حضور اشرفی میاں کی صوفیانہ و عارفانہ شاعری

حضور اشرفی میاں کی صوفیانہ و عارفانہ شاعری

طفیل احمد مصباحی

شاعری، فنونِ لطیفہ کی مشہور اور مقبول ترین قسم ہے۔ فنونِ لطیفہ کے اقسامِ خمسہ میں شاعری سب سے زیادہ مؤثر، طرب انگیز، بصیرت افروز اور دل پذیر فن ہے۔ شاعری قدرت کا ایک حسین عطیہ ہے جس کے ذریعہ جذبات و محسوسات اور حسن و جمال کی حقیقی قدریں اور فرحت بخش صداقتیں جلوہ فگن نظر آتی ہیں۔ یہ ایک لطیف فن ہے جو زندگی کے حسن و قبح اور اس کی وسعتوں اور گہرائیوں کو سمیٹ کر ہمارے فہم و ادراک اور شعور و وجدان کو متاثر کرنے کے علاوہ خلوص کے ساتھ مقصدِ حیات کی تعبیر و تفسیر بھی کرتا ہے۔ شاعری کے متعلق شیلؔے کہتا ہے کہ یہ ایک قسم کی ربانی اور عرفانی چیز ہے اور تمام علم کا مرکز و محور شاعری ہے۔ رابرٹ فراسٹؔ کی نظر میں شاعری مسرت سے شروع ہوتی ہے اور بصیرت پر ختم ہوتی ہے۔ ڈاکٹر عزیز احمد کی نظر میں شاعری شدتِ تاثرات اور غایتِ احساسات کے اس ارادی اظہار کا نام ہے جو موزوں، مترنم، جامع، فصیح و بلیغ، بہترین اسلوب، حسنِ تخئیل اور حسنِ بیان کا مجموعہ ہو۔
قطب العارفین، شیخ المشائخ، ہم شبیہِ غوثِ اعظم، مجددِ سلسلہ اشرفیہ، حاجی الحرمین، ابو محمد حضرت سید شاہ علی حسین اشرفی کچھوچھوی المعروف بہ اعلیٰ حضرت اشرفی میاں قدس سرہ (متوفیٰ: ۱۱ / رجب ۱۳۵۵ھ / ۱۹۳۶ء) اپنے وقت کے جامعِ شریعت و طریقت، مستند عالم و صوفی، مسلم الثبوت عارفِ باللہ، ولیِ کامل، ہادی و مرشد٬ واعظ و مصلح، عاشقِ صادق، شاعر، نعت گو اور جلیل القدر مردِ حق آگاہ تھے۔ آپ کی تقدس مآب شخصیت میں شریعت کا جاہ و جمال اور سلوک و تصوف کا حسن و کمال اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ موجود تھا۔ وقت کے اجلہ علما و مشائخ آپ کے دامنِ ارادت سے وابستہ اور آپ کے خلیفۂ مجاز تھے۔ آپ ایک ایسے علمی و روحانی خانوادے کے چشم و چراغ تھے، جو صدیوں سے علم و حکمت، طریقت و معرفت اور تصوف و روحانیت میں شہرۂ آفاق تھے۔ دیگر اوصاف و کمالات سے قطعِ نظر علم و دانش، ادب و شاعری اور شعر و سخن میں آپ مرتبۂ کمال پر فائز تھے۔ آپ کی شاعری خالص اسلامی، روحانی و عرفانی شاعری ہے، جس میں تصوف کی چاندنی پورے آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہے، جسے اہلِ دل اور اہلِ ذوق ہی محسوس کر سکتے ہیں۔ حضور اشرفی میاں کی صوفیانہ و عارفانہ شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے پروفیسر امین اشرف صاحب (استاذ شعبۂ انگریزی، مسلم یونی ورسٹی، علی گڑھ) لکھتے ہیں:
بعض شاعروں نے نعتیہ قصائد میں اپنا زورِ قلم علمیت کے مظاہرے، خیال بندی اور قافیہ پیمائی میں صرف کیا ہے، مگر اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کی شاعری کی مہتم بالشان خصوصیت تکلف اور تصنع پسندی سے احتراز میں پنہاں ہے۔ ان کی شاعری دماغ کی شاعری نہیں بلکہ روحانی ابتہاج، اہتزاز اور قلبی واردات و کیفیات کا فطری اظہار ہے۔ اعلیٰ حضرت پر کبھی سکر و بے خودی کا عالم طاری ہوتا ہے، کبھی تجرید و تفرید کا، کبھی انوار و تجلیات سے باریاب ہوتے ہیں، کبھی حضور و غیب سے، کبھی بسط و کشاد کے اسرار منکشف ہوتے ہیں۔ کبھی حیرت و فنا کے راز ہائے سربستہ، کبھی وادیِ طلب سے گزرتے ہیں اور کبھی مقام و حال سے۔ وادیِ معرفت کا یہ سالک محرومِ دید ہے اور کامیابِ دید بھی۔ چنانچہ "تحائفِ اشرفی" روحانی اضطراب اور عارفانہ سرمستی و سرشاری کا ایک خوبصورت امتزاج ہے جسے "آہ اور واہ کی شاعری" سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔
( مقدمہ تحائفِ اشرفی، ص: ۱۴، ناشر: جمعیۃ الاشرف اسٹوڈینٹ مؤمینٹس، جامع اشرف، کچھوچھہ شریف)
معرفتؔ و عرفاؔن کی حقیقت:
اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کی صوفیانہ و عارفانہ شاعری پر گفتگو کرنے سے قبل "معرفت و عرفان" کی حقیقت و ماہیت ملاحظہ فرمائیں، تاکہ ان کی عارفانہ شاعری کی تفہیم میں آسانی ہو۔ ایمان و یقین کے بہت سارے مراتب و درجات ہیں۔ دلائل و شواہد کے ساتھ کسی حقیقتِ ثابتہ کے ادراک کو "عرفان" کہتے ہیں، یعنی جس حقیقت کو بن دیکھے مانا جا رہا ہے، اس حقیقت کے قرائن اور شواہد کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا اور ان قرائن و شواہد کی بنیاد پر اس حقیقت پر اپنا یقین پختہ کرنا "عرفان" کہلاتا ہے۔ امام راغب اصفہانی فرماتے ہیں٬ جیسا کہ تاج العروس میں ہے:
المَعْرِفۃُ والعِرْفانُ إِدْراکُ الشیءِ بتَفَکُّرٍ وتَدَبُّرٍ لأَثَرِهِ. علامت اور نشان کی بنیاد پر کسی چیز کا تفکر و تدبر کے ساتھ ادراک کرنے کا نام معرفتؔ اور عرفانؔ ہے۔
ایمان و یقین کے اس درجے یعنی "عرفانؔ" کا ذکر قرآن حکیم میں کچھ اس طرح ہوا ہے:
وَفِی أَنفُسِكُمْ أَفَلَا تُبْصِرُونَ. ( اور خود تمھارے نفوس میں بہت سی نشانیاں ہیں، کیا تم نہیں دیکھتے)
اس آیتِ کریمہ میں انسانوں کو باور کرایا جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت، اس کے بے پایاں تصرفات اور اس کے کمالات پر ایمان لانے، سوچنے، سمجھنے اور غور و فکر کر کے صحیح نتائج اخذ کرنے کی استعداد اور صلاحیت سب کچھ تمھارے اندر پوشیدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے تمام حقائق اور ان کی علامات تمھارے اپنے نفس میں موجود ہیں۔ ذرا اپنے اندر جھانک کر تو دیکھو، اپنی بشریت کے تاریک حجابات اٹھا کر حقیقت کو سمجھنے کی کوشش تو کرو، سارے حقائق تمھارے باطن سے جھلکتے نظر آئیں گے۔ معرفت و عرفاؔن یا پھر معرفتِ الہٰی و عرفانِ خداوندی سے متعلق حضور اشرفی میاں کا مندرجہ ذیل شعر جہاں "صنعتِ اقتباس" کا نادر نمونہ پیش کرتا ہے، وہاں حقیقتِ عرفاؔن کو بھی اجاگر کرتا ہے:
” فی انفسکم" سے ہم نے جانا
جو کچھ ہے وہ اللہ ہی ہے
اہلِ تصوف کے نزدیک عرفانِ ذات کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ کوئی شخص اس وقت تک عرفانِ حق کی منزل کو نہیں پا سکتا، جب تک عرفانِ ذات یعنی اپنے نفس کی حقیقت کو نہ جان لے۔ جس شخص کو اپنی ذات کی پہچان حاصل ہوجاتی ہے، اسے اپنے خالق و مالک اور رازق کی پہچان بھی نصیب ہو جاتی ہے۔ قرآن مجید انسان کو ترغیب دلاتا ہے کہ اگر وہ معرفتِ خداوندی چاہتا ہے تو پہلے اپنے من کی دنیا کو غور سے دیکھے، اسے مقصودِ حقیقی تک رسائی نصیب ہو جائے گی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
سَنُرِیْهِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَ فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَهُمْ اَنَّهُ الْحَقُّ۔ ( ترجمہ: ہم عن قریب انھیں اپنی نشانیاں اطرافِ عالم میں اور خود اُن کی ذاتوں میں دِکھائیں گے، یہاں تک کہ اُن پر ظاہر ہو جائے گا کہ وہی حق ہے)
اس آیت میں انسان کو اپنی ذات میں غور و فکر کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔ کیوں کہ اس کی ذات اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر دلیل ہے۔ غور و فکر کی دو صورتیں ہیں: ایک ظاہری شکل و صورت پر غور اور دوسری باطن میں غور و فکر۔ دونوں صورتیں انسان کو ذات باری تعالیٰ کی پہچان میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ اہل تصوف اسے عرفانِ ذات سے تعبیر کرتے ہیں۔ مطالعۂ انفس و آفاق، انسان میں توحید باری تعالیٰ کے عقیدہ کو مزید پختہ اور مستحکم کرتا ہے اور انسان کو اس ذریعے سے معرفتِ خداوندی حاصل ہوتی ہے۔ اسی لیے تو حضور اشرفؔی میاں فرماتے ہیں:
کوئی ہم سے جو اس کا پتہ پوچھے بتلائیں گے ہم یہ پردہ سے
” فی انفسكم، فی انفسكم، فی انفسكم٬ فی انفسكم"
کیوں ڈھونڈتے پھرتے ہو عالم میں کیوں اس کی تلاش میں ہوتے ہو گم
” هو معكم، هو معكم، هو معكم، هو معكم"
تصوف کے تین پہلو ہیں: کشفی٬ عملی اور فکری یا نظریاتی۔ اعلیٰ حضرت اشرفی میاں علیہ الرحمہ چوں کہ محرمِ اسرارِ طریقت و معرفت اور منبعِ انوار و تجلیات تھے، اس لیے وہ تصوف کے ان تینوں ظاہری و باطنی پہلوؤں کے کما حقۂ دانائے راز تھے۔ تصوف کا کشفی پہلو وہ ہے جو صوفی یا سالک کے باطنی اور روحانی تجربات پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس پہلو سے وہی واقف ہوتا ہے جس پر یہ کیفیات گزرتی ہیں۔ پھر عملی پہلو کی دو شکلیں ہیں۔ ایک عبادت و ریاضت سے متعلق ہے اور دوسری انسانوں سے تعلقات اور ان کی نوعیت کی شکل میں جلوہ گر ہوتی ہے۔ عام طور پر صوفیانہ شاعری میں ان دونوں پہلوؤں کی عکاسی ناممکن نہیں تو محال ضرور ہے۔ البتہ شاعری میں تیسرے پہلو یعنی نظریاتی یا فکری پہلو کی جلوہ گری ملتی ہے۔ اعلیٰ حضرت اشرفی میاں فکری و عملی تصوف کے بامِ رفیع پر فائز تھے، اس لیے ان کی شاعری میں تصوف کے مذکورہ تینوں پہلوؤں کی جلوہ گری اور صوفیانہ افکار و نظریات کی مینا کاری سطر سطر سے نمایاں ہے۔ آپ کی صوفیانہ شاعری اور عرفانی سخن طرازی میں توحید٬ رسالت، سلوک، معرفت، فنا، بقا، فقر، قناعت، صبر، شکر، استغنا، عشق، وارفتگی، ہجر، وصال، طلب، حیرت اور وحدۃ الوجود جیسے خالص صوفیانہ خیالات اپنے مخصوص اصطلاحی معنوں میں مستعمل ہوئے ہیں۔
حضرت خواجہ فرید الدین عطار علیہ الرحمہ نے اپنی مثنوی "منطق الطیر" میں تصوف کے سات اہم مسائل و موضوعات کی طرف اشارہ کیا ہے اور وہ یہ ہیں: طلب، عشق، معرفت، استغنا، توحید، حیرت اور فنا۔ راہ سلوک میں طلبؔ سے مراد ذاتِ باری تعالیٰ کی طلب ہے اور عشقؔ اس طلب میں شدت کا نام ہے۔ معرفتؔ سے مراد معرفت خداوندی ہے اور استغناؔ ترکِ دنیا نہیں بلکہ علائقِ دنیا سے بے نیازی کا نام ہے۔ توحیدؔ وہ منزل ہے جہاں سالک ذات باری کا مشاہدہ کرتا ہے۔ حیرتؔ کی منزل پر سالک پر عالمِ اسرار کے انوار کی بارش ہوتی ہے۔ فناؔ سالک کی آخری منزل ہے، جہاں وہ خدا کی ذات میں گم ہو کر اصل حقیقت کو پا لیتا ہے۔ حضور اشرفی میاں قدس سرہ کی عارفانہ شاعری میں سلوک و تصوف کے ان ساتوں مراحل و مسائل کا ذکرِ جمیل اجمال و تفصیل کے ساتھ موجود ہے۔ ہر ایک کی مثال ملاحظہ کریں:
طلبؔ کی مثال:
پھر اپنے حسن کا جلوہ دکھا دو
ہمارا سینہ آئینہ بنا کر
خبر نہیں تنِ لاغر کی اشرفؔی ہم کو
بھٹکتی پھرتی کہیں ہوگی کوئے یار میں روح
عشقؔ کی مثال:
جنونِ عشق میں یا رب کسی کو
نہ یوں میری طرح تو مبتلا کر
منزلِ عشق کی اب تک نہیں طے ہوتی راہ
اے جنوں ! تو نے دکھائے ہیں بیاباں کتنے
معرفتؔ کی مثال:
جلوۂ یار جو ہر شے میں نظر آنے لگا
دفعتاً چھوٹ گئے پنجۂ اوہام سے ہم
” فی انفسکم" سے ہم نے جانا
جو کچھ ہے وہ اللہ ہی ہے
استغناؔ کی مثال:
گو کہ ظاہر میں یاں گدا ہیں ہم
لیک باطن میں بادشاہ ہیں ہم
توحیدؔ کی مثال:
کبھی وحدت میں نظر آتے ہیں
آپ کو آپ ہی مل جاتے ہیں
جلوہ کثرت میں جو فرماتے ہیں
شکل ہر رنگ کی دِکھلاتے ہیں
حیرتؔ کی مثال:
جس نے سنا اس پہ جنوں چھا گیا
آپ کا قصہ نہ سنائیں گے ہم
اپنا جلوہ جو دِکھا جاتے ہیں
طرفہ دیوانہ بنا جاتے ہیں
فناؔ کی مثال:
جو فنا کے بعد بقا ہوئی تیری ذات جلوہ نما ہوئی
یہ وجودِ فانی سر بسر مجھے شکلِ لا نظر آ گیا
جب تجھ میں اشرفؔی ہے اور اشرفؔی میں تو ہے
پھر کیا سمجھ میں آئے ہجر و وصال تیرا
اعلیٰ حضرت اشرفی میاں اور نظریۂ وحدۃ الوجود:
اردو شاعری میں ولؔی دکنی، میرزا مظؔہر جانِ جاناں، میر تقی میرؔ اور حضرت خواجہ میر دردؔ کے علاوہ غالؔب و اقبالؔ کے یہاں تصوف کے افکار ایک خاص شعری لطافت کے ساتھ جلوہ گر ہیں۔ اسلامی تصوف میں "وحدت الوجود" اور "وحدت الشہود" دو خاص مکاتیبِ فکر ہیں۔ "وحدت الوجود" کی بنیاد "لا اله الا اللہ" پر ہے، جس کو وجودی صوفیہ "لا موجُودَ إِلا الله" کہتے ہیں۔ وحدت الوجود کی بنیاد "ہمہ موجودات را یک وجود حق دانستن" ہے، جس کا لبِّ لباب یا خشتِ اول "ہمہ او ست" کا نظریہ ہے۔ وحدت الوجود میں وجود اور موجود ایک سے زیادہ نہیں۔ یعنی وجودِ حقیقی اور کائنات میں عینیت کا رشتہ ہے، غیریت کا نہیں۔ غالؔب کی شاعری میں یہ رنگ (نظریۂ وحدت الوجود) ملتا ہے۔ مثلاً:
دہر جز جلوۂ یکتائیِ معشوق نہیں
ہم کہاں ہوتے اگر حس نہ ہوتا خود بیں
وحدت الوجود کے برعکس "وحدت الشہود" میں وجودِ حقیقی اور کائنات کے مابین رشتۂ غیریت ہے، جس کی بنیاد "در صُوَرِ ہمہ موجودات مشاہدۂ حق نمودن" پر ہے اور جس کا ما حصل یا خشتِ اول "ہمہ از و ست" ہے۔
اعلیٰ حضرت اشرفؔی میاں قدس سرہ "وحدۃ الوجود" کے قائل تھے۔ آپ کے عارفانہ کلام اور صوفیانہ اشعار میں جا بجا وحدۃ الوجود کی ترجمانی نظر آتی ہے۔ وحدۃ الوجود کی بنیاد (جیسا کہ بیان ہوا) "نظریۂ ہمہ او ست" پر ہے۔ یعنی اس کائنات میں جو کچھ ہے اور جنھیں ہم اشیائے کائنات کہتے ہیں٬ وہ در اصل ذاتِ باری تعالیٰ کے عکوس و مظاہر ہیں اور ذات صرف ایک ہے اور وہ ذاتِ واجب الوجود اللہ رب العزت کی ذات ہے۔ حضور اشرفؔی میاں جیسے اہلِ دل اور اہلِ نظر کی نگاہ میں عالَم کی کثرت "عین وحدت" ہے اور کائنات میں سوائے ظہورِ حق کے کسی کا وجود و ظہور نہیں ہے۔ آپ کے نظریۂ وحدۃ الوجود سے متعلق یہ اشعار دیکھیں:
یہی اہلِ راز کی بات ہے کہ نہیں سوائے ظہورِ حق
اسے خود نمائی کا شوق تھا جو یہ ما سوا نظر آ گیا
خود کر کے عشق اپنا پردے میں کیوں چھپا ہے
شاہد ہے مجلسوں میں یہ وجد و حال تیرا
نظروں میں اہلِ دل کی کثرت ہے عین وحدت
ہر حال میں ہے حاصل قرب و وصال تیرا
عشق بہر حال عشق ہے، جس میں دردِ سر نہیں بلکہ دردِ دل اور دردِ جگر درکار ہوتا ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ عشق آخر کس کے ساتھ ہو یا عشق کس ہستی سے کیا جائے؟ تو یہ اپنے حوصلہ، اپنے ظرف اور اپنی توفیق پر منحصر ہے۔ بلجیم کے مشہور صوفی تمثیل نگار مارس ماتھر کا خیال ہے کہ دنیا میں کوئی ایسا شخص نہیں ہے جس نے عشق کیا ہو اور عشق سے اپنی روح کی عظمت اور برگزیدگی میں اضافہ نہ کیا ہو۔ چاہے اس کا عشق کتنا ہی سفلی کیوں نہ ہو۔ حضور اشرفی میاں نے اپنی شاعری میں جا بجا عشق و وارفتگی اور دیوانگی و سرمستی کے راگ چھیڑے ہیں اور وہ عشقِ حقیقی ہے، جس میں عشقِ مجازی سے کہیں زیادہ سوز اور درد پایا جاتا ہے اور ان نغماتِ عشق کو سننے والا آہ اور واہ کرنے پر خود کو مجبور پاتا ہے۔ ان کی عرفانی شاعری کا عام لہجہ اور عام اشارہ یہی ہے کہ عشق مقصود بالذات ہے جو تمام اضافتوں سے بالا تر ہے۔ عشق اور متعلقاتِ عشق کے عنوان پر سینکڑوں اشعار "تحائفِ اشرفی" میں موجود ہیں۔ یہ اشعار دیکھیں اور حضور اشرفی میاں کا اپنے ممدوح کے بارے میں جذبۂ عشق کی شدت و حِدّت ملاحظہ کریں:
وہ آئے چل دیے میں تڑپتا ہی رہ گیا
پہلو میں درد اٹّھا کہ اٹھتا ہی رہ گیا
کن مدتوں کے بعد ملی دولتِ وصال
حسرت سے ان کے منہ کو میں تکتا ہی رہ گیا
یہ جوشِ گریہ تھا کہ جب آئے وہ سامنے
کچھ بھی نہ کہہ سکا میں سِسکتا ہی رہ گیا
اے اشرفؔی! نظر جو پڑی شمعِ روئے یار
شعلہ سا اپنے دل میں بھڑکتا ہی رہ گیا
شاعری، تخیل اور جذبات کی زبان ہوتی ہے۔ عمدہ فکر، بلند تخیل اور مرغِ بسمل کی طرح مچلتے پاکیزہ جذبات، حسین، پُر کیف اور دل آویز شاعری کو وجود بخشتے ہیں۔ حضور اشرفی میاں کی شاعری اعلا فکر و تخیل، حیات بخش افکار و نظریات اور پاکیزہ جذبات کی شاعری ہے، جس میں عشق و وارفتگی، سوزِ دروں، اضطراب و التہاب اور غایت درجہ شیفتگی و طرفگی پائی جاتی ہے۔ ان کا عشق، حقیقی، لا فانی اور جاودانی ہے اور ان کا ممدوح کوئی دنیوی محبوب نہیں بلکہ وہ ذواتِ قدسیہ ہیں، جن کی محبت و اطاعت اور عرفان مقصدِ حیات ہے۔ جن کو پانے اور جن کی رضا حاصل کرنے کے لیے صوفیائے کرام سخت ریاضات و مجاہدات کیا کرتے ہیں۔ یہ اشعار دیکھیں کہ کس قدر دل سوز اور عشق آمیز ہیں:
دلدادهٔ عشقِ صنم، محوِ رخِ جانانہ ام
دیوانہ ام دیوانہ ام دیوانہ ام دیوانہ ام
گو بیخود و مجنوں شدم اما بہ چشمِ عاقلاں
فرزانہ ام فرزانہ ام فرزانہ ام فرزانہ ام
اندر رهِ عشقِ بُتاں از اقربا و اہلِ خود
بیگانہ ام بیگانہ ام بیگانہ ام بیگانہ ام
از دو جہانم بے خبر الا بہ شمعِ روئے تو
پروانہ ام پروانہ ام پروانہ ام پروانہ ام
صوفیاے کرام و مشائخِ عظام کے عشق کا مرکز و محور ذاتِ الہٰی و مصطفوی یا پھر ان کے پیر و مرشد ہوا کرتے ہیں۔ حضور سیدِ عالم نورِ مجسم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذاتِ ستودہ صفات "ممدوحِ کائنات" کی حیثیت رکھتی ہے۔ حضور اشرفی میاں ایک سچے عاشقِ رسول اور بادۂ توحید و رسالت کے متوالے تھے۔ وہ ایک ایسے عاشقِ صادق تھے، جو عشق کی بھٹی میں جل کر کندن بن چکے تھے اور اپنے مے خانۂ عشق سے لوگوں کو سرشار و سیراب کیا کرتے تھے۔ جب وہ عشق و محبت کی آگ میں جلنے لگتے تو اپنے محبوب و ممدوح کو یاد کر کے کچھ اس طرح کے اشعار موزوں فرماتے:
سروے بقامتِ تو بہ بوستاں ندیده ام
چوں تو گلے بہ ہیچ خیاباں ندیده ام
در باغِ دہر برگشتم٬ دیدم ہزار گل
یک گل چوں رویت اے گلِ خنداں ندیده ام
ہر کس کہ یک نظر بجمالِ تو کرد و گفت
جز حق دگر بصورتِ انساں ندیده ام
حضور اشرفؔی میاں کی عرفان آلود آنکھیں مشاہدۂ جمالِ حق سے روشن اور ان کا قلب انوارِ الہٰی کی تجلیات سے معمور تھا۔ جب وہ مشاہدۂ حق کے جمالِ جہاں آرا سے مشرف ہوتے تو مچل اٹھتے اور بے ساختہ پکار اٹھتے کہ "یہ دل جانِ جاناں کی جلوہ گاہ بن چکا ہے اور مضطرب و بیتاب ہے۔ گلشن میں یعنی گلشنِ قلب میں یارِ گُل عذار کی آمد ہونے والی ہے۔ بلبلو! تمھیں خوش خبری ہو کہ موسمِ نَو بہار آنے والا ہے۔ عاشق و معشوق کا وصل٬ بد خواہوں اور کور باطن کی نگاہوں میں نوکِ خار کی مانند چبھتا ہے۔ اشرفؔی بادۂ توحید پی کر مست ہو گیا ہے اور مستانہ وار جھوم رہا ہے اور ترکِ دنیا کر کے خود سے بھی بیگانہ ہو گیا ہے۔" جیسا کہ مندرجہ ذیل اشعار سے مترشح ہے:
جلوہ گاہِ جاناناں قلب بے قرار آمد
درمیانِ قطرہ چوں بحرِ بے کنار آمد
در چمن پئے گلگشت یارِ گُل عذار آمد
مژدہ باد بلبل را فصلِ نَو بہار آمد
وصلِ عاشق و معشوق در دو چشمِ بد بیناں
در خلیدن از تیزی ہمچوں نوکِ خار آمد
اشرفؔی مئے توحید خورد گشت مستانہ
ترکِ دین و دنیا کرد از خودیش عار آمد
سلوک اور وصول الیٰ اللہ:
سلوک کا معنیٰ ہے: راستہ یعنی اللہ تعالیٰ کے قرب اور وصل کے راستے پر چلنا۔ سالک وہ ہے جو قربِ حق کے راستوں اور طریقت کی منزلوں کو عبادات و مجاہدات اور اتباع سنت و شریعت کے ذریعے طے کر کے مقصود تک پہنچے۔ سالکین کو بعض اوقات "وصول الی اللہ" پہلے حاصل ہوتا ہے اور شوقِ عبادت اور ذوقِ ریاضت اس کے بعد پیدا ہوتا ہے٬ اس کو "طریقِ جذب" کہتے ہیں اور کبھی مجاہدہ و ریاضت کا شوق پہلے پیدا ہوجاتا ہے اور وصول الی اللہ بعد میں میسر ہوتا ہے، اس کو "طریقِ سلوک" کہتے ہیں۔ بہر کیف! چاہے وہ طریقِ جذب ہو یا طریقِ سلوک، سالک کا مطمحِ نظر وصول الیٰ اللہ اور تقرب الیٰ اللہ ہوا کرتا ہے اور اس کے لیے وہ سخت مجاہدات کرتا ہے اور اپنی ہستی کو فنا کر کے "وصول الیٰ اللہ" کے مقامِ ارفع پر متمکن ہوتا ہے۔ اس مرتبے کے حصول کے لیے سالک و واصل کو ابتلا و آزمائش کی بھٹی میں جلنا پڑتا ہے، سخت ریاضتیں کرنی پڑتی ہیں، بے نام و نشان ہونا پڑتا ہے اور مرنے سے پہلے مرنا پڑتا ہے، تب کہیں جا کر "وصالِ خداوندی" کی نعمتِ عظمیٰ حاصل ہوتی ہے۔ حضور اشرفؔی میاں اسی حقیقت کو کچھ اس طرح بیان فرماتے ہیں:
مرنے سے اپنے پہلے مر کر ہوا جو واصل
حاصل ہوا اسی کو پیارے وصال تیرا
کس کو ملتا ہے پتہ آپ کو پاتا ہے کون
وہی پاتا ہے جو بے نام و نشاں ہوتا ہے
شرابِ عشق و معرفت اور بادۂ عرفان و محبت کی لذتوں کا کیا کہنا! جس خوش نصیب کو یہ شراب مل جاتی ہے، وہ دنیا و ما فیہا سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔ وہ بہ ظاہر اس مادی دنیا میں بود و باش اختیار کرتا ہے، لیکن عالمِ روحانیت اس کی منزل ہوا کرتی ہے۔ جامِ معرفت کے قطروں سے سیراب ہونے والا ایسا بے خود اور سرشار ہو جایا کرتا ہے کہ اس کو کائنات کے ذرے ذرے میں وحدانیت کے جلوے نظر آتے ہیں۔ کسی زندہ دل شاعر نے کیا ہی خوب کہا ہے:
دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذتِ آشنائی
اس وقت اس رندِ بلا نوش کی حالت کچھ اس طرح ہوا کرتی ہے کہ:
شرابِ شوق می نوشم بہ گردِ یار می گردم
سخن مستانہ می گویم و لے ہشیار می گردم
گہے خندم، گہے گریم، گہے افتم، گہے خیزم
مسیحا در دلم پیدا و من بیمار می گردم
حضور اشرفؔی میاں قدس سرہ عارفِ باللہ، فنا فی اللہ اور ولایت و روحانیت کے مقام پر فائز تھے۔ آپ کی پوری زندگی دریائے روحانیت کی تیراکی اور بحرِ عرفان کی شناوری میں گذری۔ حضور مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ کے دریائے فیض کے روحانی قطروں نے آپ کو اس طرح فیض یاب کیا تھا کہ آپ کو "مستِ مئے الست" بنا دیا تھا۔ "شرابِ مئے الست" در اصل معرفتِ ربانی و عرفانِ خداوندی کی وہ شرابِ طہور ہے، جس سے انسان کی روحانی تشنگی بجھتی ہے اور بندہ عشق و عرفان کی دولت سے مالا مال ہو کر "مستِ مئے الست" بن جایا کرتا ہے۔ "شرابِ مئے الست" کو سمجھنے اور اس کے پس منظر کو جاننے کے لیے مندرجہ ذیل آیاتِ کریمہ کا مطالعہ ضروری ہے۔ اللہ رب العزت ابنِ آدم کو "روزِ الست" کا وہ قدیم عہد یاد دلاتا ہے، جس میں اس نے تمام ابن آدم سے اپنی ربوبیت و وحدانیت کا وعدہ لیا تھا:
وَ اِذْ اَخَذَ رَبُّكَ مِنْۢ بَنِیْۤ اٰدَمَ مِنْ ظُهُوْرِهِمْ ذُرِّیَّتَهُمْ وَ اَشْهَدَهُمْ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْؕ قَالُوْا بَلٰىۚۛ شَهِدْنَاۚۛ اَنْ تَقُوْلُوْا یَوْمَ الْقِیٰمَةِ اِنَّا كُنَّا عَنْ هٰذَا غٰفِلِیْنَ. اَوْ تَقُوْلُوْۤا اِنَّمَاۤ اَشْرَكَ اٰبَآؤُنَا مِنْ قَبْلُ وَ كُنَّا ذُرِّیَّةً مِّنْۢ بَعْدِهِمْۚ اَفَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُوْنَ.
ترجمہ: اور اے محبوب! یاد کرو جب تمھارے رب نے اولادِ آدم کی پشت سے ان کی نسل نکالی اور انھیں خود ان پر گواہ بنایا (اور فرمایا) کیا میں تمھارا رب نہیں؟ سب نے کہا: کیوں نہیں، ہم نے گواہی دی۔ (یہ اس لیے ہوا) تاکہ تم قیامت کے دن یہ نہ کہو کہ ہمیں اس کی خبر نہ تھی یا یہ کہنے لگو کہ شرک تو پہلے ہمارے باپ دادا نے کیا اور ہم ان کے بعد (ان کی) اولاد ہوئے تو کیا تو ہمیں اس پر ہلاک فرمائے گا جو اہلِ باطل نے کیا۔
حضور اشرفؔی میاں کی عارفانہ و درویشانہ زندگی گواہ ہے کہ آپ اسی بادۂ عرفان سے سرشار تھے اور "مستِ مئے الست" کا نعرہ کچھ اس طرح لگاتے تھے:
آوارۂ جہانم مستِ مئے الستم
بے نام و بے نشانم مستِ مئے الستم
آتش ز دلم فروزم ایں ما سوا بسوزم
برقِ شرر فشانم مستِ مئے الستم
در روئے خوب رویاں دیدم جمالِ جاناں
عینِ عیانِ آنم مستِ مئے الستم
شہبازِ اوجِ قُدسم سیمرغِ قاف اُنسم
عنقائے لا مکانم مستِ مئے الستم
صحرائے غیب رفتم رازِ نہفتہ گفتم
بیروں ز این و آنم مستِ مئے الستم
رفتم بہ بزمِ دلبر خوردم شرابِ احمر
منت کشِ مغانم مستِ مئے الستم
اے اشرفؔی بہر جا مانندِ شاہ راجا
با نالہ و فغانم مستِ مئے الستم
صوفیۂ کرام، چشمِ گریاں اور قلبِ بریاں کے مالک ہوا کرتے ہیں۔ وہ تصوف و عرفان، عشق و وارفتگی اور الفت و محبت کے بامِ رفیع پر متمکن ہوا کرتے ہیں اور ان کی شاعری "آہ اور واہ کی شاعری" ہوا کرتی ہے۔ حضور اشرفؔی میاں کے عارفانہ کلام میں حد درجہ سوز و گداز، کسک٬ درد اور کیفیتِ التہاب و اضطراب پائی جاتی ہے، جس سے قاری و سامع متاثر ہوئے بنا نہیں رہتے:
مرے دل کے آئینے میں جو وہ جلوہ گر بھی ہوتا
شبِ تار کس کو کہتے کہ عیاں سَحَر بھی ہوتا
کریں آہ و نالہ پیہم مگر اس کو کچھ نہیں غم
مرے دل کو صبر ہوتا وہ ذرا خبر بھی ہوتا
کششِ دلِ حزیں خود اسے میرے پاس لاتی
مری آہ میں جو ہمدم کہیں کچھ اثر بھی ہوتا
مجھے موت کا نہیں غم مگر آئے اس کے در پر
کسی حیلے سے الہٰی میرا واں گذر بھی ہوتا
کبھی اشرفؔی تڑپتا سرِ راہ شکلِ بسمل
مگر اس طرف سے اس کا کہیں رہ گذر بھی ہوتا
ایک عارفِ باللہ اور مردِ حق آگاہ کو کائنات کی ہر شے میں اللہ رب العزت کی قدرتِ کاملہ اور اس کی حکمتِ بالغہ کے جلوے نظر آتے ہیں اور وہ اپنے نورِ بصیرت سے تجلیاتِ یزدانی کا کھلے بندوں مشاہدہ کرتا ہے اور ببانگِ دہل اعلان کرتا ہے:
چوں شد از نورِ عرفاں دیدۂ حق الیقیں روشن
میانِ کفر من پنہاں جلال اللہ می دانم
عیاں فرمود ربّم جلوۂ ربوبیت بر ما
بہر جانب خلائق را عیال اللہ می دانم
بہ عالَم از نگاہِ غیر کے دیدن روا دارم
من ایں مجموعۂ صنعت کمال اللہ می دانم
صفات و ذات چوں اے اشرفؔی باہم محقق شد
نہ من از چشمِ غیریت ظلال اللہ می دانم
موضوع و مواد اور معنوی پہلوؤں سے قطعِ نظر اگر اعلیٰ حضرت اشرفؔی میاں کی شاعری کی ظاہری ادبی و فنی خصوصیات کی بات کی جائے تو آپ کے کلامِ بلاغت نظام میں فصاحت و بلاغت، طہارت و نفاست، سلاست و روانی، سادگی و صفائی، لسانی چاشنی، برجستگی، سادہ اسلوب، شستہ طرزِ اظہار، سنجیدہ لہجہ اور شیریں اندازِ بیان کے علاوہ ترنم، موسیقیت اور تغزل کی چاشنی وافر مقدار میں پائی جاتی ہے۔ تغزل کی یہ مثال ملاحظہ کریں کہ کس طرح آپ نے مادّی رموز و علائم کا استعمال غیر مادّی اور ماورائی تصورات کے لیے کیا ہے اور اپنے مخصوص اندازِ تغزل کی شبنم ریزیوں سے کشتِ سخن کو لالہ زار بنایا ہے:
چشمِ گریاں، دلِ سوزاں، رخِ زرد و تن زار
در رہِ عشق تو گشتند گواہم پیدا
شہِ خوبانِ من رنگیں قبا، نازک ادا دارد
بہر غمزہ، بہر عشوہ، جہانے مبتلا دارد
بہ صد ناز و کرشمہ شوخیِ لا انتہا دارد
دلِ عشاق پامالِ خرامِ نازہا دارد
حضور اشرفؔی میاں کی عرفانی شاعری میں شریعت و طریقت کا حسنِ امتزاج نظر آتا ہے۔ انھوں نے سلوک و تصوف کے جن مسائل و موضوعات پر اظہارِ خیال کیا ہے٬ وہ کسی بھی جہت سے شریعت کے بنیادی اصول و قوانین سے مزاحم و متصادم نہیں ہے۔ وہ اپنے وقت کے مسلم الثبوت عالمِ شریعت و طریقت اور عارفِ باللہ تھے۔ ان کے عرفانی کلام تصوف و سلوک کے موتی بکھیرتے ہیں اور قارئین کو مست اور بے خود کر دیتے ہیں۔ علمِ طریقت سے معمولی شغف رکھنے والا انسان آپ کے عرفانی کلام سے محظوظ و مسحور ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ غرض کہ آپ کی صوفیانہ و عارفانہ شاعری اپنے اندر بڑی کشش، معنوی حسن اور جاذبیت رکھتی ہے۔ آپ کی تقدس مآب شخصیت کے رنگ و روپ اور حقیقی خد و خال آپ کی عرفانی شاعری میں متحرک و متشکِّل نظر آتے ہیں۔ اردو کے علاوہ آپ کی فارسی شاعری بھی خاصے کی چیز ہے۔ اردو سے زیادہ آپ کے فارسی کلام میں معنویت پائی جائی ہے۔ آپ کی شاعری پر تحقیقی انداز سے کام کرنے اور آپ کے ادبی کارناموں کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ جناب سید غلام بھیک نیرنگ اشرفی علیہ الرحمہ نے حضور اشرفؔی میاں کی عارفانہ شاعری کی بابت بجا فرمایا ہے:
سبحان اللہ! کیا کلامِ عرفان نظام ہے۔ ایک ایک لفظ اثر میں ڈوبا ہوا ہے۔ زبان شیریں ہے۔ بیان رنگین ہے، مگر بایں ہمہ تصنع سے مبرّا۔ تکلف سے معرّیٰ۔ عندلیبانِ گلشنِ قال کے زمزمے کچھ اور ہوتے ہیں۔ بلبلانِ گلستانِ حال کے چہچہے کچھ اور۔ وہاں زیادہ تر قوائے عقلیہ سے خطاب ہوتا ہے۔ یہاں سراسر قلب و روح کی جانب روئے سخن ہوتا ہے۔ وہاں اصولِ بلاغت کی پابندی میں "کوہ کندن و کاہ بر آوردن" ہوتا ہے۔ یہاں بہ اتباعِ سنتِ "و ما ينطق عن الهوى" کوئی کہلاتا ہے تو کہتے ہیں اور بے ساختہ کہتے ہیں ورنہ خاموش رہتے ہیں۔
( مقدمہ تحائفِ اشرفی، ص : ۴۸ )
***
طفیل مصباحی کی گذشتہ نگارش:اشرفؔی میاں کچھوچھوی کی حمد گوئی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے