۔ میں نے یکے بعد دیگرے بلب اور روم ہیٹر کے سوئچ آن کئے اور اس کے قریب صوفے پر بیٹھتے ہوئے دریافت کیا ۔۔۔۔۔ ” کیا بات ہے ، تم اتنی رات گئے کیوں آئے ہو ؟
اُس نے کوئی جواب نہیں دیا ۔ خاموشی کے ساتھ کمبل سے دونوں ہاتھ باہر نکالے ۔ اس کے ہاتھوں میں لال رنگ کے کپڑے میں بندھی کوئی چوکور سی وزنی شئے تھی کیونکہ جب اس نے اسے سامنے پڑے ٹی ٹیبل پر رکھا تو ‘ کھٹ ‘ کی آواز آئی تھی ۔ میں نے اس کی جانب سوالیہ نگاہوں سے دیکھا لیکن وہ ایک ٹک اس لال کپڑے کی پوٹلی کو ہی نِہارے جا رہا تھا ۔ بیگم برابر والے کمرے کے دروازے سے جھانک رہی تھیں ۔ میں نے اشارے سے انہیں دو کپ چائے بنا کر لے آنے کو کہا ۔ چائے پینے کے بعد میں نے ماحول کے بوجھل پن کو دور کرنے کے لئے گھنشیام سے مخاطب ہو کر مزاحیہ انداز میں دریافت کیا ۔۔۔۔ ” ارے بھائی ! میرے لئے کون سا تحفہ لے کر آئے ہو ؟
اس نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے بمشکل پوٹلی کی گرہ کھولی ۔ اندر جو بھی شئے تھی وہ اخبار میں لپٹی تھی ۔ اس نے اخبار کی تہیں ہٹائیں ۔ سامنے سرخی مائل اینٹ کا ایک بڑا سا ٹکڑا رکھا تھا ۔ میری متجسس نگاہیں اینٹ کے اس ٹکڑے پر مرکوز تھیں ۔ اینٹ کا یہ ٹکڑا نیا نہیں تھا بلکہ کسی بہت پرانی عمارت کا حصہ محسوس ہو رہا تھا ۔ گھنشیام نے لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں کہا ۔۔۔ ” اسلام ! تم اسے اپنے پاس رکھ لو ” ۔ میں نے کہا ۔۔ ” پہلے تم پوری بات بتاؤ ۔ اِس اینٹ کے ٹکڑے میں کون سی ایسی خاص بات ہے کہ تم نے اسے اتنی حفاظت سے رکھا ہوا ہے اور اس جان لیوا سرد ترین رات میں اسے میرے حوالے کرنے آئے ہو ؟
” یہ ۔۔۔۔ یہ اینٹ کا ٹکڑا نہیں میری بدنصیبی ہے ۔ اینٹ کے اس ٹکڑے نے میری زندگی کا سارا چین سکون چھین لیا ہے ۔ نہ میں جی پا رہا ہوں اور نہ صحیح سے مر پا رہا ہوں ۔ میرا جیون نرک بن چکا ہے ” ۔
کہتے کہتے گھنشیام زار و قطار رونے لگا تھا ۔ بیگم نے اسے پانی کا گلاس پیش کیا ۔ تھوڑی دیر بعد اپنے جذبات پر قابو پاتے ہوئے وہ یوں گویا ہوا ۔۔۔۔ ” اسلام ! تم اس بات سے واقف ہو کہ میرے دادا سورگیہ مدن لعل چودھری سمستی پور سے کم عمری میں ہی اپنے تاؤ کے ساتھ یہاں آ گئے تھے ۔ تمہارے پر دادا نے ترس کھاکر لکڑی کی ایک گُمٹی ( کٹگھڑا ) پورنیہ کچہری احاطہ میں لگوا دی تھی اور اس میں انہیں پان کی دوکان کھلوا دی تھی ۔ وہ ‘ چودھری پان بھنڈار ‘ دادا کے زمانہ سے آج تک کچہری میں قائم ہے ۔ دادا کے سورگ واسی ہو جانے کے بعد ایک عرصہ تک اسے میرے پتاجی چلاتے رہے ۔ تمہارے والد اور میرے پتاجی میں دانت کاٹے کی دوستی تھی ۔ اتفاق کی بات کہ مڈل اسکول میں تم بھی میرے ہم جماعت رہے ۔ ہم گاؤں سے روزانہ چھ سات کیلومیٹر دور شہر کے اسکول میں پڑھنے جایا کرتے تھے ۔ دوستوں کے ساتھ راستہ کب اور کیسے کٹ جاتا پتہ ہی نہیں چلتا تھا ۔ میں آٹھویں جماعت میں فیل ہو گیا ۔ اُس زمانے میں پتاجی سخت بیمار ہو گئے تھے ۔ چودھری پان بھنڈار میں نے سنبھال لیا ۔ دوستوں کا ساتھ چھوٹ گیا ۔ تم بھی پڑھ لکھ کر بینک کے افسر بن کر باہر چلے گئے ۔ پھر سمے بدلا ، ماحول بدلا ، لوگ بدلے ، لوگوں کی سوچ میں پَری وَرتَن ہوا ۔۔۔۔۔ مجھے ایسے لوگوں کی صحبت ملی جو دن رات نفرت کی بھاشا بولتے تھے ، من کو اَشانت کرتے تھے ، بھاؤناؤں کو ہر دم بھڑکاتے رہتے تھے ۔ میں اَگیانی ان کی باتوں میں آ گیا اور کَرسیوا میں چلا گیا ” ۔
میں نے حیرت ، دُکھ اور ناپسندیدگی سے پیدا شدہ بےچینی کے زیر اثر پہلو بدلتے ہوئے کہا ۔۔۔ ” گھنشیام چودھری ! تم ایسا کیسے کر سکتے ہو ؟ تم تو اُس رادھے شیام چودھری کی اولاد ہو جس نے دیش کے بٹوارے کے سمے بیچ بستی میں کھڑے ہو کر یہ اعلان کیا تھا کہ اگر گاؤں کے کسی مسلمان کا ایک بال بھی بیکا ہوا یا کسی مسلم خاندان کو گاؤں چھوڑ کر جانے پر مجبور ہونا پڑا تو وہ اپنے جسم پر مِٹّی کا تیل چھڑک کر آتم داہ ( خود سوزی ) کر لے گا ۔ اُن دنوں دیش کے بہت سارے علاقوں میں فسادات برپا ہوئے لیکن ہمارے گاؤں میں ایسا کچھ بھی نہیں ہوا کیونکہ تمہارے پتاجی اور دیگر ہندو رات رات بھر جاگ کر مسلم محلے کی پہرہ داری کیا کرتے تھے تاکہ باہر کے شرپسند عناصر کو منھ توڑ جواب دیا جا سکے ۔ تمہیں کس مسلمان سے کون سی ایسی تکلیف پہنچی کہ تم نے ایسا فیصلہ کر لیا ؟ "
” میری مت ماری گئی تھی ۔ مجھے مسلمانوں سے کبھی کسی طرح کی شکایت نہیں رہی ، آج بھی نہیں ہے ۔ مگر مجھے سمجھایا گیا تھا کہ کسی مسلمان بادشاہ نے مندر توڑ کر وہاں مسجد بنوائی تھی ۔ مجھے وہاں پہنچ کر فقط اپنا احتجاج درج کروانا تھا لیکن بھیڑ تو بھیڑ ہوتی ہے ۔۔۔۔۔ بھیڑ نے مسجد پر حملہ بول دیا ۔ پھاوڑے اور کدالیں چلنے لگیں ۔ میرے بھیتر بھی جوش بھر گیا ۔ میں نے بھی پھاوڑا سنبھال لیا اور ایک دیوار سے چند اینٹیں الگ کرڈالیں ۔ انہیں اینٹوں میں سے ایک ٹکڑا بطور یادگار گھر لے آیا تھا جو اس وقت تمہارے سامنے موجود ہے" ۔
” تو پھر تم اپنی بہادری کا یہ تمغہ مجھے کیوں دینے آ گئے ؟
"اصل مسئلہ تو یہی ہے اسلام ! ۔۔۔۔ میں نے اس بات کی جانکاری کسی کو بھی نہیں دی تھی کہ میں کہاں اور کس مقصد سے جا رہا ہوں ۔ پَتنی سے بھی یہی کہا تھا کہ سمستی پور اپنے آبائی گاؤں جا رہا ہوں ۔ لیکن میں کر سیوا میں چلا گیا ۔ گاؤں واپس آیا تو راستے میں ہی یہ اطلاع مل گئی کہ پتاجی کا دیہانت ہو گیا ہے ۔ جیون کے اَنتِم چَھنوں میں وہ بار بار صرف مجھے ہی تلاش کر رہے تھے مگر میں اَبھاگا کرسیوک بنا گھوم رہا تھا اور کر سیوک بھی کیسا جس کے کروں ( ہاتھوں ) نے سیوا کا کوئی کام کیا ہی نہیں بلکہ اس کے برعکس مسجد جو الله کا گھر ہے ، اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ۔ بہرحال میں نے اینٹ کے اس ٹکڑے کو اخبار اور کپڑے میں لپیٹ کر اپنے بکس میں چھپا دیا تھا ۔ لیکن ایک دن میری پتنی کی نظر بالآخر اس پر پڑ ہی گئی اور مجھے تمام باتیں اُس سے سچ سچ بیان کرنی پڑیں ۔ وہ بہت دُکھی ہو گئی ۔ تین دنوں تک کچھ کھایا پیا نہیں ۔ بار بار بس ایک ہی بات دوہراتی تھی کہ تم مہاپاپ کے بھاگی دار بنے ہو ۔ اوپر والے کی لاٹھی میں آواز نہیں ہوتی ۔ میں تناؤ میں رہنے لگا تھا ۔ سوچا قبرستان میں جاکر کسی ٹوٹے پھوٹے قبر کے پاس اسے پھینک دوں ۔ پرانی اینٹوں کے درمیان کھَپ جائے گا ۔ وہاں اکثر سناٹا ہی چھایا رہتا ہے مجھے کون دیکھ پائے گا ؟ لیکن ہمت جواب دے گئی ۔ پھر سوچا کہ کچہری جاتے سمے سَورا ندی میں جَل سَمادھِی دے دوں ۔ کئ دنوں تک جھولے میں رکھ سائیکل کے ہینڈل میں لٹکا کر کچہری آنا جانا کرتا رہا ۔ سَورا پُل کے ریلنگ کنارے سائیکل لگا کر سوچا جھولا سمیت نیچے گہرے پانی میں پھینک دوں ، مگر نہ جانے کون سی ایسی انجانی اَدِرشیہ شَکتی ( نظر نہ آنے والی طاقت ) مجھ پر حاوی ہو جاتی کہ میرے ہاتھ پاؤں جواب دینے لگتے ۔ دوکان پہنچ کر بھی میرے ہاتھوں میں رعشہ سا رہتا اور میں صحیح طور پر پان میں چونا کتھا لگا پانے سے بھی خود کو قاصر پاتا ۔ دن کچھ یوں ہی گزر رہے تھے کہ میرے جیون کا سب سے بھیانک حادثہ میری نگاہوں کے سامنے رونما ہو گیا جس میں بڑا بیٹا اجئے اور بہو دونوں سڑک حادثے کا شکار ہو کر دنیا سے رخصت ہو گئے ۔ صرف دو سالہ پوتی زندہ بچ پائ تھی ۔ یہ حادثہ ایسا جانکاہ تھا کہ اس کے صدمے کی تاب نہ لاکر چھ ماہ بیتتے بیتتے میری پتنی بھی پرلوک سدھار گئی"۔
وہ پھر ہچکیاں لینے لگا تھا ۔ میں نے اس کی جانب پانی کا گلاس بڑھایا اور اسے تسلّی دینے کو کہنے لگا ۔۔۔۔ ” تمہارے من میں بہت سارے واہمے رچ بس گئے ہیں ۔ تمہارے ساتھ جو بھی واقعات اور حادثات پیش آئے وہ ہماری زندگی کے روزمرہ معمولات میں سے ہیں ۔ تم نے خواہ مخواہ انہیں اینٹ کے اِس ٹکڑے سے جوڑ دیا ہے ۔ تم نے مسجد کی توڑ پھوڑ میں حصّہ لیا یہ بات اصولی طور پر بہت غلط ہے لیکن ۔۔۔۔۔ "
” میں نے الله کا گھر توڑا تھا ، اُس نے میرا گھر توڑ دیا ۔۔۔۔۔ کسی مسلمان بادشاہ نے مندر توڑ کر مسجد بنوائی تھی یا نہیں مجھے نہیں معلوم ۔ مسجد ٹوٹے برسوں بیت گئے اب تک عدالت بھی اس بات کا فیصلہ نہ کر پائی لیکن اگر کچھ سو سال پہلے مندر توڑ کر مسجد بنائی گئی تھی تو وہ بھی صحیح نہیں تھا اور میں تو مہاپاپ کا بھاگی دار بن ہی چکا ہوں ” .
” سنو گھنشیام ! مسجد کو یقیناً الله کا گھر کہا جاتا ہے لیکن اگر تم ایک نظر صرف پورنیہ سِٹی کی ویرانیوں پر ہی ڈال لو تو تمہیں صوبیداروں کے عہد کی دو ڈھائی سو سال پرانی کئ مسجدیں بالکل غیرآباد ، ٹوٹی پھوٹی اور نہایت خستہ حال پڑی مل جائیں گی ۔ کسی مسجد کے ٹوٹ جانے سے الله تعالیٰ بےگھر نہیں ہونے والا کیونکہ وہ تو ہر شئے سے بےنیاز ہے ۔ تمہارا سب سے بڑا پاپ یہ ہے کہ تم نے دنیا کی سب سے بڑی اور مضبوط جمہوریت کی نیو کھود ڈالی ۔ دنگے فسادات پہلے بھی دیش میں ہوا کرتے تھے لیکن تم نے بھیڑ کو ایک چہرہ عطا کر دیا ۔ اِس بھیڑ کے آگے قانون بےمعنی ، سرکاریں بےبس ، انتظامیہ لاچار ، عدلیہ خاموش ۔۔۔۔ اور آئندہ تم دیکھو گے کہ اس ملک پر بھیڑ کی حکومت ہوگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور کوئی کچھ بول نہیں پائے گا ، کچھ کر نہیں پائے گا ۔ ایک سیاہ دور کا آغاز ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس سیاہ دور کی افتتاحی تقریب کا حصّہ تم بن چکے ہو ” ۔
” میں سچّے دل سے پَرائشچِت کرنا چاہتا ہوں ۔
” پرائشچت کے لئے تم کیا کرنا چاہتے ہو ؟
” سنو اسلام ! مجھے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ گاؤں کی پرانی مسجد کی مرمت اور توسیع کا کام شروع ہونے والا ہے ۔ میں چاہتا ہوں کہ جب مسجد کی توسیع کا کام کیا جائے تو اس کی نیو میں اینٹ کے اِس ٹکڑے کو بھی شامل کر لیا جائے ۔ تم لوگوں کے علم میں یہ بات لا سکتے ہو کہ یہ اینٹ کہاں کی ہے اور تم تک کس طرح پہنچی ۔ میں گاؤں والوں سے معافی مانگ لونگا ۔ انہوں نے معاف کر دیا تو ٹھیک اور اگر نہ کیا اور صرف نفرت کے لائق ہی سمجھا تو بھی ٹھیک ۔۔۔۔۔۔۔ یہی میری سزا ہوگی اور اسی سے میرا پرائشچت پورا ہوگا ۔
” پاگل مت بنو ۔ دیش اور گاؤں کے حالات اب پہلے جیسے نہیں رہے ۔ تمہاری بےوقوفی سے فساد پھیلنے کا خطرہ ہے ۔ تم نے کرسیوا والی بات چھپانے کی کوشش ضرور کی تھی لیکن لوگوں تک اس بات کی بھنک کسی نہ کسی طور پر پہنچ چکی تھی کہ تم گاؤں جانے کا بہانہ کر کرسیوا میں شامل ہوئے ہو اور اب ٹھوس ثبوت حاصل ہوجانے کے بعد حالات کون سا رخ اختیار کر لیں گے کہہ پانا مشکل ہے ۔
دوسری بات یہ کہ اب میرے رٹائرمنٹ کا وقت قریب ہے ۔ اسی بنیاد پر میرا تبادلہ یہاں ہوا تھا ۔ لیکن کل میرے پروموشن کی چٹھی آ گئی ہے ۔ پروموشن کے ساتھ ہی اس ریجن سے باہر تبادلہ بھی ۔ اب ملازمت سے سبکدوشی کے بعد ہی گاؤں میں میری واپسی ممکن ہو پائے گی ۔ لہٰذا میں کسی بھی قیمت پر تمہارے اس اینٹ کے ٹکڑے کو قبول نہیں کر سکتا ” ۔
اس واقعہ کے چار پانچ دنوں بعد ہی میں اپنا مکان حسب سابق چچازاد بھائیوں کے حوالے کر مع فیملی مظفر پور کے لئے روانہ ہو گیا ۔ تین چار ماہ بعد گاؤں سے میرا ایک بھتیجا اپنے کسی ذاتی کام سے مظفر پور آیا تو شب بسری کے ارادے سے میرے فلیٹ پر وارد ہوا ۔ رات کے کھانے پر اُس نے ایک بڑی دلچسپ اور عجیب و غریب خبر سنائی ۔ کہنے لگا ۔۔۔ ” انکل ! آپ کے مکان اور چودھری ٹولہ کے درمیان تالاب کے پاس گھنشیام انکل کی جو خالی زمین تھی اس پر گھنشیام انکل مسجد بنوا رہے ہیں ” –
” مسجد یا مندر ؟
” نہیں انکل ! مسجد ہی تعمیر ہو رہی ہے ۔ چِمنی بازار کا راج مستری ثناءاللہ شیر شاہ آبادی اور اسی گاؤں کے مزدور کام کر رہے ہیں ۔
” کیا مسلمان راج مستری اور مزدور مندر کی تعمیر کا کام نہیں کر سکتے ؟
” ایسی بات نہیں ہے ۔ چار پانچ دنوں قبل پھٹکن چچا نے ازراہ مذاق گھنشیام انکل سے یہ کہہ دیا کہ تمہاری اس مسجد میں کون مسلمان نماز پڑھنے آئے گا ؟ اس بات پر گھنشیام انکل بالکل بھڑک اٹھے اور کہا کہ زمین میں نے اپنی خوشی سے مسجد کو دان میں دی ہے اور میرے پاس کوئی سود بیاج اور حرام کی کمائی نہیں ہے ۔ جو بھی پیسے مسجد میں لگ رہے ہیں میری محنت کی کمائی کے ہیں ، مسلمان آخر اس میں نماز کیوں نہیں پڑھیں گے ؟ پھٹکن چچا ان کے تیور دیکھ کر خاموش ہو گئے ” ۔
میں بھی خاموش رہ گیا ۔ سمجھ گیا تھا مسجد بنوانے کا آئیڈیا اس کے دماغ میں کہاں سے آیا تھا ۔
ایک سال چار ماہ دیکھتے دیکھتے پنکھ لگا کر اڑ گئے ۔ ملازمت سے سبکدوشی کے بعد میں نے گاؤں میں ہی رہنے کا فیصلہ کر لیا تھا ۔ بیٹی کی شادی ہو چکی تھی ، بڑا بیٹا دبئی میں ملازمت کر رہا تھا اور چھوٹا میڈیکل کی پڑھائی ۔
مسجد تو گھنشیام نے واقعی بہت خوبصورت بنوائی تھی ۔ فی الحال میں نے راستے سے گزرتے ہوئے صرف باہر سے ہی دیکھا تھا ۔ ابھی میرے دن گاؤں والوں سے ملنے ملانے اور موروثی جائداد کے کاغذات کا معائنہ کرنے میں ہی گزر رہے تھے ۔
ایک روز تقریباً سوا تین بجے کوئی نوجوان مجھ سے ملنے آیا ۔ صورت شکل کچھ جانی پہچانی سی لگ رہی تھی ۔ پوچھا تو اس نے کہا وجئے چودھری ہوں ۔
میں نے تعجب سے کہا ۔۔۔ ” ارے وجئے ! تو اتنا بڑا ہو گیا ہے ؟ بول کیا بات ہے ؟
” پتاجی سخت بیمار ہیں ۔ آپ کو یاد کر رہے ہیں ۔
میں اس کے ہمراہ اس کے گھر پہنچا ۔ گھنشیام واقعی سخت علیل نظر آیا ۔ سوکھ کر ہڈی چمڑا ایک ہو رہا تھا ۔ میں اس کے بستر کے قریب کرسی پر بیٹھ گیا ۔ اس نے اپنے رعشہ زدہ ہاتھوں سے میرے دونوں ہاتھ تھام لئے ۔ اس کی آنکھوں سے اشک جاری ہو گئے تھے ۔ میں نے اپنے رومال سے اس کے بہتے آنسوؤں کو خشک کیا ۔ وہ تھرتھراتی سی آواز میں مجھ سے گویا ہوا ۔۔۔ ” دوست اسلام ! میرا ایک کام کر دوگے ؟ ” ۔ اس کی گرفت میرے ہاتھوں پر پہلے سے مزید سخت ہو گئی تھی ۔
” بولو ۔۔۔ کیا بات ہے ؟
” میرا آخری وقت قریب آ چلا ہے ۔ میں نے مسجد بنوائی مگر آج تک اس مسجد کے مینار سے اذان کی آواز نہیں بلند ہوئی ۔ تم ایک بار ۔۔۔۔۔ صرف ایک بار اذان دے دو ۔ اذان کی آواز سن کر شاید میری بےچین آتما کو قرار آ جائے ۔
” دیکھو گھنشیام ! تم بالکل چنگے ہو جاؤگے ۔ فکر مت کرو اور اب تو میں بھی رٹائر ہوکر آ گیا ہوں ۔ اب کرنا بھی کیا ہے ؟ ۔۔۔۔ دونوں دوست پھر پہلے کی طرح ہی مٹر گشت کیا کریں گے ۔
” نہیں اسلام ! ۔۔۔۔۔۔ اب کوئی اُپائے نہیں ۔۔۔۔ میری آنتوں میں کینسر پھیل چکا ہے ۔ کئ ماہ پہلے ہی ممبئی کے ڈاکٹروں نے بھی جواب دے دیا ہے ۔ تم صرف اذان دے دو ۔۔۔۔۔
” اذان میں دے دوں گا ۔ عصر کی نماز کا وقت تقریباً ہو ہی چلا ہے ۔
اس کے پاس سے اٹھ کر میں نو تعمیر شدہ مسجد کے پاس آیا ۔ آہنی گیٹ کھول کر اندر داخل ہوا تو طبیعت خوش ہو گئی ۔ مسجد کے صحن میں پوری اچھی صفائی نظر آئ گویا غیر آباد رہنے کے باوجود روزانہ اس کی صفائی کا اہتمام کیا جاتا رہا تھا ۔ صحن کے کنارے ٹیوب ویل نصب تھا ۔ دیوار کے ساتھ بنے خانوں میں المونیم کے کئ بدھنے قطار سے رکھے تھے ۔ میں نے وضو کیا ۔ مسجد کے اندر داخل ہوا تو مائک ، بیٹری ، انورٹر تمام چیزیں موجود تھیں ۔ گھڑی میں وقت دیکھ کر اذان دی ۔ پندرہ منٹ انتظار کیا لیکن دوسرا کوئی نمازی نہیں آیا ۔ میں نے نماز ادا کی ۔ میں کوئی پنج وقتی نمازی نہ تھا ۔ جمعہ کی نماز ضرور پڑھ لیتا تھا اور گاہے فجر اور عشاء کی نمازیں گھر میں ہی ادا کر لیا کرتا تھا لیکن جب میں نے نماز کے بعد دعا میں اپنے ہاتھ اٹھائے تو مجھ پر ایک عجیب سی کیفیت طاری ہو گئی تھی ۔ آنکھوں سے اشکوں کا سیلِ رواں جاری تھا اور میں کہہ رہا تھا ۔۔۔۔ ” اے اللہ ! اے تمام جہانوں اور ناجہانوں کے مالک تو لاشریک ہے ، لاثانی ہے ، لافانی ہے ، لامحدود ہے ، اَپار ہے ، اَنَنت ہے ۔۔۔۔۔ تیری لامحدود / اننت ہستی کی طرح تیرے نام بھی انگنت اور بے شمار ہیں ۔ ہم تجھے بہت کم ناموں سے جانتے ہیں ۔ کائنات کا ذرّہ ذرّہ تجھے کس کس نام سے پکارتا ہے ۔ تتلیاں ، مچھلیاں اور چڑیاں تجھے کس کس نام سے یاد کرتی ہیں ۔ چیونٹیاں اور دیگر کیڑے مکوڑے کس کس نام سے تجھے آواز دیتے ہیں ہمیں نہیں معلوم ۔ لیکن تیرے مختلف ناموں کے لئے کوئی آپس میں نہیں لڑتا ۔ بس یہ ہم نادان انسان ہیں جو تیرا نام لے کر تیرے ہی بندوں پر ظلم و ستم ڈھاتے ہیں ، فساد برپا کرتے ہیں ، انسانیت کا قتلِ عام کرتے ہیں۔
اے میرے مولا ! ہم انسانوں کو سیدھی سچی راہ دکھا ۔ ہم گنہگار ہیں ، ہمارے گناہوں کو معاف فرما ۔ ہم دکھی اور شرمندہ ہیں ۔۔۔۔۔ ہم پرائشچت کرنا چاہتے ہیں ، ہمارے پرائشچت قبول فرما ۔ آمین !!
من اشانت تھا ، دکھی تھا ۔ طاق پر دیکھا قرآن شریف موجود ہے ، اگربتّی اور دیاسلائ دھری ہے ۔ اگربتّی سلگائ اور قرآن مجید کی تلاوت میں مصروف ہو گیا ۔ تلاوت سے فارغ ہو کر مغرب کی اذان دی ، نماز پڑھی ۔ باہر نکلا تو وجئے کو مسجد کی سیڑھیوں پر بیٹھا پایا ۔ مجھے دیکھ کر وہ کھڑا ہو گیا اور دھیمی آواز میں بولا ۔۔۔۔ ” پتاجی چلے گئے ” ۔
” چلے گئے ؟ کس وقت ؟؟
” جس سمے آپ عصر کی اذان دے رہے تھے میں ان کے پاس کھڑا تھا ۔ اذان کی آواز سن کر ان کے ہونٹوں پر ایک انوکھی مسکراہٹ سی تیرنے لگی تھی ۔ ان کی تمام بےچینیاں ختم ہو گئی تھیں ۔ وہ بالکل شانت بھاؤ سے اذان کی آواز سنتے رہے پھر انہوں نے ایک ٹھنڈی سی سانس بھری اور پرماتما سے جا ملے ۔
” اب کیا پروگرام ہے ؟
” ابھی میں گاؤں جاکر تمام لوگوں کو خبر کر دیتا ہوں ۔ کل صبح دس بجے سَورا ندی کے تٹ پر ان کا داہ سنسکار کیا جائے گا ۔
دوسرے دن صبح نو بجے میں وجئے کے گھر پہنچا ۔ وہ گھر کے باہر تنہا بیٹھا نظر آیا ۔ میں نے اس سے دریافت کیا کہ کیا تمام تیاریاں مکمل ہو چکی ہیں اور محلے کے لوگ کہاں ہیں ؟ مگر وہ خاموش بیٹھا رہا ۔ مجھے اس کی خاموشی اور وہاں کا ماحول بڑا پراسرار لگ رہا تھا ۔ میں نے کئ دفعہ اپنا سوال دوہرایا تو اس نے بتایا کہ محلے کے لوگ لاش اٹھانے کو تیار نہیں ہیں ۔
” لیکن کیوں ؟
” گاؤں کے ہندو پتاجی سے مندر نِرمان کے لئے زمین مانگ رہے تھے ۔ منھ مانگی قیمت بھی دینے کو تیار تھے لیکن پتاجی نے اپنے خرچ سے اُس زمین پر مسجد بنوا دیا ۔ اس لئے ہندؤں نے ان کا بَہِسکار ( بائیکاٹ ) کر دیا ۔ میں نے رات بھر ان کی خوشامد کی ہے مگر کوئی تیار نہیں ۔ انکل ! اب آپ ہی اپنے محلے سے دو چار لوگوں کو بلوا لیجئے ۔
” ٹھیک ہے ۔۔۔۔۔ دیکھتا ہوں ” ۔
یہ کہہ کر میں نے مسلم محلے کی راہ لی ۔ دو گھنٹے بعد مجھے بھی خالی ہاتھ ہی واپس آنا پڑا ۔ کسی کرسیوک کی لاش کوئی مسلمان بھلا اپنے کاندھوں پر کیوں اٹھائے ؟
لاش اب تک ویسی ہی پڑی ہے !!!

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے