محمد دانش غنی کا تنقیدی شعور

محمد دانش غنی کا تنقیدی شعور

(شعر کے پردے میں) کے حوالے سے

ڈاکٹر احمد علی جوہر
اسسٹنٹ پروفیسر، جے، این، کالج، نہرا، دربھنگہ، بہار

محمد دانش غنی ایک تازہ دم، فعال اور سلجھے ہوئے ادیب ہیں۔ دہلی اور لکھنؤ سے دور مہاراشٹر کے علاقے میں وہ اردو زبان و ادب کی قندیل کو جس طرح روشن کیے ہوئے ہیں، وہ لائق صد رشک و تحسین ہے۔ ان کی نمایاں خوبی یہ ہے کہ انھوں نے اردو زبان و ادب کے مطالعے کے لیے اپنے ذہن و دل کے تمام دریچوں کو وا رکھا ہے اور غیر رسمی مطالعاتی طریقہ کار اپنایا ہے۔ انھوں نے سکہ بند ناقدین و ادبا کی طرح اپنے آپ کو کسی مخصوص دبستان، تحریک یا رجحان میں محصور نہیں رکھا ہے، بل کہ ادب کی تمام کروٹوں، پہلوؤں پر ان کی نگاہ ہے۔ انھوں نے کلاسیکی ادب کا بھی گہرا مطالعہ کیا ہے اور جدید ادب سے بھی وہ پوری طرح شناسا ہیں۔ روایت و جدت کے اس حسین امتزاج کی جھلک ان کی تحریروں میں نمایاں ہے۔ ان کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ انھوں نے تخلیقی متن کے مطالعے سے جو نتائج اخذ کیے ہیں، اسے معروضی انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ انھوں نے بنے بنائے فارمولے کے مطابق یا روایتی انداز میں اپنی رائے دینے سے گریز کیا ہے۔ متن کے مطالعہ کا یہی طریقہ کار ان کی تنقیدی تحریروں کو اعتبار و وقار بخشتا ہے۔
محمد دانش غنی کی پیش نظر کتاب "شعر کے پردے میں" میں مذکورہ تمام خوبیاں جلوہ گر ہیں۔ اس کتاب میں جہاں انھوں نے خواجہ الطاف حسین حالی، محسن کاکوروی، علامہ محمد اقبال، محمد علی جوہر، حسرت موہانی، جگر مراد آبادی، اور ساحر لدھیانوی کی تخلیقی نگارشات کا جائزہ پیش کیا ہے، وہیں مہاراشٹر کے عصر حاضر کے مقامی شعرا غنی اعجاز، بشر نواز، خضر ناگپوری، قاضی فراز احمد، شریف احمد شریف، شمیم طارق، ساحر شیوی، نذیر فتح پوری، ظفر کلیم، شکیب غوثی، سعید کنول، تاج الدین شاہد، حیدر بیابانی اور اقبال سالک کو بھی ادبی منظرنامہ پر پیش کیا ہے اور ان کی شعری انفرادیت و اختصاص کو بھی سامنے لایا ہے۔ مشہور و معروف شعرا پر تو بے شمار تحریریں ملتی ہیں مگر دلی اور لکھنؤ سے دور مہاراشٹر جیسے علاقے کے مقامی شعرا کبھی بھی ناقدین کی توجہ کا مرکز نہیں بن پاتے یا اگر ان کا تذکرہ بھی ہوتا ہے تو وہ سرسری نوعیت کا ہوتا ہے لیکن محمد دانش غنی نے اس ضمن میں اپنی جرأت مندی کا ثبوت دیا ہے اور مہاراشٹر کے مقامی شعرا کی انفرادیت اور ان کے شعری امتیازات کو اجاگر کرکے اہل اردو کی جانب سے بہت بڑا ادبی فریضہ ادا کیا ہے۔
محمد دانش غنی نے اپنی اس کتاب میں بڑے محتاط انداز میں اپنا مطالعہ پیش کیا ہے۔ انھوں نے اس کتاب میں شامل تمام شعرا کا مطالعہ کرتے ہوئے بڑی باریک بینی سے ان گنت مخفی پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے۔ محمد دانش غنی شعری متن کا مطالعہ کرتے ہوئے تشبیہات و استعارات، اشارات و کنایات کی جدت و ندرت، انداز بیان اور طرز اظہار کی دل کشی، زبان کی سلاست و روانی، فکر و تخیل کی حسین آمیزش، غرض تمام شاعرانہ فکری و فنی محاسن پر نظر رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ شعرا کی شخصیت، پس منظر اور پیش منظر پر بھی روشنی ڈالتے ہوئے اپنی رائے معروضی انداز میں پیش کرتے ہیں۔ وہ شعری متن کی تفہیم کچھ اس انداز میں کرتے ہیں کہ قاری ان کی تحریروں کا اسیر ہوجاتا ہے۔ محمد دانش غنی بھاری بھرکم تنقیدی اصطلاحات کا قطعی سہارا نہیں لیتے، وہ متن کی تفہیم کو آسان بناکر پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ سکہ بند ناقدین کی طرح رسمی انداز میں اپنی رائے نہیں دیتے ہیں بل کہ متن کے مطالعے سے ان پر جو نکات روشن ہوتے ہیں، اسی کو وہ پیش کرتے ہیں۔
محمد دانش غنی نے اپنی اس کتاب میں تحقیق کے بھی اچھے نمونے پیش کئے ہیں۔ "کوکن کے اردو لوک گیت"، "ودربھ میں جدید اردو غزل" اور "رتناگری کی شعری روایت" ان کے تحقیقی نوعیت کے مضامین ہیں۔ ان تینوں مضامین میں انھوں نے بالترتیب کوکن میں اردو لوک گیت اور ودربھ میں اردو غزل کے جدید منظرنامہ اور رتناگری کے علاقے میں شعری صورت حال پر تحقیقی انداز میں بڑی خوب صورتی سے روشنی ڈالی ہے۔
محمد دانش غنی کی یہ کتاب تنقید و تحقیق کے میدان میں ایک خوشگوار اضافہ ہے جس میں مطالعہ کی گہرائی و گیرائی کے ساتھ ادبی بصیرت بدرجہ اتم موجود ہے.

احمد علی جوہر کی یہ نگارش بھی ملاحظہ ہو : شاد عظیم آبادی کی شاعرانہ عظمت

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے