یومِ عاشورہ کے فضائل وبرکات !

یومِ عاشورہ کے فضائل وبرکات !

محمد اشفاق عالم نوری فیضی
رکن۔مجلس علماے اسلام مغربی بنگال شمالی کولکاتا نارائن پور زونل کمیٹی کولکاتا۔136
رابطہ نمبر۔ 9007124164

ماہ محرم الحرام دیگر مہینوں کی نسبت نہایت فضیلت اور عظمت والا ہے. اس مہینے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ رکھنے کی تلقین فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ رمضان المبارک کے بعد اگر کوئی روزہ سب سے افضل ہے تو وہ اس مہینے کا روزہ ہے.

عاشورہ کے روزے کے تعلق سے چند احادیث کریمہ ملاحظہ فرمائیں:
1. حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم عاشورہ کے دن کا روزہ رکھنے کا حکم فرماتے اور اس کی طرف راغب کرتے اور اس کا عہد بھی کراتے تھے۔ پھر جب رمضان کی فرضیت کا نزول ہوا تب آپ نے ہمیں اس کا نہ ہی حکم دیا اور نہ ہی منع کیا اور نہ ہی عہد لیا۔ (مسلم شریف)
2. حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ یہود یوم عاشورہ کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور اس روز کو بطور عید مناتے تھے تب محبوب خدا صلی اللہ وسلم نے فرمایا کہ تم بھی اس دن روزہ رکھو۔
3. حضرت عبید بن ابی یزید رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے سنا کہ ان سے یومِ عاشورہ کے متعلق دریافت کیا گیا تو انہوں نے کہا میں اس بات کا علم نہیں رکھتا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ایسے دن کا روزہ رکھا ہو اور اس دن کے سوا دوسرے دنوں پر اس کی فضیلت طلب کی ہو. کوئی ماہ رمضان کے مہینہ سے افضل نہیں ہے. (بخاری شریف)
4. حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر اگلے سال میں زندہ رہا تو ضرور نویں اور دسویں عاشورہ کا روزہ رکھوں گا۔
5. حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عاشورہ کے دن کا روزہ رکھو اور اس میں یہود کی مخالفت کرو اور اس کے ایک روز پہلے یا ایک روز بعد بھی روزہ رکھو۔ (امام احمد)
6. حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے کہ وہ فرماتی ہے کہ رمضان کا روزہ فرض ہونے سے پہلے یوم عاشورہ کا روزہ رکھا جاتا تھا، جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو چاہے روزہ رکھے جو نہ چاہے نہ رکھے ۔
7. حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یوم عاشورہ جس نے اپنے گھر والوں پر رزق میں فراخی کی تو پھر تمام سال اس کے ہاں فراخی ہی رہے گی۔
8. حضرتِ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ نے یہود کو عاشورا کے دن کا روزہ رکھتے دیکھ کر پوچھا کہ تم اس دن روزہ کیوں رکھتے ہو؟ انھوں نے کہا یہ ایسا دن ہے جس میں اللہ تعالی نے موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو فرعون اور اس کی قوم پر غلبہ عطا فرمایا تھا لہذا ہم تعظیما اس دن کا روزہ رکھتے ہیں، اس پر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا کہ ہم موسیٰ علیہ السلام سے تمھاری نسبت زیادہ قریب ہیں. چناں چہ آپ نے بھی اس دن کا روزہ رکھنے کا حکم دیا۔

خصوصیات یوم عاشورہ:
عاشورہ کے دن کے ساتھ بہت سی باتیں مخصوص ہیں، ان میں سے چند قابل ذکر ہیں کہ اس دن حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول کی گئی، اسی دن انھیں پیدا کیا گیا، اسی دن انھیں جنت میں داخل کیا گیا، اسی دن عرش، کرسی، آسمان، زمین، سورج، چاند، ستارے اور جنت پیدا کیے گئے، اسی دن حضرت ابراہیم علیہ السلام پیدا ہوئے، اسی دن انھیں آگ سے نجات ملی، اسی دن حضرت موسٰی علیہ السلام اور آپ کی امت کو نجات ملی اور فرعون غرق ہوا، اسی دن حضرت عیسی علیہ السلام پیدا کیے گئے، اسی دن انھیں آسمانوں کی طرف اٹھایا گیا، اسی دن حضرت ادریس علیہ السلام کو بلند مقام کی طرف اٹھایا گیا، اسی دن حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کوہ جودی پر ٹھہری، اسی دن حضرت سلیمان علیہ السلام کو ملک عظیم عطا کیا گیا، اسی دن حضرت یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ سے نکالے گئے، اسی دن حضرت یعقوب علیہ السلام کی بینائی لوٹائی گئی، اسی دن حضرت یوسف علیہ السلام گہرے کنویں سے نکالے گئے، اسی دن حضرت ایوب علیہ السلام کی تکلیف رفع کی گئی، آسمان سے زمین پر سب سے پہلی بارش اسی دن نازل ہوئی اور اسی دن کا روزہ امتوں میں مشہور تھا، یہاں تک کہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس دن کا روزہ ماہ رمضان سے پہلے فرض تھا، پھر منسوخ کر دیا گیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت سے پہلے اس دن کا روزہ رکھا۔
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ نے اس دن کی جستجو کی تاکید کی. یہاں تک کہ آپ نے آخر عمر شریف میں فرمایا کہ اگر میں آئندہ سال تک زندہ رہا تو آئندہ نویں اور دسویں محرم الحرام کا روزہ رکھوں گا مگر آپ نے اسی سال وصال فرمایا اور نویں کے سوا دسویں کا روزہ نہ رکھ سکے مگر آپ نے اس دن یعنی نویں اور دسویں اور گیارہویں محرم کے دنوں میں روزہ رکھنے کو پسند فرمایا. جیسا کہ فرمان عالی شان ہے، اس دن سے ایک دن پہلے اور ایک دن بعد روزہ رکھو اور یہود کے طریقہ کی مخالفت کرو کیوں کہ وہ ایک دن ہی کا روزہ رکھتے تھے ۔
بیہقی نے شعب الایمان میں روایت نقل کی ہے کہ جس نے عاشورا کے دن اپنے گھر والوں اور اہل و عیال پر وسعت کی، اللہ تعالی اس کے سارے سال میں وسعت اور برکت عطا فرماےگا۔
طبرانی کی ایک منکر روایت میں ہے کہ اس دن میں ایک درہم کا صدقہ سات لاکھ درہم کے برابر ہے اور وہ حدیث جس میں ہے کہ جس نے اس دن سرمہ لگا یا وہ اس سال آنکھیں دکھنے سے محفوظ رہےگا اور جس نے اس دن غسل کیا وہ بیمار نہیں ہوگا، حاکم نے اس کی تصریح کی ہے کہ اس دن سرمہ لگانا بدعت ہے، ابن قیم نے کہا ہے کہ سرمہ لگانے، دانے بھوننے، تیل لگانے اور عاشورا کے دن خوش بو وغیرہ لگانے کی حدیث جھوٹوں کی وضع کردہ ہے۔اور ہمارے معاشرے کے کچھ لوگوں میں یہ مشہور ہے کہ محرم الحرام کا مہینہ داخل ہوتے ہی بعض لوگ چولہا جلانے سے گریز کرتے ہیں تو کچھ لوگ مچھلی کھانے کو ناجائز وحرام سمجھتےہیں شادی بیاہ کرنا جیسی چیزوں کو بھی منحوس شمار کرتے ہیں، جب کہ شریعت میں ان چیزوں کا نام ونشان تک نہیں ہے۔ یہ سب کے سب خود ساختہ ہیں، جن سے تمام امت مسلمہ کو احتراز کرنا لازم و ضروری ہے۔ اور شریعت مطہرہ کے تحت ہمیں زندگی گزارنے کی ضرورت ہے.

اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا ہے کہ تمام امت مسلمہ کو عاشورہ کا روزہ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے اور جملہ اہل بیت اطہار وشہداے کربلا کے فیوض و برکا ت سے مستفیض فرماے ۔آمین.
صاحب تحریر کی کا یہ مضمون بھی ملاحظہ ہو :حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ : عظمت و رفعت

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے