ابو مصنف

ابو مصنف

انشائیہ

محمد ریحان، جامعہ ملیہ اسلامیہ

پچھلے دنوں اردو کے ایک لحیم شحیم اور توانا ادیب سے میری ملاقات ہوئی۔ دوران تعارف انہوں نے اپنا نام بڑے ہی فخر سے لیکن بڑے ہی ادبی انداز میں "ابو مصنف” بتایا۔ مجھے یہ نام سن کر کچھ زیادہ حیرت نہیں ہوئی، اس طرح کے نام تو اکثر میری سماعت سے ٹکراتے رہتے ہیں۔ ایک صاحب ہمارے پڑوس میں رہتے ہیں ان کا نام ہی”حیرت بن تعجب” ہے۔ ایک دوسرے پڑوسی نے حیرت بن تعجب کو متحیر کرنے کی غرض سے اپنے لڑکے کا نام "واحد بن جمع” رکھ دیا۔ "حاضر بن غائب”، میرے تیسرے پڑوسی، کے بچے "واحد بن جمع” کی ٹانگ کھینچتے رہتے ہیں کہ "واحد بن جمع” کے والد واحد نہیں جمع ہیں۔ "واحد بن جمع” بھی خوب بذلہ سنج لڑکا ہے ۔ وہ "حاضر بن غائب” سے ایک ہی سوال پوچھتا رہتا ہے "تمہارے دادا جب "غائب” تھے تو تمہارے والد کی حاضری اس دنیا میں کیسے ممکن ہوئی؟”
جیسا کہ میں نے کہا کہ عجیب و غریب نام بارہا میری سماعت سے ٹکراتے رہتے ہیں اس لیے میرے لیے حیرت کی کوئی بات نہیں۔ البتہ آپ یہ حقیقت جان کر ششدر رہ جائیں گے کہ اتنے عجیب و غریب ناموں سے میری سماعت متصادم ہوتی رہی لیکن نہ تو میری سماعت کبھی زخمی ہوئی اور نہ ہی کبھی کسی کا نام خراب ہوا۔ مجھے ایسے ایسے عجیب ناموں سے واسطہ پڑا ہے کہ اب کوئی بھی عجیب نام عجیب نہیں لگتا، بلکہ حالت یہ ہو گئی ہے کہ اب سیدھے سادے اور سمپل نام ہی عجیب و غریب لگتے ہیں۔ آپ خود دیکھیں؛ ڈبلو، ٹنکو، رنکو لڈو، کاجو وغیرہ کتنے سمپل اور میٹھے نام ہیں لیکن مجھے یہی نام عجیب و غریب اور کھٹے لگتے ہیں۔
ہاں، تو میں آپ سے یہ کہہ رہا تھا کہ مجھے ابو مصنف نام بالکل بھی عجیب نہیں لگا۔ ابھی تعارف کا سلسلہ چل ہی رہا تھا کہ اسی بیچ مجھے شک ہوا کہ کہیں مجھ سے سننے میں کوئی غلطی تو نہیں ہو گئی!!! یعنی ایسا تو نہیں کہ انہوں نے اپنا نام "ابو منصف” بتایا ہو اور میں نے "ابو مصنف” سن لیا ہو۔ اپنی سماعت پر تو مجھے یقین رہتا ہے لیکن کان کا کیا بھروسہ کب کوئی کوا اسے لے اڑے۔ میں نے اپنے دونوں کان چھو کر دیکھے، دونوں صحیح سلامت تھے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ میں نے بالکل صحیح نام سنا تھا لیکن میں پھر بھی دوبارہ ان کا نام پوچھ بیٹھا۔ دوسری مرتبہ بھی انہوں نے اپنا نام "ابو مصنف” ہی بتایا اور اس بار لفظ "مصنف” کے حرف "ص” پر اس قدر زور دیا کہ اس کے تین ٹکڑے کردیئے۔ حرف "ص” تین ٹکڑے میں بالکل "ش” کی آواز میں ادا ہوا۔ مجھے لگا شاید آج کل جس طرح مصنف بننے کا خمار ہر کسی پر سوار ہے اور اس چکر میں جیسی تیسی کتاب لکھ کر لوگ صاحب تصنیف بنے پھر رہے ہیں، کہیں انہوں نے بھی اپنے آپ کو صاحب تصنیف کہلوانے کا کوئی نیا طریقہ نہ ایجاد کر لیا ہو۔ یعنی اپنے فرزند کا نام مصنف رکھ دیا ہو اور اس نسبت سے اپنے آپ کو "ابو مصنف” کہہ رہے ہوں۔ لیکن جب انہوں نے نہایت ہی غمگین لہجے میں یہ بتایا کہ انہوں نے اب تک شادی نہیں کی ہے بلکہ ہوئی نہیں ہے تب مجھے لگا شاید وہ کثرت سے کتاب لکھنے اور لکھنے سے زیادہ چھپنے اور چھپوانے کے عادی ہوں گے۔ ہر مہینے کوئی ناول لکھ مارتے ہوں گے یا کم از کم ہر ہفتے ترتیب کا ہی فریضہ انجام دیتے ہوں گے۔ ایسے بھی ان دنوں اردو کی ادبی دنیا میں ترتیب کا چلن کچھ زیادہ ہی عام ہے۔ لیکن تھوڑی دیر بعد یہ بھی انکشاف ہوا کہ انہوں نے اب تک نہ تو کوئی کتاب لکھی ہے اور نہ ہی کوئی مضمون تحریر فرمایا ہے۔ میں اپنے آپ کو مزید حیرانی اور پریشانی میں نہیں ڈال سکتا تھا اس لیے میں نے ان سے ہی یہ پوچھنا بہتر سمجھا کہ ان کے والد نے ان کا نام "ابو مصنف” کیوں رکھا ہے؟ "ابو مصنف” نے بتایا کہ ان کے والد نے تو ان کا نام "مذکر بن مونث” رکھا تھا کیونکہ وہ تحریک نسواں کے زبردست حامی تھے۔ "ابو مصنف” نام تو میں نے خود وضع کیا ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ کو نام بدلنے کی ضرورت نہیں تھی۔ آج تحریک نسواں کو آپ جیسے لحیم شحیم انسان کی حمایت کی سخت ضرورت ہے۔ اپنا نام وضع کرنے کی وجہ پوچھی تو انہوں نے اردو کی تاریخ ہی بتانا شروع کردی۔ دوران "تاریخ گوئی” نہ کسی نظم نگار کو چھوڑا نہ کسی نثر نگار کو۔ کبھی شمالی ہند جاتے تو کبھی جنوبی ہند کا دورہ کرتے۔ کبھی دلی کی سیر کرتے تو کبھی لکھنؤ تفریح پر نکل جاتے۔ کبھی کسی ناول کا پوسٹ مارٹم کرتے تو کبھی کسی شاعر کے مجموعے کی بے رحم سرجری۔ ان کی باتوں سے ایسا لگا کہ ان کا مطالعہ کافی وسیع بلکہ عریض بھی ہے۔ کیونکہ ان کی آواز تقریباً سو میٹر کا احاطہ کر رہی تھی۔ جب انہوں نے اردو کی ساری داستان عروج و زوال یا زوال و عروج کہہ ڈالی تب آخر میں بڑے ہی فخریہ اور طنزیہ دونوں کے ملے جلے انداز میں کہا کہ اردو میں اب تک معدودے چند کے علاوہ کوئی اہم کتاب نہیں لکھی گئی۔ وہ چند کتابیں جنہیں ہم اور آپ اہم اور غیر معمولی سمجھتے ہیں اگر وہ نہیں لکھی گئی ہوتیں تو آج میں لکھتا۔ اور جو ادیب ہیں اور جن کو واقعی میں ادیب کہا جا سکتا ہے ان کے خیالات بالکل میرے ہی خیالات ہیں۔ اس طرح جو اہم کتابیں ہیں ایک طرح سے ان کا مصنف میں ہوا اور جو کتابیں اب لکھی جا رہی ہیں در اصل میری انہیں کتابوں کو سامنے رکھ کر لکھی جا رہی ہیں جو میرے ہی ہم خیال مصنف نے مجھ سے پہلے لکھ ماری تھی، اسے ایک طرح کا سرقہ کہہ لینے میں کوئی قباحت نہیں۔ لہذا میں اپنے آپ کو ” ابو مصنف” کہہ سکتا ہوں۔ ان کی بات سن کر مجھے تھوڑی دیر کے لیے ایسا لگا جیسے میں بھی اپنے آپ کو ابو مصنف کہہ سکتا ہوں۔ لیکن پھر یہ خیال بہت جلد رفع ہو گیا بلکہ میں نے خود ہی دفع کر دیا، کیونکہ میں اس حقیقت سے واقف تھا کہ آج کل تخلق کار سے زیادہ اہمیت تنقید نگار کو دی جا رہی ہے۔ ویسے بھی "ابو مصنف” سے زیادہ "ابو نقاد” بولنے میں زیادہ بھاری بھرکم لگ رہا ہے۔۔ بہر کیف! مجھے "ابو مصنف” کی باتوں سے اتفاق تھا، لیکن چونکہ اردو کے طالب علم ہونے کا ثبوت دینا تھا اس لیے میں نے ان کو "ابو مصنف” کی حیثیت سے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ میں نے بنا کسی لاگ لپیٹ کے ان سے کہا کہ شاید آپ کے مطالعے میں کمی رہ گئی ہے ورنہ اردو میں آج ایسی ایسی کتابیں لکھی جا رہی ہیں کہ اس سے پہلے کبھی نہیں لکھی گئیں۔ آج بھی بڑے بڑے ناول نگار موجود ہیں اور ایسے ایسے ناول لکھ رہے ہیں کہ جن کو نہ وہ خود سمجھ پاتے ہیں اور نہ ہی کوئی قاری۔ شاعری ایسی ہو رہی ہے کہ جس کے سامنے نثر چارو خانے چت ہو جائے۔ نثر ایسی خوبصورت اور بناؤ سنگھار کے ساتھ صفحہ قرطاس پر نمودار ہو رہی ہے کہ دوسری زبانوں کے الفاظ اس خوبصورت نثر کا حصہ بننے کے لیے اپنی اپنی زبان چھوڑنے پر آمادہ ہیں۔ اعلیٰ اور ادنیٰ قسم کے ایسے ایسے نقاد پیدا ہو گئے ہیں کہ وہ معمولی سی کتاب کو اعلیٰ اور اونچی سطح کی کتاب کو سطحی کتاب بنا پڑھے ثابت کردیتے ہیں۔ کیا یہ کوئی معمولی بات ہے؟؟؟ آخر والا استفہامیہ جملہ بول کر میں خاموش ہو گیا، کیونکہ مجھے احساس ہوا کہ میں جذباتی ہونے کے ساتھ ساتھ حقیقت پسند ہوتا جا رہا ہوں۔ مجھے یہ یقین ہو چلا تھا کہ اگر میں تھوڑی دیر تک مزید بولتا رہا تو آیا میں خود "ابو مصنف” ہونے کا دعویٰ کر دونگا یا پھر غیر ارادی طور پر "ابو مصنف” کو ہی بحیثیت "ابو مصنف” تسلیم کر لونگا، جب کہ میں نہیں چاہتا تھا کہ ایسا ہو۔ لہذا میں نے اپنی خاموشی میں ہی اپنی بھلائی سمجھی۔ میرے خاموش ہوتے ہی "ابو مصنف” نے ایک زوردار قہقہہ لگایا۔ بہت دیر بعد جب ان کا قہقہہ کافور ہوا تو بڑے معصوم اور ترس کھانے والے انداز میں "پڑھے لکھے” نقاد کی طرح میرے سارے دلائل و حقائق کو بچکانہ قرار دیکر مجھے اردو کے ابتدائی طالب علم کا خطاب دے دیا۔ انہوں نے ساتھ میں مشورہ بھی دے ڈالا کہ اردو ادب میں اب تک کیا ہوا ہے اور کیا ہو رہا ہے اس کو سمجھنا ہے تو مغربی ادب کا مطالعہ کریں۔ عام طور پر آپ کو دو طرح کے لوگ مشورہ دیتے ہیں، ایک وہ جو آپ سے بہت زیادہ علم رکھتے ہیں اور دوسرے وہ جو آپ سے بہت زیادہ کم علم رکھتے ہیں۔ "ابو مصنف” کے متعلق میں یہ یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ ان کو کس زمرے رکھوں۔ بہر کیف! وہ مشورہ دیکر ایک بار پھر اپنے آپ کو "ابو مصنف” ثابت کرنے کے لیے اپنے ضخیم مطالعہ کا بوجھ مجھ پر ہلکا کرنے لگے۔ ضخیم مطالعہ اس لیے لکھا کیونکہ دوران تعارف انہوں نے ہی بتایا تھا کہ ان کا مطالعہ کافی ضخیم ہے۔ میرے اعتراض کرنے پر اس کی وضاحت یہ کی تھی کہ انہوں نے کافی ضخیم ضخیم کتابوں کا مطالعہ کیا ہے۔ میں نے جب ازراہِ مذاق ان کی ضخیم صحت کو ان کے ضخیم مطالعہ کا نتیجہ قرار دیا تو وہ مسکرا کر فلسفیانہ انداز میں بولے "ہماری شخصیت پر ہر چیز اثرانداز ہوتی ہے اور ہمارا جسم ہماری شخصیت کا ہی حصہ ہے۔” بہر کیف! "ابو مصنف” یہ کوشش کرتے رہے کہ میں ان کو بحیثیت "ابو مصنف” تسلیم کر لوں اور میں ان کو "ابن مصنف” کے طور پر بھی قبول کرنے سے قاصر رہا کیونکہ "ابن مصنف” تسلیم کر لینے کی صورت میں "ابن صفی” کے قریب پہنچ جانے کا خدشہ لاحق تھا۔ بالآخر وہ مجھ سے ناراض ہو گئے اور دبی ہوئی ہوئی دھیمی آواز میں یہ بڑبڑاتے ہوئے دوسری طرف نکل گئے کہ سب اردو والے ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔ میں یہ سوچ کر خوش ہو گیا کہ میرے اندر بھی دیگر نقادوں کی طرح "تنقیدی صلاحیت” کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ لیکن بعض دفعہ اکیلے میں یہ سوچتا ہوں کہ کیا "ابو مصنف” اتنے زیادہ غلط تھے؟؟؟

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے