ذاکر فیضی اور ” نیا حمام"

ذاکر فیضی اور ” نیا حمام"

ڈاکٹر گلزار احمد وانی

”نیا حمام" ذاکر فیضی کا پہلا افسانوی مجموعہ ہے۔مجموعے میں پچیس کہانیاں اور پانچ افسانچے ہیں۔ جو  فکری نوعیت کے حامل ہیں۔ اور موجودہ صدی کی بحرانی کیفیات سے لبریز بھی ہیں۔ دیکھا جائے تو موجودہ دور میں فرد کے کرب ناک مراحل کی یہ ایک ایسی داستان ہے جس کے ہر ایک سمت میں سماج میں پلے بڑھے جرائم اور رونما ہونے والے دل دوز واقعات کی خبریں دیکھنے اور سننے کو ملتی ہیں اورمعمولی واقعے کو میڈیا والے کس قدر بڑھا چڑھا کر پیش کر کے اپنے چینلوں کی قدر و قیمت میں اضافے کے خواہاں ہیں۔ اور اس نام نہاد اور جھوٹی شہرت سے وہ سچ کو جھوٹ اورجھوٹ کو سچ بنا کر پیش کرکے اپنی جیبیں بھر کر معصوموں کی جانوں سے کھلواڑ کرتے ہیں۔ جدید دور میڈیا کے دور سے موسوم کیا جاتا ہے۔ کسی بھی خبر کو بڑی خبر کہہ کر گھنٹوں تک بحث و تمحیص میں رہ کر سامعین کی توجہ اپنی طرف کھینچنے کی کارستانی کے ساتھ پیش کرکے سماجی منافرت پھیلاتے ہیں اور آپسی دشمنی کی آگ کو ہوا دیتے ہیں۔
کہانی ”نیا حمام” میڈیا کی کارستانیوں کے نتیجے میں تخلیق کی گئی ایک عمدہ کہانی ہے۔ جس میں تین سال کی اندھی گونگی اور بہری بچی کا ایک دل خراش واقعہ بیان ہوا ہے. اس کہانی میں کہانی کار نے ایک دل خراش واقعہ بیان کرکے بتایا کہ سماج میں رہ رہے میڈیا کے لوگ کس قدر اس بچی کی جان کے دشمن بن کر اسے خطرناک انداز سے مارنے کے پلان کو اختتام پذیر کرواتے ہیں اور میڈیا کا اصلی چہرہ دکھاتے ہیں۔جو کہ ایک لحہ فکریہ بھی ہے۔اس اقتباس پر غور فرمائیں:

” پہلے رائٹر نے بنا وقت گنوائے کہا: ”سر میری رائے میں بچّی کی موت جتنی دردناک ہوگی، ہمیں اُتنی ہی اچھّی ٹی۔آر۔ پی۔ ملے گی۔ اس لیے میں نے اس طرح کی اسکرپٹ تیار کی ہے سر کہ بچّی کے ماں باپ، اُس کے پیدائشی اندھے، گونگے اور بہرے پن سے عاجز و پریشان ہیں۔ ایک دن جھنجھلا کر بے پناہ غصّے میں بچّی کی آنکھیں نکال لیتا ہے۔ ماں بھی اُس کے بہرے پن سے عاجز ہوکر سوئٹر بُننے والی سلائیاں اس کے کان میں گھسیڑ دیتی ہے۔“
کہانی کار مذکورہ افسانے کے ذریعے سے اس بات کا پردہ فاش کرتے ہیں کہ انسان معمولی عشرت سامانی کے عوض کس طرح اپنے لخت جگروں کی جان کے دشمن بن جاتے ہیں۔ اس حالت میں افسانہ نگار اپنے قلم کی مضبوط گرفت کے ساتھ کہانی کا انت کس طرح کرتے ہیں وہ سوچنے پر ایک قاری کو مجبور کرتا ہے۔ کہانی کا اختتام دیکھیں:
”ساری باتیں طے ہو چکی تھیں۔
ایڈیٹر نے میٹنگ کو اختتام کی طرف لے جاتے ہوئے، تمام لوگوں کی جانب باری باری ایسے دیکھا جیسے جنگی محاذ پر جا رہی فوجی ٹکڑی کے کمانڈر نے پوچھا ہو۔
”کوئی شک؟۔۔۔۔۔کوئی سوال؟“
سب لوگوں کی خاموشی نو سر (No Sir) کی صدا بلند کر رہی تھی۔“
”جھٹکے کا گوشت” کہانی میں فرد کی حسی کش مکش کے حصار میں کیا حلال و کیا حرام بس پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے سماج میں رہ رہے انسان بلند بانگ زبانی دعوے کرتے ہوئے بھی حرام کاری سے باز نہیں آتے ہیں۔اور افسانچے کے آخر میں ایک قاری کئی استفسارات ذہن میں لئے مزید تفصیل کی گنجائش لے کر اپنے ہی فکر کے کینوس پر بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ اسی طرح افسانہ ”ہم دھرتی پر بوجھ ہیں" افسانے میں موجودہ صدی کی حسی کش مکش دکھائی دیتی ہے جہاں سماج میں رہ رہے ہ فرد کی کہانی ایک جیسی ہے سب امیر و غریب، حاکم و محکوم، ملازم اور عام آدمی اس دھرتی پر خود کو کسی بوجھ سے کم نہیں سمجھتے ہیں۔ کوئی بھی سکھ کی حالت میں دید مان نہیں ہے۔ دنیا میں عیش و آرام غارت ہونے سے ہر طرف کھلبلی سی مچی ہے۔ آہیں اور سسکیاں چاروں سمت دیکھی جا سکتی ہیں۔ یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
”وہ تمام وارڈ میں جاکر دیگر مریضوں کو اپنے ساتھ ملانے لگا۔”چلو یہاں سے،
ہم دھرتی پر بوجھ ہیں۔“
اسپتال کے تمام مریض، آپریشن شدہ، غیر آپریشن شدہ گیلریوں میں آ گئے۔۔
۔۔۔۔ اور نعرے لگانے لگے۔
”ہم دھرتی پر بوجھ ہیں۔۔۔۔۔ ہم دھرتی پر بوجھ ہیں۔“
ذاکر فیضی کی کہانیاں آج کے انسان کو اپنی ہی کہانی محسوس ہو رہی ہے۔ اور کہیں نہ کہیں اسے ان میں اپنا ہی وجود پنپا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ اگرچہ ہر ایک کہانی کار کے یہاں یوں تو کہنے کو بہت کچھ ہے۔ مگر فیضی کے یہاں جب الفاظ حاضر سچویشن کا بھر پور ساتھ دے رہے ہوں تو اظہار اور احساس کے درمیانی فاصلے کم ہو کر سماج کی اصلی شکل و صورت خود بہ خود عیاں ہو جاتی ہے۔ اور یہی خاصا ہے کہ ذاکر فیضی بس اتنا کہہ دیتے ہیں جتنا کہانی کے لئے موزوں اور درکار ہوتا ہے۔ جس سے ان کے حقیقی فن کار ہونے کا ثبوت فراہم ہوتا ہے۔ ان کے یہاں سماج میں رہ رہا ہر ایک فرد ان کی نظروں سے بالکل بھی اوجھل نہیں ہے۔ یہاں کہانی کار ہر اک شے کے اندر کے سیاق و سباق میں ڈوب کر کسی دوسرے منظر کی آگہی فراہم کرتے ہیں جسے پڑھ کر قاری ورطہ حیرت میں پڑ جاتا ہے. ذاکر فیضی ہر ایک خیال پر سے جذبات کا دباؤ کم کرکے پھر اس پر سے اس کی دبیز تہہ کھسکا کر اصلیت کے چہرے کو عیاں کرتے ہیں، جس سے ان کے یہاں ایک اعلی فن کار موجود دکھائی دیتا ہے؛ جو بڑے ہی انہماک سے کہانی بنتے ہیں. ان کی کہانی کے پیچھے ہر ایک وہ کردار ہے جو اسی سماج میں پلا بڑھا ہے۔ جس سے یہ واقف کار بھی ہے۔فیضی زندگی کے متنوع زاویوں کو دیکھ کر اور پرکھ کر سوچتے ہیں اورپھر ادراک کی چھانی میں ڈال کر ہی کہیں کہانی بنتے ہیں جو ان کے اعلی پایہ کا افسانہ نگار ہونے کی اپنی ایک الگ اور منفرد شناخت اور دلیل بھی عطا کرتا ہے۔

ذاکر فیضی کا یہ افسانہ بھی ملاحظہ کریں : وائرس

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے