فرقہ واریت کی با مقصد نئی لہر: انتظامیہ، عدلیہ اور قانون سازیہ سب کے سب خاموش تماشائی

فرقہ واریت کی با مقصد نئی لہر: انتظامیہ، عدلیہ اور قانون سازیہ سب کے سب خاموش تماشائی

اتر پردیش کے انتخاب کی تیّاری میں ایودھیا سے کاشی اور متھرا سے ہری دوار اور دہلی تک؛ اقلیت آبادی کے خلاف منظم گول بندی کیا ووٹ میں تبدیل ہو پائے گی؟

صفدر امام قادری
شعبۂ اردو، کا لج آف کا مرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ

ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر سے جو سلسلہ شروع ہوا، اُس کے سیاسی مقاصد سب کی نگاہ میں واضح تھے۔ کئی دہائیوں سے انتطامیہ اور مختلف جماعتوں کی حکومتوں کے کبھی کھلے اور کبھی خاموش تعاون کے بعد راجیہ سبھا کی ایک عدد رکنیت کے لیے عدلیہ کی جانب سے بابری مسجد تنازعہ کا جو فیصلہ آیا، اسی وقت سیاسی مبصرین نے آنے والے وقت میں مزید کون سے کام کیے جائیں گے، اس کے بھی واضح اشارے کر دیے تھے۔ وزیرِ اعظم نے ٢٠١٤ء میں بنارس کو اپنا اگرچہ ثانوی حلقۂ انتخاب بنایا مگر اُن کے مقاصد میں یہ بات شامل تھی کہ اُتر پردیش میں ایک سیاسی لہر پیدا کرکے مرکز کی کانگریسی سرکار کو بدل دینے میں کامیابی مل سکتی ہے۔ یاد رہے کہ اس وقت اُتر پردیش میں اکھلیش یادو کی حکومت تھی مگر پارلیمنٹ کے انتخاب کی تیّاری کے پسِ پردہ اُسی زمانے میں یوگی آدتیہ ناتھ کے فرقہ پرستانہ دور ے شروع ہوئے اور مظفرنگر کے ساتھ اور دوسرے علاقوں میں باضابطہ طور پر مسلم کش فسادات برپا کیے گئے جو مہینوں ختم نہ ہوئے۔ اِس کے نتیجے میں زمینی سطح پر یوگی آدتیہ ناتھ نے اپنے ووٹوں کو متحد کیا، نریندر مودی نے اوپر اوپر ایک ماحول بنایا اور سب نے دیکھا کہ اُتر پردیش میں نہ کانگریس بچی نہ بی۔ایس۔پی اور نہ ہی سماج وادی پارٹی۔ دو برس کے بعد اُنھی فرقہ وارانہ مشقّتوں نے یوگی آدتیہ ناتھ کو اُتر پردیش کا قائد بنادیا اور پھر وہ وزیرِ اعلا کے طور پر گدی سنبھالنے میں کامیاب ہوئے۔
گذشتہ سات برسوں میں نریندر مودی کی نعرے بازیاں اور ان کے صوبائی نمائندوں کے جوشیلے خطبات صرف اقلیت ہی نہیں بلکہ اکثریتی آبادی کو بھی بہت حد تک ناکافی معلوم ہو رہے ہیں۔ نوٹ بندی، امیروں کی قرض معافی، مہنگائی اور سب سے بڑھ کر کورونا وبا میں ہمہ جہت ناکامی ایسے اسباب ہیں جن کی وجہ سے عوام کے اندر بے چینی اور اضطراب موجود ہے۔ کورونا کی وبا کے مسائل کے دوران بہار اور بنگال میں اسمبلی انتخابات ہوئے۔ بہار میں اگر چہ این۔ڈی۔اے کی حکومت جیسے تیسے بن گئی مگر سب سے بڑی پارٹی کے طور پر راشٹریہ جنتا دَل کا ابھر کر آنا یہ بتاتا ہے کہ عوام کے درمیان قبولیت کا تناسب کم ہو رہا ہے۔ بنگال میں بھارتیہ جنتا پارٹی کا وزیرِ اعظم اور پوری کابینہ کے ساتھ مشقتوں کے باوجود رسوائی ہاتھ آ نا بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی سے عوام کو جہاں جہاں موقع ملے گا، وہ کار کردگی کا حساب کتاب لیں گے۔
اب اُتر پردیش کا اسمبلی انتخاب آنے والے وقت اور موجودہ حالات کا لٹمس ٹسٹ ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کو یہ بات معلوم ہے کہ اُتر پردیش میں اگر ان کی سرکار نہیں بنی تو اگلے لوک سبھا کے انتخاب میں بھی فتح یابی حاصل کرنا ان کے لیے شاید ہی ممکن ہو۔ سارے سیاسی مبصرین یہ واضح کر چکے ہیں کہ یوپی کی ہار کے بعد مرکزی حکومت کی اُلٹی گنتی شروع ہو جائے گی۔ اس سیاسی اشارے کو دوسری ریاستیں بھی بہ غور سمجھیں گی۔ پنجاب، دہلی، راجستھان سے ہوتے ہوئے بھارتیہ جنتا پارٹی کے خلاف کہیں طوفان نہ کھڑا ہو جائے۔ اسی لیے نریندر مودی نے بہت پہلے سے اُتر پردیش میں سیاسی سرگرمیاں بڑھائیں۔ کئی ریاستوں میں وہ امت شاہ کو آگے بڑھا کر بساطِ سیاست کو استحکام دیتے رہے ہیں اور بہ طورِ کمک اپنی طاقت کا استعمال کرتے ہیں مگر یو پی میں انھوں نے حکمتِ عملی بدل دی ہے اور وہ خود سپہ سالار اور جنگ جو کے طور پر میدان میں اُترے ہوئے ہیں۔ ابھی وہ ہندستان کے وزیرِ اعظم کم ہیں اور اُتر پردیش کی بھارتیہ جنتا پارٹی کی انتخابی تشہیر کے کنوینر اور سربراہ زیادہ ہیں۔ اُن کے پیچھے پیچھے ہی یوگی آدتیہ ناتھ اور دوسرے سیاسی رہنما کام کر رہے ہیں۔
نریندر مودی کو اپنی کرشمائی سیاسی قوت اور قیادت پر پہلے جتنا اعتبار اور بھروسہ تھا، وہ اب کم ہوا ہے۔خاص طور سے ممتا بنرجی نے جس طرح انھیں بنگال میں مرغِ بسمل بنا کر رکھ چھوڑا، اس سے انھیں اپنی حقیقی طاقت سمجھنے کا غالباً تھوڑا بہت موقع ملا ہے۔اب انھیں بھارتیہ جنتا پارٹی کے پرانے فارمولے اور آزمائے ہوئے نسخے کی طرف لوٹنا پڑ رہا ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ اس سے بے رخی تو بھارتیہ جنتا پارٹی نے کبھی نہیں برتی تھی مگر این۔ڈی۔اے کی دوسری حلیف جماعتوں کے دباؤ میں اسے ٹھنڈے بستے میں ڈال رکھا گیا تھا۔ اُتر پردیش کی موجودہ حکومت کورونا کے دور میں ملک کی کسی بھی دوسری ریاست کے مقابلے زیادہ ناکام اور غیر حسّاس ثابت ہو چکی ہے۔ ملک کے گوشے گوشے سے بے یار و مددگار یوپی کے محنت کش اور مزدور مرتے اور روتے پیدل اپنے گھروں تک پہنچے تھے۔پورے ملک کے لوگوں نے اخبار اور ٹیلی ویژن پر بے بسی کی وہ تصویریں ملاحظہ کی تھیں۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے اتر پردیش کے نگہبانوں سے یہ عام سوال لوگوں کے ذہن میں آیا تھا کہ صوبے کی ترقی کا آپ نے کون سا راستہ چنا جس کی وجہ سے مزدوری کرنے کے لیے آپ کے بھائی ہزاروں کیلو میٹر دور بے بسی اور بے کسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ جو اپنے عوام کو دو روٹی فراہم کرنے کا یقین نہ دلا سکے، ویسے قائدین پر سب نے لعنت برسائی تھی۔ اب کی بار اسمبلی الیکشن میں اس سوال کا ایک ایک گانو اور محلے میں صاحبِ اقتدار جماعت سے حساب پوچھا جائے گا۔ بہار میں نتیش کمار کی پارٹی ایسے مسائل میں الجھ کر تیسرے نمبر پر پہنچ گئی تھی۔ کورونا میں جن گھروں میں موت ہوئی یا جن کے رشتہ داروں نے کبھی آکسیجن کی کمی یا معمولی طبی سہولیات فراہم نہ ہونے کہ وجہ سے موت کا ننگا ناچ دیکھا ہے، ان کے سامنے یوگی حکومت کے گناہ واضح ہیں اور ایسے لوگوں کا سامنا کرنا حکومت کے کسی اہل کار کے لیے بہت مشکل ہے۔
کسانوں کی ایک سال کی تحریک کے سامنے اتر پردیش کے انتخاب نے ہی مرکزی حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پرمجبور کیا۔ نریندر مودی کو یہ توقع تھی کہ اس کا وہ فوری طور پر سیاسی فائدہ اُٹھا پائیں گے مگر ایسا نظر نہیں آ رہا ہے۔ رام مندر کی بنیاد اور تعمیر سے جتنا سیاسی فائدہ پچھلے زمانے میں انھوں نے اُٹھایا، اب آئے دن کی مالی بے ضابطگیوں اور خرد برد یا گھوٹالوں سے بھارتیہ جنتا پارٹی کا یہ بڑا کام نئے سیاسی فائدے میں تبدیل ہوتا ہوا نہیں معلوم ہو رہا ہے۔ اس بیچ اگرچہ کانگریس، بی۔ایس۔پی اور سماج وادی پارٹیوں میں کوئی ہم آہنگی نظر نہیں آ رہی اور یہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیے واحد سہارا ہے مگر گراونڈ رپورٹنگ یہ بتا رہی ہے کہ بہار اور بنگال کی طرح لوگ سوچ سمجھ کر کسی ایک امّیدوار کو فاتح بنائیں گے اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے امّیدوار کو سیاسی بکھراؤ سے فائدہ حاصل کرنے نہیں دیں گے۔ اب دسمبر کا مہینہ ختم ہو رہا ہے مگر بھارتیہ جنتا پارٹی کی یہ تینوں حریف جماعتیں آپس میں ایک دوسرے تیسرے کے کپڑے اتارنے کے مقابلے واحد نشانہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو بنائے ہوئے نظر آ رہی ہیں۔ یہ بھی بھارتیہ جنتا پارٹی کے نقطۂ نظر سے خطرے کی گھنٹی ہے۔
شمالی ہندستان میں کڑاکے کی سردیاں پڑ رہی ہیں اور اب ان میں اضافہ ہی ہونا ہے مگر بھارتیہ جنتا پارٹی نے اب آخری داؤں حد سے بڑھی ہوئی جارح فرقہ پرستی کا استعمال شروع کر دیا ہے۔ اسی سے اب گرمی بڑھے گی۔کہیں دھرم سنسد ہو رہی ہے اور کہیں بے نامی جماعتوں کی عوامی نشستیں منعقد ہو رہی ہیں۔ کھلے عام کہیں بیس لاکھ اور کہیں سارے مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دینے کا فرما ن دیا جا رہا ہے۔ ہندو آبادی کو اسکول کالج سے نکل جانے، کتاب کاپیوں کو چھوڑ دینے کا مشورہ دیا جا رہا ہے اور انھیں ہتھیار اٹھا لینے، اسلحوں کی باضابطہ تربیت حاصل کرنے کی صلاح دی جا رہی ہے۔ ہندستان کے آئین کو غلط آئین اور ناکام آئین بتاتے ہوئے اسے بدل دینے کے فیصلے کیے جا رہیں ہیں۔ ناتھو رام گوڈسے کو سب سے بہادر اور ہندو سماج کا سب سے بڑا بہی خواہ بتایا جا رہا ہے۔ موجودہ ہندستانی قوانین کے مطابق ایسی سرگرمیوں اور باتوں کے لیے جیل سے کم کوئی سزا نہیں ہے مگر نہ مقامی انتظامیہ کے کانوں پر جوں رینگ رہی ہے اور نہ عدالت اور حکومت کو اس میں کوئی برائی نظر آ رہی ہے۔ یہا ں UAPA کی دفعات کی ضرورت کسی کو محسوس نہیں ہو رہی ہے۔ سب خاموش ہیں کیوں کہ اسی شاہ راہ سے اتر پردیش کی دوبارہ حکومت سازی ممکن ہے۔ بنارس کے کاشی کوریڈور کے ہزاروں کروڑ بھی دکھانے کے کام آئیں گے، حقیقی کام ان کھلی فرقہ پرستانہ ترغیبات کے سہارے ہونا ہے۔ حاکمِ وقت کو یہی آخری سہارا حاصل ہے۔
گذشتہ سات برسوں میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی طرح طرح کی کرتبوں کو عوامی سطح پر لوگ خوب خوب سمجھ رہیں ہیں۔ کہاں اشتعال میں آنا ہے اور کہاں خاموش حکمتِ عملی اپنانا ہے، لوگ اس سے بے خبر نہیں ہیں۔ گلی محلوں میں صرف جارح فرقہ پرستی کی بنیاد پر ووٹ حاصل کر لینا اتنا آسان نہیں ہے۔ رفتہ رفتہ جمہوری اقدار اور عوای سوجھ بوجھ میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ صرف فرقہ واریت کی بنیاد پر ووٹ دینا اپنے پانو پر کلہاڑی مارنے جیسا ہے۔عین ممکن ہے، نریندر مودی کی آخری کوشش بھی اتر پردیش کی حکومت سازی کی مہم میں انھیں راندۂ درگاہ نہ کردے۔ جمہوری اقدار میں یقین رکھنے والے کروڑوں لوگوں کو اتر پردیش کے بیس کروڑ لوگوں کی سیاسی فہم و فراست سے ایسی ہی توقع ہے۔
[مقالہ نگار کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ میں اردو کے استاد ہیں] 
safdarimamquadri@gmail.com
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں : بزمِ صدف انٹرنیشنل کی جانب سے شفیع جاوید یادگاری خطبے کا انعقاد 

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے