یوم پیدائش پر یاد کیے گئے” ماورا” کے خالق ن م  راشد

یوم پیدائش پر یاد کیے گئے” ماورا” کے خالق ن م راشد

بزم تعمیر ادب ذخیرہ نے منعقد کی یادگاری نشست

جموئی، یکم اگست ( محمد سلطان اختر) بزم تعمیر ادب ذخیرہ، جموئی کے جنرل سکریٹری امان ذخیروی نے اطلاع دی ہے کہ جدیدیت کے معروف علم بردار شاعر، آزاد نظم نگاری کے امام ن. م. راشد کے یوم پیدائش 1 اگست کے موقعے پر بزم کے صدر دفتر فضل احمد خان منزل میں جناب پروفیسر رضوان عالم خان کی صدارت میں ایک یادگاری نشست منعقد ہوئی. بزم کے جنرل سکریٹری اور معروف شاعر امان ذخیروی نے ن م راشد کی حیات و خدمات پر روشنی ڈالی. انھوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ راشد ایک جدید فکر و فن کے حامل شاعر تھے. ان کی شاعری روایت سے ہٹ کر ایک الگ ڈگر پر چلنے والی شاعری تھی. ان کی نظموں میں ایک گہرائی، گیرائی اور بلا کی روانی ہے. انھوں نے اپنے خیالات کے اظہار کے لیے نظم نگاری کو وسیلہ بنایا اور وہ بھی آزاد شاعری کو. کیونکہ ان کا ماننا تھا کہ اپنے جذبات کی ترجمانی کے لیے آزاد نظم سے بہتر کوئی وسیلہ نہیں ہے. انھوں نے مزید کہا کہ راشد کی پیدائش یکم اگست 1910ء کو متحدہ ہندستان کے گجرانوالہ کے ایک قصبے اکال گڑھ کے ایک علمی و ادبی گھرانے میں ہوئی. ان کا اصل نام نذر محمد اور تخلص راشد تھا. راشد کے والد کا نام فضل الٰہی تھا، جو محکمۂ تعلیم سے وابستہ تھے اور شعر و ادب سے دل چسپی رکھتے تھے. اسی ماحول نے راشد کو شعر و سخن کی جانب راغب کیا اور وہ بچپن سے ہی شعر کہنے لگے. راشد نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں میں ہی حاصل کی. انھوں نے 1926ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا اور 1928ء میں انٹر میڈیٹ کا امتحان گورنمنٹ کالج لائلپور سے پاس کیا. آگے کی تعلیم گورنمنٹ کالج لاہور سے پوری کی. لاہور میں پطرس بخاری جیسے قابل اور شفیق استاد نے ان کے فن کو نکھارنے میں بھرپور تعاون کیا. انھوں نے اردو میں اپنی پہلی آزاد نظم 1925ء میں تحریر کی جس کا عنوان "جرات پرواز" تھا. 1935 میں راشد کی شادی ان کی ایک رشتہ دار کزن سے ہوئی، جن کا نام صفیہ تھا. مگر ان کی ازدواجی زندگی ناخوش گوار تھی. اس لیے انھوں نے اقوام متحدہ میں اپنی ملازمت کے دوران 1963ء میں شیلا انجیلنی نامی عیسائی خاتون سے دوسری شادی کر لی. اس واقعے نے ان کی زندگی کو ایک الگ راستے پر ڈال دیا. شاعری میں انحرافی تیور تو پہلے سے اپنائے ہوئے تھے, اب مذہب سے بھی منحرف ہو گئے. چنانچہ 10 اکتوبر 1975ء میں جب ان کا انتقال ہوا تو ان کی وصیت کے مطابق انھیں جلا دیا گیا. اسے قسمت کی ستم ظریفی ہی کہے کہ جو نذر محمد تھے وہ نذر آتش کر دیے گئے.
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں :ریاض خیرآبادی نے اردو شاعری کو شراب کی لذت سے آشنا کیا : امان ذخیروی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے