ڈاکٹر امام اعظم ”گیسوئے افکار“ کے حوالے سے

ڈاکٹر امام اعظم ”گیسوئے افکار“ کے حوالے سے

ڈاکٹر مظفر نازنین

ڈاکٹر امام اعظم محتاج تعارف نہیں ہیں۔ موصوف معروف علمی و ادبی شخصیت ہیں جنھیں اردو دنیا کا تقریباً ہر شخص جانتا اور پہچانتا ہے۔ موصوف کے ادبی مضامین کے مجموعہ”گیسوئے افکار“ کے بغور مطالعہ پر میں اپنے احساسات و جذبات کو قارئین کی نذر کرتی ہوں۔ ”گیسوئے افکار“ میں متعدد نادر و نایاب مضامین ہیں جو قاری پر گہرا نقش ڈالتے ہیں۔ اس پوری کتاب کا مطالعہ کرکے قاری خود کو بحر علم میں غوطہ زن محسوس کرتا ہے اور پڑھنے کے بعد تو فرحت، تازگی، ذہنی اور قلبی سکون حاصل ہوتا ہے۔ کتاب ۲۷۲ صفحات پر مشتمل ہے۔ موصوف نے اس کتاب کو آئی اے ایس آفیسر جناب عامر سبحانی کے نام منسوب کیا ہے۔ کتاب کے سرورق اور حاشیہ پر ڈاکٹر امام اعظم کا تعارفی خاکہ ہے۔ اس سے قبل ڈاکٹر امام اعظم کے ادبی مضامین کے ۳/ مجموعے ”گیسوئے تنقید“، گیسوئے تحریر“ اور ”گیسوئے اسلوب“ منظر عام پر آچکے ہیں۔ موصوف یوں رقم طراز ہیں: ”میرے یہ مضامین علم و آگہی کے نئے چراغ روشن کرتے ہیں۔ دلائل کی روشنی میں حقائق کا انکشاف کرتے ہیں اور پوشیدہ و تاریک گوشوں کو نئی کرنوں سے منوّر کرتے ہیں۔……“
صفحہ- ۷ پر شیریں زبان اردو کے تاریخی اور جغرافیائی حوالے سے ایک مضمون بعنوان ”اکیسویں صدی میں اردو زبان کی عالمگیر مقبولیت“ بلاشبہ نادر اور بیش بہا ہے۔ اس ضمن میں اردو کے تعلق سے گراں قدر علمی و ادبی شخصیتیں پیدا ہوئیں جنھوں نے اردو کی تاریخ اور ارتقا پر روشنی ڈالی ہے۔ ڈاکٹر امام اعظم کہتے ہیں کہ ”……آج دنیا کے تقریباً تمام ملکوں میں اردو ایک اہم زبان کی حیثیت سے پڑھائی جارہی ہے۔ برطانیہ تو اردو کے سوادِ اعظم سے باہر اردو کا تیسرا سب سے بڑا مرکز ہے اور وہاں کی تقریباً تمام یونیورسٹیوں میں اردو پڑھائی جاتی ہے۔……“ آج جاپان، چین، جنوبی افریقہ، ناروے، پراگ، برلن اور سابقہ سوویت یونین میں بھی اردو پڑھائی جاتی ہے۔ برصغیر ہند و پاک، بنگلہ دیش، نیپال کے کروڑوں لوگوں کی مادری زبان اردو ہے۔
اسی مضمون میں موصوف لکھتے ہیں: ”اردو کی عالم گیریت میں ایک بڑا کردار اطلاعاتی ٹکنالوجی بھی ادا کررہی ہے۔ ……چند سطور کا ایس ایم ایس ہو یا آڈیو/ ویڈیو سے مزین ایم ایم ایس یا بھاری بھرکم فائلوں پر مشتمل ای میل سکنڈوں میں دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے میں پہنچ جانا عام سی بات ہے۔ ……اس ضمن میں قومی کونسل برائے فروغ اردو، نئی دہلی کا ایک بڑا کارنامہ یہ بھی ہے کہ e-book جو دنیا کا پہلا مفت ایپ ہے جسے ڈاؤن لوڈ کرکے کونسل کی مطبوعہ کتابوں کا مطالعہ کوئی بھی کرسکتا ہے۔“
صفحہ ۴۱/ پر کہتے ہیں : ”سرکاری اور نیم سرکاری اداروں کے علاوہ بہت سے ویب سائٹس بھی اردو زبان و ادب کے فروغ کا کام بڑے پیمانے پر کررہی ہیں جن میں ریختہ ڈاٹ کام او آر جی سرفہرست ہیں جس سے خصوصی طور پر ریسرچ اسکالر بھرپور فائدہ حاصل کررہے ہیں۔“ اور آخر میں اس خوب صورت مضمون کا اختتام اس شعر سے کرتے ہیں:
دلوں پہ اس کا ہے راج اب تک مخالفوں سے نہ ڈر سکے گی
زمانہ چاہے ہزار بدلے زبانِ اردو نہ مر سکے گی
مضمون ”سہرے کی ادبی معنویت“ (صفحہ ٢٠) پر پروفیسر مجید بیدار اپنے مضمون ”شادی میں سہرا اور اس کی عصری معنویت“ میں صنف سہرا کی فنی اور ادبی تعریف کرتے ہوئے یوں رقم طراز ہیں: ”فنی اعتبار سے سہرا ایک مدحیہ نظم ہے جو صاحب شخصیت کی تعریف و توصیف کے لیے ایسے موقع کا انتخاب کرتی ہے جب کہ شخصیت خود خوش حالی سے ہم کنار ہونے والی ہوتی ہے۔ عام زبان میں کسی مرد یا عورت کے رشتۂ ازدواج میں منسلک ہونے کے موقع پر لکھی جانے والی شاعری جو دلی جذبات اور احساسات کی نمائندگی کا حق ادا کرے اسے ”سہرا“ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔“
اپنے اس مضمون ”سہرے کی ادبی معنویت“ میں ڈاکٹر امام اعظم نے صنف سہرا کی ہیئت، ساخت، تاریخی حیثیت اور مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے۔ اس سلسلے میں ”تمثیل نو“ (شمارہ ٢٠٠٨ -مارچ ٢٠٠٩) کافی اہمیت کا حامل ہے . صنف سہرا کے حوالے سے ”تمثیل نو“ کے اس خصوصی گوشہ کی ہر چہار جانب پذیرائی ہوئی۔ صنفِ سہرا پر بھرپور تبصرہ اردو ادب کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ ہے۔ سہرا اردو کی تہذیبی روایت کا ایک حصہ ہے جو اب معدوم ہوتا جا رہا ہے۔ آج جب مختلف نت نئی اصنافِ سخن پر طبع آزمائی ہورہی ہے۔ سہرے جیسی قدیم صنفِ سخن کی حیثیت اور عصری معنویت کو اجاگر کرنے کی جو پیش قدمی کی ہے یقینا لائق صد تحسین ہے۔
اس کتاب میں شامل ایک مضمون بعنوان ”فورٹ ولیم کالج کے اہم مصنّفین اور ان کی خدمات“ ہے جو فورٹ ولیم کالج کی اردو خدمات کے تعلق سے ہے۔ بلاشبہ فورٹ ولیم کالج کی اردو خدمات ناقابل فراموش ہیں۔اس مضمون میں موصوف نے ڈاکٹر جان گل کرسٹ اور میر بہادر علی حسینی، مرزا کاظم علی جوان، سید حیدر بخش حیدری، مظہر علی خاں ولا، مرزا علی لطف اور ان کی فورٹ ولیم کالج سے وابستگی نیز اردو خدمات کو بڑے ہی خوب صورت انداز میں اور حسین پیرائے میں پیش کیا ہے۔ حقیقت بیانی سے کام لیتے ہوئے ڈاکٹر امام اعظم مضمون کے پہلے جملے میں یوں رقم طراز ہیں: ”اگر انصاف کو راہ دی جائے اور کسی طرح کے تعصب اور تنگ نظری کو شعار نہ بنائیں تو یہ کہنا ہوگا کہ جدید اردو نثر کی ابتدا اور اس کا فروغ فورٹ ولیم کالج کا رہین منت ہے۔“ ان کے یہ جملے صد فی صد حقیقت پر مبنی ہیں۔ فورٹ ولیم کالج، ڈاکٹر جان گل کرسٹ، میر امن دہلوی، مظہر علی خاں ولا، سید حیدر بخش حیدری کی اردو خدمات رہتی اردو دنیا تک یاد رکھی جائیں گی۔ڈاکٹر جان گل کرسٹ اوائل انیسویں صدی میں فورٹ ولیم کالج کے پرنسپل تھے۔ انھوں نے یہ زبان سیکھی اور اپنے وطن ایڈمبرا (برطانیہ) واپس ہوئے تو وہاں ادارہ شرقیہ میں اردو کے پروفیسر رہے۔ اردو نثر کی خدمات میں ڈاکٹر جان گل کرسٹ کا بڑا احسان ہے۔
پروفیسر گوپی چند نارنگ کے تعلق سے ایک بہت ہی شان دار مضمون بعنوان ”پروفیسر گوپی چند نارنگ- مابعد جدیدیت کے سالار“ شامل کتاب ہے۔ پروفیسر گوپی چند نارنگ اردو کے مقتدر نقاد اور ماہر لسانیات ہیں۔ اردو نارنگ صاحب کی مادری زبان نہیں بل کہ اکتسابی زبان ہے لیکن اردو زبان سے عشق، انسیت، محبت اور رغبت نے انھیں اردو تہذیب و تاریخ کا حصہ بنادیا۔ اردو زبان و ادب کے تئیں ان کی گراں قدر خدمات بھلائی نہیں جاسکتی ہیں۔ ڈاکٹر امام اعظم اس سلسلے میں رقم طراز ہیں: ”اسی طرح انھوں نے ادبی تنقید اور اسلوبیات، اسلوبیات میر، سانحہ کربلا، شعری استعارہ، قاری اساس تنقید، ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات جیسی تصنیفات کے ذریعہ فلسفہ ہائے ادب کی جس جامع آگہی اور تنقید کا جو نیا زاویہ نظر ترتیب دیا وہ حالی کے مقدمہ شعر و شاعری کے ایک صدی بعد اردو میں ادبی تھیوری کا Turning Point ہے۔……“ انھوں نے اس مضمون کا اختتام اس قطعہ کے ساتھ کیا:
اردو ادب میں لائے ہیں بعد جدیدیت
نارنگ عہدِ ساز ہیں رجحان ساز ہیں
ان سے نیا زمانہ، زمانے سے یہ نہیں
جو آپ عہدِ نو کے تغیر نواز ہیں

”شاہ مقبول احمد: حیات و خدمات“ جائزہ کے عنوان سے ایک مضمون شاملِ کتاب ہے۔ پروفیسر شاہ مقبول احمد آج ہمارے درمیان نہیں لیکن شہر کولکاتا سے ان کی وابستگی رہی اور یہاں کے مولانا آزاد کالج میں درس و تدریس سے تقریباً ٣٧ برسوں تک جڑے رہے۔ تقریباً دو نسلوں کی انھوں نے آبیاری کی۔ پروفیسر شاہ مقبول احمد نے اپنی نگارشات کے تین مجموعے ’چند ادبی مسائل‘ (١٩٦٤ء)، ’پانچ افسانے اور انشائیے’(١٩٨٠ء) اور’تشریحات و اشارات‘ (١٩٨٦ء) کے نام سے شائع کیے۔ڈاکٹر امام اعظم اس مضمون میں یوں رقم طراز ہیں: ”…… انھوں نے (پروفیسرشاہ مقبول احمد) نے ١٩٤٠ء سے افسانہ نگاری شروع کی۔ یوں مغربی بنگال کے دورِ اول کے افسانہ نگار ہیں۔ ……ان کے شستہ، شگفتہ و برجستہ اسلوب کو مقبولیت کی وجہ بتائی ہے اور انھیں پریم چند، رتن ناتھ سرشار اور علی عباس حسینی سے متاثر بتایا جاتا ہے۔……“ مستند حوالوں سے انھوں نے واضح کیا ہے کہ جب بنگال میں اردو افسانہ نگاری رومانی فکر کی اساس پر پروان چڑھ رہی تھی اس وقت شاہ صاحب نے اپنے افسانوں میں ترقی پسند فکر کو راہ دی اور مغربی بنگال میں ترقی پسند اردو افسانہ نگاری کی بنیاد ڈالی۔
شکیل افروز کی ”عملی صحافت – ایک بصیرت افروز کتاب“ کے عنوان سے ایک عمدہ مضمون ہے۔ ڈاکٹر امام اعظم کے مطابق ”یہ کتاب ان صحافیوں کے لیے جو اس پُرخطر راستے پر چلنا پسند کرتے ہیں ایک شمع ہدایت ہے۔“ ایک مضمون بعنوان ”پرویز شاہدی: ترقی پسند تحریک کی توانا آواز“ ہے۔ ”شاکر کلکتوی: منفرد احساس کا شاعر“ کے عنوان سے بہت ہی جامع مضمون ہے۔ شاکر کلکتوی دراصل طوطیِ بنگالہ علامہ رضا علی وحشت کلکتوی کے چہیتے شاگرد تھے۔ وہ بنگلہ نژاد تھے لیکن اردو کے مستند شاعر تھے۔ شاکر کلکتوی کے تعلق سے بزرگ شاعر استاد الشعرا حلیم صابر کا مضمون ”جانشین وحشت طاہر علی شاکر کلکتوی“ کا حوالہ دیتے ہوئے امام اعظم صاحب لکھتے ہیں: ”شاکر کلکتوی اگرچہ روایتی انداز میں شعر کہتے تھے لیکن ان کا رنگِ تغزل علامہ وحشت کو مرغوب تھا۔ ہمیشہ ان کی پذیرائی کرتے اور اس تعلق سے وحشت کا یہ شعر شاکر کلکتوی کے حوالے سے بہت مشہور ہوا:
نہیں ہے شعر میں وحشت کا ہم نوا کوئی
بس ایک شاکر خوش فکر ہے خدا رکھے

”سید احمد شمیم-عصر نو کا ایک اہم شاعر“ کے عنوان سے ایک مضمون کتاب میں شامل ہے۔ دراصل سید احمد شمیم کریم سٹی کالج، جمشید پور کے صدر شعبہ اردو کی حیثیت سے سبک دوش ہوکر تصنیف و تالیف کے کاموں میں مصروف ہیں۔ اسی طرح ایک مضمون بعنوان ”ظفر فاروقی: گنگا جمنی تہذیب کا پیکر“ ہے جو دراصل ڈاکٹر امام اعظم صاحب کے والد محترم کے تعلق سے ہے۔ ان کی ولادت ٢٠/ جولائی ١٩٣٥ء کو ہوئی اور انتقال ٢٤/ اگست ٢٠١٠ء بوقت ساڑھے بارہ بجے دن رہائش گاہ ”کاشانۂ فاروقی“ محلہ گنگوارہ دربھنگہ (بہار) میں ہوا۔ موصوف پولیس آفیسر کے ساتھ ایک ذمہ دار والد تھے اور اپنے تمام بچوں کے لیے اعلا تعلیم کا انتظام کیا اور انھیں کام یابیوں کی منزل تک پہنچایا۔
”ظفر اوگانوی: جدید اردو افسانے کا اہم نام“ کے عنوان سے ایک مضمون اس کتاب میں ہے۔ ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ١٩٧٧ء میں شائع ہوا۔ اس کتاب میں آخری مضمون ”اسلم جمشید پوری: ایک ہمہ جہت فن کار“ کے عنوان سے ہے۔ پروفیسر اسلم جمشیدپوری چودھری کثیر الجہات شخصیت کے مالک ہیں۔ اس کتاب کو پڑھنے سے ہندستان کی معروف ادبی شخصیتوں کا خاکہ ابھرتا ہے اور یہ ڈاکٹر امام اعظم کی بہترین کاوش ہے جو بلاشبہ اردو کے طلبا و طالبات کے لیے آنے اور والی نسلوں کے لے مشعل راہ ثابت ہوگی۔
٭٭٭
مظفر نازنین کی گذشتہ نگارش یہاں پڑھیں :سید فخر الدین بلے، ایک آدرش، ایک انجمن

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے