ہر سماں نور میں نہایا تھا

ہر سماں نور میں نہایا تھا

افضل الہ آبادی
ہر سماں نور میں نہایا تھا
یہ لب بام کون آیا تھا

چاند کی چاندنی تھی سجدے میں
کس کے جلووں نے سر اٹھایا تھا

حسن خنجر بکف تھا ہر جانب
قتل ہونے کو عشق آیا تھا

روشنی پھوٹتی ہے موجوں سے
آج پنگھٹ پہ کون آیا تھا

اس کے بجھنے کا دکھ بہت ہے مجھے
جس نے جلنا مجھے سکھایا تھا

برق کو مجھ سے یہ شکایت تھی
میں نے خود آشیاں جلایا تھا

ہر گھڑی دھوپ جس پہ رہتی تھی
ایسی دیوار کا میں سایہ تھا

کون تھا وہ جو بر سر مقتل 
سرخ جوڑا پہن کے آیا تھا

خوف طاری تھا آسمانوں پر
کس کی وحشت نے سر اٹھایا تھا

چلتے چلتے ہوئی کوئی آہٹ
مڑ کے دیکھا تو میرا سایہ تھا

گھر جو لوٹا تو یہ ہوا معلوم
کوئی مجھ کو بلانے آیا تھا

آج بھی وہ سبق ہے یاد مجھے
تیری آنکھوں نے جو پڑھایا تھا

زندگی دے گیا چراغوں کو
ایک جھونکا ہوا کا آیا تھا

موم کا جسم لے کے اے افضل
کوئی سورج سے ملنے آیا تھا

افضل الہ آبادی کی یہ غزل بھی ملاحظہ فرمائیں:قطرۂ خوں ہے یا شرر کوئی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے