انتظار

انتظار

ایس معشوق احمد
کولگام، کشمیر، ہند

زندگی میں کوئی فرد واحد اور مرد مجاہد اگر کچھ کرتا ہے تو وہ فقط انتظار ہے۔ بچہ اس انتظار میں سارا بچپن گزار دیتا ہے کہ وہ جوان ہوگا، جوان اس انتظار میں ہے کہ کب دلہا بنے گا اور دلہا بننے کے بعد باپ بننے کے انتظار میں بےقرار اور بے چین دنوں کو گنتا رہتا ہے۔ بیمار بھی حالت انتظار میں ہے کہ وہ شفا یاب ہوکر زندگی کی وادیوں میں پھر سے گھوم پھر کر لطف کشید کرے گا۔ پریشانی میں مبتلا شخص خوشی اور سکون کے انتظار میں پل پل اور گھڑیاں گن گن کر جی رہا ہے۔ یہاں تک کہ قبر بھی انسان کے انتظار میں باہیں پھیلائے بیٹھی ہے۔ زندگی جینے اور آگے بڑھنے کی واحد وجہ انتظار ہے۔ انتظار سے ہم خوشی اور غم، سکون اور بے سکونی، الجھن، بے چینی اور مختلف وسوسوں کا شکار ہوتے ہیں۔ مرزا کہتے ہیں کہ سب سے زیادہ وسوسوں کا شکار بیماری میں مبتلا اور محبوبہ کا انتظار کرنے والا شخص ہوتا ہے۔
سرکاری دفاتر ہوں یا اسپتال صبح سے شام تک وہاں انتظار ہی کرایا جاتا ہے۔ دفاتر میں صاحب اور اسپتالوں میں ڈاکٹر کا انتظار کرنا ہی پڑتا ہے کہ اس کے سوا چارہ نہیں۔ کھانستے ہوئے عمر رسیدہ اشخاص، جوان خواتین، دودھ پیتے بچے، پیر بھاری خواتین، تکلیف میں مبتلا کراہتے بیمار، زخمی مریض، پریشان مائیں اور ہنستے بچے سارے حالات انتظار میں بس دروازے کو تکتے ہیں کہ کب ڈاکٹر آئے اور ان کے قابل رحم حالات اتنے بدل جائیں کہ انھیں اطمینان ہو کہ ڈاکٹر آگئے ہیں اور اب امید ہے کہ ان کے درد میں افاقہ ہوجائےگا۔ مرزا کہتے ہیں کہ اسپتالوں میں انتظار گاہ کا واحد اور اکلوتا مقصد یہی ہے کہ نہ آنے والے ڈاکٹر کا انتظار کر کر کے مریض تھک ہار کر گھر جائیں۔ ہمارے ہاں چند ہی لوگ انتظار کرتے ہیں باقی تو جلد بازی کے مقابلوں میں حصے لینے کو آئے ہیں۔ ماں اپنے گم شدہ لخت جگر کا انتظار شدت سے کرتی ہے۔ اس کی امید کی ناؤ ڈوبتی نہیں ہاں کبھی کبھار ہچکولے ضرور کھاتی ہے۔ گم شدہ بیٹے کے انتظار میں گھل گھل کر دن گزارتی ہے پر انتظار کرنا نہیں چھوڑتی۔ تڑپتی، روتی بسورتی ہے لیکن منتظر رہتی ہے کہ شاید فراموشیدہ راہ راست پر آئے۔ مسافر سفر شروع کرنے سے پہلے انتظار کرتے ہیں اس ٹرین اور ںبس کا جو پہلے ہی کچھا کھچ بھری ہوئی ہوتی ہے اور جس میں تل دھرنے کی بھی جگہ نہیں ہوتی۔ گاڑیوں کی افراط ہو گئی ہے اور ہر گھر میں دو چار گاڑیاں موجود ہیں۔ مرزا کہتے ہیں کہ لوگوں میں انتظار کرنے کا مادہ اور قوت ختم ہو گئی ہے. بعض باغیرت لوگ جب انتظار کرتے کرتے تھک جاتے ہیں تو جذبۂ جلد بازی انھیں تب تک چین سے بیٹھنے نہیں دیتا جب تک وہ اپنی گاڑی نہیں لاتے اور یوں انتظار کرنے کی کیفیت اور لذت سے وہ محروم ہوجاتے ہیں۔ مسافر پہلے جس شدت سے ٹرین اور بس کا انتظار کرتے تھے اسی شدت اور جذبے سے ہمارے ہاں بے شغل کام اور روزگار کا انتظار کرتے ہیں۔ یہ انتظار کبھی ختم نہیں ہوتا اور یہ بے روزگار برسر روزگار بھی نہیں ہوتے۔ سرکاری نوکری کے ملنے اور اچھی بیوی پانے کے انتظار میں بعض لوگ تو عدم سدھار گئے۔ مرزا کہتے ہیں کہ اچھی بیوی اور سرکاری نوکری قسمت والوں کو ہی ملتی ہے۔
انتظار ایک کیفیت کا نام ہے جو لذت اور لطف کے ساتھ ساتھ کرب اور رنج میں مبتلا کر دیتی ہے۔عاشق محبوب کے انتظار میں گھڑیاں گنتا رہتا ہے اور رات کی تاریکی دن کے اجالے کا انتظار کرتی ہے۔صبح پھر رات کے انتظار میں اپنی ساعتیں گزارتی ہے۔ یوں ہی دن رات میں بدل جاتا ہے اور رات دن میں، سارا کھیل انتظار کا ہی ہے۔ راہ تکنا اور انتظار کرنا عاشقوں کی قدیم ریت ہے۔ عاشق اپنے محبوب کا انتظار اور وصل کی خواہش میں پل پل مرتا اور لمحہ بہ لمحہ تڑپتا ہے۔ نہ صرف محبوب کے انتظار میں تڑپتا، ترستا اور آہیں بھرتا ہے بلکہ روتا بسورتا، اشک بہاتا اور آہ و آزاری کرتا ہے۔ جب وصال نصیب میں نہ ہو تو غالب کو یاد کرتا ہے اور دہراتا ہے کہ
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا
ایک عاشق کے لیے انتظار کی وہ گھڑیاں سب سے زیادہ مشکل ہوتی ہیں جب اس کے محبوب نے اسے آنے کا وعدہ کیا ہو اور وہ مقررہ جگہ اور وقت پر نہ پہنچ پائے. کچھ یک طرفہ عاشق ایسے بھی ہوتے ہیں جو راستے میں کھڑے اپنے محبوب کی ایک جھلک دیکھنے کے انتظار میں ہوتے ہیں جب کہ ان کی محبوبہ نے آنے کا کوئی وعدہ کیا ہوتا ہے، نہ یقین دہانی کی ہوتی ہے اور نہ ہی آنے کی امید دلائی ہوتی ہے۔ ان یک طرفہ عاشقوں کا تو موقف یہ ہوتا ہے کہ:
نہ کوئی وعدہ ،نہ کوئی یقین نہ کوئی امید
ہمیں تو تیرا انتظار کرنا ہے
ایسے بھی عاشق ہیں جو کہتے ہیں کہ "کہیں وہ آکے مٹا دیں نہ انتظار کا لطف" کیونکہ وہ واقف ہے کہ وصال میں وہ مزہ نہیں جو انتظار کی تڑپ میں سرور اور مزہ ہے۔ محبت کا سارا کھیل ہی انتظار کا ہے۔ عاشق اپنے محبوب کے آنے کا انتظار دو آنکھوں سے نہیں کرتا بلکہ سارے جسم کو آنکھیں بنا کر اس راہ کو تکتا ہے جس سے محبوب کے آنے کا گمان بھی ہو۔ مرزا کہتے ہیں کہ بعض عاشق تو انتظار کرتے کرتے پتھر ہوجاتے ہیں لیکن وہ بت نظر نہیں آتا جس کی مورت دل میں بسا رکھتے ہیں۔
انتظار کا کمال ہی یہی ہے کہ مومن ہو یا شیطان، سپاہی ہو، جنگجو یا سرکاری ملازم سبھی انتظار کرتے ہیں۔ مومن اللہ کی رحمت اور کرب کے انتظار میں عبادتوں میں مشغول رہتا ہے۔ شیطان اس موقعے کے انتظار میں کہ کب ایک سیدھے راہ پر چلنے والے بندے کو بھٹکا دے۔ سپاہی میدان جنگ میں لڑتے لڑتے مدد کے انتظار میں ہوتا ہے اور سرکاری ملازم دن گن گن کر مہینے کی آخر تاریخ کے انتظار میں کہ کب تنخواہ آئے۔ یہ انتظار ہی ہے جو مومن کو امید اور جنگجو کو لڑنے کا حوصلہ دیتا ہے۔ کسی عاقل نے مرزا سے سوال کیا کہ دنیا کی میٹھی شے کون سی ہے۔ جوابا مرزا کہتے ہیں کہ یوں تو دنیا کی سب سے میٹھی اور شیریں چیز محبوبہ کا پہلا بوسہ ہے۔ اس سے میٹھا اور شیریں کچھ نہیں۔ باقی میٹھی چیزیں کھانے سے شوگر کی بیماری لگ سکتی ہے۔ یہ میٹھی چیز شفا بخش ہے. اس کو چکھنے سے شوگر کے مریض بھی صحت یاب ہوتے ہیں۔ لیکن انتظار میں وہ ذائقہ اور لذت ہے جو پھول کو سونگھنے اور محبوبہ کے پہلے بوسے سے بھی حاصل نہیں ہوتا۔ ہر کام اپنے وقت مقررہ پر پورا ہوتا ہے۔ بچہ وقت مقررہ پر جوان اور جوان ایک طے شدہ مدت کے بعد بوڑھا ہوتا ہے۔ انتظار صابر بناتا ہے یہ کسی نعمت سے کم نہیں اور کہتے ہیں رحمتتوں اور نعمتتوں کے لیے انتظار کرنا پڑتا ہے.
***
صاحب انشائیہ کا گذشتہ انشائیہ :دوست، دشمن اور بیوی 

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے