بیماری ہے، گھبرائیں نہیں؛ محتاط رہیں، محفوظ رہیں!

بیماری ہے، گھبرائیں نہیں؛ محتاط رہیں، محفوظ رہیں!

(یہ مواقع عبرت و نصیحت حاصل کرنے کے ہوتے ہیں)
محمد قاسم ٹانڈؔوی
09319019005
کورونا وائرس کی دوسری لہر، جو پہلے کے مقابلے زیادہ سخت اور تباہ کن بتائی جا رہی ہے، اس کا جبر و قہر پورے شباب کو پہنچا ہوا ہے، جس سے فرار و انکار کی چنداں گنجائش نہیں معلوم ہوتی۔ اس لئے کہ یومیہ ہونے والی اموات کا سلسلہ جاری ہے، جس کا ہم میں سے ہر شخص کو مختلف طریقوں اور ذرائع سے ملنے والی اطلاعات کا شدید احساس بھی ہے اور اپنے عزیز و اقارب، دوست احباب اور جن کے ساتھ ہماری صبح و شام نشست و برخواست رہتی ہے، ان کی اس دنیا سے اچانک ہوتی جدائیگی کا مشاہدہ بھی بخوبی ہو رہا ہے۔
سال ۰۲۰۲؁ میں ہونے والی عظیم شخصیات کی رحلت و جدائی کا غم، جن میں جبال علم علماء کرام، عظیم دانشواران و مفکرین، پروفیسر، میدان سیاست و صحافت کے ماہرین اور قومی ملی مسائل میں راہ نمائی کرنے والے قائدین و سماجی ترقی سے وابستہ فکر مند حضرات کی ایک بڑی تعداد ہم سب کو گویا بیچ منجدھار میں چھوڑ کر چلی گئی ہو؛ ایسا ہر پل محسوس ہوتا ہے۔ یکے بعد دیگر ان کا ہمارے درمیان سے اتنی خاموشی یا اتنی جلدی چلے جانا ایسا بھی محسوس کرا رہا ہے جیسے کوئی بڑا خزانہ ہاتھوں سے اچک لیا جاتا ہے یا وہ کہیں گم ہو جاتا ہے اور اس خزانہ کا گم ہو جانا یقینا باعث افسوس و غم ہوا کرتا ہے، جس میں امت کا خسارہ ہی خسارہ ہے اور اس افسوس ناک خسارہ میں کسی بھی صورت اس کی تلافی اور بھرپائی نہ ہونے والے معاملہ سے تعبیر کیا جا رہا ہے ابھی تک بھی۔ مگر افسوس! امت ابھی اپنے ان جیالوں کی وفات اور قیمتی جواہر پاروں کی جدائی و در آنے والے نقصان سے صحیح طور پر سنبھلی اور دکھ کی گھڑی سے نمٹی بھی نہیں تھی؛ کہ عالمی سطح پر سامنے آنے والی اسی مہلک و جان لیوا بیماری "کورونا وائرس” کی دوسری لہر نے پھر سے اپنا وہی جلوہ دکھانا شروع کر دیا ہے جس سے کہ چاروں اور کہرام مچا ہے، جس کے قہر آلود حالات کو بھانپ کر سرکاری طور پر ہدایات اور گائڈ لائن جاری کر دی گئی ہیں اور لوگوں کو زیادہ سے زیادہ وقت اپنے گھروں میں رہنے کی تاکید کی جا رہی ہے، بہت سے مقامات پر عبادت گاہوں میں آمد و رفت کو سابقہ سال کی طرح اب کی بار بھی مختصر و محدود کر دیا گیا ہے، شہروں میں جزوی طور پر عوامی کرفیو کا اعلان ہے، شاپنگ مال اور بازاروں کو ٹائم ٹیبل کا لحاظ کرتے ہوئے کھولنے بند کرنے کے آڈر دے دئے گئے ہیں، عوامی چہل پہل کے اوقات میں یا سماجی اور مذہبی امور کی ادائیگی کےلئے سخت اصول و ضوابط کا مکلف بنایا جا رہا ہے، ایسے میں سماج کا ہر شخص ڈرا سہما اپنے گھر پر مقید ہے۔ لیکن حالات ہیں کہ روز بروز بد سے بدتر کی طرف رواں دواں ہیں اور کنٹرول سے باہر ہوتے نظر آ رہے ہیں، جو جتنا بڑا اور سہولیات کے اعتبار سے مشہور و معروف شہر ہے، وہاں سے اتنی ہی زیادہ منفی اور دل خراش واقعات کی اطلاعات مل رہی ہیں۔ بمبئی شہر! جو ‘عروس البلاد’ کہلاتا ہے، وہاں کی صورت حال ہو یا لکھنؤ! جو علم و ادب اور تہذیب و ثقافت کی بستی اور سیاست کا محل کہلاتا ہے یا اسی طرح دیگر بڑے شہر جیسے: احمدآباد، بنگلور، کولکاتا، بھوپال، پٹنہ اور کانپور سٹی وغیرہ، یہ سب وہ مشہور اور بڑے شہر ہیں جو نہ صرف جدید سہولیات سے آراستہ پیراستہ ہیں، بلکہ عوامی زندگی کے اعتبار سے مصروف ترین شہر کا اعزاز بھی ان کو حاصل ہے۔ مگر وائے ناکامی! یہاں سے بھی کوئی زیادہ اطمینان بخش رپورٹس موصول نہیں ہو رہی ہیں، جس سے کہ لوگوں کو کچھ امید بندھے اور وہ صورت حال کو کنٹرول کرنے میں تعاون کر سکیں۔ بریں بنا سوشل میڈیا پر جو آنکڑے اور جائزے پیش کئے جا رہے ہیں، ان کو دیکھ کر تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ صورت حال یہاں اور بھی بدتر ہے، اور یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وائرس متاثرین کی تعداد شفایاب کم ہو رہی ہو اور ہلاک زیادہ. چناں چہ یک بیک اس طرح شرح اموات میں اضافہ ہوتا دیکھ لوگوں میں خوف و ہراس کا بڑھ جانا عین ممکن اور فطری بات ہے۔ جس کا افسوس کن نتیجہ یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ جو لوگ رفاہی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا اور پریشانی کے عالم میں انسانی خدمت گزاری کو اپنی سعادت مندی تصور کیا کرتے تھے، وہ بھی موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے پیچھے ہٹتے دکھائی دے رہے ہیں اور دانستہ یا غیر دانستہ طور پر کوئی رسک اور نقصان نہیں اٹھانا چاہتے ہیں۔ اس لئے کہ ہر شخص جانتا ہے کہ یہ ایک جان لیوا وائرس ہے، جو لاحق شدہ کو ٹچ اور مس کرنے سے اثر انداز ہو رہا ہے اور جسم میں سرایت کر رہا ہے، اور کوئی تدبیر اس سے بچاؤ کی مفید و کارگر ثابت نہیں ہو رہی ہے، سوائے تنہائی اختیار کرنے اور ایک دوسرے سے دوری بنائے رکھنے کے۔ مریض سسک سسک کر دم توڑتے نظر آ رہے ہیں، شفا خانوں میں نہ جانے کتنے لوگ ایسے نظر آ رہے ہیں، جو اپنوں کو بلا رہے ہیں اور ان کی خدمت کے منتظر بنے ہوئے ہیں، لیکن کسی کے پاس کوئی آکر "صبر کی تلقین اور تسلی بھرے دو بول” بولنے کو آمادہ نہیں ہے، مبادا کہیں ہم بھی وائرس کی چپیٹ میں نہ آجائیں اور ہم بھی قبل از وقت موت کی آغوش میں نہ چلے جائیں؟
اس لئے کہ بیماری کی بابت سنگینی و خطرناکی کی جو موجودہ صورت حال ہمارے ملک میں ہے، وہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔ پہلے کے مقابلے حال یہ ہےکہ ہسپتال متاثرہ افراد سے فل ہیں، جن کو نہ تو آکسیجن کی پورتی ہو پا رہی ہے، اور نہ ہی بیڈ مہیا ہو پا رہے ہیں، ضروری دواؤں کی عدم فراوانی کی وجہ سے نہ جانے کتنے بیمار ہسپتالوں کے دروازوں اور راستوں میں دم توڑتے دکھائی دے رہے ہیں، اور رہی سہی کسر اس وقت پوری ہو جاتی ہے جب علاج و معالجہ کے نام پر ہسپتال میں آنے والے کو نیچے سے اوپر تک مالی اعتبار سے نچوڑ لیا جاتا ہے اور خالی جیب اس کو وہاں سے یا تو ڈسچارج کر دیا جاتا ہے یا مردہ قرار دے دیا جاتا ہے۔ایسے گئے گزرے حالات میں اگر تیمار دار اور اہل خانہ اپنے مریض سے دوری اختیار کر اس کو اسی کے حال پر نہ چھوڑیں تو آخر کیا کریں؟
بہر حال صورت حال کچھ زیادہ ہی ناموافق اور ناقابل بیان ہے، اس لئے ہر شخص کی ذمہ داری ہے کہ وہ وقت کے تقاضے کو پیش نظر رکھتے ہوئے حالات سے رو برو ہو اور جہاں تک ہو سکے اپنے اور اپنے اہل خانہ کی ضروریات کو سمجھتے ہوئے دانش مندی اور ہوشیاری کے ساتھ رہے، رہی بات موت و حیات کی تو اس سلسلے میں ہماری آخری گفتگو یہ ہے کہ:
"ایک مؤمن کامل کا اس بات پر پختہ یقین اور مکمل اعتقاد و بھروسہ ہونا چاہئے کہ موت کا ایک دن مقرر ہے، وہ آکر رہےگی، چاہے تم جس حال اور مکان میں ہو، موت سے کسی کو فرار اور بچاؤ نہیں، ہر ذی روح کو اس کا مزہ چکھنا ہے، امیر ہو یا غریب، بیمار ہو یا توانا، شہری ہو یا دیہاتی، مرد ہو یا عورت، بوڑھا ہو، جوان ہو یا بچہ ہو؛ موت ہر ایک کو آنی ہے اور اپنے طے شدہ وقت پر آنی ہے، خواہ کسی نے اس کےلئے تیاری کی ہو یا نہ کی ہو؛ موت بہر حال آکر رہےگی”۔
جب ہمیں اس بات کا یقین اور اعتقاد کامل ہے کہ:
"موت ایک حقیقت و اٹل شے ہے تو جانے انجانے میں ہونے والی موت یا اس کی خبر سن کر ڈرنا یا کثرت اموات کی وجہ سے حواس باختہ ہونا کوئی عقل مندی اور شرافت کی بات نہیں ہے، بلکہ ایسے مواقع پر ہونا تو یہ چاہیے کہ ہم ان مواقع پر اپنا ایمانی جائزہ اور محاسبہ کریں، پیش آمدہ ناموافق حالات سے عبرت و نصیحت حاصل کر اپنے اندر تبدیلی پیدا کریں اور اب تک غفلت و لاپرواہی کے سبب دین سے دوری اور آخرت فراموشی کی جو زندگی گزاری ہے، اس پر توبہ استغفار کریں، اللہ سے معافی کے طلب گار ہوں اور اپنے مزاج کو نیک و صالحیت کا خوگر و عادی بنانے کی کوشش و جستجو کریں۔ علاوہ ازیں جو حقوق ہمارے ذمہ ہیں (خواہ ان کا تعلق حقوق اللہ سے ہو یا حقوق العباد سے) ان کی ادائیگی اور تلافی کی چنداں شکلیں پیدا کریں، جہاں تک بھی ممکن ہو سکے جیتے جی اپنے تمام معاملات کی صفائی اور لین دین کو مکمل کریں، اور کل قیامت کے دن باہمی حساب و کتاب کےلئے کوئی معاملہ روا نہ رکھیں؛ کہ وہ بڑا سخت دن اور دشوار گزار لمحہ و موقع ہوگا۔
(دعا ہے کہ اللہ پاک ہم سب کی ہر آفت و بلا سے مکمل حفاظت فرمائے اور ماہ رمضان کی مبارک ساعتوں کے طفیل پوری دنیا سے ہر قسم کے وائرس اور بیماری کا خاتمہ فرمائے؛ آمین)
(mdqasimtandvi@gmail.com)
محمد قاسم ٹانڈوی کی گذشتہ تحریر :جمہوریت نام ہے عوامی حقوق کے تحفظات کا

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے