اغراض و مقاصدکی تکمیل کے اہم نقاط

اغراض و مقاصدکی تکمیل کے اہم نقاط

آبیناز جان علی 

موریشش 

2011کی ایک پرانی ڈائری کی ورق گردانی کرتے ہوئے مجھے پرودکٹیومسلم کے ایک ویبینارکے نوٹس نظر آئے۔ ویبینارکا عنوان تھا:آپ اپنی زندگی کے مقاصد کیسے حاصل کرسکتے ہیں؟ یہ ویبینار ایک گھنٹے کا تھا۔
مقصد کے بغیر زندگی بے معنی ہے۔ آپ کے مقاصد آپ کو غوروفکر کرنے، منصوبہ بندی کرنے اور آنے والے وقت کے بارے میں پیشین گوئی کرنے میں مدد کرتے ہیں ۔ لوگ اکثر بہانے بناتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ سب کچھ ٹھیک ہے۔ یا انہیں لگتا ہے کہ وہ اپنے مقاصد کو کبھی پورا نہیں کرپائیں گے۔ یا پھر ان کے مقاصد کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ اور تو اور وہ تقدیر پر سارا الزام لگادیتے ہیں۔ زندگی کے ہر شعبے میں اغراض و مقاصد طے کرنا ضروری ہے۔ مثال کے طور پر آپ اپنی صحت کے لئے کیا چاہتے ہیں؟ آپ کا وزن کتنا ہونا چاہئے؟ اس کے لئے آپ کو کیا کرنا ہے؟ ورزش اور تندرست غذا اچھی صحت کے لئے ضروری ہے۔ اس علم کو آپ اپنی زندگی میں کیسے اپنائیں گے؟ ناکامی کی اہم وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ اس فرد نے مقاصد کو پورا کرنے کے طریقے پر مہارت حاصل نہیں کی ہے۔ بشر کو یاد رکھنا چاہئے کہ وہ اپنے فیصلے کرنے کے لئے آزاد ہے۔ اسے محنت کرنی ہے اور انجام کے لئے خدا پر اکتفا کرنا ہے۔ اسی میں اس کا امتحان ہے۔ مثال کے طور پر فجر کی نماز کے لئے منتہائے سحر کی تعظیم کرنا ایک شخص کا فرض ہے۔ مسجد کی طرف روانہ ہوتے ہوئے راستے میں کیا کیا ہوسکتا ہے اس سے آدمی کو پریشان نہیں ہونا ہے۔ اسے بس اپنے کام کا خیال کرنا ہے۔
مقاصد کے حصول کے لئے منزل کی شناخت ضروری ہے۔ اسی منزل کو مدِ نظر رکھتے ہوئے لائحہ عمل طے کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی پہچانیں کہ اس میں آپ کا کیا کردار رہے گا۔ نیز آپ کے اقدار آپ کو منزل تک لے جاتے ہیں۔ آپ کے اقدار وہ اصول ہیں جن کو اپناتے ہوئے آپ زندگی بسر کرتے ہیں۔ جیسے کہ آزادی، قربانی، دریادلی یا پھر کامل انسان بننے کی خواہش۔ اگر آپ کو اپنے اقدار کا علم نہیں تو اپنے دوست یا شوہر سے دریافت کرسکتے ہیں۔ ان کی نظر میں آپ کن چیزوں کی قدر کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، دنیا میں انسان کا اصل مقصد خدا کی عبادت ہے۔ اس کے لئے اسے پانچ وقت کی نمازوں کا پابند رہنا ہے۔ آدمی کو نظم و ضبط دکھانا ہے۔ اس کے اندر تقوی اور طہارت کا پیدا ہونا لازمی ہے۔ اس طرح وہ اللہ کی رضا کو پاسکتا ہے۔
اگر آپ کو معلوم نہیں کہ آپ کی منزل کہاں ہے تو مختلف کام کرکے دیکھیں۔ پھر ایک ایسا وقت آئے گا جب آپ کو سمجھ میں آجائے گا کہ آپ کیا کرنا چاہتے ہیں۔ آپ کسی بزرگ یا تجر بہ کار رہنما کی مدد لے سکتے ہیں۔ آپ سمینار وں میں شرکت کرسکتے ہیں یا ڈائری میں اپنے خیالات کو رقم کرتے ہوئے صحیح راستے کی شناخت کرسکتے ہیں۔
آپ اپنی زندگی میں کئی کردار ادا کرتے ہیں۔ اپنے رشتوں پر سوالیہ نشان لگائیں۔ آپ استاد ہیں یا طالب علم یا اولاد ہیں۔ ان تمام رشتوں میں آپ کو کیا کیاکردار ادا کرنا ہے اور آپ کا کتنا حصّہ لازمی ہے۔ ہر رشتہ میں آپ کو کیا کیا کرنا ہے اور کس حد تک جانا ہے۔ ملازمت میں، دوستوں کے درمیان یا تعلیم حاصل کرنے میں آپ کتنا وقت صرف کر سکتے ہیں؟ عائلی تعلقات میں آپ کی ذمہ داریوں کے حدود کہاں تک ہیں؟ یہ تمام نقاط طے کرنے سے آپ اپنے مقاصد طے کرپائیں گے۔
اپنے مقاصد تک پہنچنے کے لئے بات چیت ایک اہم آلہ ہے۔ آپ کے آس پاس مختلف افراد رہتے ہیں۔ ان کی عمر مختلف ہے۔ تعلیم کا معیار بھی مختلف ہے۔ رسولِ پرنورؐ اپنی بات کو تین بار دہرایا کرتے تھے تاکہ دوسروں کو ان کی بات سمجھ میں آئے۔ گفتگو کرتے وقت شروع سے اپنی بات صاف صاف بتائیں۔ ایک شخص کا باڈی لنگویج اس کے احساسات عیاں کرتا ہے۔ اس لئے اپنا اور دوسروں کے باڈی لنگویج پر غور کریں۔ دوسروں کے جذبات کا احترام کرنا ضروری ہے۔ ان پر دباؤ نہ ڈالیں۔ کوئی بات کہنے سے پہلے سوچ لیں۔ فرشتے ہماری تمام باتیں درج کررہے ہیں۔ انہیں تکلیف نہ دیں۔
گفتگو شروع کرنے سے پہلے آپ طے کرلیں کہ آپ کا ارادہ کیا ہے اور آپ کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ آپ کی ضروت کیا ہے؟ اپنے سامعین کا خیال کرتے ہوئے بات چیت کا رخ طے کریں۔ اس کا بھی فیصلہ کریں کہ آپ کون سا ذریعہ استعمال کرنے والے ہیں۔ کیا آپ فون کریں گے، ای میل بھیجیں گے، آمنے سامنے بات کریں گے یا پھر ایس۔ایم۔ ایس بھیجیں گے۔ اس کے علاوہ گفتگو کے سلسلے میں دوسروں سے رائے بھی لیں۔
جہاں تک ہوسکے اپنی بات آسان اور سیدھے سادے الفاظ میں لکھیں۔ اپنے طرز گفتگو کا خیال رکھیں۔ اپنا لہجہ بھی نرم رکھیں۔ سوقی زبان سے پرہیز کریں۔اپنی بات پوری طرح سمجھ کر دوسروں کے ردعمل کا بھی خیال کریں۔ وقت کا بھی خیال رکھیں۔ کسی کمپنی میں کچھ پیش کرنے سے پہلے اس کمپنی کے اغراض و مقاصد سے آگاہی حاصل کریں۔ تصاویر، چارٹ اور نقشے کی مدد لیں۔
اس کے علاوہ جب سامنے والا بات کررہا ہے تو اس کی بات میں خلل پیدا نہ کریں۔ ان کے خیالات کو سمجھنے کی کوشش کریں اور ان کے محسوسات کا احترام کریں۔ عاجزی سے کام لیں۔ اگرکوئی بات صاف نہ ہو تو سوال کریں۔ مثبت تنقید کریں۔
ایک مومن کو اپنی زندگی کے مقاصد کو آخرت سے ملانا ہے۔ اگر آپ کو زیادہ غصّہ آتا ہے تو غصّہ کو قابو میں رکھنے کی کلاس میں داخلہ لے سکتے ہیں۔ اپنے خیالات میں وسعت لائیں، لیکن کام معمولی پیمانے پر شروع کرسکتے ہیں۔ اگر کام کرتے کرتے آپ کو موت آجائے تو کیا آپ کو تسلی ہوگی؟ مثال کے طور پر قرآن شریف حفظ کرتے کرتے زندگی نے وفا نہیں کی توکیاآپ مطمئن رہیں گے؟
اپنے مقاصد طے کرتے ہوئے یاد رہے کہ وہ مخصوص ہوں تاکہ آپ ایک ساتھ مختلف جہت میں قدم نہ رکھیں۔ ایسے مقاصد جو حقیقی دنیا سے تعلق رکھتے ہیں اور انہیں حاصل کرنا آپ کے بس میں ہو۔ آپ اپنی ترقی کا محاسبہ کرتے جائیں۔ آپ اپنے مقصد کو کچھ وقت کے تحت حاصل بھی کرسکتے ہیں۔
نیز اس مقصد کو پانے کے لئے آپ کو کن چیزوں کی ضرورت ہوگی؟ کام پورا ہونے میں کتنا وقت لگ سکتا ہے۔ کیا کسی رہبر کی ضرورت پڑے گی؟ آپ حوصلہ نہ ہاریں۔ اپنی منزل کی جانب ہر روز قدم بڑھاتے جائیں۔ خدا سے دعا کرتے رہیں۔ اپنے اندر نظم و ضبط پیدا کرتے رہیں۔ ہر تین مہینے اپنے کام کا جائزہ لیں۔ کیا واقعی آپ ترقی کرپارہے ہیں؟ ضرورت پڑنے پر مقاصد میں تبدیلی  لانے سے نہ گھبرائیں۔ ہمت نہ ہاریں۔ کسی ایسے فرد کو منتخب کریں جس کو آپ کام کے سلسلے میں پل پل کا حساب دے سکیں۔ اپنے سفر کی تفصیلات ایک ڈائری میں درج کریں۔
بطور والدین اگر آپ کو ایسا محسوس ہوکہ آپ کے بچوں کے متعلق آپ کے مقاصد الگ الگ ہیں تو تو تو میں میں کرنے کی جگہ بات چیت کا سہارا لیں۔ اس کے علاوہ آپ یہ بھی طے کریں کہ اپنے مقاصد کے حصول میں آپ کم سے کم کہاں تک پہنچنے کی امید رکھتے ہیں؟ جو بھی ہو اپنے دین کو ہاتھ سے نہ جانیں دیں۔ ہر وقت دنیا اور آخرت میں توازن کا خیال رکھیں۔ اپنی محنت سے دوسروں کے لئے مثال قائم کریں۔
یاد رہے کہ ہر کام کے مخصوص مقاصد ہوتے ہیں۔ آپ ایک اچھا مسلمان بنیں۔ ایک اچھا والد، ایک اچھاملازم اور ایک اچھا طالب علم بننے کی کوشش کریں۔ مقاصد سے دباؤ نہیں پڑنا چاہئے بلکہ آپ کو زندگی میں زیادہ کامیاب ہونا ہے۔ کسی بھی کام کی ابتداء میں اپنے ارادے کا تذکیہ کریں۔ رہنمائی کے لئے نمازِ استخارہ ادا کریں۔ ایک نوٹ بک کو ہمیشہ اپنے پاس رکھیں جس میں آپ کبھی بھی اپنے مشاہدات اور تفکرات درج کرسکتے ہیں۔
رسولؐ کی ایک مشہور حدیث کے مطابق دنیا کی زندگی ایک مسافر یا اجنبی کی طرح طے کرنی ہے۔ دنیا سے دل چسپی ضرور لیں لیکن اسے دل سے نہ لگائیں۔

مضمون نگار کا مختصر تعارف :

آبیناز جان علی موریشس میں اردو کی پہلی صاحب کتاب خاتون ہیں۔ 15 سالوں سے مہاتما گاندھی ثانوی اسکول میں اردو پڑھا رہی ہیں اور نیشنل ریڈیو پر اردو پروگراموں کی نظامت کرتی ہیں۔ آئی- سی-سی آر سے وظیفہ حاصل کر کے دہلی یونیورسٹی سے بی-اے آنرز اردو کی ڈگری حاصل کی ہے۔ یونیورسٹی ٹاپر تھیں۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ایم-اے کی ڈگڑی حاصل کی ہے۔  آپ افسانے، مضامین، رپورٹ، رپورتاژ، سفرنامے اور بچوں کے لئے کہانیاں بھی لکھتی ہیں۔ پیچ و خم آپ کا افسانوی مجموعہ ہے جو موریشس میں وزارت فنون و ثقافت کے تحت شائع ہوئی ہے۔

آپ نے موریشس اور ہندوستان میں بین الاقوامی کانفرنسوں اور ویبینار میں مقالے پیش کئے ہیں۔


آبیناز جان علی کی گذشتہ نگارش : حجاب پہننا میرا فیصلہ ہے!

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے