سرسید کی تاویلیں اور ہندستانی مسلمانوں کا مستقبل

سرسید کی تاویلیں اور ہندستانی مسلمانوں کا مستقبل

(انقلابِ ستّاون کے حوالے سے)

صفدرا مام قادری
شعبۂ اردو، کا لج آف کا مرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ

انقلاب 1857 کی جس قدر تاریخیں لکھی جائیں یا جتنی تاویلیں پیش کی جائیں؛ اگر سرسید کی تحریروں سے استفادہ نہ کیا جائے تو تمام مضامین ادھورے ثابت ہوں گے۔ خاص طور پر ہندستانی مسلمانوں کی آئندہ زندگی پر غدر کے اثرات کو نگاہ میں رکھ کر غور کریں تو سرسید ایسا مرکز معلوم ہوں گے جہاں پہنچے بغیر ہم واقعتاً صحیح نتیجے پر نہیں پہنچ سکتے ہیں۔ ایّام شورش میں سرسید اُن مقامات پر موجود تھے جہاں پیغمبری وقت آیا ہوا تھا۔ سرسید نے انسانی ہم دردی اور فراست کا مظاہرہ کرتے ہوئے غم زدوں اور پریشاں حال افراد کی بھرپور مدد بھی کی۔ غدر سے تھوڑا پہلے اور بعد کے زمانے کو نظر میں رکھیں تو سرسید بجنور، مرادآباد اور دہلی میں فرائض منصبی ادا کرتے ہوئے موجود ہیں۔ سرسید کو یہ فائدہ بھی حاصل ہے کہ اچھی خاصی مدّت تک وہ انگریزوں کی ملازمت میں بھی رہے۔ انھوں نے اُن کی طاقت اور مزاج کو بھی ٹھیک طریقے سے سمجھ لیا تھا۔ اِسی کے ساتھ، وہ ہم وطن بھائیوں کے مسائل سے بھی کماحقہ، آگاہ تھے۔ اس لیے ہندستانی تاریخ کے نہایت نازک موڑ پر انھوں نے جو تالیفات پیش کیں، ان کا باریک بیں مطالعہ سرسید کے نقطۂ نظر کو سمجھنے کے لیے سب سے ضروری مآخذ ہے۔
سر سید ایک دن میں سماجی مسئلے اور تعلیمی تحریک کے روح رواں نہیں بن گئے تھے۔ یہ بھی یاد رہے کہ سرسید کا سفر خطِ مستقیم جیسا نہیں ہے۔ اوّلاً جب وہ سامراجی ملازمت میں تھے، اُس زمانے میں بھی وہ تصنیف وتالیف کی سمت سے غافل نہیں رہے۔ اُن کی تاریخ نویسی خاص طور پر اسی عہد میں آگے بڑھتی ہے۔ ایک کے بعد ایک کتابیں وہ مرتب کرتے جاتے ہیں اور ایک بنتے ہوئے مورخ (A Historian in- making) کی حیثیت سے اُن کی شناخت قائم ہونے لگتی ہے۔ یہ کہنا شاید صحیح نہیں ہو کہ سرسید اس زمانے میں ہندستانیوں کی جدید تعلیم سے غافل تھے لیکن یہ حقیقت ہے کہ سرسید نے ہندستانی مسلمانوں کو انگریزی تعلیم سے آراستہ کرکے اونچی ملازمتوں تک پہنچا دینے کا نشانہ ابھی طے نہیں کیا تھا۔ فنا فی التعلیم ہونے کی منزل تو ابھی دور تھی۔
اِسی دوران 10/ مئی 1857کو جب میرٹھ میں بغاوت کا سلسلہ شروع ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے ملک کے مختلف مقامات تک یہ شورش بڑھ گئی تب نہ صرف یہ کہ برطانوی حکومت کے کان کھڑے ہوئے اور اُس کی مختلف پالیسیوں میں واضح تبدیلیاں ہوئیں بلکہ ہندستان کے جاگیردارانہ طبقے اور بالخصوص مسلمانوں کے حلقۂ اشراف میں واضح ذہنی اور فکری تبدیلیاں بھی رونما ہوئیں۔ اگر مورخین کا ایک حلقہ سنہ 1857 کو انگریزوں سے نجات حاصل کرنے کی جنگ کا نقطۂ آغاز تسلیم کرتا ہے تو اِسی کے ساتھ اس سچّائی سے بھی انکار کرنا مشکل ہے کہ تاریخ کے اِس موڑ پر ہندستان کے اشراف مسلمانوں میں زبردست بیداری آتی ہے اور وہ اپنے بعض مقاصد یا سخت لفظوں میں کہیں تو مفاد کے حصول میں پورے طور پر کامیاب نظر آتے ہیں۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ 1857 کے بعد کی تبدیلیوں میں سرسید احمد خاں ہندستانی مسلمانوں کے رہ نما کے طور پر ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ 1857 کے بعد سے 1898، سرسید اپنی وفات تک ہندستانی مسلمانوں بالخصوص اشراف مسلمانوں کے نہ صرف یہ کہ سب سے مقبول اور واحد ترجمان ہیں بلکہ متعدد قومی معاملات میں انگریزوں سے گفت و شنید اور Negotiate کرکے معاملات کو حل کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ سرسید کی اِسی خصوصیت نے انھیں انگریزوں سے قریب کیا اور اشراف مسلمانوں کے مفاد نے اس قربت کو حتمی تعلق میں تبدیل کیا۔ سرسید کی ملک گیر سرگرمیاں اور ایک تاریخ نویس سے بڑھتے ہوئے تعلیمی میدان کا سب سے بڑا مجاہد اور مفکربن جانا انھی تبدیلیوں کا اصل نتیجہ ہے۔ سرسید کی بڑائی یہ ہے کہ بدلتے ہوئے سیاسی اور سماجی حالات کو انھوں نے باریک بینی سے سمجھنے کی کوشش کی اور اُن سے مقابلہ آرا ہونے کے لیے ایک واضح لائحۂ عمل تیار کیا۔ ان کا ذہنی اور فکری استحکام اور اُن کی مضبوط قوتِ ارادی نے انھیں اپنے مشن میں مکمل طور پر کامیاب ہونے کے مواقع فراہم کیے جس کے سبب وہ نہ صرف یہ کہ ہندستانی نشاۃالثانیہ کے امین تسلیم کیے جاتے ہیں بلکہ سچّی بات یہ ہے کہ وہ ہندستانِ جدید کے حقیقی معمار ہیں۔
سرسید اور اُن کی قیادت میں 1857 کے بعد جو انقلاب آفریں تبدیلیاں ہو رہی ہیں، اُن پر غور کرتے ہوئے غدر کے سلسلے سے سرسید کے نقطۂ نظر کو سمجھنا لازم ہو جاتا ہے۔ سرسید کی دونوں کتابیں ——-”تاریخ سرکشیِ ضلع بجنور“ اور ”اسباب بغاوت ہند“،حالی کی ”حیات جاوید“ اور دیگر مآخذات کی روشنی میں سرسید کے بنیادی افکار سے بحث کرتے ہوئے ہم بعض نئے نتائج بھی اخذ کر سکتے ہیں۔ 1857کے بعد کے ہندستانی سماج بالعموم اور مسلمان بالخصوص اس آئینہ میں اپنی ترقی کے مختلف مراحل کے ساتھ ہمارے مطالعے کا حصہ ہو سکتے ہیں۔ اس کے بعد ہی اس بات کا پتا لگایا جا سکتا ہے کہ سرسید کے نقطۂ نظر کی حدود کیا ہیں اور واقعتا سرسید کس حدتک ہندستانی مسلمانوں کے مفاد کے محافظ ہیں۔
سرسید کی پیدائش ایک جاگیردارانہ گھرانے میں ہوئی۔ ان کے آباواجداد مغلیہ سلطنت میں اونچے عہدوں پر فائز تھے۔ وہ واقعتا طبقۂ اشراف میں نمایاں خاندان کے فرزندِ ارجمند تھے۔ حالاں کہ وقت کی نبض پر ان کی صحیح انگلی پڑی تھی اور مغلیہ حکومت کے بجاے ایسٹ انڈیا کمپنی کی ملازمت کے لیے خود کو تیار کر لینا اس اشارے کے لیے کافی ہے کہ وہ جاگیردارانہ روایتوں میں پِسنے کے بجاے اُگتے سورج کی طرف سے نگاہیں موڑنے والے نہیں تھے اور اگر بعد میں انھوں نے انگریزی تعلیم کی طرف داری میں اپنی پوری عمر لگادی تو یہ بھی اُن کی دور اندیشی اور آنے والے وقت کی نبض شناسی ہی ہے۔ لیکن جیسے ہی ہم سر سید کے تعلیمی افکار کے عناصر کو اپنی گرفت میں لینا چاہتے ہیں، وہاں بعض سیاہ دھبّے یا اوقافِ صفر واضح طور پر ملتے ہیں۔ ہنٹر کمیشن کے سامنے علی الاعلان یہ کہنا کہ مسلمانوں کے پس ماندہ طبقوں کو اعلا تعلیم سے بہرہ ور کرانا قومی مفاد میں صحیح نہیں ہوگا اور عورتوں کو جدید موضوعات اور تعلیم سے لیس کرنے کو بھی انھوں نے قابلِ مذمت تسلیم کیا۔ سختی سے سرسید کے افکار پر گفتگو کریں تو یہ کہنا نامناسب نہیں ہوگا کہ ”منواسمرتی“ نے شودروں اور عورتوں کے تعلق سے جو رویہ اپنایا تھا، کم وبیش سرسید کے بھی وہی تحفظات ہیں۔ سرسید کے جیتے جی علی گڑھ میں لڑکیوں کے لیے پردے کے اہتمام والے مدرسے بھی نہیں کھولے جا سکے۔ ایمان داری کی بات تو یہ ہے کہ سرسید کے ارتحال کی ایک صدی گزر جانے کے بعد بھی اُس ادارے اور ویسے نقطۂ نظر رکھنے والے ہزاروں اداروں میں کم زور طبقے کے مسلمانوں کے لیے تو آج تک دروازے کھلے ہی نہیں۔ اس لیے انقلاب 1857 سے متعلق سرسید کے تصورات اور اصول و نظریات کو پرکھتے ہوئے ہمیں اپنی آنکھیں کھلی رکھنی ہوں گی اور اُن پہلوؤں کی طرف خاص توجہ دینی ہوگی جن کے منفی اثرات بھی دکھائی دیتے ہیں۔ اپنے اکابرین کا ایماندارانہ محاسبہ ہمارے لیے فرض ہے۔ خاص طور سے جب 1857 کے انقلاب کے 150برس مکمل ہونے پر ملک کے گوشے گوشے میں نئے سرے سے اس موضوع کو سمجھنے کی کوشش کی جا رہی ہو، ایسے وقت میں سرسید کے نقطۂ نظر کا بے لاگ تجزیہ ہمیں مستقبل میں زیادہ محتاط اور کارگر ثابت کرے گا۔
غدر کے اسباب واضح کرنے میں سرسید ہر چند ہم وطنوں کا مفاد بھی پیشِ نظر رکھتے ہیں لیکن دورانِ تجزیہ مزاج میں عجلت اور گرم جوشی ہونے کی وجہ سے ان کے نتائج صحیح سے زیادہ Tactical ہو جاتے ہیں۔ شاید سرسید کے مزاج کی منطقیت اور سائنسیت میں مرحلہ در مرحلہ کمی آنے کا سلسلہ یہیں سے شروع ہوا ہوگا جو آخر وقت میں یہاں تک پہنچ گیا جسے سید احتشام حسین کے لفظوں میں ’اصلاح اور ترقی کی دھن میں صرف اعلا اور متوسط طبقے کو پیشِ نظر رکھا‘ کے طور پر یاد رکھا جانا چاہیے۔ احتشام حسین نے ایک اور بات نہایت پتے کی کہی ہے۔ اُن کا ماننا ہے کہ سرسید نے عوامی زندگی اور اس کی معاشی ناہمواریوں پر بالکل دھیان نہیں دیا‘۔ شاید یہ بات غلط نہ ہو کہ یہیں سے سرسید کی شخصیت میں ایک مخصوص حکمتِ عملی کے تحت کامیابی کے نشانے کو نگاہ میں رکھ کر چلنے کا رویہ قائم ہوا۔ ’تاریخ سرکشیِ ضلع بجنور‘ اور سب سے بڑھ کر ’اسبابِ بغاوت ہند‘ کی بنیاد میں سرسید کی مفکرانہ اور عالمانہ شخصیت سے زیادہ موقعے کی مناسبت سے کام کرنے والے ایک Strategist کی شبیہہ اُبھرتی ہے۔ 1857 کے تاریخی موڑ پر سرسید نے خود کو بدلنے کی جس مہم کا آغاز کیا، اُسی نقطۂ نظر میں اُن کی کامیابی اور ناکامیوں کے بیج شامل ہیں۔ وہ کامیاب ہوئے، اِس کی وجہ یہ تھی کہ وقت کی نبض پر اُن کی اُنگلی تھی اور انھیں پتا تھا کہ یہ طوفان کن خیموں کو اُکھاڑ پھینکے گا اورکون سے شجر ہائے سایہ دار زمیں بوس ہو جائیں گے۔ ہوا کے رُخ کو انھوں نے پہچانا اور ہندستانی سماج میں اس کے لیے لائحۂ عمل تیار کیا۔
سرسید کی اس کامیابی میں ناکامیوں کے دفتر پنہاں ہیں۔ ایک درد مند دل رکھنے والے انسان کے لیے یہ کیسے ممکن ہو گیا کہ اُس نے قوم کی فلاح و بہبود کے لیے پروگرام تیار کرتے ہوئے کبھی بھی اپنے غریب، پس ماندہ اور بے آواز ہم مذاہب کو دھیان میں ہی نہیں رکھا۔ برطانوی حکمرانوں سے سرسید جن فیوض کو بٹورنا چاہتے تھے، کیا اُن میں صرف اشراف مسلمانوں کا حصّہ ہونا چا ہیے تھا؟ سرسید کیا یہ نہیں جانتے تھے کہ کام گاروں اور پس ماندہ جماعتوں کو ترقی کی روشنی سے دور رکھ کر پوری قوم ترقی یافتہ نہیں بن سکتی ہے؟ ایسا نہیں ہے کہ سرسید اِن باتوں سے ناواقف تھے لیکن مفّکر جب منتظم کی شکل میں کام کرنے لگے تو ایسی جانی انجانی کوتاہیاں بہ ہر صورت انجام پاتی ہیں۔ اس لیے سرسید نے ارادہ کرکے صرف اشراف مسلمانوں کا مفاد اپنے پیشِ نظر رکھا، اُسے ہی دھیان میں رکھتے ہوئے غدر کے اسباب وعلل بیان کیے اور نتیجے میں انگریزی حکمرانوں سے بعض مراعات حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ سرسید نے بہت سمجھ بوجھ کر غدر کے اسباب وعلل پر گفتگو کی اور اعداد و شمار یا حقائق کے تجزیے میں اپنی ذہانت کا استعمال کرتے ہوئے صرف انھی باتوں پر خود کو مرتکز رکھا جن کی اشاعت سے اپنے مخصوص ’فرقے‘ کو فائدہ ہو سکتا تھا۔ یہ محض اتفاق ہے کہ تفصیل سے ’اسبابِ بغاوتِ ہند‘ کی تاویلات کا منصفانہ جائزہ بہ صراحت ڈیڑھ سو برسوں کے بعد بھی نہیں لیا جا سکا۔
’تاریخِ سرکشیِ ضلع بجنور‘ اور ’اسبابِ بغاوتِ ہند‘ کے مشتملات اور خاص طور سے فہرست کی طوالت سے یہ سمجھنا بھول ہوگی کہ سرسید بغاوت یا غدر کے بھرپور تجزیے کے خواہاں ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ سرسید کا مطمحِ نظر بالکل واضح ہے. غدر کے بعد انگریزی حکومت کی طرف سے عام مسلمانوں کے لیے ملازمت اور صنعت و حِرفت میں جو دروازے بند کر دیے گئے تھے، انھیں پھر سے کھول دینا۔ سرسید اچھی طرح سے جانتے تھے کہ تمام مسلمانوں پر انگریزوں کی بغاوت کے سلسلے سے لگے الزامات ختم نہیں کیے جا سکتے ہیں۔ اس لیے انھوں نے ایک سہولت کی بات یہ تلاش کی کہ مسلمانوں میں اشراف اور غیر اشراف کے بیچ دیوار کھینچ دی جائے اور انگریزوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جائے کہ غدر میں اعلا طبقے کے مسلمانوں نے ذرا بھی حصّہ نہیں لیا اور جہاں بھی بغاوت ہوئی، وہ کم زور طبقے کے مسلمانوں کے سبب ہوئی۔ انگریزوں کی مخالفت میں ’بدذات جلاہے‘ اور دیگر کام گار سب سے آگے تھے۔ میرٹھ، بجنور، مراد آباد، غازی پور جیسی جگہوں کے اعداد و شمار سرسید کی اس بات کو ثابت کرنے میں معاون تھے۔
سرسید نے انگریزوں کی نسل پرستی اور احساسِ برتری کو بھی مہمیز لگانے کی کوشش کی۔ بہت سادگی سے انھوں نے انگریزوں کو اپنا ہم خیال بنا لیا. جیسے انگریز اعلا نسل سے تعلق رکھتے ہیں اور بہترین تہذیب کے پروردہ ہیں، اُسی طرح ہندستان کے اشراف مسلمان بھی اعلا نسل سے تعلق رکھتے ہیں اور اُن کے آبا و اجداد عرب و ایران کے اعلا خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ سرسید اِن حقائق کو پیش کرنے کے بعد انگریزوں کو بتانا چاہتے ہیں کہ تم یورپ کی اعلا نسل ہو اور ہم عرب و ایران کی اعلا نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ بھلا ہم میں دشمنی کیسے ہو سکتی ہے اور ہم ایک دوسرے کے مخالف کیسے ہو گئے۔ یعنی فساد کی جڑ میں وہ نیچ، کمینے اور بدذات لوگ ہی سرگرم عمل رہے۔ اِس طرح انھوں نے نہایت سلیقے سے اپنے حصے سے الزام کم زور طبقے کے لوگوں کی طرف سرکا دیا۔ یہ کہنے کی بات نہیں ہے کہ 1857 سے 1947 تک اشراف مسلمانوں کو سرسید کے طفیل برطانوی حکومت کی جو ریوڑیاں نصیب ہوئیں، اُسی کا لازمی شاخسانہ تھا کہ ہندستان کے مسلمان کاریگر، صنعت کار، بنکر اور پس ماندہ طبقے کے لوگ آزادی کے سورج کے اُگنے تک انگریزوں کے شدائد اور مظالم سے چکنا چور ہوتے رہے اور اپنی جان ہلکان کرتے رہے۔ اصولی طور پر اِسے بھی سرسید کی حکمت عملی کا نتیجہ اور عطیۂ معکوس قرار دیا جانا چاہئے۔
’اسبابِ بغاوتِ ہند‘ میں سرسید نے غدر کے جو اسباب بڑے عالمانہ رکھ رکھاو کے ساتھ بتائے ہیں، وہ کبھی کبھی ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں کہ سرسید کتنی سادہ لوحی کے ساتھ ایسے نتائج برآمد کرتے ہیں جنھیں اب بھی کیوں مانا جائے۔ سرسید کا یہ کہنا کہ اگر غدر کامیاب ہو جاتا اور انگریز نکال بھگا دیے جاتے تو یہ بھی ممکن تھا کہ ہندستان میں ہندو مسلم اتحاد قائم نہیں رہ پاتا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہندو مسلم اتحاد قائم رکھنے کے لیے سرسید کے ذہن میں کہیں نہ کہیں یہ بات ہے کہ انگریز یا اُس طرح کی باہری طاقتوں کے اثر میں ہی ہندستان کے مسلمانوں کا مفاد اور تحفّظ قائم رہ سکتا ہے۔ یہ عجیب تاویل ہے کہ ہندو اور مسلمانوں کی یک جہتی کے لیے زمام انگریزوں کے ہاتھ میں ہونا ضروری ہے۔ یہ شاید سرسید کی نسل پر ستی یا سلاطین پرستی کے نتائج ہیں۔ سرسید کی سیکولر حیثیت پر کوئی سوال قائم کرنا مقصد نہیں لیکن اپنی تنظیمی ضرورتوں کے تحت وہ ہر حال میں برادرانِ وطن سے مقابلہ آرائی میں انگریزوں کی طرف داری چاہتے تھے۔ شاید یہ اقلیتی طبقے کا جذبۂ عدم تحفّظ بھی تھا۔ ورنہ انگریزوں کا قائم رہنا ہندو مسلمانوں کی یکجہتی کا نہ سبب تھا اور نہ ہی ایسا ممکن ہو سکا۔ اب 150 برس بعد ہماری آنکھوں سے یہ پردہ اُٹھ چکا ہے کہ ملک میں مستقل فرقہ وارانہ صورتِ حال کی داغ بیل اور اُس کی جڑوں میں نفرت آمیز آبیاری کا فریضہ انھی انگریز حکمرانوں نے انجام دیا تھا جنھیں سرسید اخلاقی، نسلی اور نہ جانے کن کن اعتبارات سے برتر تسلیم کرتے ہیں۔
سرسید کا یہ تصوّر بھی خوب ہے کہ اگر غدر میں انگریز ہار جاتے تو سیاسی اعتبار سے ملک کا یکجہت رہ پانا دشوار تھا۔ اِس کا یہ مطلب صاف ہے کہ سرسید کے ذہن میں ہندستانیوں کی کسی حکومت یاسیاسی محاذ کا کوئی معمولی سا بھی نقشہ موجود نہیں تھا۔ سیاسی وحدت پر گفتگو کرتے ہوئے اُن کے ذہن میں اورنگ زیب کے بعد کا ہندستان ہے جو ٹکڑے ٹکڑے میں بٹ کر اتنا کم زور ہو چکا ہے کہ چھوٹے چھوٹے رجواڑے اور علاقائی حکام انگریزوں کے سامنے دھیرے دھیرے سِپر ڈالنے لگتے ہیں۔ پھر رفتہ رفتہ انگریز ملک گیر سطح پر اپنی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ یہ حیرت انگیز بات ہے کہ سرسید یہ کیوں نہیں سمجھنا چاہتے کہ جس طرح ہماری مرکزی حکومت رفتہ رفتہ کم زور ہوئی، ٹھیک اُسی طرح غدر میں کامیابی کے بعد مرحلہ وار طریقے سے ہمارا مرکز استحکام پاتا اور ہندستان کی سیاسی وحدت ہندو مسلمانوں کی اجتماعی کوششوں سے نکھر کر سامنے آتی۔ سرسید کی وفات کی ایک صدی گزر جانے کے بعد برِّصغیر کے تینوں ممالک کے سیاسی احوال سے ہمیں لاکھ عدم اطمینان ہو لیکن یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ ہمارے ملک کے باشندوں نے حکومت چلانا نہیں سیکھا اور ہم سیاسی اعتبار سے مستحکم قومی اہمیت کے حامل نہیں ہیں۔ ہمارے ملکی مسائل چاہے جتنے دگرگوں ہوں لیکن ہم انگریز حکمرانوں کے نظام سے زیادہ آزاد اور اطمینان کی سانسیں لے رہے ہیں۔
’اسبابِ بغاوتِ ہند‘ میں سرسید نے انگریزوں کی طرف داری اور ہم وطن مجاہدین کی مخالفت کی ایک اور وجہ یہ بتائی ہے کہ اگر انگریز ہار جاتے اور وہ واپس چلے جاتے تو یہ ممکن تھا کہ اس ملک پر ڈچ یا فرانسیسی اپنا تسلّط قائم کر سکتے تھے۔ سرسید کے ذہن میں یہ بات تھی کہ انگریزوں کے مقابلے مذکورہ دونوں اقوام زیادہ ظالم ہیں۔ اسی سے انھوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ انگریزوں کی حکومت ہی قائم رہنی چاہیے، اِسی میں ہماری بھلائی ہے۔ ایسی تاویلات چھوٹے موٹے گھریلو معاملات میں دی جائیں تو بات سمجھ میں آتی ہے، کیونکہ اُس کا دائرۂ اثر محدود ہوتا ہے۔ لیکن جب پوری قوم کے مقدّر کا سوال ہو تب ایسے غیر دانشورانہ جواز مضحکہ خیز معلوم ہوتے ہیں۔ کہیں نہ کہیں یہ انگریزوں کی بیجا طرف داری اور چاپلوسی ہے۔
یہ درست کہ سرسید ایک باضمیر اور صاحبِ کردار انسان تھے، اُن کے کمٹ منٹ پر بھی کوئی سوال قائم کرنا زیادتی ہے لیکن غدر کے تجزیے کے دوران ہم وطن اشراف، بغاوت میں شامل کم زور طبقے کے افراد اور انگریزوں کے سلسلے سے گفتگو کرتے ہوئے وہ اکثر انصاف سے دور ہو جاتے ہیں۔ حقیقت پسندی اُن کی شخصیت کا حصّہ ہے، اس لیے وہ انگریزوں کے ذریعہ ظلم ڈھائے جانے کو غلط سمجھتے ہیں۔ وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ ہندستانی باغیوں اور دیگر شہریوں کے ساتھ انگریز جتنی سختی سے پیش آرہے ہیں، اُس کی وجہ غالباً یہی ہے کہ انگریزوں نے بغاوت کے اسباب کا تجزیہ نہیں کیا۔ سرسید انھیں بتانا چاہتے ہیں کہ یہ کوئی ملکی بغاوت نہیں تھی اور نہ ہی کسی بڑی سازش کا یہاں اشارہ ملتا ہے۔ انگریز بے وجہ اس قدر ظلم و ستم کر رہے ہیں۔ سرسید کا یہ بھی تجزیہ ہے کہ یہ صرف سپاہیوں کی حکم عدولی ہے۔ جس کے اصل اسباب جہالت اور مذہبی توہمات میں پنہاں ہیں۔ جس سنجیدہ زبان اور متین لہجے میں انگریزوں کو اُن کے غیر ضروری ظالمانہ کاموں کا سرسید احساس کراتے ہیں، وہ متین لہجہ باغیوں یا پس ماندہ طبقے کے ہم وطنوں کی کارکردگیوں کا جائزہ لیتے ہوئے کرختگی اور گالی گلوج میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ وہ جملہ تو زبان زد عام وخاص ہے…”اُن بدذات جلاہوں کا تو تار ہی ٹوٹ گیا جو اِس ہنگامے میں سب سے زیادہ شریک تھے“۔ اسی طرح دوسری جگہ سرسید لکھتے ہیں…”چند بدذاتوں نے دنیا کی طمع اور اپنی منفعت اور اپنے خیالات پورا کرنے اور جاہلوں کے بہکانے کو، اپنے ساتھ جمیعت جمع کرنے کو جہاد کا نام دے دیا۔ پھر یہ بات بھی مفسدوں کی حرمزدگیوں میں سے ایک حرمزدگی تھی نہ واقع میں جہاد۔“
سرسید کے مشاہدات اور خاص طور سے اُن کے مخصوص الفاظ یہ ظاہر کرنے کے لیے کافی ہیں کہ سرسید غدر کے تجزیے میں انصاف پسندانہ رویّہ نہیں رکھتے۔ انگریزوں یا اپنے اشراف بھائیوں کے تئیں اُن کی جو ہم دردی ہے، ویسی ہم دردی اُن لوگوں کے تئیں بالکل نہیں ہے جو غدر کے دوران اور اُس کے بعد سب سے زیادہ مظالم کا شکار ہوئے۔ بعض مقامات پر سرسید کے الفاظ یا مشاہدات ہم وطن بھائیوں کے لیے ظالمانہ ہو جاتے ہیں۔ اگر سرسید یہ سمجھتے ہیں کہ یہ کوئی بڑی سازش نہیں تھی اور نہ ہی اس کا کوئی حلقۂ اثر وسیع تھا۔ اور یہ صرف سپاہیوں کی حکم عدولی تھی، تب سرسید کے ذریعے ایسے بے رحمانہ الفاظ آخر کیوں نکلتے گئے؟ انگریز اور ہندستانی دونوں مورخین کا یہ ماننا ہے کہ غدر کے ہنگامے میں برطانوی افواج کو جو نقصان ہوا، اُس سے سو اور ہزار گنا بدلہ نہتّھے ہندستانیوں سے لیا گیا۔ اس کی تفصیل کے لیے تاریخ کے صفحات تو بھرے پڑے ہیں ہی لیکن خود سرسید بھی اِس سے مکمل طور پر واقف تھے۔ یہ سوچنے کی بات ہے کہ سب کچھ جانتے ہوئے آخر سرسید نے کس طرح انگریزوں کے لیے نرم الفاظ اور اپنے ہم وطنوں کے لیے سخت اور درشت الفاظ اور جذبات کا اظہار کیا۔
انقلابِ ستّاون کے تجزیے میں سرسید ایک متوازن، بے خوف اور انصاف پسند تجزیہ نگار نہیں معلوم ہوتے۔ بلکہ انھیں ایک منتظم کے طور پر اپنے چند لوگوں کا مفاد زیادہ عزیز ہے جسے انگریزوں کے ساتھ مل کر ہی حاصل کیا جا سکتا تھا۔ پوری قوم اور تھوڑے سے اشراف دونوں میں سے اگر سرسید نے موخرالذکر کا انتخاب کیا تو پھر آگے کے تمام معاملات اُس سے جُڑے ہوئے ہوں گے۔ 1857 کے بعد سرسید ایک منتظم اور تحریک کار تو بنے لیکن ہندستانی مسلمانوں کے مسائل کے حل کے لیے کوئی نسخۂ کیمیا نہیں لاسکے۔ سرسید کی بھرپور خدمات اور اُن کے دوررس نتائج کو دیکھتے ہوئے اس بات کامزید افسوس ہوتا ہے کہ اگر انھوں نے برطانوی سازش کو پہچانتے ہوئے مسلمانوں کے بیچ ’اشراف‘ اور ’بدذات‘ کا خطِ تنسیخ نہیں کھینچا ہوتا تو عین ممکن تھا سارے مسلمانوں کے کم از کم تعلیمی اور سماجی مسائل اس پس ماندگی کے درجے میں نہیں ہوتے اور مسلمان ایک ترقی یافتہ شہری کے طور پر آج ہندستان میں مابہ الامتیاز ہوتے۔
کبھی کبھی محسوس ہوتا ہے کہ دُھن کے پکّے لوگوں میں رفتہ رفتہ یک رُخا پن آنے لگتا ہے۔ شاید اسی لیے سرسید بعض باتوں کی طرف متوجہ نہیں ہوتے تھے۔ تعلیمی اصولیات طے کرنے میں انھیں جیتے جی یہ سمجھ میں نہیں آسکا کہ خواتین کی عصری تعلیم مردوں کی طرح ہی ضروری ہے اور کامگار اور پیشے ور برادریوں یا دیگر پس ماندہ طبقوں کو تعلیمی اعتبار سے بہرہ ور کرنا بھی لازم ہے۔ سرسید جیسے روشن خیال آدمی سے یہ توقع کی جانی چاہئے کہ اُس وقت ان باتوں کو انھیں اپنے ایجنڈے کا حصہ بنانا چاہئے تھا۔ یہ سرسید کی شخصیت کا یک رُخا پن تھا جس نے انھیں ان باتوں کو سمجھنے کا موقع نہیں دیا۔ کانگریس کے قیام کے موقعے سے سرسید کے جو اعتراضات ہیں، اُن میں بعض باتیں جتنی بھی صحیح ہوں، ایک حقیقت واضح ہے کہ سرسید کی نگاہ اُس مسئلے کو دور تک نہیں دیکھ رہی تھی. ورنہ سرسید نے اگر انڈین نیشنل کانگریس سے تعاون کیا ہوتا تو ممکن تھا کہ ہمیں ذرا قبل ہی آزادی مل گئی ہوتی۔ یہاں بھی سرسید وقت کی نبض پرکھنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔
1857 کی بغاوت کو نئے ہندستان کے لیے جدوجہد اور اپنے خوابوں کے اعتبار سے ملک کی تعمیر کے بہ طور سرسید نہیں دیکھ سکتے تھے۔ انگریزوں کی مدد سے تعلیمی مہم جوئی سرسید کی نگاہ میں بجا طور پر اتنا بڑا کام تھا کہ وہ اس سے ذرا بھی اِدھر اُدھر نہیں ہو سکتے تھے۔ یہ کس قدر تعجب کی بات ہے کہ سرسید کی آنکھوں کے سامنے 1857 کے انقلابیوں کی کوششوں سے پہلی بار ہندستان کے ہندو اور مسلمان اپنے اجتماعی مفاد میں کامیابی کے ساتھ میلوں دور تک سرگرمِ سفر ہوئے۔ سیکولرزم کا یہ پہلا عملی اور مجاہدانہ پڑاو تھا جسے بعد میں مہاتما گاندھی نے اپنی قیادت میں انجام تک پہنچایا۔ سرسید کے تصورات کو سامنے رکھتے ہوئے جب سات سمندر پار کے اُن کے ہم عصر کارل مارکس کے اُن مضامین کا تجزیہ کرتے ہیں جن میں اِن بغاوتوں کو مزدور، کسان اور بے آواز لوگوں کی اجتماعی طاقت کا اظہار تصور کیا گیا ہے، تو ہماری آنکھیں پھٹی رہ جاتی ہیں۔ اسی لیے کارل مارکس نے 1857 کی بغاوت سے ڈھیر ساری امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ کارل مارکس کے تصورات دنیا جہان میں پھیلے اور کتنے ملک وقوم کی قسمت میں مارکس کے خیالات کی وجہ سے انقلاب آفریں تبدیلیاں آئیں لیکن سرسید اپنی پوری زندگی کھپا دینے کے باوجود ہندستانی مسلمانوں کے مسیحا نہیں بن سکے۔ سرسید کے زمانے میں مسلمان جن حالات میں تھے، آج ترقی کی صورت حال مختلف ہونے کے باوجود مسائل اور الجھنیں بہ دستور قائم ہیں اور علاج کے نام پر بند راستے یا اندھیری سرنگوں کا سفر ہے۔(2007)

صفدر امام قادری کا یہ مقالہ بھی ملاحظہ ہو :اردو اور ہندی کے ابتدائی تنازعات اور سرسیّد احمد خاں

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے