مولانا وحید الدین خان میری نظر میں

مولانا وحید الدین خان میری نظر میں

مسعود بیگ تشنہ

(مولانا وحید الدین خاں، آمد : یکم جنوری 1925 اعظم گڑھ، انڈیا؛ رحلت :22 اپریل 2021، دہلی، انڈیا)
مجھے بچپن سے مطالعہ کا شوق رہا ہے. ابنِ صفی کے جاسوسی ناولوں سے لے کر مولانا وحید الدین خان کا ماہنامہ الرسالہ تک، اس سفر میں ساتھ دینے کے لئے جہاں ادبی رسائل رہے تو ہر مکتب فکر کے دینی رسائل بھی. دینی کتابوں اور قرآن کے تراجم و تفاسیر میں بھی میرا نظریہ ہر مکتبہ فکر کے علماء کی نگارشات پڑھنے کا رہا ہے. میں نے سُنّی فقہ کے ساتھ شیعہ فقہ کو بھی پڑھا ہے.
مولانا وحید الدین شروع میں مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کے پیروکار رہے تھے. مولانا وحید الدین خان ایک کثیر المطالعہ شخص تھے، ایسی مثال ان کے معاصرین میں کم ہی ملتی ہے. مولانا ابو الکلام آزاد کے بعد غالباً یہ دوسری یا تیسری ایسی شخصیت ہوں گے، خاکسار تحریک کے بانی مجاہدِ آزادی عنایت اللہ خان المشرقی کو اس لسٹ میں جوڑا جا سکتا ہے. مولانا وحید الدین کو علومِ جدیدیہ پر بھی دست رس حاصل تھا. انگریزی و عربی ادبیات، فلسفہ، نفسیات، سائنسی معلومات، اور دنیا جہان کی سیاسی ہلچلوں کا انہیں زبردست شعور تھا. جو ان کی نگارشات میں واضح طور پر جھلکتا ہے. مولانا ابو الکلام آزاد فارسی اور عربی چاشنی کے ساتھ خالص ادبی زبان استعمال کرتے تھے. عنایت اللہ خان کی زبان ادبی رنگینی و شگفتگی کی نہ ہو کر علمی، سنجیدہ اور انتہا درجے کی عربی و فارسی تراکیب سے مرصع زبان تھی، حیرت ہے کہ وہ اپنے وقت کے عالمی شہرت یافتہ ریاضت داں ہونے کے ساتھ ساتھ زبردست عالمِ دین اور جدید اسلامی مفکر کیسے ہو گئے. ان تینوں عظیم اسکالرز میں ایک چیز جو مشترک نظر آتی ہے وہ ہے اعلیٰ ترین منصبِ انسانی یعنی نمائندہ خدا بننے کی جستجو. المشرقی پر علامہ اقبال کا کتنا اثر تھا یا نہیں تھا یہ ایک الگ مطالعہ کا متقاضی ہے. عنایت اللہ خان بعد میں پاکستان چلے گئے تھے اور تا زندگی مسلمانوں کو بہتر اجتماعی زندگی کی تاکید کرتے کرتے دنیا سے رخصت ہو گئے، انہیں اپنی زندگی میں ہی مسلم امت کی انتہا درجے کی بے حسی کا احساس ہو گیا تھا. وہ امت مسلمہ کو مثالی انسانی معاشرے میں ڈھلتے اور مومن کو سچا نمائندۂ خدا یعنی خلیفۃ اللہ بنتے دیکھنا چاہتے تھے. ان تینوں عظیم شخصیات نے قرآن مجید کو اسی تناظر میں دیکھا، سمجھا اور ممکنہ طور پر اُمتِ مسلمہ کو سمجھانے کی کوشش کی. تینوں میں ایک واضح فرق یہ ہے کہ مولانا وحید الدین نے خود کو علمی تصانیف اور دین کی دعوت کے لئے مختص کر لیا.
مولانا روایتی مسلم فکر کے ماننے والے نہ تھے، وہ مجتہدِ وقت بھی تھے، ان کی ظاہری فکر تینوں بڑے سُنّی مکاتبِ فکر دیوبندی ،وہابی اور بریلوی سے بعض تشریحات میں الگ نظر آتی ہیں.
مجھے جوانی کے دنوں سے مولانا وحید الدین کا الرسالہ اور رسالہ تحقیقاتِ اسلامی، علی گڑھ پسند آتا رہا ہے. بچپن میں، شوکت علی فہمی کا فتوحاتِ اسلامی پر مبنی رسالہ’ دین و دنیا’ بھی خوب پڑھتا تھا. دار العلوم ندوہ، لکھنؤ کی اشاعتیں تو دیوبند سے نکلنے والا رسالہ ‘تجلّی’ تو بریلی فکر کی اشاعتیں بھی تو رامپور سے نکلنے والا ‘الحسنات’. میری فکر میں تنوع اور وسعت انہی مختلف مکاتب فکر کے نگارشات کے مطالعہ کا نتیجہ ہے. اہلِ بیت سے محبت اہلِ تشیع سے بھی زیادہ رکھتا ہوں. یہ سب کلمہ گو بر حق ہیں اور میں کسی کو کافر نہیں ٹھہراتا ہوں.
مولانا وحید الدین خان ،مسلم دانش ور طبقے کی پہلی پسند ہیں. لیکن بطور مجموعی، اُمتِ مسلمہ کی اکثریت پر ان کا اثر نسبتاً نہیں کے برابر ہے. وہ ایسے عالم و مفکر اسلام ہیں جسے مسلم اور غیر مسلم دونوں طبقات کے دانشور پڑھنا پسند کرتے ہیں.
عام مسلمان سے ان کی دوری دیوبند اور بریلی شریف دونوں سے انکا اختلاف الرائے ہے. ہندوستان کے مسلمانوں کے ملکی سیاسی مسائل پر بھی انکا موقف سب سے الگ رہا ہے خاص طور پر انہدامِ بابری مسجد پر. میری نظر میں اسی ایک چیز نے انہیں عام مسلمانوں سے اور دور کر دیا اور پڑھے لکھے مسلمانوں سے بھی. وہ روایت پسند نہ ہو کر، اجتہادی اور اختراعی ہیں. ان کی نگارشات کے ساتھ ایک مسئلہ ترسیل کا بھی ہے. انگریزی زدہ زبان، مغربی مفکرین کے بار بار کے حوالے ان کی تحریروں اور خطبات کو اور بوجھل بنا دیتے ہیں. گو کہ وہ خود ماہرِ نفسیات معلوم ہوتے ہیں لیکن ترسیلی سطح پر عام قاری کی سطح، نفسیات اور پہنچ سے کافی دور! .مولانا کو عربی اور انگریزی پر اہلِ زبان کی طرح ملِکہ حاصل تھا. آپ نے اردو، ہندی اور انگریزی تینوں زبانوں میں قرآن مجید کے ترجمے اور تفاسیر لکھی ہیں گو کہ یہاں زبان نسبتاً آسان ہے .  مولانا کی علمی و دینی استطاعت کا یہ عالم ہے کہ ان کی کئی کتابیں جامعہ ازہر، قاہرہ، مصر میں داخلِ نصاب ہیں. یو ٹیوب پر آپ کے ویڈیو کافی پسند کئے جاتے ہیں جس میں عام انگریزی الفاظ کے ساتھ آسان اردو زبان کا استعمال ہے اور یہ ویڈیو تحریری زبان کے بوجھل پن سے دور ہیں. یہ ویڈیو کافی مقبول ہیں.
آپ مولانا آزاد کی طرح جمیعت العلماء ہند سے بھی جڑے رہے تھے انگریزی صحافت کی بات کریں تو انگریزی روزنامہ ٹائمز آف انڈیا میں آپ کے مضامین spiritual tree کالم کے تحت آتے رہتے تھے.
کرہ ارض پر عصر جدید میں پُر امن انسانی معاشرے کی تعمیر و تشکیل کے لئے معروف اور اسلام کے سائنسی مولانا Scientific Saint of muslim world کے نام سے جانی جانے  والی عالم اسلام کی 500 چنیدہ عظیم شخصیات میں گِنے جانے والے، مجتہدِ عصر اور عالمی سطح پر عالم اسلام میں بہت توقیر کی نظر سے دیکھے جانے والی اس عظیم المرتبت شخصیت کو میرا سلام. حق مغفرت فرمائے. آمین.
22 اپریل 2021، اِندور، انڈیا

مسعود بیگ تشنہ کی یہ نگارش بھی ملاحظہ ہو :  آہ! مشرف عالم ذوقی نہیں رہے 

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے