خدا بخش خاں کی خدمات سر سید سے کم نہیں : امان ذخیروی

خدا بخش خاں کی خدمات سر سید سے کم نہیں : امان ذخیروی

"محبوب الا لباب" کے خالق, بانی خدابخش لائبریری خدابخش خان کی خدمات سر سید سے کم نہیں: امان ذخیروی

جموئی 3 اگست ( محمد سلطان اختر) انیسویں صدی کی معروف علمی شخصیت، شاعر و ادیب، فاضل وکیل، ریاست نظام حیدر آباد کے چیف جسٹس، بانیِ خدابخش خان لائبریری, خان بہادر مولوی خدابخش خان مرحوم کے یوم وفات 3/اگست کے موقعے پر بزم کے صدر دفتر فضل احمد خان منزل میں بزم کے خازن پروفیسر رضوان عالم خان کی صدارت میں ایک یادگاری نشست کا انعقاد عمل میں آیا. بزم کے جنرل سکریٹری امان ذخیروی نے خدابخش خاں کی حیات و خدمات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ خدابخش خاں کی خدمات سر سید احمد خان سے کم نہیں ہے. سر سید نے علمی درس گاہ قائم کی تو اس درس گاہ میں پڑھنے پڑھانے کے لیے خدابخش خاں نے کتابوں کا ذخیرہ جمع کیا. غرض کہ ان دونوں کا مطمح نظر علم ہی تھا. انھوں نے کہا کہ خدابخش خان کی پیدائش 2 اگست 1842ء کو چھپرہ ضلع سارن کے اکھائی گاؤں میں ہوئی اور وفات 3 اگست 1908ء کو پٹنہ میں ہوئی. خدا بخش لائبریری کے احاطے میں ہی آپ کا مزار ہے. آپ کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہی اپنے والد محمد بخش کی دیکھ ریکھ میں شروع ہوئی. 1859ء میں انھوں نے میٹرک، 1861ء میں کلکتہ یونی ورسٹی سے انٹرنس اور 1868ء میں وکالت کے امتحانات پاس کیے اور پٹنہ میں وکالت شروع کر دی. 1877ء میں میونسپل کارپوریشن کے پہلے صدر منتخب ہوئے. 1880ء میں پٹنہ کے سرکاری وکیل مقرر ہوئے اور اسی سال انھیں خان بہادر کا خطاب عطا ہوا. 1895ء سے 1898ء تک نظام حیدر آباد کی ریاست کے چیف جسٹس رہے. 1903ء میں انھیں سی آئی ای کا معزز خطاب عطا ہوا. آپ کے والد کا نام محمد بخش تھا جو اپنے زمانے کے نامور وکیل تھے. انھیں کتابیں جمع کرنے کا بہت شوق تھا. چونکہ وہ مطالعے کے شوقین تھے، اپنی علمی پیاس بجھانے کے لیے اپنی آمدنی کا آدھا حصہ کتابوں کی خریداری پر خرچ کرتے تھے. اسی شوق نے ان کے دل میں جذبۂ قیام کتب خانہ کو فروغ دیا. 1848ء کو انھوں نے اپنے آبائی وطن چھپرہ میں اپنے نام پر محمدیہ لائبریری کی بنیاد ڈالی. جب 1854ء میں ترک وطن کر کے پٹنہ میں سکونت پذیر ہوئے تو اپنی لائبریری کو بھی پٹنہ منتقل کر دیا. 1876ء میں خدابخش خاں کے والد کا انتقال ہو گیا. ان کے والد نے مرتے وقت وصیت کی تھی کہ اس لائبریری کو ہمیشہ فروغ دیتے رہنا. چنانچہ خدابخش خان نے اپنے والد کے حکم کے بہ موجب اس لائبریری ہر پوری توجہ صرف کی اور کتابوں کے ذخیرے میں اضافہ کرتے رہے. وکالت کے بعد کا سارا وقت انھوں نے لائبریری کے لیے وقف کر دیا. 14 جنوری 1891ء کو انھوں اس لائبریری کو باضابطہ عوام کے لیے وقف کر دیا. 15 اکتوبر 1891ء کو اورینٹل پبلک لائبریری کی حیثیت سے سر چارلس ایلیٹ کے دست مبارک سے اس کا افتتاح ہوا. مگر عوام کی خواہش تھی کہ اس لائبریری کے نام کے ساتھ خدابخش خان کا نام بھی جڑا رہے, جو ان کی خدمات کی یاد دلاتا رہے. چنانچہ عوام کے جذبات کا خیال کرتے ہوئے اسے خدابخش خاں اورینٹل پبلک لائبریری کے نام سے موسوم کر دیا گیا. 1969ء کو پارلیامنٹ ایکٹ کے تحت حکومت ہند نے اسے قومی اہمیت کا ادارہ تسلیم کر کے اپنی تحویل میں لے لیا. آج اس لائبریری کا شمار دنیا کی بہترین لائبریریوں میں ہوتا ہے. خدابخش خاں کا یہ کارنامہ ہر زمانے میں دل پذیر ہوگا، ان کی اس خدمت کو ہمیشہ سنہرے حرفوں میں لکھا جاتا رہے گا. الله کریم سے دعا ہے کہ ان کی مغفرت فرمائیں اور ان کے درجات کو بلند فرمائیں.
آسماں تیری کحد پر شبنم افشانی کرے
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں :یوم پیدائش پر یاد کیے گئے” ماورا” کے خالق ن م راشد

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے