تاریکی پھیلنے سے رک جائے تو صالح معاشرہ خود وجود پذیر ہو جاتا ہے

تاریکی پھیلنے سے رک جائے تو صالح معاشرہ خود وجود پذیر ہو جاتا ہے

محمد قاسم ٹانڈؔوی
رابطہ:09319019005
قرآن حکیم میں ایک جگہ اللہ ارشاد فرماتے ہیں: "اگر تم میری نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو شمار نہیں کر سکتے"۔ (سورہ ابراہیم:14)
پتا چلا کہ یہ زمین و آسمان اور ہر وہ چیز جو ان دونوں کے درمیان ہے؛ سب اللہ کی پیدا کردہ ہیں اور سب کی سب انسانوں کے فوائد کے واسطے بہ طور نعمت پیدا کی گئی ہیں، ان کی نہ کوئی حد ہے اور نہ کوئی حساب و شمار۔ ان میں وہ چیزیں بھی داخل و شریک ہیں، جو ہمیں نظر آتی ہیں اور وہ چیزیں بھی شامل ہیں جو ہمیں نظر نہیں آتیں، ایسے ہی ان میں سے کچھ چیزیں ہمارے استعمال میں آ جاتی ہیں اور بہت ساری چیزیں ایسی ہیں جن کو ہم استعمال ہی نہیں کر پاتے یا ان تک ہماری عقل و فہم کی رسائی اور پہنچ نہیں ہو پاتی؛ مگر وہ سب کی سب پیدا کی گئی ہیں اولا انسانوں کے فائدہ کے خاطر بعدہ دیگر جان دار و حیوانات ان سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ جیسا کہ باری تعالی کا ارشاد ہے: "ایے ہمارے رب! تونے کوئی بھی شے باطل و بےکار پیدا نہیں کی"۔ (سورہ آل عمران:121)
الغرض اللہ رب العزت نے جہاں ہمیں اپنی بہت سی نعمتوں، برکتوں اور رحمتوں سے سرفراز فرمایا ہے، ساتھ ہی وہاں ہمیں یہ حکم بھی دیا ہے کہ ہم اللہ کی ان نعمتوں کے دل سے شکر گزار اور قدر داں بھی رہیں، تاکہ ہمارا یہ عمل اس کی طرف سے ملنے والی نعمتوں پر اضافہ اور زیادتی کا سبب و ذریعہ بن سکے۔ لیکن انسان بڑا ناشکرا، ناقدرا، جلد باز اور اپنی جان پر ظلم کرنے والا واقع ہوا ہے؛ اور ان باتوں کی طرف قرآن میں متعدد جگہ اشارہ کیا گیا ہے۔
الغرض حاصل شدہ نعمتوں میں سے ہمیں ایک عظیم نعمت بلکہ یوں کہیں کہ سب سے افضل و ارفع و اعلا نعمت جس کو تمام نعمتوں کے حصول کی اصل و بنیاد بنایا جاسکتا ہے، وہ یہی ہے کہ ہمیں سرکار دوعالم، رحمۃاللعالمین محمد عربی (صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم) کی ذات عالی صفات سے نسبت و انسیت کا تحفہ بن مانگے ملا۔ اب یہ مقدر و نصیب کا کھیل ہے کہ کون اس نسبت و تعلق کا بھرم و خیال رکھتے ہوئے آپ کے پاکیزہ طریقوں کو اپناتا ہے اور کون آپ کے تربیت یافتہ صحابہ کرام کے نقش قدم پر چل کر اپنے گلے میں غلامی مصطفی کا طوق ڈالتا ہے اور خود کو تعلیمات دین اور شرائع اسلام کا پابند بناتا ہے یا کون بدبخت اور حرماں نصیب آپ کے ذریعے لائے ہوئے دین متین میں تحریف و تبدیلی واقع کر خود کو ضلالت و گم راہی کے قعر مذلت میں ڈھکیل کر خائب و خاسر ہوتا ہے؟ اس لیے کہ ہمارے درمیان ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے، جو اسلامی سال کے پہلے مہینہ (محرم) کے عشرہ اول اور تیسرے مہینہ (ربیع الاول) کی آمد کے شدت سے منتظر رہتے ہیں اور ان کی ساری کی ساری مسلمانی اور دینی غیرت و حمیت بس انہی دو مخصوص موقعوں پر نظر آتی دکھائی دیتی ہے۔ یعنی ان کے نزدیک اسلام کی نشاۃ ثانیہ انہی دو مواقع پر ہوتی ہے، ایک یوم عاشورہ؛ کہ: "دین زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد" اور دوسرے یوم وفات نبیؐ؛ جیسا کہ اس روز بلند و بانگ دعووں میں بار بار یہ دہرایا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ: "غلامی رسول میں موت بھی قبول ہے" اور ان دو دنوں میں پورے جوش و خروش کے ساتھ اپنے مکروہ عزائم کو بروئے کار لاتے ہوئے تعلیمات اسلام کے منافی اعمال و افعال کے ذریعے ایک طرح سے مذہب اسلام کی بیخ کنی اور کردار کشی کی جاتی ہے۔ ان ایام مذکورہ میں انجام دینے والی بدعات و خرافات کو دیکھ کر ان لوگوں کی عقل و دانش پر افسوس ہوتا ہے جنھیں پورے سال اسلام، شعائر اسلام یا قرآن و صاحب قرآن کی عظمت و رفعت کا کوئی پاس و لحاظ نہیں ہوتا اور دین اسلام کی اصل تعلیمات کا احساس جن کے قریب سے بھی نہیں گزرتا؛ مگر ان دو دنوں میں ان سب کو بھی حسینؓ کے نانا کے لائے ہوئے دین کو بچانے کی فکر سوار ہوتی ہے اور بدعات و خرافات کے لبادہ میں پوشیدہ شیطانی اعمال کے ذرائع و بہانے تراش کر دنیا میں سبز انقلاب لانے کی باتیں کی جاتی ہیں، جس میں ڈھول تاشوں کی آواز، ڈی جے باجوں کی جھنکار، گانوں اور میوزک کے طرز پر نعت خوانی، پوری پوری رات ہوٹلوں اور سڑکوں پر بیٹھ کر حقانیت اسلام کے نعرے لگانا اور ہر اس فعل کو انجام دینا جس کا اسلام سے دور دور تک بھی کوئی واسطہ اور تعلق نہیں، اور ان تمام امور کو دین محمدی کی اصل اور بنیاد اس طور پر قرار دینا کہ بس یہی چیزیں حقیقت و اہمیت کی حامل ہیں اور یہی سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اصل محبت و عنایات کا سرمایہ و سرچشمہ ہیں۔ ان کے بغیر نہ دین کی بقا کا تصور کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی کسی کو ان کی ادائیگی کے بغیر حقیقی مسلمان تسلیم کیا جاسکتا ہے۔ اس لیے ہمارے درمیان اہل ایمان کا ایک طبقہ وہ ہے جن کے چہرے ان دو ماہ کی آمد سے قبل کھل اٹھتے ہیں اور ان کے وجود عشق حقیقی کے نام پر جھومنے لگتے ہیں، ان کے گردا گرد کی فضا روشن، ان کے مکان و دوکان کا ماحول رنگین اور گلی کوچوں میں بےہنگم شور شرابہ ہونے لگتا ہے، اور اس دوران شرافت و نجابت کی تمام حدیں پار ہوتے دیکھ کر ایک عام آدمی یا جسے دین اسلام کی کچھ شد بدھ ہو؛ اسے یہ سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں کہ: کیا حقیقت میں یہ سب امور اسی مذہب اسلام کا حصہ ہیں، جو ایک عالمی اور ہمہ گیر مذہب ہونے کا دعوی پیش کرتا ہے اور راہ سے بھٹکے ہوئے انسانوں کو اپنے پاکیزہ آنچل میں ڈھانپ لینے اور ان کو راہ راست پر لانے کا دعوی کرتا ہے؟ یا پھر یہ لوگ کسی اور دین و مذہب کے ماننے والے ہیں جو روڈ اور سڑکوں پر بیٹھ کر خود اپنا ہی تماشا بنوانے میں مسرور و مگن ہیں؟
ہم مانتے ہیں اور اس پر ہمارا ایمان کامل و پختہ عقیدہ ہے کہ ماہ ربیع الاول فخر رسل اور رحمت عالم (ﷺ) کی آمد و ولادت کا مہینہ ہے، یہی وہ بابرکت مہینہ ہے جس میں کفر و شرک کی دلدل میں بھٹکتی انسانیت کو نجات ملی اور جہالت و تاریکی میں غوطہ زن معاشرہ کو فوز و فلاح نصیب ہوئی، آپ ﷺ کی آمد سے سسکتی خلقت اور مٹتی مذہبی اقدار و روایات کو عظمت و پاسبانی کا نایاب موقع نصیب ہوا اور ہر سو پھیلی ضلالت و گمراہی کا قلع قمع ہو کر مسرت و شادمانی کا پرکیف نظارہ قائم ہوا، برسوں سے چلی آرہی باہمی جنگ و جدال کا خاتمہ ہوا اور آپسی بھائی چارہ کو اعلا پیمانے پر فروغ ملا۔ اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ رحمت عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت باسعادت تاریخ انسانی میں رونما ہونے والا سب سے بڑا اور انوکھا واقعہ ہے، جس کی عظمت و رفعت کا منکر کوئی بدکردار اور فاسق و فاجر تو ہو سکتا ہے، مگر صالح طبیعت اور نیک فطرت کا حامل اس کا منکر نہیں ہو سکتا۔ جس کی بابت قرآن پاک میں ارشاد ہے: "اللہ کا مسلمانوں پر سب سے بڑا احسان یہ ہوا کہ انہی میں سے ایک رسول بھیجا، جو ان پر اللہ تعالیٰ کی آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتا ہے اور انھیں پاکیزہ کرتا ہے، وہ انھیں کتاب و حکمت سکھاتا ہے، اور اس سے پہلے وہ لوگ کھلی گمراہی میں تھے"۔
مگر آج کے حالات کو دیکھا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ: جو کتاب و حکمت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سکھائی تھی، اور جس گم راہی کے راستے سے ہمیں نکال کر پوری انسانیت کو پاکیزگی بخشی تھی، نفس پرست اور ہوائے نفسانی کے دلدادہ آج اسی روش پر چل پڑے ہیں، اور رسول عربی کی زبانی جن آیتوں کو سن سن کر بھٹکتی انسانیت کو نجات ملی تھی؛ انسانیت آج پھر بھٹک چکی ہے۔ اسلام کی تعلیم ہمیں ہر موقع پر خواہ رنج و غم کا ماحول ہو یا خوشی و مسرت کے لمحات ہوں یا پھر امتحان و آزمائش کی گھڑی ہو؛ بہ ہر صورت حد اعتدال میں رہنے اور شرعی نقطہ نظر سے جو بھی راہ نمائی ہو سکتی ہو، اسے اختیار کرنے کا حکم دیتی ہے۔ دین نام ہے مرضی رب کے آگے سر تسلیم خم کردینے اور اپنے دامن کو نبی کی اطاعت و فرماں برداری میں وابستہ کر دینے کا۔ اب اگر کوئی اللہ رب العزت کی مرضی کے خلاف اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و فرماں برداری سے ہٹ کر کوئی دوسری راہ اختیار کرتا ہے تو وہ اس کے من کی تخریب شدہ منفی راہ تو ہوسکتی ہے، مگر دین اسلام کی مثبت و تعمیری ہدایات نہیں۔ کیوں کہ ہمیں شب و روز کے معمولات میں پابند عہد کیا گیا ہے اور بہتر راہ نمائی کے واسطے قرآن و حدیث کا مکلف بنایا گیا ہے۔ عمل وہی مقبول و منظور ہوگا جسے شریعت کے مآخذ و مراجع کی روشنی میں انجام دیا گیا ہوگا، بہ صورت دیگر قابل رد اور قابل مواخذہ ہوگا۔ جس سے بچنا اور سادہ لوح عوام کو بچانا ہر سلیم الفطرت شخص کی ذمہ داری ہے۔ آج جو یہ چوک چوراہوں پر نکڑ ناٹک اور قسم قسم کے کھیل تماشے منعقد کیے جاتے ہیں؛ کیا کسی کی عقل و فطرت اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ دین کو اس طرح بدنام و رسوا کیا جائے؟ اور کیا وقت کا یہ تقاضہ نہیں ہے کہ ان خرافات و بدعات کو انجام دینے کی بجائے امت کے دامن کو تعلیم نبوی سے لبا لب اور پر کیا جائے؛ تاکہ تاریکی کو مزید پھیلنے کا موقع نہ ملے اور ایک صالح معاشرہ وجود پذیر ہو؟
(mdqasimtandvi@gmail.com)
صاحب تحریر کی یہ تحریر بھی پڑھیں :٢/اکتوبر اور ہمارا میڈیا

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے