میں اک مسافر شب تیرگی کی ناؤ میں ہوں

میں اک مسافر شب تیرگی کی ناؤ میں ہوں

اثر خامہ : سید اسلم صدا آمری، چینائی 

(یہ اور بات کہ اظہار کچھ نہیں کرتا
میں آئینہ ہوں ترے حسن کے بناؤ میں ہوں
سید اسلم صدا آمری کے مذکورہ شعر میں خاموشی کی حسن تعلیل میں آئینے کا اظہار کیا ہی لطف دے رہا ہے. حیرت زدہ انسان عموماً خاموشی سے اظہار حیرت کرتا ہے. ایسی حیرت جو مسرت آمیز ہو. جو دل کو اس طرح چھوجائے کہ انسان اظہار سے عاجز ہوجائے. لیکن اظہار کی عاجزی بھی اظہار کا ایسا خوب صورت عمل بن جائے کہ حسن اسے محسوس کیے بغیر نہ رہے. اس شعر میں متحرک منظر خلق ہوا ہے. اس سلسلے میں ان کا درج ذیل شعر ان کی فنی ریاضت کی طرف بلیغ اشارہ کرتا ہے :
واۓ حسرت! کہ طرز مؤمن تک
اپنی پیکر نگاریاں نہ گئیں
سید اسلم صدا آمری چنئی / چینائی سے تعلق رکھنے والے بزرگ شاعر ہیں. ان کی شاعری (جو ہمیں دست یاب ہوئی ہے) کا محور عشق ہے. لیکن اس میں کلاسیکت کا وفور نہیں بلکہ تازگی و پرکاری کے نمونے موجود ہیں. ان کا ایک شعری مجموعہ صداے سروش منظر عام پر آیا ہے اور دوسرا زیر ترتیب ہے. اردو سے ان کا عشق مذہب کی حد تک ہے. کاغذ پہ لکھے اردو حروف میں انھیں آیت قرآنی جیسی تقدس محسوس ہوتی ہے.
سمجھ کے آیت قرآن چوم لیتا ہوں
زمیں پہ دیکھوں جو اردو زبان کاغذ پر
اشتراک ڈاٹ کام ان کی خدمت میں نیک خواہشات پیش کرتا ہے.) 

میں اک مسافر شب تیرگی کی ناؤ میں ہوں
ترے کرم کے مسلسل ہی اک بہاؤ میں ہوں

ہے شامیانہ ہر اک سو تیری رفاقت کا
ہوں راہی صحرا کا لیکن حسیں پڑاؤ میں ہوں

یہ اور بات کہ اظہار کچھ نہیں کرتا
میں آئینہ ہوں ترے حسن کے بناؤ میں ہوں

میں جیسے گلشن ہستی کا ہوں خلیل کوئی
کہ آج بھی کسی نمرود کے الآؤ میں ہوں

چمن کے پھول بھی اپنے ہیں خار بھی اپنے
میں خود ہی زخم کا مرہم ہوں اپنے گھاؤ میں ہوں

وفا پرست ہوں میں عشق میرا مذہب ہے
نہ ذات پات میں ہوں اور نہ بھید بھاؤ میں ہوں

بہار آکے جو دستک دے میری چوکھٹ پر
تو کہنا آج میں صحرا کے بھاؤ تاؤ میں ہوں

میں جانتا ہوں کہ میری بساط کتنی ہے
تو جانتا ہے میں کتنا ترے دباؤ میں ہوں

جو پاس رہ کے "صدا" مجھ سے دور رہتا ہے
میں لمحہ لمحہ اسی کی طرف کھینچاؤ میں ہوں

غزل (٢)
حیات عشق لیے سرمدی خیال بھی آ
مرے خیال میں اے پیکر جمال بھی آ

عجب نہیں تری قدرت کا اک کرشمہ ہو
پہن کے جامۂ امکان اے محال بھی آ

عروج ہستی میں جب تو ہی نمایاں تھا
مرے زوال میں اے ذات لازوال بھی آ

میں کب سے راہ میں آنکھیں بچھائے بیٹھا ہوں
ہزاروں سال لیے لمحۂ وصال بھی آ

ہماری شانِ عطا سے نہیں ہے واقف تو
کبھی بحسنِ طلب کاسۂ سوال بھی آ

سوادِ شہر میں ہے بےمثال گھر اپنا
ہمارے گھر تو کبھی یارِ خوش خصال بھی آ

میں ان کی زلفوں کے سائے تلے ہوں بیٹھا ہوا
اگر ہے گردشِ دوراں تری مجال بھی آ

"صدا" بصحرا صدا میری ہو نہیں سکتی
تپیدہ راہ میں اے سایۂ نہال بھی آ

غزل (٣)
کہیں زلفیں، کہیں آنکھیں، کہیں ابرو تیرے
کتنے عنوان لیے آئی ہے خوشبو تیرے

صندلیں شانوں پہ مہکے ہوئے گیسو تیرے
صدقے رہ رہ کے ہوئی جاتی ہے خوشبو تیرے

عطر آسا ہوا جاتا ہے تخیل میرا
جب تصور میں مہک جاتے ہیں گیسو تیرے

تیرے احساس کی خوشبو کو جیا ہے میں نے
ایسا لگتا ہے کہ بیٹھا ہوں میں بازو تیرے

کس طرح باندھوں میں یکسوئی بتا اے جاناں
جب کہ بکھرے ہوئے جلوے ہیں ہر اک سو تیرے

مجھ سے ہر دفعہ تو ملتا ہے نیا چہرہ لیے
کتنے خاکے میں بناتا رہوں خوش رو تیرے

بال کیا بیکا کرے اب کوئی طوفاں میرا
آشیاں جن پہ مرا ہے وہ ہیں بازو تیرے

اچھے اچھے بھی تیرے دام میں آجاتے ہیں
توڑ کوئی نہیں جن کا وہ ہیں جادو تیرے

رونق افروز ہوئی جاتی ہے دل کی دہلیز
قوس محراب ہوئے جاتے ہیں ابرو تیرے

رب کے پہلو میں ہوا جب سے بسیرا تیرا ﷺ
پہلو پہلو سے اجاگر ہوۓ پہلو تیرے ﷺ

جوش میں آگئی اللہ کی رحمت بھی” صدا"
منفعل آنکھ سے جب ڈھل گئے آنسو تیرے

غزل (٤)

کسی سے میری طرح آنکھیں چار تم بھی کرو
ہر ایک شکل میں دیدار یار تم بھی کرو

جو پیار تم سے کرے اس سے پیار تم بھی کرو
بنا کے اپنا اسے بے قرار تم بھی کرو

زمانہ کہتا ہے میں تم سے پیار کرتا ہوں
زبان خلق پہ کچھ اعتبار تم بھی کرو

حیاتِ عشق کے پل پل یہاں اجالے ہیں
بس اک” انا" کی ہے دیوار پار تم بھی کرو

وہ جرم جس سے کوئی انقلاب برپا ہو
وہ اک گناہ سہی ایک بار تم بھی کرو

جہاں میں آج بھی دہکی ہے آتش نمرود
خلیل بن کے اسے لالہ زار تم بھی کرو

جو سیر کرتا ہے ہر دم تمہارے انفس میں
خودی سے اس کو کبھی آشکار تم بھی کرو

تمہارے گن بھی”صدا" سارے گائیں گے احباب
نہیں ہیں دور وہ دن، انتظار تم بھی کرو

شاعر کا خود تعارف :
پیدائشی نام: سید اسلم
قلمی نام: صدا آمری
مقام پیدائش: مدراس
تاریخ پیدائش: 14/11/1955
ابتدائی تعلیم ممبئی کے دیونار اردو میونسپلٹی اسکول میں سنہ 1962 سے1967 تک پھر 1968 میں واپس مدراس آگیا اور میں نے ٹرپلیکین مسلم ہائی اسکول میں 1968 سے 1973 تک ایس ایس ایل سی پاس کرکے ‌نیوکالج جوائن کیا. حالات ناسازگار ہونے کی وجہ puc کا امتحان دے نہ سکا اور تجارت کا رخ( یعنی سکینڈ ہینڈ موٹر پارٹس) کرلیا. 2006ء کے بعد تجارت میں کاروبار ٹھپ ہوگیا. دکان بیج کر اپنی بیٹی کی شادی کی اور تجارت کو الوداع کہنا پڑا. حال فی الحال عمرکی زیادتی کے سبب بے روزگاری میں شاعری کو اپنا مشغلہ کار بنا رکھا ہے. وہ مجھے اپنی راست گوئی کے تحت راس ہوتے نظر نہیں آرہی ہے.

نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم

بھیڑ کتنی ہی سہی بٹتا ہے باڑا تیرا
کبھی ہوتا نہیں کم وہ ہے خزانا تیرا

تو میرا نخلِ تمنا میں ہوں ثمرا تیرا
ٹوٹ سکتا نہیں رشتہ کبھی میرا تیرا

رب کہے تجھ سے کبھی چھوڑ نہ تنہا ان کو
کتنا محبوب خدا کو بھی ہے منگتا تیرا

آئینہ دیکھوں سکندر کا نہ جام جمشید
روبرو جب سے مرے ہے قدِ زیبا تیرا

رشک کرتا ہے سکندر کا مقدر مجھ پر
میری جھولی میں جو ہے بھیک کا ٹکڑا تیرا

تیری تعریف ہے”الحمد" سے” والناس" تلک
سارا قرآن ہے اک حسن کا قصہ تیرا

صدقے”آمر" کے دعا کر لے”صدا" کی مقبول
تا ابد مجھ پہ سلامت رہے سایا تیرا

مزید ایک غزل

میری جان وفا غزل جیسی
اس کی ہر اک ادا غزل جیسی

میرے بے جان لفظ پیکر کو
رب نے بخشی قبا غزل جیسی

ہر کوئی گنگناۓ پھرتا ہے
چل رہی ہے ہوا غزل جیسی

میری نظروں میں گھومتی پھرتی
شے کوئی جابجا غزل جیسی

ساغر مے میں ساقیا کوئی
چیز ایسی ملا غزل جیسی

اس کا چہرہ سنا کتابی ہے
ہے عبارت بھی کیا غزل جیسی

سچ بتاؤ کہ تم کو لگتی ہے
یہ غزل میری کیا غزل جیسی

محفلِ نعت میں”صدا" اب کے
نعت کوئی سنا غزل جیسی

شعری مجموعے: پہلا شعری مجموعہ”صداۓ سروش" 2009ء میں شائع ہوا، جس پر پروفیسر سید صفی اللہ صاحب مرحوم نے مقدمہ لکھا، پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی مرحوم نے بھی مقدمہ لکھا، اس کے علاوہ مولانا راہی فدائی صاحب نے بھی اپنے تاثراتی کلمات کے بہ طور ایک بہترین مضمون اپنے رشحات قلم سے نوازا. اس کے علاوہ بہت سارے مشاہیر ادب جیسے بیکل اُتساہی، عبد الاحد ساز، حلیم صابر، حیات افتخار، مختار بدری، رؤف خیر، پاکستان کے ڈاکٹر مشرف حسین شمس رمزی کے شاگرد شاذ رمزی نے مجھ پر ایک طویل نظم لکھ کر اپنی کتاب میں شامل کیا ہے. دوسرا شعری مجموعہ "صداے بازگشت " زیر ترتیب ہے.
شاعری کا آغاز : شاعری کا سلسلہ 1968ء سے شروع ہوگیا تھا اور 1970ء کے سال بھٹکل سے اردو منشی جناب فیاض محی الدین صاحب کا مسلم ہائی اسکول میں تقرر ہوا، انھوں نے میری مضمون نویسی دیکھی، بہت متاثر ہوئے، کلاس روزانہ ایک صفحہ اردو تحریری کا ہوتا تھا، اس میں میرے لیے منشی صاحب نے بجائے اردو نثر نگاری کے یہ کہہ دیا کہ میں روزانہ ایک مجھ سے جو بھی ہو اپنی شاعری غزل قطعہ جو بھی ہو شعری صورت میں پیش کرتا رہوں. میں ان کے کہنے کے مطابق جب بھی کچھ لکھ کر ان کے سامنے پیش کرتا تو بےحد تعریف کرتے لیکن مجھے ان کی تعریف میں کچھ سچائی کم محسوس ہوتی تو میں نے ایک دن یوسف خان خواہاں سے رجوع کیا اور اپنی چار غزلیں پیش کیں، انھوں نے پڑھ کر سنانے کے لیے کہا. وہ غزل یہ تھی:
اپنی ہستی جو ترے غم میں مٹا دیتے ہیں
درحقیقت وہی منزل کا پتہ دیتے ہیں
اس میں ایک شعر یوں تھا:
حسن والوں کے تغافل کو تغافل نہ سمجھ
"بیٹھے بیٹھے کوئی ہنگامہ بپا دیتے ہیں"
یہ سن کر انھوں نے کہا پہلا مصرع اچھا ہے لیکن دوسرا مصرع ٹھیک نہیں. مجھ کو ہی اپنی فکر تبدیل کرنے کو کہا، تو میں نے کچھ ہی دیر میں دوسرے مصرعے کو اس طرح سے پیش کیا:
حسن والوں کے تغافل کو تغافل نہ سمجھ
"بیٹھے بیٹھے کوئی طوفان اٹھا دیتے ہیں"
یہ سن کر انھوں نے کہا کہ تمھارے کلام؛ بحر اور وزن میں کسی طرح کا عیب نہیں تم خود اپنے کلام کی بہ خوبی اصلاح کر سکتے ہو. اس کے بعد میرے حوصلے ہمالہ چھونے لگے اور میں شاعری میں آگے بڑھتا گیا کچھ دنوں بعد ان کا انتقال بھی ہوگیا اس کے بعد میں حضرت کاوش بدری صاحب سے مشورۂ سخن کرتا رہا.
***
شاعر کی یہ غزل بھی پڑھ سکتے ہیں :پئے بہ پئے آپ نے جب”میم" کا محمل باندھا

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے