منٹو کے افسانوں کا فکری پس منظر

منٹو کے افسانوں کا فکری پس منظر

رویدا ضمیر
ریسرچ اسکا لر (اردو)
شعبۂ اردوجامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی 110025
E-mail-ruwaida.khahn6@g mail.com

محض 1934ء سے 1955ء کے درمیانی وقفے میں اپنی فعالی کے باعث اردو ادب میں اپنی شناخت بنانے والے واحد شخص کا نام ”سعادت حسن خاں“منٹو ہے۔ منٹو اردو کا وہ منفرد افسانہ نگار ہے جس کی تحریریں آج بھی ہر زبان، ہر ملک اور ہر ادب کا قاری ذوق و شوق سے پڑھتا ہے. منٹو کے افسانے اردو ادب میں اکسیر کی حیثیت رکھتے ہیں. منٹو کا شمار معمار افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے، لیکن اس کے افسانوں نے اردو ادب کو ایک نئی سمت سے بھی متعارف کرایا ہے۔ اپنی مختصر عمر کے باوجود منٹو کا نام شناخت کا محتاج نہیں ہے۔ منٹو کی زندگی کا یہ المیہ ہے کہ اس کو وہ مقام حاصل نہیں ہوسکا تھا جس کا وہ حق دار تھا۔ لیکن منٹو کی وفات کے بعد لوگوں نے اس کی تحریروں کا جب ازسرِ نو جائزہ لیا تو حیران رہ گئے، کیونکہ ان کو منٹو کی تحریروں میں فن کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ملا۔ اور وہ لوگ جو منٹو کی زندگی میں منٹو کے خلاف نعرہ لگانے میں پیش پیش رہتے تھے وہی لوگ منٹو کی ہمہ گیر فکر کے قائل ہوگئے۔ سب سے زیادہ افسوس علی سردار جعفر ی کو ہوا جو منٹو کی زندگی میں ان کا مذاق اڑاتے رہتے تھے لیکن منٹو کے مرنے کے بعد اس کی صلاحیتوں کے معترف ہوگئے۔ یہ سچ ہے کہ منٹو کی تحریروں کو آسانی سے سمجھنا مشکل ہے اور یہی چیز منٹو کی خاصیت بھی ہے۔ باربار پڑھنے سے ہی اس کی تحریروں پر گرفت کی جاسکتی ہے، منٹو کا معاملہ یہ ہے کہ آپ اس کو پڑھتے جائیے اور آپ کے ذہن سے پرتیں اترتی جائیں گی. یوں بھی ادب صرف ایک بار پڑھ کر سمجھنے کا نام نہیں ہے. ادب کو سمجھنے کے لیے ایک عمر درکار ہے. بہ قول شمس الحق عثمانی: 
”انسان پوری زندگی ادب پڑھتا رہتا ہے اور عمر کے آخر حصے میں سمجھ میں آتا ہے کہ اچھا تو فلاں شعر یا فلاں فقرے کا یہ مطلب ہے“
(گفتگو پر مبنی)
ایک اچھا ادیب بننے کے لیے تحریروں میں تہہ داری ضروری ہے، ہر بار پڑھنے پر اس میں ایک نیا پن پایا جانا چاہئے اور منٹوکی تحریروں میں یہ خوبی بدرجہ اتم موجود ہے۔
منٹو نے اپنے افسانوں کا موضوع گمراہ کن لوگوں کو بنایا. اس کا ماننا تھا کہ پاکیزہ بیویوں اور نیک خواتین پر تو بہت لکھا جاچکا ہے اب کچھ اس غلاظت کو بھی کریدا جائے اور غلاظت تب تک صاف نہیں ہوسکتی جب تک اس کو اٹھایا نہ جائے، منٹو نے یہی کام کیا ہے۔ منٹو کی زندگی خود بھی انسانی جد و جہد، بیماری، ناقدری، شراب نوشی کی المیہ کہانی تھی، جسے اس کی تحریروں میں پر کھا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ منٹو نے ایک ایسی زندگی دریافت کی جسے عوام ناقابل اعتنا سمجھتے تھے۔طوائف، ایکڑیس، رقاصہ، دلالہ، شرابی، لوطی، وغیرہ منٹو کے اکثر افسانوں کا موضوع رہے ہیں. یہی وجہ کہ بیشتر نقادوں کی نظر میں منٹو صحت مند جنس اور نفسیاتی شعور رکھنے والا افسانہ نگار ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ ہمارے نقادوں نے اسے صرف جنسیت تک ہی محدود کردیا ہے۔ حالانکہ نفسیات جیسے داخلی اور انفرادی رجحان پر بھی منٹو نے قلم اٹھایا ہے اور خارجی رجحانات پر بھی خامہ فرسائی کی ہے. اجتماعی موضوعات پر بھی خاطر خواہ توجہ دی ہے اور بین الاقوامی مسائل پر بھی قلم اٹھایا ہے۔
جس دور میں منٹو نے قلم اٹھایا وہ دور ترقی پسند مصنفین کا تھا. جب منٹو نے اپنے قلم کی جولانیاں دکھانی شروع کی تھیں، اس وقت تمام ہی ترقی پسند مصنفین ہنگامی موضوعات کو اپنے قلم کی زینت بنارہے تھے۔ منٹو نے اپنی راہ ان لوگوں سے الگ منتخب کی. انھوں نے بین الاقوامی مسائل کو اپنی فکر کا حصہ بنایا۔انھوں نے مغربی استعمار کی سوچ کی نشان دہی کی ہے۔جنس پر طبع آزمائی کی. تقسیم ہند پر اور تقسیم ہند کے بعد رونما ہونے والے واقعات پر بھی قلم اٹھایا ہے۔
منٹو کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ  معمولی موضوعات  کو بھی اہم بناکر پیش کرنے کا ہنر رکھتے ہیں۔ وہ کردار جو زمانے میں معیوب سمجھے جاتے ہیں اور جن کے بارے میں لوگ بات کرنا بھی گوارا نہیں کرتے ہیں سوچنا تو درکنار، منٹو نے ان کرداروں کو زندگی بخشی ہے اور اپنی فکر کے ذریعے سے ان میں دائمی روح پھونک دی ہے۔
سوگندھی جو ایک پیشہ ور طوائف ہے لیکن اس کے دل میں بے کراں نرم گوشے موجود ہیں، جو بہت سی نام نہاد شریف عورتوں کے دل میں بھی نہیں ہوتے ہیں۔ آج کی دنیا میں لوگ بے جذبات ہوچکے ہیں اور اہل ہونے کے باوجود بھی کسی کی مدد کرنا انھیں گوارا نہیں ہے، مگر سوگندھی کے کردار کے ذریعہ سے منٹو نے ایک رحم دل، خدا پرست، جذباتی، محبت کی دیوی، دوسروں کی پریشانیوں پر تڑپ اٹھنے والی اور ان کی مدد کرنے والی عورت کا تصور پیش کیا ہے. اس کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ دوسرے کی مدد کرے اور اس کی پریشانی کو رفع کردے۔
اس کی فکر اتنی درد مند انہ ہے کہ وہ ایک ایسی بیوہ عورت سے پیسہ دینے کا وعدہ کرلیتی ہے جس کا شوہر موٹر کے نیچے آکر مرجاتا ہے اور وہ اپنی جوان لڑکی کے ساتھ اپنے وطن واپس جانا چاہتی ہے۔ حالانکہ سوگندھی کے پاس خود پیسے نہیں ہوتے ہیں لیکن اپنے وعدے کو پورا کرنے لیے باوجودیکہ اس کے سر میں شدید درد ہے وہ رات کے ۲ بجے بھی اپنے گراہک کو مایوس نہیں کرتی ہے اور پھولوں والی ساڑی پہن کر تیار ہوجاتی ہے۔ اس کردار کے ذریعہ سے منٹو نے سماج کے اس نام نہاد گھناؤنے کردار کی سچی اور ہمدردانہ تصویر کو پیش کیا ہے جہاں تک کسی کا ذہن  نہیں پہنچتا ہے. ایک طوائف کے ذہن کی عکاسی کی اور اس کے دردمند دل سے روشناس کرایا ہے۔
منٹو کو شروع سے ہی سماجی اور اخلاقی اقدار کا باغی کہا گیا ہے۔ لیکن میری ناقص رائے کے مطابق وہ سماج کا باغی نہیں، بلکہ سماج کا مجاہد ہے. وہ اسی سماج میں رہ کر اس کی تہوں کو کھولتا ہے. اس سماج کو ان اسرار و رموز سے واقف کراتا ہے جو عام لوگوں کی نگاہوں سے بے وجہ پوشیدہ رکھے جاتے ہیں۔ منٹو نے اس سماج سے فرار اختیار نہیں کیا ہے بلکہ سماج کے ان پتوں کو کھولا ہے جن پر اکثر خواص کی گرفت ہوتی ہے، لیکن عوام کو ان سے بے خبر رکھا جاتا ہے۔ منٹو کا ماننا ہے کہ جو حقیقت ہیں انھیں چھپانا کیا؟ اور ان سے کترانا کیا؟طوائف کے پاس جانا اور ان سے دل بہلانا بیشتر لوگوں کا دل چسپ مشغلہ ہوتا ہے لیکن طوائف پر گفتگو کرنے سے سبھی گھبراتے ہیں۔ الٹرا ماڈرن لڑکیوں سے دوستی کرنا اور ان سے رشتہ استوار کرنا سماج میں فیشن سمجھا جاتا ہے لیکن ان کا جنسی استحصال کرنا، ان کا ذہنی استعمال کرنا، ان کو بلیک میل کرنا اور کپڑوں کی طرح مرد کا عورت کو، اور عورت کا مرد کو بدلنا، اس پر تبصرہ کرنے سے عوام کیوں گھبراتی ہے. لہذا منٹو نے اپنی تحریروں سے سماج میں مروجہ پس پشت گندگی کو اجاگر کیا ہے۔ منٹو وہ واحد افسانہ نگار ہے جس نے طوائف کے ذہنی کرب کے اس کشمکش کو بیان کیا ہے جس سے وہ دوچار ہوتی ہے۔ سوگندھی جب شیشہ دیکھتی ہے تو کہتی ہے۔ ”سوگند ھی! تجھ سے زمانے نے اچھا سلوک نہیں کیا“ منٹو نے ایک دلالہ کی ہمہ گیر فکر کو واضح کیا ہے. ممی جو ایک دلالہ ہے، لیکن چڈے جب ایک نوخیز لڑکی کو اپنی ہوس کا نشانہ بنانا چاہتا ہے تو ممی اس کو روکتی ہے اور غصے میں اس کے منھ پر ایک طمانچہ رسید کردیتی ہے۔ رام سنگھ جو ایک کم عمر لڑکا ہے اور سین اسے اپنی شہوانی خواہشات کے لیے استعمال کرتا ہے اس کو یہ لالچ دے کر کہ اس کو پلے بیک سنگر بنادے گا، نتیجتاً رام سنگھ، سین کو قتل کردیتا ہے۔ جانکی ایک ایسی عورت ہے جو پے در پے ۳ مردوں سے جسمانی تعلقات قائم کرتی ہے. اپنی ترقی کے لیے اور اپنی جنسی تسکین کے لیے اور ستم یہ کہ اس کو عزیز سے بھی محبت ہے اور سعید کے لیے بھی تڑپتی ہے۔
منٹو نے اپنی تحریروں کے ذریعہ سے بے ساختہ اس معاشرتی نظام کے حسن و قبح دونوں کو بیا ن کیا ہے کہ جوان عورتوں کے لیے اس دنیا میں ہر طرف ترقی کے دروازے کھلے ہوئے ہیں. آج کل کی ہر فلم کی نئی ہیروئنس اس کی تازہ مثالیں ہیں۔ کسی نے بہت خوب کہا ہے کہ ادب اپنے سے سوسال بعد کا سوچتا ہے. منٹو کی تحریروں میں ہمیں موجودہ سماجی نظام کے مسائل رو برو نظر آتے ہیں۔ جہاں ہر طرف افراتفری کا عالم ہے. ہزارہا جانکی ہمیں قدم قدم پر موجود ملیں گی، جو بچے تو پسند کرتی ہیں لیکن پالنا پسند نہیں ہے کہ کہیں ان کی آزادی میں روڑا نہ بن جائیں۔ منٹو نے اپنے افسانے ”جانکی“ کے ذریعہ سے اس تلخ حقیقت کو اجاگر کیا ہے کہ عزیز اپنی بیوی کی بات نہیں مانتا ہے لیکن جانکی کا کہنا نہیں ٹالتا ہے کیوں کہ محبت کا معاملہ بھی بہت عجیب و غریب ہوتا ہے. انسان محبت میں اپنی بیوی کو نظر انداز کرتا رہتا ہے لیکن اپنی محبوبہ کی ہرخواہش پوری کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتا ہے اور یہ نظام بھی بڑا عجیب و غریب ہے کہ بیویوں کے ہوتے ہوئے بھی محبوبائیں پالی جاتی ہیں۔ منٹو کی خوبی یہ ہے کہ وہ بہت ہی ہلکے پھلکے جملے سے بہت بڑے مسئلے کو ابھار دیتے ہیں. منٹو کی تحریروں کی سب سے بڑی خوبی ان کی اختصار پسندی ہے. مختصر سے مختصر مکالمے میں وہ سماج کے بہت بڑے مسئلے کو چھیڑ دیتے ہیں، مثلا ”جانکی“ کا یہ مکالمہ:
”سعید اس وقت اسٹوڈیو میں نہیں ہے گھر میں بیٹھا رہتا ہے رضیہ سے آخری حساب کتاب کررہا ہے۔
میں نے پوچھا۔ کیا مطلب؟
نرائن نے ادھر سے جواب دیا۔ کھٹ پٹ ہوگئی ہے ان میں۔رضیہ نے ایک اور آدمی سے ٹانکا ملا لیا ہے۔“
منٹو نے جہاں ایک طرف شادی شدہ مرد پر طنز کیا ہے وہیں  شادی شدہ عورتوں کے کردار پر بھی چھینٹا کشی ہے۔ منٹو بات کررہا ہے آج سے 50 سال پہلے لیکن ایسا لگ رہا ہے کہ آج کا مصنف موجودہ سماج میں مروجہ برائیوں کو اپنی تحریروں میں سمو رہا ہے۔ میٹرو پولیٹن شہر ہوں یا چھوٹے شہر اور قصبات، آج کل یہ فیشن بن گیا ہے کہ شوہر کے ساتھ ساتھ دوسرے مرد کے ساتھ بھی تعلقات ہوتے ہیں اور یہ عام سی بات مانی جاتی ہے۔منٹو نے اپنے افسانوں کے ذریعہ مردوں اور عورتوں دونوں کی ذہنیت کو بیان کیا ہے۔ عورت کی ترقی، اس کی جوانی کے فوائد کو بھی بیان کیا ہے اور اس کے پس منظر میں اس کے استحصال کا بھی ذکر کیا ہے۔
منٹو نے موجودہ تہذیب کو تھپک کر سلانے کے بجائے اسے سرعام کیا تاکہ اس کے فوائد و نقصانات دونوں سامنے آسکیں اور اسی چیز کو منٹو کی تحریروں کا نقص قرار دیا گیا ہے لیکن منٹو نے کہا ہے کہ ”یہ نقص تو موجودہ نظام کا ہے“ منٹو کی سوچ اپنے زمانے سے بہت آگے کی تھی، منٹو کے یہاں نفسیاتی رد عمل بہت شدید تھا۔ منٹو نے جنسیات پر ضرور لکھا ہے لیکن اس کی تحریروں میں کہیں پر بھی لطف و لذت کا احساس نہیں ہوتا ہے بلکہ اس المیہ کو بیان کرنے کے لیے ہے جو اس کے ذریعہ سے ظہور میں آتا ہے۔ منٹو کی تحریریں ناسور کی مانند ہیں جن سے مسلسل ٹیسیں اٹھتی رہتی ہیں۔ منٹو کی جنسیات پر مبنی تحریروں میں وہ فکر رواں دواں ہے جو اس کے خیر و شر پر تبصرہ کرنا چاہتی ہے، اس کے نظام پر، سماج میں بکھرے ہوئے ان کیڑوں کا ذکر کرنا چاہتی ہے جو ہر طرف بکھرے ہوئے ہیں اور گندگی پھیلاتے رہتے ہیں. منٹو نے اسی غلاظت کی جانب عوام کی توجہ مرکوز کرائی ہے۔
جنس اور جنسیات پر، نہ لکھنا غلط ہے اور نہ پڑھنا۔ اگر یہ اتنا ہی فحش تذکرہ ہوتا تو دنیا کے تمام مذہبوں کی مقدس کتابوں میں ان کا ذکر نہ ہوتا۔ خواہ وہ قرآن ہو یا انجیل، تورات ہو یا منتر، ہر زبان میں ہر مذہب میں تحریریں موجود ہیں، فرق ہے صرف پڑھنے والے کی فکر اور ذہنی اپج کا۔۔۔۔۔
نئی نسل کے نامور ناقد حقانی القاسمی اپنی کتاب ”شکیل الرحمٰن کا جمالیاتی وجدان“ میں اس موضوع پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: 
”اگر شہوانیت ہی عریانیت ہے یااشتعال انگیزی فحش ہے تو پھر عورت کے نزدیک سب سے عریاں اور اشتعال انگیز مرد ہے اور مرد کی نظر میں سب سے زیادہ شہوت خیز اور اشتعال انگیز عورت ہے“
"منٹو کی تفہیم نو“ صفحہ 105
لہذا جنس وہ انسانی جبلت ہے جس کے بغیر دنیا کا وجود ہی ناممکن تھا اور اگر اس پر پابندی لگ جائے تو دنیا بھی یک لخت ٹھہر جائے گی۔ ضرورت ہے اس میں موجود خامیوں ککو جاننے کی۔ مرد اور عورت کے درمیان جو جنسی رشتہ ہوتا ہے وہ انسانی فطرت ہے. کائنات کا استمرار اسی پر ہے. اسی لیے منٹو نے اس کو موضوع تحریر بنایا تاکہ اس میں پنپ رہی گندگیوں کو صاف کیا جاسکے. یہ جنسی رشتہ اگر جائز طریقے سے پورا کیا جائے تو عبادت ہے اور اگر ناجائز طریقوں سے پورا کیا جائے تو شیطانیت بھی ہے۔ منٹو نے اپنی تحریروں کے ذریعہ سے اس فکر کو اٹھایا ہے کہ جائز اور ناجائز رشتے کتنے پائدار ہیں، جگہ جگہ پر جنسیت اور شہوانیت کی ماراماری ہے، انسان ایک شہوانی جانور ہے جو ہر جائز اور ناجائز طریقے سے اپنی جنسی خواہشات کی تکمیل کا متمنی ہوتا ہے۔ منٹو نے جب ایسے لوگوں کے چہروں سے نقاب ہٹانے کی کوشش کی، تو لوگ اپنی اصل گھناؤنی شکل دیکھتے ہی گھبرا اٹھے۔
جب منٹو نے اس موضوع پرقلم اٹھایا تو یہ سماج ان کا دشمن بن گیا، ان پر مقدمے چلائے گئے، انھیں فحش اور جنسی قرار دیا گیا۔ لیکن اس کے پس منظر پر کسی نے بھی نگاہ کرنے کی زحمت گوارا نہیں کیا۔
منٹو نے اپنی فکر کے ذریعہ سے ایسے فرد، ایسے کرداروں کو جلا بخشی ہے، جن کی طرف سماج میں کبھی کسی نے نظر اٹھاکر دیکھنے کی بھی زحمت گوارا نہیں کی۔منٹو نے سوگندھی، ممی، گھاٹن، جانکی جیسے کرداروں کو ازلی عمر عطا کردی ہے. سماج نے جب ان کو پڑھا تو اپنے جسم میں ایک سنسنی کے ساتھ ان کے درد کو بھی محسوس کیا کہ ہاں ان کرداروں میں بھی زندگی ہوتی ہے، جان ہوتی ہے، جذبات ہوتے ہیں۔ یہ بھی ہمارے اور تمھارے جیسے انسان ہوتے ہیں، ان کے دل بھی احساسات سے پر ہوتے ہیں۔۔۔۔۔
انھیں دیکھو، ان سے ملو، انھیں محسوس کرو، سماج کی غلاظت سمجھ کر ان سے چشم پوشی نہ کرو، یہ گندگی بھی سماج کا حصہ ہے، اس کو صاف کرنے کی ضرورت ہے، انھیں صحیح طریقے سے استعمال کرنے کی ضرورت ہے، یہ کھلونا نہیں ہیں کہ ان سے کھیلو اور چھوڑدو، انھیں توڑدو، بلکہ ان کے درد کو اپنے دل میں اپنانے کی کوشش کرو۔ ان محرکات سے گریز کرو جو ان کرداروں کو وجود بخشتے ہیں۔ ان ہی محرکات پر لکھا گیا منٹو کا ایک افسانہ ”سڑک کے کنارے“ ہے. یہ پورا افسانہ خود کلامی پر مشتمل ہے. خود کلامی میں کہے گئے کلمات اس افسانے کی جاذبیت اور بڑھادیتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ قاری کا تجسس بھی۔۔۔ مثال ملاحظہ ہو ”اس نے کہا۔ ”تمھارے وجود کے جس ذرے کو میری ہستی کی تعمیر و تکمیل کی ضرورت تھی، یہ لمحات چن چن کر دیتے رہے۔ اب جب کہ تکمیل ہوگئی ہے، تمھارا اور میرا رشتہ خود بخود ختم ہوگیا ہے۔“
(افسانہ: سڑک کے کنارے، صفحہ 233-234ء ،مرتب: اطہر پرویز، ایجوکیشنل ہاؤس، علی گڑھ)
یہ وہ الفاظ ہیں جو ہر دوسری معصوم دوشیزہ سے ہر تیسرا مرد کہتا ہے. مرد کے نزدیک عورت کے جسم کا حصول ہی اصل ہے. جب تک مقصد حاصل نہیں ہوتا ہے رشتہ برقرار رکھتا ہے اور حصول مقصد کے بعد اسے تڑپتا بلکتا چھوڑ دیتا ہے۔۔۔۔ عورت کس درد سے گذرتی ہے. اسے کیا کیا نہیں جھیلنا پڑتا ہے، مرد کو کوئی غرض نہیں۔۔۔۔۔۔ اور پھر وجود میں آتا ہے ناجائز گوشت کا ایک لوتھڑا خواہ وہ بچہ ہو یا بچی۔۔۔۔۔ اور ان ہی محرکات سے غلیظ معاشرہ مزید غلیظ ہوجاتا ہے۔۔۔
مذکورہ افسانہ منٹو کے بہترین افسانوں میں شمار کیا جاسکتا ہے، اس افسانے میں منٹو نے اس نقطے کو روشن کیا ہے جو قدم قدم پر پیش آتے رہتے ہیں۔ افسانے کا اختتام کچھ ایسی ہی خبر پر ہوتا ہے جو ہر روز اخبار کی سرخی ہوتی ہے۔ لیکن کیا کبھی کوئی حساس انسان اس کی جانب متوجہ ہوتا ہے؟ اس کے محرکات پر غور کرتا ہے؟ لیکن منٹو کے حساس ذہن نے اس کا اثر قبول کیا۔ یہی وجہ ہے کہ منٹو نے اس فکر کو پیش کیا ہے۔منٹو کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے نسوانی جذبات و احساسات کی بھر پور عکاسی کی ہے، گویا ان کے سینے میں بیک وقت ایک مصنف کا، ایک عورت کا دل دھڑک رہا تھا۔ اور ایک اچھی تحریر تبھی وجود میں آتی ہے جب کہ انسان خود اس میں ڈوب جائے۔ اور اس درد کو اپنا سمجھے۔
منٹو کے افسانوں کی عورتیں خواہ کتنی ہی خراب کیوں نہ ہوں، طوائف ہوں یا رقاصہ، دلالہ ہوں یا ایکٹریس ان میں مادررانہ  جذبات کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے ہیں۔ رحم کا جذبہ ان کے دلوں میں پایا جاتا ہے۔ منٹو نے جہاں عورتوں کے قبیح پہلو پر روشنی ڈالی ہے کہ وہ مردوں کے ساتھ ناجائز تعلقات بناتی ہیں، شوہر ہوتے ہوئے دوسرے مردوں کے ساتھ گھومنا، کھانا پسند کرتی ہیں وہیں اس پہلو کو بھی اجاگر کیا ہے کہ ان میں مامتا بھی پائی جاتی ہے۔ گویا منٹو نے عورتوں کی ازلی حیثیت کو ہر جگہ برقرار رکھا ہے۔ اس پر آنچ نہیں آنے دی ہے۔ کیونکہ ہر مرد کو عورت میں ایک مامتا کی تلاش ہوتی ہے، جب مرد جوان ہوجاتا ہے تب بھی اس کے اندر وہ شیرخوار بچہ موجود رہتا ہے جس کو عورت کے پستانوں میں ہی سکون ملتا ہے۔ فرائڈ کا نظریہ ہے کہ ایک شیرخوار بچہ جب شیر خواری کرتا ہے وہیں سے اس کے لاشعور میں شہوانی جذبہ پنپنے لگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب شیر خواری کا وقفہ مکمل ہوجاتا ہے اور اس کا دودھ چھڑایا جاتا ہے تو وہ بہت غصہ ور چڑچڑا اور لاغر ہوجاتا ہے۔ دنیا اس کے لیے بے کیف ہوجاتی ہے۔ اور وہ کسک، کچھ کھونے کا احساس اس کے لا شعور میں موجود رہتا ہے۔ منٹو نے اسی شعور لا شعور کے مابین ذہنی تصادم کو، اسی انسانی لا شعوری کو اپنے افسانوں میں بیان کیا ہے۔ منٹو نے نفسیاتی کشمکش کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ منٹو کے تمام ہی افسانوں کے پس منظر میں ان کی عالمی ہمہ گیری کی فکر کارفرما نظر آتی ہے. 
***
رویدا ضمیر کی گذشتہ نگارش: پروفیسر شیمہ رضوی کی یاد میں

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے