کلاسیکی نثرکے اسالیب: ایک طائرانہ نظر

کلاسیکی نثرکے اسالیب: ایک طائرانہ نظر

ڈاکٹر سیّد شاہد اقبال (گیا)

اردو میں شاعری کی بڑی اہمیت ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن یہ نیم صداقت ہے۔ زندگی کو شاعری سے زیادہ نثرکی ضرورت رہتی ہے۔ نثر کا دخل وعمل روزمرہ کے معمولات پر شاعری سے مقدم ہے۔
اسلوبیات علم لسانیات کی ایک شاخ ہے۔ شعر ہویانثر ان میں اسلوبیات کا رنگ وآہنگ لازمی ہے۔ اردو نثر پر بالنفسہ جوتھوڑا بہت کام ہواہے وہ تشفی بخش نہیں. اس ضمن میں کلاسیکی نثر کاجائزہ ایک نئے انداز کامطالعہ ہے۔
زیر نظر کتاب ”کلاسیکی نثر کے اسالیب“ مصنفہ ڈاکٹر آفتاب احمد آفاقی ایک گراں قدر تصنیف ہے جس میں کل گیا رہ مضامین ہیں. اردو کی قدیم ترین نثری تصنیف ”سب رس“ (سنہ تصنیف ١٠٤٥ھ / ١٦٣٥ء) سے لے کر ”یادگارغالب “ (سنہ اشاعت ١٨٩٨ء) تک کے نثری اصناف کاجائزہ لیاگیاہے۔
”سب رس“ کلاسیکی نثر کااولین نمونہ ہے۔ وجہی کی ”سب رس“ کی زبان کے بارے میں آج تک یہی سمجھاجاتا رہاہے کہ یہ اردو ہے۔ اس سلسلے میں بابائے اردو ڈاکٹر عبدالحق، حافظ محمود شیرانی اورڈاکٹر سید عبداللہ کے بیانات خاص طور پر نمایاں ہیں۔ ان لوگوں نے دکنی زبان کواردو کی قدیم شکل قرار دیاہے اور ”سب رس“ کی زبان کے صرفی ونحوی تجزیے سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ دکنی زبان کی یہ تصنیف موجودہ اردو سے نمایاں طورپر مشابہت رکھتی ہے۔ اس لیے اسے اردو کی پرانی شکل کہناچاہیے. لیکن ڈاکٹر سہیل بخاری نے "سب رس“ کی زبان کے بارے میں مذکورہ آرا سے اختلاف کیاہے۔
ان کاخیال ہے کہ دکن اور اردو دو (۲) مختلف الاصل زبانیں ہیں۔ جو اپنی باہمی مشابہت کے باوجود ایک ہی زبان کی قدیم یاجدید شکل قرار نہیں دی جاسکتی۔ اپنے اس خیال کی تائید میں انھوں نے مولوی محمد باقر آگاہ دہلوی کابیان پیش کیاہے جن کی مادری زبان دکنی تھی۔ڈاکٹر سہیل بخاری لکھتے ہیں کہ مولوی باقر نے اپنے رسالے ”من درپن“ (سنہ تصنیف۔ ١٢٠٦ھ) میں نبی کریم  کے معجزات بیان کیے ہیں اور اس میں لکھاہے ؎
اگربھاکے میں اردو کے میں کہتا
کوئی اس کویہاں کے لوگوں میں نہ چہتا
بہرحال سب رس کی زبان کے موجودہ اردو سے صوتی، صرفی، نحوی اختلافات کا تعلق ہے، یہ کوئی حیرت انگیز امر نہیں ہے۔ ارتقا کی منزلوں سے گزر نے والی سب زبانوں کے ساتھ ایساہی ہوتاہے۔
انگریزی دان حضرات شیکسپیئر کی زبان کے موجودہ انگریزی سے مشکل میں ڈالنے والے اختلافات کوسہنے کے باوجود اسے انگریزی سے الگ نہیں کرتے بلکہ وہ تو چاسر کی جنّاتی انگریزی کوبھی انگریزی ہی کہتے ہیں جس کے سمجھنے کے لیے ترجمے کی ضرورت پیش آتی ہے۔
Ye goon to counterbury, God yow spede.
Modern English version—
you are going to counterbury, May God aid you.
اردو میں میرامّن دہلوی (١٧٣٢۔١٨٠٩ء) سے رشید احمد صدیقی (١٨٩٢ء۔١٩٧٧ء) تک نثری اسالیب کا ارتقا بڑے مربوط انداز میں ہواہے اور ڈیڑھ سوبرسوں کی اس مختصر سی مدت میں اسالیب کے جتنے امکانات روشن ہوئے ہیں، جتنے تجربے کیے گئے ہیں اور سرعت سے ہمارے اسالیب نثر نے یہ سفر طے کیاہے وہ باعث فخر مسرت ہے۔ ابھی یہ سفر تمام نہیں ہواہے۔ اس دور کے تیزی سے بدلتے ہوئے ذہن سے ہمارے اسالیب بھی متاثر ہورہے ہیں۔ جو مستقل میں اور زیادہ سائنٹفک اور بلیغ ہوں گے. 
جب ہم زیر نظر کتاب ”کلاسیکی نثر کے اسالیب“ کے مشمولات پر نظرڈالتے ہیں تو یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ ڈاکٹر آفتاب احمد نے اردو نثر کی عظیم تر روایت کو اس کے عظیم تر مستقبل سے ہم آہنگ کرنے کی سعی کی ہے۔
اس کتاب کے مشمولات مندرجہ ذیل ہیں: 
(۱) نثر کافن (۲) سب رس کاماخوذ تمدنی پس منظر
(۳) اردو کاقدیم تنقیدی سرمایہ (۴) دکن میں تذکرہ نویسی کی روایت
(۵) اسلوب تعریف وتوسیع (۶) اٹھارویں صدی کے نثری اسالیب
(۷) سرسید اور علمائے [کرام] کے اختلافات (۸) حالی کی اوّلین نثری تصنیف
(۹) حالی کی مجالس النساء (١٠) یادگار غالب چند مفروضات
(۱۱) اردو میں نثری تراجم… ایک مختصر جائزہ
ڈاکٹر آفتاب احمد نے ہر موضوع کے ساتھ انصاف کیا ہے، ان سب پر بڑی محنت سے مواد اکٹھا کیاہے اوران کے کلاسیکی پس منظر کا جائزہ لیتے ہوئے تفصیلی معلومات بہم پہنچائی ہے۔
اس کتاب میں آخری موضوع اردو میں نثری تراجم ایک خالص تحقیقی مضمون ہے جس میں فورٹ ولیم کالج، قدیم دہلی کالج اور سرسید اور ان کے رفقا کے کارناموں کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔
میراخیال ہے کہ مذکورہ کتاب ان سبھی مشمولات کا مکمل احاطہ کرتی ہے اور اسے اس موضوع پرایک منفرد تصنیف قرار دیاجاسکتاہے۔
اس کتاب کی کتابت عمدہ،طباعت معیاری اور قیمت مناسب ہے۔
DR. S. SHAHID IQBAL Ph.D
At: ASTANA-E-HAQUE, ROAD NO: 10
WEST BLOCK, NEW KARIMGANJ
GAYA-823001 (BIHAR)
Mob: 09430092930/ 09155308710
E-mai:drsshahidiqbal@gmail.com
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش: "مولود شریف" پر ایک طائرانہ نظر

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے