واقعۂ کربلا آج بھی اسلام کی بقا کا عظیم پیغام ہے

واقعۂ کربلا آج بھی اسلام کی بقا کا عظیم پیغام ہے

حسین قریشی
بلڈانہ، مہاراشٹر

اسلام کی ابتدا قربانیوں سے ہوئی ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر ہمارے اور آپ کے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک سب نے ہر طرح کی قربانیاں پیش کی ہیں۔ عرب کے دورِ جاہلیت سے ہم آشنا ہیں کہ کس طرح ماحول بے حیائیوں، گناہوں اور ظلم و ستم سے آلودہ تھا۔ اس جاہلانہ اور تاریک حالات کونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بے شمار تکالیف و مصیبتوں کو برداشت کرتے ہوئے اسلامی تعلیمات سے روشن و منور فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ارشاد فرمایا ہے، جس کا مفہوم ہے کہ ‘مجھے جتنی اذیت دی گئی ہیں وہ تمام نبیوں کی اذیتوں سے زیادہ ہیں۔` جب جب مذہبِ اسلام کی آن بان اور شان پر کوئی آنچ آئی تب تب اللہ عزوجل کے برگزیدہ بندوں نے اپنی جان، مال، اولاد اور خاندان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے راہِ حق میں سب کا سب قربان کردیا۔ اُن کا ایمان پختہ تھا۔ وہ جانتے تھے کہ یہ مصیبتیں، الم اور پریشانیاں ہی آخرت کی اصل کام یابی ہے۔ چناں چہ مذہبِ اسلام کو قرآن و حدیث اور شریعت کو محفوظ رکھنے کے لیے کئی معرکے، کئی جنگیں لڑی گئیں۔ ان میں سے ایک مثالی کارنامہ واقعہ کربلا ہے۔ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیارے نواسے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے پیشن گوئی فرمائی تھی کہ  حضرت حسنؓ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھوں سے مسلمانوں کے دو فریقین میں صلح ہوگی جو دینِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کو تقویت بخشے گی۔ حضور اکرم  ﷺ نے اپنے ہردل عزیز نواسہ کے بارے میں یہ بشارت سنائی تھی:
ان ابني هذا سید ولعل الله ان یصلح به بین فئتین عظیمتین من المسلمین(بخاری:۲۵۰۵)
میرا یہ بیٹا سردار ہے۔ اللہ ربّ العزت اس کے ذریعہ مسلمانوں کی دو بڑی جماعتوں کے درمیان صلح کرائے گا۔‘‘ اور ایسا ہی ہوا۔ حضرت عثمان غنیؓ کی شہادت ہوئی اور  حضرت علیؓ کی خلافت کا آغاز ہوا۔ تو یہی سے مسلمانوں میں خانہ جنگی شروع ہو چکی تھی‌۔ اور مسلمانوں کے دو گروہ بن گئے تھے۔ ان کے بعد امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے چھ ماه تک خلافت کو سنبھالا اس بیچ حضرت امیرِ معاویہ نے بھی اپنی خلافت قائم کرلی تھی۔ مسلمانوں میں کش مکش پیدا ہوگئی تھی۔ حالات خراب نہ ہوجائیں اس لیے حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عمدہ و مثالی اخلاق کا نمونہ پیش کرتے ہوئے امیرِ معاویہ سے صلح کرلی۔ اس صلح کے بعد دوبارہ مذہبِ اسلام کی شان و شوکت میں اضافہ ہونا شروع ہوگیا۔ جس کی رفتار مسلمانوں کے اختلاف کی وجہ سے دھیمی ہوگئی تھی۔ اسی طرح حضرت حُسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ” یہ میرا بیٹا جنتی نوجوانوں کا سردار ہے۔ جو اسلام کی خاطر قربان ہوگا۔ چناں چہ اس پیشن گوئی کے مطابق ہی واقعہَ کربلا رونما ہوا۔ کربلا کے میدان میں پیش کی گئی قربانی نے اسلام کو ایک راہِ حق دیا۔ وہ یہ کہ باطل کے آگے کبھی نہیں جھکنا چاہیے۔ شریعت کی پامالی کرنے والے لوگ اقتدار حاصل نہیں کرسکتے ہیں۔ ہمارے لیے قرآن و حدیث  کے قوانین اول درجہ رکھتے ہیں۔ یہ واقعۂ کربلا جو پیش آیا، اس کی وجہ بھی ایک اختلاف تھا۔ حق و باطل کا اختلاف۔۔۔۔ جب سنہ 56 ھجری میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی پیرانہ سالی اور ضعیف العمری کی وجہ سے اپنے بیٹے یزید کو خلیفہ بننے کے لیے موزوں قرادیا، تو
 یزید کی جانشینی پر بہت سے لوگوں نے اختلاف کیا، جن میں حضرت حسینؓ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت ابوبکر صدیقؓ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فرزند حضرت عبد الرحمن، حضرت عبد اللہ بن عمرؓ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ رضی اللہ تعالیٰ عنہ شامل تھے۔
ان حضرات کا اختلاف عہدہ طلبی یا کسی دُنیاوی مصلحت کے پیش نظر یا اقتدار کی حصول یابی کے لیے نہیں تھا۔ بل کہ اس کے پیچھے یہ نیک خیال کار فرما تھا کہ باپ کا اپنے بعد، اپنے بیٹے کو عہدۂ خلافت پر فائز کرنا اسلامی خلافت کا دستور نہیں ہے بل کہ شاہی طرز حکومت کا دستور ہے۔ 
جس میں رعایا کو کوئی اختیار نہیں ہوتا، بل کہ وہ ایک خاندان کے ماتحت رہنے پر مجبور ہوتے ہیں اور ہر طرح کے ظلم وستم کو برداشت کرنا ہی ان کی ذمہ داری ہوتی ہے۔  نیز ان حضرات کے پیش نظر یہ بات تھی کہ ابھی جب کہ جلیل القد ر صحابہ کرامؓ موجود ہیں توان کی موجودگی میں ان ہی میں سے کوئی منصبِ خلافت کے لیے منتخب ہونا چاہئے۔ ان کی موجودگی میں ایک نوعمر اور جواں سال انسان جو کہ صحابی بھی نہیں ہے، کو کیسے خلیفہ بنایا جا سکتا ہے؟ گویا یہ اختلاف ایک اصولی اور اخلاص پر مبنی اختلاف تھا، جس کا مقصد حق کی ترجیح اور عہدۂ خلافت کی عظمت واہمیت کا تحفظ تھا۔ نیز یزید شریعت کا پابند نہیں تھا۔ وہ بہت سے گناہ کے کام کیا کرتا تھا۔ جس سے اسلام کی عظمت اور قدر و قیمت داغ دار ہورہی تھی۔ 

         آج بھی بہت سے حضرات واقعہ کربلا کے بارے میں غلط سوچ رکھتے ہیں۔ وہ عظمتِ آل رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں مانتے ہیں۔ بل کہ یہ حضرات کربلا کے واقعہ کو اقتدار کی جنگ تسلیم کرتے ہیں۔ انھیں تفصیلی علم حاصل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ کیوں کہ یہ معاملہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گھرکا ہے۔ اس لیے بہت سنبھل کر لب کشائی کرنی چاہیے۔ امام حُسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خود جنگ نہ کرنے کی تلقین کی تھی۔ لیکن جب انھیں یقین ہو گیا کہ اب یہ یزیدی لوگ جنگ ہی کرنا چاہتے ہیں‌ توآپ نے اتمامِ حجت کے لئے کوفیوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا
        اے لوگو! ذرا ٹھہرو، میری بات سنو، میں اپنی ذمہ داری پوری کردوں، اگرتم نے میری بات سن کر میرے ساتھ انصاف کیا تو تم سے زیادہ کوئی خوش نصیب نہیں، لیکن اگر تم اس کے لیے تیار نہ ہوئے تو تمہاری مرضی، معاملہ کا ہر پہلو تمہارے سامنے ہے اور تمھیں اختیار ہے کہ جو چاہو کرو اور میرے ساتھ کوئی کسر نہ اٹھا رکھو اللہ میرا مددگار ہے۔  امام حُسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےاسلام کی شان و شوکت اور بقا کو قائم و دائم رکھنے کے کربلا کے میدان میں اپنا سب کچھ قربان کردیا۔ جان دی مگر غلط ہاتھوں میں ہاتھ نہیں دیا۔ اصل اسلامی شریعت اور قرآن و حدیث کو محفوظ رکھا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسلام کو زندہ کیا۔ اور تا قیامت ہم سب کو یہ عملی درس دیا کہ اگرمذہب اسلام پر کوئی بھی آنچ آئے تو اپنی جان مال اور یہاں تک کہ اپنے اہل وعیال کو اللہ عزوجل کی راہ میں قربان کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہو۔ یہی اصل آخرت کی کام یابی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک امام حُسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام زندہ ہے۔ اور صبح قیامت تک زندہ و جاوید رہے گا۔
قتلِ حُسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
***
حُسین قُریشی کی گذشتہ نگارش: بھارت رتن ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام ایک جوہرِ نایاب تھے

شیئر کیجیے

One thought on “واقعۂ کربلا آج بھی اسلام کی بقا کا عظیم پیغام ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے