سر سید کا تعلیمی نظریہ اور الہ آباد

سر سید کا تعلیمی نظریہ اور الہ آباد

 (سر سید کے یوم پیدائش کی مناسب سے) 

پروفیسر صالحہ رشید 

مصلح قوم سر سید احمد خان بانی علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کی ذات والا صفات سے ہم سبھی واقف ہیں۔ آپ کی پیدائش ١٧/ اکتوبر ١٨١٧ء کو بہ مقام دہلی اور وفات ٢٧/ مارچ ١٨٩٨ء کو علی گڑھ میں واقع ہوئی اور آپ وہیں مدفون ہیں۔ لسان العصر اکبرؔ الہ آبادی (١٦/نومبر ١٨٤٦ء تا ١٥/ فروری ١٩٢١ء) آپ کے ہم زمانہ ہیں اور آپ دونوں نے ہی انیسویں صدی کے اس نصف آخر کا مشاہدہ کیا جس میں ١٨٥٧ء کا سانحہ فاجعہ پیش آیا۔سامراجی طاقتوں نے اسے غدر کا نام دے کر مسلمانوں کو اس کا پوری طرح ذمہ دار ٹھہرایا۔ پھر کیا تھا، مسلمانوں کا قتل عام ہوا، خون کے دریا بہہ گئے، ان کو ان کے گھروں اور علاقوں سے باہر کر دیا گیا اور جائیدادیں چھین کر اس حد تک حاشیے پر دھکیل دیا گیا کہ اگلے بیس تیس برس تک ان میں کسی رد عمل کی سکت ہی نہ رہی۔ بہ قول ظفر اللہ خان قنوطیت کے اس عجیب و غریب ماحول میں ایک مرد مجاہد سید احمد خان نے کمر کسی اور اپنی حکمت عملی سے ایک طرف انگریزوں کے طیش کو کم کرنے کی کوشش کی تو دوسری جانب مسلمانوں کو وہ واحد راستہ دکھایا جو موجودہ دور میں ترقی کے لیے ہم سب کو میسر ہے یعنی جدید تعلیم کا راستہ۔ اس کا عملی نمونہ ١٨٧٥ء میں سر سید کا علی گڑھ میں شروع کیا گیا ایک کالج ہے جو ١٩٢٠ء میں علی گڑھ یونی ورسٹی کی شکل اختیار کر گیا۔ اکبرؔ الہ آبادی جو سر سید کی کار گذاریوں کا بہ نظر غائر مطالعہ کر رہے تھے انھوں نے خود کو تو مقیم دیر و مرید شیخ و اسیر قانون گردانا مگر سر سید کے فکر و عمل کی ستائش میں یوں رطب اللسان نظر آتے ہیں ؎
واہ رے سید پاکیزہ گہر کیا کہنا
یہ دماغ و حکیمانہ نظر کیا کہنا
قوم کے عشق میں پر سوز جگر کیا کہنا
ایک ہی دھن میں ہوئی عمر بسر کیا کہنا
اکبر ؔ نے سر سید کی صرف زبانی تعریف نہیں کی بلکہ کالج کے لیے مالی تعاون بھی کیا جس کی تصدیق ان کے ایک خط سے ہوتی ہے:
’آپ کا عنایت نامہ مورخہ ١٧/ جولائی مع مبلغ دو سو روپیہ اور چندہ مدرسۃ العلوم متعلق بلڈنگ فنڈ پہنچا۔‘
شمس الرحمٰن فاروقی نے بھی اکبرؔ اور سر سید کے مابین مخلصانہ روابط کی تائید کی ہے۔ اتنا ہی نہیں اکبرؔ نے سر سید کی وفات پر ا ن کے تئیں اپنے محسوسات کو خود احتسابی کرتے ہوئے پوری وسیع القلبی سے یوں نذر قلم کر دیا ؎
ہماری باتیں ہی باتیں ہیں،سید کام کرتا تھا
نہ بھولو فرق جو ہے کہنے والے کرنے والے میں
کہے جو چاہے کوئی،میں تو کہتا ہوں کہ اے اکبرؔ
خدا بخشے،بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں
سر سید ملازمت پیشہ تھے اوراس سلسلے میں جہاں بھی ان کا تقرر ہوتا وہاں ان کی تعلیمی سرگرمیاں جاری ہو جاتیں۔ ان کا قیام اکثر و بیشتر الہ آباد میں بھی ہوا کرتا تھا جس کا سبب تھا ان کے بیٹے سید محمود کا یہاں مقیم ہونا۔ لہٰذا اس شہر کی خاک میں بھی ان کے تعلیمی نظریے کا خمیر گندھ گیا اور اس کی پرورش و پرداخت ان کے ہم نواؤں اور مخالفین دونوں نے کی۔ الہ آباد کے چند اہم تعلیمی ادارے اس کے بین ثبوت ہیں۔
سر سید ١٨٣٦ء میں پارسا بیگم عرف مبارک بیگم سے ازدواجی رشتے میں منسلک ہوئے۔ ان کے دو بیٹے سید حامد اور سید محمود اور ایک بیٹی امینہ تھی۔ بیٹی کا چھوٹی عمر میں ہی انتقال ہو گیا۔ سید محمود ٢٤/ مئی ١٨٥٠ء کو دہلی میں پیدا ہوئے اور ۸/مئی ١٩٠٣ کو سیتاپور میں آخری سانس لی۔ ١٨٨٨ء میں ان کی شادی سر سید کے ماموں زاد بھائی خواجہ شرف الدین کی صاحب زادی مشرف جہاں سے ہوئی۔ راس مسعود آپ کے بیٹے یعنی سر سید کے پوتے ہیں۔ ١٧/ مارچ ۶ ۶ ۸ ١ء کو الہ آباد ہائی کورٹ شروع ہوا۔ سید محمود یہاں تقرر ی پانے والے پہلے ہندستانی Jurist اور برطانوی حکومت میں الہ آباد ہائی کورٹ میں بہ طور جج خدمات انجام دینے والے پہلے مسلمان تھے۔ انھوں نے ٢ ۸ ۸ ١ء سے چار مرتبہ کار گزار جج کی حیثیت سے کام کیا۔ ١٨٨٧ء سے ١٨٩٣ء تک وہ شمال مغربی صوبوں (North Western Provinces) کے معزز جج (Puisne Judge) مقرر ہوئے۔ ایک جج کی حیثیت سے انڈین لا رپورٹ پر ان کے فیصلوں کا غلبہ رہا۔ انھوں نے ہندستان کے گورنر جنرل اور شمال مغربی صوبوں کے لیفٹیننٹ گورنر دونوں کی قانون ساز کونسلوں کو مجوزہ قوانین پر طویل نوٹ لکھے اور اس طرح قوانین کی تشکیل میں بھی سرگرم عمل رہے۔ ١٨٩٦ء سے ١٨٩٨ء تک وہ شمال مغربی صوبوں اور اودھ کی قانون ساز کونسل میں تعینات رہے۔ انھوں نے اینگلو اورینٹل کالج کے قیام میں بھی اہم کردار ادا کیا، جو بعد میں علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں تبدیل ہو گیا۔ سید محمود کے یہاں تک پہنچنے میں ان کی تعلیم کا نمایاں رول ہے۔ ١٨٦٨ء میں کلکتہ یونی ورسٹی سے میٹرک پاس کرنے کے بعد انھیں انگلینڈ میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے برٹش گورنمنٹ کا اسکالرشپ ملا اور ١٨٦٩ء میں انھیں لنکنز ان Lincoln’s Inn انگلینڈ میں داخلہ مل گیا۔ اسی دوران انھوں نے کرائسٹ کالج، کیمبرج میں لیٹن، جرمن اور مشرقی زبانوں کا مطالعہ کیا۔ ١٨٧٢ء میں ہندستان واپس آنے پر وہ الہ آباد ہائی کورٹ سے بہ حیثیت بیرسٹر منسلک ہو گئے اور ١٨٧٨ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔ عربی زبان سے ان کی واقفیت نے انھیں ان کے ہم عصروں میں ممتاز کر دیا تھا۔ اس کی بنا پر وہ اسلامی قوانین کو اچھی طرح سمجھ سکتے تھے اور اپنے ساتھیوں کو سمجھا سکتے تھے۔ ان کے جونیر تیج بہادر سپرو نے ان کے بارے میں لکھا ہے:

‘His long and detailed judgements were necessary because of the spate of new legislation being enacted that needed to be clarified in a court of law.’
حالانکہ اسلامی مآخذ پر مبنی ان کے فیصلوں سے برٹش ججوں کو پریشانی محسوس ہوتی تھی جس سے کورٹ میں ناچاقی کا ماحول پیدا ہو گیا۔ نتیجتاً سید محمود ١٨٩٣ء میں قبل از وقت سبک دوش ہوکر بہ طور بیرسٹر لکھنؤ میں سر گرم عمل ہو گئے۔
١٨٧٢ء میں جیسے ہی سید محمود انگلینڈ سے ہندستان واپس لوٹے، انھوں نے کیمبرج یونی ورسٹی کی طرز پر ایک خود مختار مسلم کالج کے قیام کا منصوبہ تیار کیا۔خود الہ آباد ہائی کورٹ میں بہ حیثیت وکیل اور جج خدمات انجام دیتے ہوئے محمڈن اینگلو اورینٹل اسکول کی بنیاد رکھنے میں اپنے والد کی بھرپور مدد کی۔ ١٨٨٣ء میں وہ انگلینڈ گئے اور مسٹر تھیوڈور بیک کو اس اسکول کا پرنسپل مقررکرنے کے لیے ہندستان لائے۔ سید محمود نے انگریزی پڑھانے اور قانون کے پروگرام کے قیام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اپنی قانون کی کتابیں یہاں کی لائبریری کو عطیہ کر دیں۔ ١٨٨٩ء میں سر سید نے ان کو اسکول کے بورڈ آف ٹرسڑیز کا جوائنٹ سکریٹری نامزد کیا۔ ١٨٩٨ء میں اپنے والد کی وفات کے بعد انھوں نے تاحیات کالج کی ذمہ داری سنبھالی۔ وہ آل انڈیا محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس میں بھی فعال رہے۔ اس کے علاوہ ١٨٨٢ء میں انھیں ہندستان کے تعلیمی حالات کی تحقیقات کا کمشنر مقرر کیا گیا تھا۔ سید محمود بہ حوالہ ذیل الہ آباد ہائی کورٹ میں اپنی خدمات انجام دینے کے دوران الہ آباد میں ہی مقیم رہے۔ "Mahmud Manzil” The Pioneer, 18 July, 1871., Muir, W. Sir W. Muir’s Confidential Despatches(1ed.), London: Imperial records.,Lelyveld, David, Swaraj Bhawan and the myths of patriotic nationalism, Bishambhar Nath Pandey. B.R.Nanda اور دیگر حوالوں سے لکھا ہے کہ ’۱‘ چرچ روڈ پر واقع عمارت جسے آج سوراج بھون کہتے ہیں اصل میں ’محمود منزل‘ کہلاتی تھی۔ شمال مغربی صوبوں کے لفٹیننٹ گورنر سر ولیم میور کے ایما پر سر سید کے لیے ١٨٧١ء میں ایک مکان تعمیر کیا گیا۔ ولیم میور اکثر انتظامی امور میں سید احمد خان سے مشورہ لیتے تھے جس کے لیے الہ آباد میں ان کی موجودگی ضروری تھی۔ اس مکان کے لیے شیخ فیاض علی نامی شخص کی بیس ایکڑ کی اراضی کا انتخاب کیا گیا جو گورنمنٹ ہاؤس سے فقط دس منٹ کی مسافت پر واقع تھی۔ یہ زمین فیاض علی کو ١٨٥٧ء کی بغاوت کے دوران ہونے والے نقصانات کے عوض ملی تھی۔ یہاں ایک بڑی عمارت کی تعمیر کا کام ١٨٦٨ء میں شروع ہو کر ١٨٧١ء میں تمام ہوا۔ اسے سید احمد خان کے بیٹے کے نام پر ’محمود منزل‘ کہا گیا۔ بعد میں سید محمود کا اس پر قبضہ تھا۔ وہ جب الہ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس بنے تو یہاں کرایہ دار کی حیثیت سے رہے۔ فیاض علی اپنی وفات ١٨٧٣ء تک فتحپور بشوا میں اپنے ایک بنگلے میں رہتے تھے جو فی زمانہ اللہ پور کے آس پاس کی آبادی ہے۔ مؤرخ ڈیوڈ لیلیولڈ David Lelyveld کے مطابق جسٹس محمود نے اس کوٹھی کو ١٨٨٨ء میں نو ہزار روپے میں خرید لیا تھا، جب کہ ایک دوسرے حوالے کی رو سے اسے شاہ جہاں پور کے جج رائے بہادر پرمانند پاٹھک نے خریدا۔ خرید فروخت کے معاملات کچھ بھی رہے ہوں مگر یہ طے ہے کہ سر سید کی بود و باش کا تعلق یہاں سے رہا۔ ١٩٠٠ء میں یہ عمارت پنڈت موتی لعل نہرو کے ہاتھ فروخت کر دی گئی جنھوں نے اس کا نام آنند بھون رکھا۔ اس آنند بھون نے آزادی کی مہم میں زبردست رول ادا کیا، جب کہ ولیم میور نے اس محل نما گھر کو برطانوی حکومت کے مرکز کے طور پر دیکھا تھا۔آوریل اے پاویل Avril A. Powell نے ٢٠١٠ء میں اپنے تحقیقی مقالات کا ایک مجموعہ Woodbridge Boydell Press, England سے شائع کیا جس کا عنوان ہے Scottish Orientalists And India: The Muir Brothers, Religion, Education and Empire. اس کتاب کے نویں مقالے Education And The Idea Of A University میں پاویل نے لکھا ہے:
‘Debates between Saiyid Ahmed Khan,the founder of Muhammadan Anglo-Oriental College in Aligarh and William Muir led to the founding of Muir Central College. Whereas the universities at Calcutta, Bombay and Madras (the first in India) had classes taught in English, "Muir College” opened in 1872 with three departments of equal standing, teaching respectively through the vernaculars, the oriental classics and English.There was Maulawi Zakaullah, Professor of Vernacular Science and Literature, who taught Arabic, Persian, Urdu and Mathematics. one of the students’ favourite was Aditya Ram Bhattacharya, professor of Sanskrit. Arthur reid was professor of Law.’
پاویل نے اپنی تحقیق کے دوران شمالی ہندوستان میں مسلمانوں اور مشنریوں کے تعلقات کا مطالعہ کیا۔ انھوں نے علی گرھ میں پروفیسر شیریں موسوی، پروفیسر اصغر عباس اور پروفیسر مختار الدین احمد اور الہ آباد میں پروفیسر ونے چند پانڈے سے ملاقات کر حقائق جاننے کی کوشش کی۔ اس کڑی میں انھوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر سید عنایت زیدی کا بھی نام لیا ہے۔ پاویل کی یہ کتاب ہندستان میں برٹش حکومت، لسانیات، شمالی ہند، تنازعات، جنگ آزادی، سر سید کے تعلیمی افکار اور الہ آباد پر خاطر خواہ روشنی ڈالتی ہے۔اس لیے سطور ذیل میں اس کتاب میں درج چند اہم باتوں کا ذکر کر دینا لازمی ہے۔
ولیم میور کا زمانہ ٢٧/ اپریل ١٨١٩ء تا ۱۱/ جولائی ١٩٠٥ء تک تقریباً ایک صدی پر محیط ہے۔ سر سید نے بھی یہی دور دیکھا۔ ولیم میور اور ان کے بڑے بھائی جان میور مشرقی علوم میں دل چسپی رکھتے تھے۔ جان میور سنسکرت اسکالر تھے اور ولیم میور نے عربی اور فارسی پڑھی تھی۔ میور ١٨٣٧ء میں شمال مغربی صوبوں کے گورنر کے سکریٹری بن کر بنگال آئے۔ ١٨٦٥ء میں وہ انڈین گورنمنٹ کے سکریٹری برائے امور خارجہ مامور ہوئے۔اسی اثناء ١٨٦٦ء میں اڑیسہ میں قحط پڑا اور ولیم میور کا فرمان جاری ہوتا ہے:
‘Every district officer would be held personally responsible that no deaths occured from starvation which could have been avoided by any exsertion or arrangement on his part or that of his subordinate.’
یہ فرمان امپیریل گزٹ آف انڈیا ١٩٠٧ء میں درج ہے جس سے ان کی انتظامی صلاحیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔١٨٦٨ء میں وہ شمال مغربی صوبوں کے لفٹیننٹ گورنر بنائے گئے۔ ولیم میور کو تعلیم سے ہمیشہ رغبت رہی۔جس کے نتیجے میں الہ آباد میں میور سنٹرل کالج قائم ہوا جو بعد میں الہ آباد یونی ورسٹی کا حصہ بنا اور آج بھی اسے میور سنٹرل کالج کہتے ہیں، جس میں اس کی سائنس فیکلٹی اور مسلم بورڈنگ ہاؤس واقع ہیں۔ میور نے اسلامی تاریخ پر کام کیا جس پر سر سید سے ان کے شدید اختلافات بھی رہے۔ جان میور اور ولیم میور ہندستان میں ان اساتذہ اور طلبہ کے رابطے میں رہے جہاں اورینٹل اور انگلش اسٹڈیز، ساتھ پڑھائی جا رہی تھیں، مثلاً: بنارس، آگرہ اور دہلی جیسے شہروں میں. انھوں نے اپنے روابط کچھ سنسکرت اور فارسی مضامین پڑھائے جانے والے تعلیمی اداروں سے قائم کیے۔ ان دونوں کی تعیناتی جب ایسٹ انڈیا کمپنی کے مراکز بمبئی، مدراس اور کلکتہ سے الگ مفصل اضلاع جیسے اعظم گڑھ فتحپور وغیرہ میں ہوئی تو وہاں ان دونوں بھائیوں نے ہندستانی تہذیب، روایات، دیہی اور تعلیمی مسائل کا بہ نظر غائر مطالعہ کیا۔ مدرسہ اور گروکل کا چکر لگایا، پنڈتوں اور علما سے رابطہ قائم کیا۔ جان ولیم نے بنارس کے پنڈتوں سے اپنے تعلقات بڑھائے۔ وہ انگلینڈ سے سنسکرت پڑھ کر آئے تھے اور ١٨٤٤ء۔ ١٨٤٥ء کے دوران بنارس سنسکرت کالج کے پرنسپل بھی رہے۔ ان کے لکچر سنسکرت میں ہوتے تھے اور وہ پنڈتوں سے اپنے سنسکرت لکچر کی اصلاح کرواتے تھے۔ پنڈت راجہ رام شاستری کو انھوں نے اپنا منشی بنایا تھا۔ ہیلی بیری کالج جہاں سے ان دونوں بھائیوں نے تعلیم حاصل کی، اس کالج کا کارنامہ یہ رہا کہ اس نے ١٨٢٠ء اور ١٨٣٠ء کے دوران انگریزی اور مقامی زبانوں کے علاوہ سنسکرت عربی اور فارسی زبانیں بھی پڑھائیں۔ اس کے توسط سےطلبہ کو ہندستان کی ثقافت سے بھی آگاہ کر دیا۔ ولیم جان اور ولیم میور نے اپنے مفادات کو سنسکرت اور عربی کے ذریعے ہندو مت اور اسلام کے درمیان تقسیم کیا۔ ١٨٥٧ء تک ان دونوں نے سنسکرت کی مقدس کتابوں اور حضورﷺ کی حیات پر مبنی اپنی کتابیں تیار کر لی تھیں جن میں ہندو اور مسلمان دونوں کے لیے قابل اعتراض مواد موجود تھا۔ جان نے اپنی کتاب کے شروع میں لکھا۔۔’وہ ہندو جو تنقیدی طور پر اس بنیاد سے واقف ہونا چاہتے ہیں جس پر ان کا آبائی مذہب قائم ہے‘۔جان کے ذہن میں یقیناً ان کے بنارس کے طلبہ تھے جنھیں جان نے پندرہ برس قبل سنسکرت، یونانی اور لاطینی کے مشترکہ اصل جیسے موضوعات پر سنسکرت میں لکچر دیا تھا لیکن اب ہندستان میں انگلش میڈیم یونی ورسٹیاں بھی قائم ہو گئی تھیں، لہٰذا ان لکچرز کو انگریزی میں شائع کیا۔ اس لکچر سیریز کے مجموعے کے دوسرے ایڈیشن کے مقدمے میں لکھا ’ان ہندؤں کی تحقیق میں مدد کرنا جو اپنی قوم کی اصل، تاریخ، اپنے قومی ادب، مذہب اور اداروں کی تنقیدی تحقیق کرنا چاہتے ہیں۔‘ ان دونوں کی اشاعتوں سے ویدک اور اسلامی تہذیبوں پر علمی بحثیں چھڑ گئیں۔
اٹھارویں صدی میں مغلوں کی سیاسی طاقت ٹوٹ چکی تھی مگر بہت سے ثقافتی اور مذہبی ادارے جو شاہی سرپرستی میں چل رہے تھے وہ اپنے وجود کو قائم رکھنے میں کامیاب رہے۔ ١٨٠٣ء میں مغل خاندان کا کل اقتدار کمپنی کے ہاتھ آجانے کے باوجود یہ خاندان علمی طبقے کے روایتی، ثقافتی، فنی، ادبی اور مذہبی مفادات کی سرپرستی کرتا رہا۔ یہ سلسلہ انیسویں صدی کے وسط تک چلتا رہا۔ میور برادران کے ہندستان میں ابتدائی دنوں یعنی ١٨٣٠ء سے ١٨٤٠ء کے دوران مغل عنصر ہر جگہ موجود تھا۔ ہندو اور مسلمان دونوں کی سکیولر طاقتوں نے اپنی اسکالر شپ کی روایتی شکل کو بر قرار رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس دوران اودھ پر مسلم حکمرانوں نے خصوصی توجہ دی۔ جس کے قلیل مدتی مقامی طاقت کے عروج نے اس کے دار الخلافہ لکھنؤ کو پورے خطے پر مضبوط اور غیر معمولی ثقافتی اثرات مرتب کرنے کا موقع فراہم کیا۔ اس کا بھی حشر ١٨٥٦ء میں برطانوی حکومت میں الحاق کی صورت میں ہوا۔ دوسری طرف بنارس میں نو تشکیل یافتہ راجہ شپ نے ہندو مذہبی مفادات اور علمیت کے فروغ کے ذرائع فراہم کر دیے۔ ولیم جان نے اپنے رٹائرمنٹ کے بعد ایڈنبرگ جا کر ١٨٥٣ء میں لکھا کہ مندروں کی سرکاری سرپرستی ختم ہونی چاہئے۔ ١٧٨٦ء سے ١٨٢٠ء تک ولیم جونس اور ایچ ٹی کول بروک William Jones & H.T.Colebrooke نے سنسکرت، یونانی، لاطینی اور دیگر یوروپین زبانوں میں مماثلت پر گفتگو کی۔ اسی اثنا یوروپ میں فرانز بوپ Franz Bopp راسمس راس Rasmus Ras جیکب گریم Jacob Grimm شلیگل برادران Schlegel اور کئی عدد جرمن ماہر لسانیات زبانی مماثلت پر کام کر رہے تھے۔ جان میور نے ١٨٢٠ء میں ہندستان آنے سے قبل ان سب کو پڑھا ہوگا۔ جان میور ابھی ہیلی بیری میں ہی تھے کہ Dugald Stewart ڈوگالڈ اسٹیوارٹ نے ایڈنبرگ Edinburgh میں ایک متنازعہ بیان دے دیا کہ سنسکرت ایک برہمن hoax (فریب) ہے جس کی بنیاد یونانی ہے۔ Alexander Hamilton الکزانڈر ہیملٹن کی Hindu Literature and Asian History میں پروفیسر شپ پر تعیناتی طلبہ کے درمیان لسانی مباحثوں کو ہوا دے گئی۔ زبانوں کی اصل کا متنازعہ مسئلہ عوامی طور پر برطانیہ میں Friedrich Max Muller کے ١٨٤٠ء میں ’بنگالی اور سنسکرت کے باہمی روابط‘ عنوان پر دیے گئے لکچر سے زور پکڑ گیا۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے آریاؤں کی ہجرت کا خاکہ بھی پیش کیا اور کہا کہ زبانوں کے تقابلی مطالعے کے تاریخی، عملی اور فلسفیانہ فوائد ہیں۔
١٨٥٧ء کے کشیدہ حالات میں میور فیملی اور دیگر انگریز افسران نے آگرہ کے قلعے میں پناہ لی جن کی سر سید نے مدد کی تھی۔ ١٨٥٧ء سے ١٨٦٩ء کے دوران سر سید احمد خان اور ولیم میور کے کیریر نے پیشہ ورانہ طور پر کئی مراحل طے کیے۔ ولیم کئی سال تک صوبائی بورڈ آف ریوینیو میں تعینات رہے جہاں نجیب آباد کے نوابوں کے بیٹوں کے بغاوت میں ملوث ہونے کے سبب ان کی زمین کی ضبطی میں کچھ ناانصافیاں ہوئیں اور ان کا ازالہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ میور دو سال گورنمنٹ آف انڈیا کے فارن سکریٹری کے طور پر کلکتہ میں رہے۔ یہاں ان کے کیریر کا ستارہ عروج پر رہا۔ ١٨٦٨ء میں انھیں شمال مغربی صوبوں کا لفٹیننٹ گورنر بنایا گیا۔ اس دوران سر سید چار سال تک مراد آباد میں عدالتی خدمات انجام دیتے رہے، ساتھ ہی امن و امان کی کار گذاریوں میں بھی شامل رہے۔ ١٨٦٢ء میں ان کا تبادلہ غازی پور اور اس کے دو سال بعد علی گڑھ ہوا۔١٨٦٤ء میں وہ بنارس بھیج دیے گئے۔ ١٨٦٩ء میں وہ اپنے دو بیٹوں سید حامد اور سید محمود کو تعلیم کی غرض سے انگلینڈ لے گئے۔ بچوں کے تعلیمی اسکالر شپ اور سر سید کی مخصوص چھٹی میں ولیم میور کی عنایت کا دخل رہا۔ ١٨٥٧ء میں رونما ہونے والے واقعات اور انگلینڈ کا سفر سر سید کی فکر کے دو محور ہیں۔ ولیم میور اور سر سید دونوں کا ماننا تھا کہ اعلا تعلیم سے پس ماندگی دور کی جا سکتی ہے اور شمال مغربی صوبوں میں اعلا تعلیم کی بے انتہا کمی ہے۔ یہی سبب ہے کہ برطانوی سرکار کو یہاں سے بابو نہیں مل پا رہے تھے۔ولیم میور کا خیال تھا:
‘Hindutanis must rouse themselves from their slumber of indifference or their children would remain behind on all the paths of learning and knowledge.’
سر سید نے اپنی غازی پور اور کلکتہ کی تقریروں میں پس ماندگی اور اس کے تدارک کو اپنا موضوع بنایا۔انھوں نے کہا کہ ہمیں اپنی عظمت رفتہ کی بازیافت کے لیے انگریزی اور جدید علوم سیکھنے ضروری ہیں۔١٨٦٠ء کے آس پاس سر سید اور ولیم دونوں نے مفصل شہروں میں تعلیمی بہتری کی اسکیموں پر کام کرنا شروع کیا۔ولیم نے تو تعلیمی بیداری کو لے کر ایک ڈسٹرکٹ کا دوسرے سے مقابلہ کر ادیا تھا۔ ان دونوں نے ہی ولیم ہنٹر کے اس مشورے کی تائید کی کہ اعلا تعلیم سے پس ماندگی کا تدارک ممکن ہے۔
پاویل میور سنٹرل کالج کی جائے وقوع کو لے کر لکھتا ہے:
‘For its first fifteen years the Muir College was able to prove itself a valuable half-way house situated rather precariously between the near monopoly of English in Calcutta University and the uniqueness of the new Punjab University’s fully fledged Oriental Department.By the late 1880s the Muir Central College examination results marked it as north India’s most academically succesful college outside Calcutta.’
پاویل کی تحقیق بلا شبہ سر سید، ولیم میور اور شہر الہ آباد سے ان کی وابستگی پر روشنی ڈالتی ہے۔ اس کے علاوہ سر سید نے اپنے رفقا، اعزا و اقربا کو خطوط لکھے ہیں جن سے براہ راست ان کے الہ آباد میں قیام اور مختلف معاملات کی معلومات ہوتی ہے۔ ان کے پوتے سر راس مسعود نے ان خطوط کو جمع کیا۔ یہ مجموعہ ١٩٣١ء میں نظامی پریس بدایوں کے احید الدین پرنٹر و پبلشر نے شائع کیا۔ اس پر مولوی عبد اللہ جان وکیل سہارن پوری نے مقدمہ لکھا ہے۔ اس کے آخر میں وہ درج کرتے ہیں۔۔عبد اللہ جان، لودیانہ، ۶/فروری ١٩٢٢ء. مقدمہ کی شروعات اس شعر سے ہوتی ہے ؎
زندہ دارد مرد را آثار مرد
نام گل باقی است چون گردد گلاب
اس مجموعہ میں مکتوب الیہ کے نام اور خطوط کی تعداد اس طرح ہے:
شمس العلمامولوی محمد حسین آزاد (۳)، نواب محسن الملک (٢٦)، مولوی مشتاق حسین صاحب نواب وقار الملک (٣٩)، مولوی زین الدین جج مچھلی شہر (١٠)، خواجہ الطاف حسین حالی (۴)، مولوی چراغ علی المخاطب بہ نواب اعظم یار جنگ (۱)، خان بہادر مولوی ذکاء اللہ (۷)، راجہ جے کشن داس (۱)، نواب عماد الملک (١٢)، سراج الدین احمد ایڈیٹر سرمور گزٹ (١٩)، نواب سردار محمد حیات خان (۱)، مولوی عنایت رسول چڑیا کوٹی (۱)، میر واحد علی (۱)، خان خیر اللہ خان (۱)، مولوی محمد ابراہیم (۳)، مولانا محمد علی صاحب کان پوری بانی ندوۃ العلما (۱)، مولوی ابو الحسن صدیقی (۱)، منشی حافظ سعید احمد (۱)، محمد سعید خان (۲)، مولوی سید نصرت علی (۳)، منشی احمد خان صوفی (۹)، مولوی عنایت اللہ (٤٣)، مولوی نیاز محمد خان وکیل پنجاب (٤٣)، شیخ میران بخش (۱)، شیخ عمر بخش وکیل ہوشیار پور (۱)، مولوی سید شرف الدین بلخی (۵)، مولوی سید میر حسن (۹)، سید عبد الغنی (۱)۔ سید عبد الغنی کو ١٤/ نومبر ١٨٩٢ء کو الہ آباد سے لکھا گیا مجموعے میں شامل آخری خط ہے۔ پانچواں خط جو محسن الملک کے نام لکھا ہے اس کا چھوٹا سا اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
’اپنے چچا زاد بھائی پر تاکید کرو کہ پڑھنے پر محنت کرے اور بنارس کالج میں بھیج دو۔ آخر سال میں انٹرینس کا امتحان ہو گا اس میں پاس ہو جائے گا۔ اگرچہ اسکالر شپ ہونے کو امتحان کی ضرورت نہیں مگر سر ولیم صاحب کی رائے ہے۔‘
خاکسار، سید احمد، ۹/ جولائی ١٨٦٩ء از لندن، بروز جمعہ (صفحہ ٣٦)
چھٹا خط ٢٣/ جولائی ١٨٦٩ء کو لندن سے نواب محسن الملک کو لکھ رہے ہیں:
’اگر مرا محبوب من مہدی لا مذہب یا کافر گوید یا سمیع اللہ یا امداد العلی مرتد داند مرا چہ باک، تو بر من مہربان باش۔
دشمن چہ کند چو مہربان باشد دوست (صفحہ ٣٩)
نواب محسن الملک کو: (صفحہ ٤١۔ ٤٢)
میور صاحب کی کتاب کے جواب کا سامان نہیں ہو سکا ۔۔۔ آج دربار ہے اور میں اسٹار آف انڈیا لینے جا تا ہوں۔
خاکسار، سید احمد، ۶/ اگست ١٨٦٩ء، روز جمعہ، لندن
(صفحہ ٥٢) کتاب پوری نہ ہو لے اور چھپ نہ لے اس وقت تک کسی کو نہ معلوم ہو کہ ولیم میور صاحب کی کتاب کا جواب لکھا جاتا ہے۔ پس اغیار سے اس کو مخفی رکھنا چاہئے کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ قبل اتمام کتاب جناب سر ولیم میور صاحب کو اس کا حال معلوم ہو۔(صفحہ ٥٦)’ نجم الاخبار کا مضمون جو سوسائٹی کے اخبار میں مندرج ہوا تھا میں نے دیکھا اور حیران ہو گیا کہ کون شخص میرا خریدار پیدا ہوا۔ مجھ کو تو اپنے ہم وطنوں اور بالتخصیص اپنے ہم مذہبوں سے بجز لعنت کے پھٹ اور جوتی پیزار کے اور کسی چیز کی توقع نہیں ہے اور میں اس کے سننے اور کھانے میں خوش ہوں۔ نہ میرا دل رنجیدہ ہوتا ہے نہ میں ان کو برا جانتا ہوں پھر خلاف توقع یہ کیوں کر ظہور میں آیا۔ منشی نجم الدین میرے دوست ہیں اور غالباً مجھ کو اس قدر لعنت کا مستحق نہیں سمجھتے جس قدر کہ اور لوگ سمجھتے ہیں مگر وہ آرٹیکل ان کا لکھا ہوا نہیں معلوم ہوتا۔ غالباً جب وہ دہلی گئے ہوں گے تو وہاں منشی ذکاء اللہ صاحب سے ان کی ملاقات ہوئی ہوگی اور ان کی تقریر و خوش بیانی نے منشی ذکاء اللہ صاحب کے دل کو تحریک دی ہوگی اور انھوں نے وہ آرٹیکل لکھا ہوگا۔ بہت سے الفاظ اور طرز تحریر سے انھیں کا لکھا ہوا معلوم ہوتا ہے۔‘ اس خط میں آگے خطبات احمدیہ اور اس کے مشمولات پر تفصیلی گفتگو موجود ہے۔
(صفحہ ٧٦)۔۔۔’کل جو اخبار لندن میں چھپے ہیں ان میں آپ کی گفتگو کا بالکل اور نواب ٹونک کے ہزار روپیہ دینے کا ذکر چھپا ہے۔ افسوس کہ ہزار روپیہ کا اس قدر چرچا ہو گیا اور مولوی سید امداد العلی صاحب نے مضمون ’چندہ دستگیری مسافر لندن‘ بھی لکھ دیا اور جو کچھ انھوں نے متعدد جلسوں میں اس کی ہنسی اڑائی جس کی صحیح خبر مجھے پہنچی، اس کا بے فائدہ مجھے رنج ہوا۔‘
خاکسار سید احمد از لندن، ١٠/ مئی ١٨٧٠ء
(صفحہ ۷۷۔۸۷)’راجہ صاحب کا میں نے خط دیکھا۔ جو کچھ انھوں نے لکھا وہ بالکل سچ ہے۔ آپ کا جو غصہ کسی قدر فرو ہوا، میں اس سے بہت خوش ہوا۔ کیسا برا یہ خیال تھا کہ بسبب کسی ابتری خواہ اصلی یا غیر اصلی بد انتظامی کے سبب آپ سوسائٹی سے علیحدہ ہو جاتے۔ خیر بہر حال جو گذرا خدا نے خیر کی۔ مگر تعجب ہے کہ آپ کو بابو شیوا پرشاد صاحب کے مسلمانوں کی نسبت چند ہی کلمات جو کچھ زیادہ سخت نہ تھے، ایسے برے معلوم ہوئے مگر جو ان کی (یعنی مسلمانوں کی) نیک نامی اور خوبی (یعنی بدی) ہر روز تمام ہندوستان کے اخباروں میں چھپتی رہی ہے اور کوئی نالائق پاجی پن کی حرکت ایسی نہیں ہے کہ جو مسلمانوں کی نسبت نہیں لکھی جاتی اور غیر مسلموں نے جو اپنے سفرناموں میں مسلمانوں کی نالایقیوں کا حال لکھا ہے اس سے آپ کو کیوں رنج نہیں ہوتا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ان حالات سے آپ کو اطلاع نہیں ہوتی۔۔۔ ٢٨/ اگست ١٨٧٠ء کو ان شاء اللہ تعالیٰ میں لندن چھوڑوں گا۔ ایک ہفتہ مصر میں رہوں گا اور ان شاء اللہ تعالیٰ معہ الخیر ۲/ اکتوبر ١٨٧٠ء کو بمبئی میں پہنچوں گا اور چوتھی پانچویں کو ان شاء اللہ تعالیٰ الہ آباد میں آپ کے جمال مبارک کو دیکھوں گا۔
(صفحہ۹۷)۔۔۔’الاّ جس قدر کہ میں تمھارے ہاں کے مولویوں سے ناراض ہوں، ایسا کسی سے ناراض نہیں، زندہ مولویوں اور بالتخصیص واعظوں کا تو جانی دشمن ہوں اور گذشتہ مولویوں سے سوائے چند کے رنجیدہ ہوں کسی کو سوائے چند کے لکھنے اور کتاب تصنیف کرنے اور کسی بات کی تحقیق کرنے کا مطلق سلیقہ نہ تھا۔ صرف جنگل میں سے بھلی اور بری لکڑیاں چننے والے تھے۔ خدا ان پر رحم کرے اور ان کی تقلید کرنے والے اندھوں کو خدا ہدایت کرے۔ اگرچہ تم خفا ہو گئے ہو مگر میں سچ کہتا ہوں کہ جس قدر نقصان اسلام کو تقلید نے پہنچایا ہے اتنا کسی چیز نے نہیں پہنچایا۔سچے اسلام کے حق میں تقلید سنکھیا سے بھی زیادہ زہر قاتل ہے۔‘
مذکورہ بالا تحریریں نواب محسن الملک کو لکھے گئے خطوط سے نقل ہیں۔ اس مجموعے کے صفحہ ٣٠/ پر نواب محسن الملک کی تفصیلات کچھ اس طرح درج ہیں۔۔ مولوی سید مہدی علی اٹاوہ کے رہنے والے پہلے صوبۂ متحدہ میں ڈپٹی کلکٹر تھے اس کے بعد حیدر آباد دکن میں جاکر پولیٹکل سکریٹری ہوئے۔ وہیں محسن الملک کا خطاب پایا اور اسی نام سے مشہور ہوئے۔١٨٩٣ء میں پنشن پائی۔ سر سید کے ہمدم و ہمراز تھے۔۰۹۸۱ء؁ میں مدرسۃ العلوم، علی گڑھ کے سکریٹری ہوئے۔۴۱/ اکتوبر ۷۰۹۱ء؁ کو انتقال ہوا۔علی گڑھ میں مدفون ہیں۔
اس مجموعے میں صفحہ ٨١ / سے ١١٥/ تک مولوی مشتاق حسین صاحب نواب وقار الملک بہادر کے نام لکھے گئے خطوط شامل ہیں۔ (صفحہ ۸۸) ’آپ نے مولوی سمیع اللہ خان صاحب سے خط و کتابت کی۔ جن امور کو میں نے نامناسب سمجھا اس کو مولوی محمد اکبر یا مولوی سمیع اللہ خان صاحب سے بیان کیا۔‘ خاکسار سید احمد، علی گڑھ، ٣٠ / مارچ ١٨٨٤ء 
(صفحہ ٨٩) ’مجھے خبر ملی ہے جس کا مجھ کو کمال رنج و فکر ہے کہ بابو شیو پرشاد صاحب کی تحریک سے عموماً ہندو لوگوں کے دل میں جوش آیا ہے کہ زبان اردو و خط فارسی کو جو مسلمانوں کی نشانی ہے مٹا دیا جائے۔ میں نے سنا ہے کہ انھوں نے سین ٹیفک سوسائٹی کے ہندو ممبروں سے تحریک کی ہے کہ بجائے اخبار اردو، ہندی ہو ترجمہ کتب بھی ہندی میں ہو۔ یہ ایک ایسی تدبیر ہے کہ ہندو مسلمان میں کسی طرح اتفاق نہیں رہ سکتا۔‘ خاکسار سید احمد، علی گڑھ، ٢٥ / جون ١٨٨٤ء
(صفحہ ٩١) ’سجاد حسین کو میں نے ترجمہ کے کام پر ساٹھ روپیہ ماہواری کا قوانین مدارس کے ترجمہ کے لئے نوکر رکھا۔ اس نے نہایت عمدہ ترجمہ کیا۔ مجھے یقین تھا کہ مہینے ڈیڑھ مہینے کے بعد نہایت عمدہ اور چلتا ہوا مترجم ہو جاتا۔ چار پانچ ہی روز اس تقرر پر ہوئے تھے کہ مولوی سمیع اللہ خان اس کو اپنے ساتھ مصر لے جاتے ہیں۔‘
(صفحہ ٩٢) ’میں کافر ہوں اگر یہ چاہتا ہوں کہ میری رائے و تدبیر مانی جاوے۔ صرف یہ چاہتا ہوں کہ قوم کی بھلائی پر لوگ متوجہ ہوں اور یہ دکھاتا ہوں کہ تعصب بہت بڑا مانع ہے۔‘
(صفحہ ٩٤) ’اگر مجھ کو خدا ہدایت نہ کرتا اور تقلید کی گمراہی سے نہ نکالتا اور میں خود تحقیقات حقیقت اسلام پر متوجہ نہ ہوتا تو یقینی مذہب کو چھوڑ دیتا۔۔۔قیامت کے دن جب خداتعالیٰ مسلمان، تیلی، جولاہوں، ناخواندہ یا کم علم مسلمانوں کو سزا دینے لگے گا تو بندہ سامنے ہو کر عرض کرے گا کہ جناب باری انصاف فرمائیے کہ ان بیچاروں کا کیا قصور ہے۔‘
(صفحہ ۱۰۱)۔۔۔’ذرا مجھ کو یہ بات سمجھا تو دو کہ سید محمود کا تقرر خواہ ضروری تھا یا نہ تھا یا قبل از وقت تھا۔ مولوی س۔خ۔ کو اس قدر شورش کرنے کی کیا وجہ ہے۔ مولوی س۔ خ۔(سمیع اللہ خان) نے جو کچھ نسبت محمود کے لکھا بلا شبہ آپ کے دل کو تکلیف ہوئی ہو گی ۔۔۔ مولوی س۔خ۔ لکھتے ہیں کہ کون ممبر ہے جو اس بات کو پسند کرے گا کہ بورڈنگ ہاؤس ایک عیسائی کے ہاتھ میں رہے۔ مولوی س۔خ۔ کا ایک ایک لفظ شرارت اور خبث طینت سے بھرا ہوا ہے ۔۔۔ میں نے مولوی س۔خ۔ کے ساتھ وہ برتاؤ کیا کہ شاید کوئی شخص جس میں ذرا بھی نفس انسانی ہو نہیں کر سکتا لیکن اب مجھ سے نہیں ہو سکتا۔ اگر کسی مجلس میں وہ اور میں جمع ہو جاویں گے تو آپ سن لیں گے کہ وہ معاملات پیش آئے جو پاجی سے پاجی اور شہدوں سے شہدوں میں بھی نہیں ہوں اور کیا عجب ہے کہ دونوں فوجداری کی حوالات میں تشریف لے جاویں۔‘ والسلام، خاکسار سید احمد، علی گڑھ ۷/ اگست ١٨٨٩ء
(صفحہ ١١٢) ’ہمارے کالج میں علاوہ یونین کلب کے مسٹر آرنالڈ پروفیسر نے لائق اور ذی استعداد اور ذی شعور طالب علموں کی اخلاقی تعلیم کے لئے ایک سوسائٹی قائم کی ہے اور اخوان الصفا اس کا نام رکھا ہے۔ افتتاحی اسپیچ جو انھوں نے کی وہ اردو میں بطور رسالہ کے چھاپہ ہوئی ہے۔ تین امر آپ کے غور کے لائق ہیں۔ اول اس کو پڑھو اور انصاف کرو کہ ہم کو الزام دینا کہ ہم نے نالائق یا نا قابل پروفیسر کالج میں جمع کئے ہیں۔ کیا یہ صحیح ہے؟ دوم بورڈنگ ہوس میں ان پروفیسروں کو پوری مداخلت دینا اور طالب علموں اور ان پروفیسروں میں دوستانہ، مشفقانہ، مؤدبانہ ربط و ضبط بڑھنے دینا کیا ہمارا جرم ہے۔ سوم کوئی کالج مسلمانی یا انگریزی اور ہندوستانی ریاستوں کا ایسا بتا سکتے ہو جس میں اس قسم کی تعلیم کے سامان مہیا ہو سکتے ہیں۔ جو لوگ ہمارے کالج کے طالب علموں اور ان کے مربیوں کو اغوا کرتے ہیں اور خطوط لکھتے ہیں کہ علی گڑھ کالج چھوڑ کر الہ آباد بورڈنگ ہوس چلے آؤ کیا وہ قوم کے ساتھ بھلائی کر تے ہیں۔
خاکسار سید احمد، علی گڑھ، ٣٠/ نومبر ١٨٩٠ء 
میں الہ آباد تھا ابھی آیا ہوں حال میں۔‘
(صفحہ ١١٥) الہ آباد سے مولوی مشتاق حسین کے نام خط ہے جس میں بھوپال اور حیدر آباد جانے اور آسمان منزل کی تعمیر کے لئے مزید چندہ اکٹھا کرنے کی بات لکھی ہے۔ یہ خط ٣١/ جولائی ١٨٩١ء کو لکھا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ٢٧/ ستمبر اور ٢٣/ نومبر ١٨٩١ء کے دو خط الہ آباد سے لکھے ہیں، نیز خان بہادر شمس العلماء مولوی ذکاء اللہ صاحب دہلوی کے نام لکھے گئے خطوط ہیں۔یہاں مولوی ذکاء اللہ کے بارے میں ایک نوٹ درج ہے۔۔ ’مرحوم ہندوستان کے مشہور مصنفین میں سے تھے۔ میور سنٹرل کالج الہ آباد میں پروفیسر تھے۔ ١٩١٠ء میں وفات پائی‘۔ یہ خطوط ١٦/ مئی ١٨٩٢ء، ٢٦/ ستمبر ١٨٩٣ء، ٢٩/ جولائی ١٨٩٥ء، ۵/ جولائی ١٨٩٦ء، ١٤/ جولائی ١٨٩٦ء، ۸/ اور ١٠/ نومبر ١٨٩٧ء کو علی گڑھ سے لکھے گئے۔
(صفحہ ١٤٥) جناب مخدوم مکرم معظم من باعث افتخار نواب عماد الملک بہادر
میں کل الہ آباد پہنچا۔ آپ نے جو عنایت و محبت و شفقت بمقام حیدر آباد فرمائی اس کا شکریہ ادا نہیں ہو سکتا اور نہ آپ کا شکر ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ آپ نے ترجمۂ قرآن مجید کی چند کاپیاں دینی فرمائی تھیں وہ رہ گئیں۔ امید کہ دو کاپیاں میرے پاس بمقام علی گڑھ بھیج دیجئے اور سید محمود کے پاس جو کاپی بھیجئے وہ سیدھی ان کے پاس بھیج دیجئے۔ عزیزی مہدی حسن طال عمرہٗ کو بہت بہت سلام۔ والسلام
خاکسار سید احمد، الہ آباد، ٢٧ / ستمبر ١٨٩١ء
(صفحہ ١٤٧) نواب عماد الملک کو لکھے ایک خط کا اقتباس ملاحظہ ہو:
’۔۔۔گر خدا کو مسلمانوں کے حق میں کچھ بہتر کرنا ہے تو یہ مدرسہ قائم اور سر سبز رکھے گا ورنہ جو خدا کی مرضی۔ اس وقت کالج کلاسوں میں ٢٠٥/طالب علم ہیں۔منجملہ ان کے ١٦٨/ مسلمان ہیں۔ اگر شمال مغربی اضلاع کے کل کالجوں کے کالج کلاسس کے مسلمان طالب علموں کو شمار کر لیا جاوے تو بھی ان کی تعداد ہمارے کالج کے مسلمان طالب علموں کے نصف سے کچھ ہی زیادہ ہے۔
اسکول کلاسوں میں ٣٦١/ طالب علم ہیں جس میں سے ٢٨٩ / مسلمان ہیں۔ یہ تعداد مسلمانوں کی بھی کچھ کم نہیں ہے۔ غرض کہ کل کالج اور اسکول کے طالب علموں کی تعداد ٥٦٦/ ہے اور لاء کلاس میں ٩٠/ طالب علم ہیں۔پس کل تعداد طالب علموں کی ۶۵۶/ ہے۔ زیادہ تر تعجب کی یہ بات ہے کہ ٣٣٥ / طالب علم بورڈر ہیں اور سب آپس میں ملے ہوئے اور نہایت شاداں اور فرحاں رہتے ہیں۔ علاوہ معمولی تعلیم کالج کے یونین کلب ہے جس میں وقتاً فوقتاً انگریزی زبان میں تقریریں اور مباحثہ ہوتا ہے۔ پھر ایک لجنۃ الادب ہے جس میں عربی خواں طالب علم اور مدرس اور بعض دیگر احباب شریک ہوتے ہیں اور کل گفتگو اور مباحثہ جو کچھ ہوتا ہے عربی زبان میں ہوتا ہے اور جو عربی زبان میں نہایت عمدہ اور شستہ گفتگو کرتا ہے اس کو انعام دیا جاتا ہے۔‘
(صفحہ١٤٩) نواب عماد الملک بہادر کو اطلاع دے رہے ہیں کہ آنریبل سر ولیم میور، ایل ایل ڈی، کے سی۔ایس۔آئی۔ ہمارے کالج کے وزیٹروں کی فہرست میں شامل ہیں۔ یہ خط ۳/مئی ١٨٩٥ء کو علی گڑھ سے لکھا گیا۔
(صفحہ ١٨٩) مخدومی منشی احمد خان صاحب صوفی اس خط کو پڑھئے۔ جو جواب میں نے بھیجا ہے اس کی نقل ذیل میں ثبت ہے۔ والسلام، خاکسار، سید احمد، الہ آباد ١٠/ جنوری ١٨٩١ء
(صفحہ ١٩٥) محمد عنایت اللہ کو ٢٩/ اکتوبر ١٨٩٢ء کو علی گڑھ سے خط لکھ کر ١٥/ نومبر کو الہ آباد آنے کی اطلاع دیتے ہیں۔
(صفحہ ١٩٥) عزیزی محمد عنایت اللہ
امید ہے کہ تمھاری طبیعت سب طرح اچھی ہوگی۔ تم نے جو بیرونی کی لائف لکھی تھی اور وہ پچھلے سال کانفرنس میں پیش نہیں ہو سکی تھی اس سال اس کو پیش کر دو۔ اس کے پڑھنے کی ضرورت نہ ہو گی۔ صرف تھوڑی سی گفتگو کے بعد پیش کر سکو گے۔ بعض حالات دیکھنے کو انگریزی کتاب انڈیا بیرونی کی تم کو ضرورت تھی وہ میں نے رکھ لی۔ پس اس رسالے کو پیش کر دینے میں کچھ دقت نہیں ہے۔
والسلام، خاکسار، سید احمد، الہ آباد ۲/ دسمبر ١٨٩٢ء
محمد عنایت اللہ کو چار اور خط الہ آباد سے ۶ / دسمبر ١٨٩٢، ١٢/ دسمبر ١٨٩٢ء، ١٥/ جنوری ١٨٩٣ اور ٢٥/ جنوری ١٨٩٣ء کو لکھے گئے ہیں۔ سر سید نے ۷/اگست ١٨٨٩ء اور ٣٠/ نومبر ١٨٩٠ء کو جو خطوط لکھے ان میں مولوی س۔خ۔ یعنی مولوی سمیع اللہ خان سے انتہائی خفگی کا اظہار کیا ہے۔ اس حد تک کہ ان کا پورا نام لکھنا بھی انھیں گوارا نہ تھا۔ مولوی سمیع اللہ خان کی پیدائش ١٨٣٤ء بمقام دہلی اور وفات ۷/ اپریل ١٩٠٨ء کو واقع ہوئی۔ آپ حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ کے احاطے میں دفن ہیں۔ آپ نے ١٨٥٧ء میں اپنے اور سر سید کے افراد خانہ کی جان بچا کر انھیں بستی نظام الدین میں حفاظت کے ساتھ پہنچایا تھا۔ وہ سر سید کی تعلیمی فکر کے شروعاتی دور کے حامی رہے۔ سر سید جس ایجوکیشنل سوسائٹی کے پریسیڈنٹ ہوتے تو مولوی سمیع اللہ اس کے سکریٹری بنائے جاتے۔ کئی معاملات میں مولوی سمیع اللہ کو سر سید سے سخت اختلاف بھی رہا۔ مثلاً وہ علی گڑھ کالج انتظامیہ کو پوری طرح انگریزوں کے ہاتھ سونپے جانے کے خلاف تھے۔ اسی طرح سید محمود کو بورڈ آف ٹرسٹیز کا چیرمین بنائے جانے پر انھوں نے سخت اعتراض کیا۔ سر سید اور مولوی سمیع اللہ کے ما بین اختلاف ایم اے او کالج کے لیے نقصان دہ ثابت ہو ا مگر یہی اختلاف الہ آباد کے لیے مسلم بورڈنگ ہاؤس کی شکل میں ایک بڑی نعمت بن کر سامنے آیا۔ مسلم بورڈنگ ہاؤس الہ آباد یونی ورسٹی کا ایک ہاسٹل ہے، جو عموماً ایم بی ہاؤس کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس کا قیام سر سید کے خط کی تحریر کے مطابق ١٨٩٠ء میں عمل میں آچکا تھا اور جنگ بہادر مولوی سمیع اللہ خان، سب جج علی گڑھ اس کے بانی ہیں۔ یوں تو الہ آباد یونی ورسٹی نے ایک اسپیشل ایکٹ کے تحت ١٩٢١ء سے آزادانہ طور پر کام کرنا شروع کیا مگر یہاں تک پہنچنے کے لیے اسے تقریباً نصف صدی کا سفر طے کرنا پڑا۔ شہر الہ آباد کو انگریزی عہد میں مرکزی حیثیت حاصل رہی لہٰذا نگریزوں نے اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے یہاں اسکول قائم کر لیے۔ بوایز ہائی اسکول ١٨٦٤ء میں اور سینٹ جوزف اسکول ١٨٨٤ء میں شروع کیے جا چکے تھے۔ میور آباد نام سے ایک بستی بھی بسا دی گئی تھی۔ اس کے بعد اعلا تعلیم کا مسئلہ درپیش تھا۔ محمڈن اینگلو اورینٹل کالج، علی گڑھ کا قیام عمل میں آ چکا تھا۔ کلکتہ، بامبے اور مدراس یونی ورسٹیز اپنے وجود کا لوہا منوا رہی تھیں۔ پنجاب یونی ورسٹی اور اس کے اورینٹل ڈپارٹمنٹ کا شہرہ چاروں طرف تھا۔ ایک بڑی دقت جو سامنے تھی وہ یہ تھی کہ کلکتہ اور پنجاب کے درمیان فاصلہ زیادہ اور اعلا تعلیم کے مراکز کا فقدان تھا۔ مشہور مؤرخ آوریل پاویل کے مطابق سر سید احمد خاں اور لفٹننٹ گورنر سر ولیم میور کے درمیان اس سلسلے میں تبادلہ خیال ہوا جس کے مدّ نظر سر ولیم میور نے ١٨٧٢ء میں ایک سنٹرل کالج کی شروعات کی جو بعد میں میور سنٹرل کالج کہلایا۔ جولائی ١٨٧٢ء میں اس کا پہلا سیشن انڈین پریس کی بلڈنگ میں شروع ہوا۔ ١٨٨٠ء تک اس کالج نے شمالی ہندستان کے سب سے اچھے ادارے کی حیثیت سے اپنی شناخت قائم کر لی تھی۔ ولیم میور نے محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کے قیام میں بھی خاصی دل چسپی دکھائی تھی۔ مولوی سمیع اللہ خان سے بھی ان کے مراسم تھے جو بعد میں الہ آباد کے مسلم بورڈنگ ہاؤس کے قیام میں معاون ثابت ہوئے۔
جولائی ١٨٧٦ء میں سر سید ملازمت سے سبک دوش ہو کر علی گڑھ لوٹے۔ اس وقت مولوی سمیع اللہ خان پوری لگن کے ساتھ ایم اے او کالج کا ابتدائی مدرسہ چلا رہے تھے۔ چنانچہ سر ولیم میور نے ٢٤ /مئی ١٨٧٥ء کو مدرسہ کا باقاعدہ افتتاح کرتے ہوئے کہا کہ مولوی سمیع اللہ خان سب آرڈینیٹ جج نے دل و جان سے اس مدرسہ کے لیے محنت کی ہے اور تھوڑے ہی عرصے میں جو نمایاں ترقی اس نے کی وہ بہت حد تک انھیں کی وجہ سے ہے۔ولیم میور نے اس مدرسہ کی مالی اعانت بھی کی۔ اس کی شروعات چار بچوں سے ہوئی جس میں سے ایک مولوی سمیع اللہ خان کے بیٹے حمید اللہ خان بھی تھے۔وہ بعد میں افضل العلماء مولوی محمد حمید اللہ خان نواب سر بلند جنگ بہادر کے نام سے مشہور ہوئے اور چیف جسٹس آف حیدر آباد بھی رہے۔
خواجہ محمد یوسف اور مولوی سمیع اللہ خان مشن سر سید کے شروعاتی دنوں کے سب سے بڑے حامی و مددگار تھے۔ خواجہ محمد یوسف علی گڑھ کے زمین دار اور مشہور وکیل تھے۔ انھیں محسوس ہوا کہ انگریزی تعلیم کی خوبیاں اپنائی جانی چاہئیں۔ ان کے بڑے بیٹے یحیٰ کی جلد وفات ہو گئی تھی مگر دوسرے بیٹے عبد المجید خواجہ نے کرائسٹ چرچ لندن سے تعلیم حاصل کی۔ وہاں ان کی دوستی جواہر لعل نہرو سے ہوئی۔ اس وقت ان کے والد موتی لعل نہرو الہ آباد ہائی کورٹ میں وکیل تھے۔ خواجہ محمد یوسف اور موتی لعل نہرو کے ذاتی اور پیشہ ورانہ تعلقات تھے۔ انھوں نے سائنٹفک سوسائٹی میں انگریزی کتابوں کا اردو ترجمہ کرنے میں بہت مدد کی۔ ان کا مالی تعاون بھی جاری رہا جس کے لیے انھوں نے گھوم گھوم کر چندہ اکٹھا کیا۔ ان کے ساتھ ظہور حسین اور زین العابدین اور کچھ چھوٹی نسل کے لوگ جن میں سر سید کے صاحب زادے سید محمود اور مولوی سمیع اللہ خان کے بیٹے حمید اللہ خان شامل ہوتے تھے۔ بعد میں حمید اللہ خان کی بیٹی یعنی مولوی سمیع اللہ خان کی پوتی خورشید کی شادی خواجہ یوسف کے بیٹے عبد المجید خواجہ سے ہوئی اور وہ بیگم خورشید خواجہ کے نام سے معروف ہوئیں۔ یہ دونوں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے بانیوں میں شامل ہیں۔ عبد المجید خواجہ کے تین بیٹے جمال خواجہ، رشید خواجہ، اجمل خواجہ اور چھ بیٹیاں تھیں۔ دہلی کے سابق لفٹیننٹ گورنر نجیب جنگ حمید اللہ خان کے پوتے اور بیگم خورشید خواجہ کے بھتیجے ہیں جب کہ ١٩٣٥ء میں قائم ہونے والی CIPLA Pharmaceutical کمپنی کے بانی خواجہ عبد الحمید خواجہ یوسف کے بھتیجے ہیں۔
مولوی سمیع اللہ خان منشی محمد عزیز اللہ خان کے صاحب زادے تھے۔ اس خاندان کا شمار دہلی کے عمائدین میں ہوتا تھا۔ آپ نے مولانا مملوک علی نانوتوی اور دہلی کے دیگر علماے کبار سے تعلیم حاصل کی۔ سر سید، مولانا محمد قاسم اور مولانا رشید احمد گنگوہی نے بھی انھی اساتذہ کرام کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا تھا۔ ١٨٥٨ء میں آپ منصف مقرر ہوئے اور ١٨٧٣ء میں آپ سب جج ہوئے۔ اسی دوران آپ نے اینگلو اورینٹل اسکول کی ذمہ داریاں نبھائیں۔ ١٨٨٤ء میں لارڈ نارتھ بروک ایک مشن لے کر مصر گئے تو آپ بطور مشیر اور عربی دان ساتھ گئے۔ وہاں سے واپسی پر آپ کو خطاب سے نوازا گیا۔ اس کے بعد آپ ڈسٹرکٹ جج اور پھر سیشن جج ہوئے۔ نومبر ١٨٩٢ء میں ملازمت سے سبک دوش ہوئے۔ آپ کو CMG یعنی انگریزوں کا چھٹا سب سے اونچا رینک حاصل تھا۔
مولوی سمیع اللہ خان نے عمر کا ایک بڑا حصہ سر سید کی معیت میں گذارا مگر یہ ضروری نہیں تھا کہ وہ سر سید کی ہر بات سے اتفاق کرتے ہوں۔ مثلاً جب سر سید نے الفنسٹن کی کتاب تاریخ ہند کا ترجمہ کیا تو حضور ﷺ کی شان میں جو گستاخانہ لفظ الفنسٹن نے استعمال کیا تھا، وہی لفظ سر سید نے استعمال کر دیا۔ اس پر مولوی سمیع اللہ خان نے شدید اعتراض کیا۔ دوسرا موقع تب آیا جب علی گڑھ کالج کا انتظام بورڈ آف ٹرسٹیز کے ہاتھوں میں جانا تھا۔ ابھی تک کالج کا انتظام مینیجنگ کمیٹی کرتی تھی۔ جس کے سکریٹری سر سید تھے۔ ١٨٨٩ء سر سید نے ایک ٹرسٹی بل کی تجویز رکھی۔اس بل کی ایک دفعہ یہ تھی کہ بورڈ آف ٹرسٹیز کے سکریٹری سر سید ہوں اور جوائنٹ سکریٹری ان کے صاحب زادے سید محمود ہوں، تاکہ سر سید کے بعد وہ سکریٹری ہو سکیں۔ مولوی سمیع اللہ خان نے اس دفعہ کی مخالفت کی کیونکہ سر سید کی غیر موجودگی میں انھوں نے بڑی جاں فشانی سے اس ادارے کو چلایا تھا، دوسرے سید محمود سے زیادہ تر لوگ ناخوش تھے۔ ان سب کے باوجود جب بل پاس ہو گیا تو سمیع اللہ خان رنجیدہ خاطر ہوئے۔ قوم کی حالت ان سے دیکھی نہیں جاتی تھی۔ اسی اثنا ایک منفرد خیال ان کے ذہن میں انگڑائی لینے لگا اور وہ الہ آباد چلے آئے۔ یہاں ١٨٩٠ء میں انھوں نے مسلم بورڈنگ ہاؤس کی بنیاد ڈالی۔ مولانا سمیع اللہ خان کشادہ ذہن کے مالک تھے۔ مسلمانوں کی تعلیم کے لیے علی گڑھ کالج کے معاملات سے واقف تھے۔الہ آباد میں میور کالج بڑی عمدگی سے چل رہا تھا۔ ولیم میور سے ان کی واقفیت تو تھی ہی، لہٰذا انھوں نے قومی تعلیم کے مسئلے کو حل کرنے کا ایک جداگانہ طریقہ نکالا۔ انھیں محسوس ہوا کہ جو ادارے خاص مسلمانوں کے لیے قائم ہیں ان کا تعلیمی معیار پست ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان بچوں کا ملنا جلنا دوسری قوم کے بچوں سے نہیں ہوتا اور نہ ہی ان کا مقابلہ ان سے ہو پاتا ہے۔ ان کے سامنے سر فضل حسنین کی کارکردگیاں بھی تھیں جو پندرہ سال انجمن حمایت اسلام لاہور کے سکریٹری رہے اور اسلامیہ کالج لاہور کے روح رواں تھے۔ جب وہ پنجاب میں وزیر تعلیم مقرر ہوئے تو انھوں نے اسلامیہ اسکولوں کی مدد کرنے کی بجائے گورنمنٹ کالج لاہور، میڈیکل کالج لاہور اور دوسرے سرکاری اداروں میں مسلم طلبہ کے داخلے کا خاطر خواہ انتظام کیا اور ان کی تعداد مقرر کر دی تاکہ ان کا داخلہ آسانی سے ہو جائے اور وہ دوسری قوم کے بچوں کے ساتھ تعلیم حاصل کریں۔ مولوی سمیع اللہ خان نے بھی مسلم بورڈنگ ہاؤس کی صورت میں ایک حل نکالا۔ ان کا خیال تھا کہ مسلم طلبہ ایک جگہ رہیں گے تو اس سے ان کی قومی روایات محفوظ رہیں گی مگر وہ تعلیم دوسرے اداروں میں جا کر حاصل کریں گے۔ ان کے ساتھ کلاس روم میں ہوں گے اور ساتھ بیٹھ کر امتحان دیں گے۔ انھیں یہ حل قومی کالج قائم کرنے سے بہتر نظر آیا۔ مولوی سمیع اللہ خان کے اس اقدام کی سب سے زیادہ مخالفت شبلی نے کی۔ ٹرسٹی بل کے پاس ہونے کے وقت بھی شبلی سید محمود کی حمایت میں کھڑے ہو گئے تھے۔ حالانکہ یہ مولوی سمیع اللہ خان تھے جن کی مردم شناس آنکھوں نے شبلی کو پہچانا اور ایم اے او کالج کے فارسی کے استاد کے لیے سر سید سے ان کی سفارش کی۔ شبلی نے مولانا سمیع اللہ خان کے خلاف بہت زہر افشانی کی۔ مسلم بورڈنگ کو انھوں نے مسجد ضرار کا نام دے دیا تھا۔ حالانکہ کافی عرصہ بعد شبلی نے مولانا سمیع اللہ خان کی دور اندیشی کا اعتراف کیا اور اپنے ١٩١٣ء کے ایک خط میں لکھا کہ اسلامی بورڈنگ بنانا زیادہ مفید ہے جس میں اخلاقی اور مذہبی تربیت ہو۔ باقی تعلیم تو کسی بھی اسکول میں حاصل کی جا سکتی ہے۔ آج مولوی سمیع اللہ خان ہمارے درمیان نہیں ہیں مگر ان کے وژن اور سر سید کی تعلیمی فکر کا ثمرہ ہمارے سامنے ہے جس کی بدولت مسلم بورڈنگ ہاؤس کے طلبہ ہندستان کی کسی بھی قوم کے طلباء کے شانہ بہ شانہ قدم بہ قدم چل رہے ہیں۔
بیگم خورشید خواجہ نے اپنے دادا مولوی سمیع اللہ خان کی فکر ی نہج پر قدم رکھا اور ان کے تعلیمی مشن کو فروغ دینے کی ہر ممکن کوشش کی۔ وہ اپنے والدین یعنی محمد حمید اللہ خان نواب سر بلند بہادر جنگ اور بیگم اختر سر بلند جنگ کی پہلی اولاد تھیں۔ انھوں نے بہت شروع ہی میں پردہ ترک کر دیا اور سیاسی اور سماجی سرگرمیوں میں حصہ لینے لگیں۔ انھوں نے تعلیم نسواں اور خواتین کی فکری آزادی پر بہت کام کیا۔ نہرو خاندان سے اور بالخصوص پدمجا نائڈو اور وجے لکشمی پنڈت سے ان کے دوستانہ مراسم تھے۔ پدمجا حیدر آباد میں ان کی ہم جماعت تھیں۔ خورشید خواجہ الہ آباد کی پہلی مسلم خاتون تھیں جنھوں نے اپنی بیٹیوں کو سینٹ میریز کانونٹ کی بورڈنگ میں ڈالا۔ آنجہانی اندرا گاندھی بھی کچھ وقت کے لیے یہاں کی طالبہ رہیں۔ عدم تعاون تحریک کے زمانے میں بیگم خورشید خواجہ عجب تذبذب میں مبتلا ہو گئیں۔ ان کے والد محمد حمید اللہ مغربی تہذیب سے متأثر آزاد خیال انسان تھے۔ وہ برٹش رول کی حمایت کرتے تھے جب کہ ان کے شوہر گاندھی جی کا ساتھ دے رہے تھے۔ انھوں نے اپنے انگریزی طرز کے تمام کپڑے نذر آتش کیے اور کھادی اختیار کر لیا۔ بیگم خورشید نے بھی اپنے سارے فیشن والے کپڑے آگ میں ڈالے اور زیور آزادی کی مہم کے اخراجات کے لیے دے دیے۔ عبد المجید خواجہ کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہی ہوئی۔ انھوں نے عربی فارسی اور اردو کی تعلیم لینے کے بعد ایم اے او کالج لاہور میں داخلہ لیا۔ اس کے بعد انھیں ١٩٠٦ء کیمبرج بھیج دیا گیا اور وہاں سے انھوں نے ہسٹری میں گریجویشن کی۔ کیمبرج میں سر شاہ سلیمان جیسے قانون داں، پنڈت جواہر لعل نہرو ہمارے پہلے وزیر اعظم اور محمد اقبال جیسے فلاسفر اور شاعر ان کے ساتھ تھے۔ وہیں ان کی ملاقات ساؤتھ افریقہ میں شہرت رکھنے والے گاندھی سے ہوئی۔ ١٩١٠ء میں وہ ہندستان واپس آئے اور علی گڑھ ڈسٹرکٹ کورٹ میں پریکٹس شروع کر دی پھر پٹنہ ہائی کورٹ چلے گئے۔ ١٩١٩ء میں انھوں نے مہاتما گاندھی کی ایک آواز پر پریکٹس چھوڑ دی اور سول نافرمانی تحریک میں شامل ہو گئے۔ وہ خلافت تحریک کے بھی رکن رہے اور چھ ماہ کے لیے جیل گئے۔ ١٩١٩ء سے ١٩٢٥ء تک جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قیام میں مشغول رہے۔١٩٢٦ء میں انھوں نے الہ آباد ہائی کورٹ میں پریکٹس شروع کر دی۔ اب وہ کچھ گھریلو اور صحت کے مسائل کی بنا پر سیاست میں فعال نہ رہ سکے، حالانکہ جامعہ اور انڈین نیشنل کانگریس کو ان کا تعاون آخر عمر تک جاری رہا۔١٩٣٦ء میں وہ جامعہ کے چانسلر مقرر کیے گئے اور اس عہدے پر تا حیات بنے رہے۔
بیگم خورشید خواجہ، محمد حمید اللہ خان نواب سر بلند جنگ سابق چیف جسٹس حیدر آباد کی بیٹی اور علی گڑھ کی اعلا شخصیات میں سے ایک خواجہ محمد یوسف کی بہو نے الہ آباد کی تنگ گلیوں والے محلے پتھر گلی میں مسلم لڑکیوں کی تعلیم کی خاطر پانچ لڑکیوں کو لے کر ١٩٣٠ء میں ایک اسکول شروع کر دیا۔ اسکول کی ابتدا پتھر گلی، شاہ گنج واقع سید علی زیدی کے مکان سے ہوئی۔ ان کی مدد کو دو اور خواتین بیگم شمس الضحیٰ زیدی اور مسز مادھو لال بھی آ گئیں۔لڑکیوں کی تعداد بڑھنے لگی اور جلد ہی اس نے ایک اسکول کی شکل اختیار کر لی۔ بیگم خورشید خواجہ نے اپنے والد صاحب کے نام پر اس کا نام حمیدیہ اسکول رکھ دیا۔ جولائی ١٩٣٢ء میں Ms. D. Bewen اس کی پرنسپل بنائی گئیں۔ اس کے بعد حمیدیہ اسکول کی مینیجنگ کمیٹی تشکیل دی گئی۔ بیگم خورشید خواجہ اس کی پہلی مینیجر بنیں اور ١٩٤٢ء تک اس عہدے پر فائز رہیں۔ اس کے بعد Association For The Education Of Muslim Women At Allahabad کا قیام عمل میں آیا۔ سر شاہ محمد سلیمان چیف جسٹس آف الہ آباد ہائی کورٹ اس ایسوسی ایشن کے پہلے پریسیڈنٹ بنائے گئے۔ آپ ١٦/ مارچ ١٩٣٢ء سے ٣٠/ ستمبر ١٩٣٧ء تک الہ آباد ہائی کورٹ کے پہلے انڈین اور سب سے کم عمر کے چیف جسٹس ہوئے۔ آپ ١٩٣٨ء سے ١٩٤١ء تک علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے وائس چانسلر بھی رہے۔حمیدیہ اسکول کی روز افزوں ترقی کو دیکھتے ہوئے ایک مخیر خاتون بیگم محمود جہاں نے اپنا محل نما گھر اسکول انتظامیہ کے حوالے کر دیا۔ اسی بلڈنگ میں آج حمیدیہ گرلز انٹر کالج چل رہا ہے جس میں تقریباً ٢٧٠٠/ طالبات تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ ابتدائی کئی برسوں تک یہاں پرنسپل کے عہدے پر کرسچن خواتین کا تقرر ہوتا رہا اس خیال سے کہ یہاں کی طالبات کو انگریزی زبان پر دسترس ہو اور اسکولی نظم و نسق بہتر طور پر قائم رہے۔ اسے سر سید کے تعلیمی مشن کی توسیع کے طور پر دیکھا جانا چاہئے۔ یہاں کی پرنسپلس کی فہرست اس طرح ہے:
1.Ms.D.Bewen, July 1932 to June 1935
2. Mrs. Wesley, July 1935 to January 1936
3. Mrs. Stephens, February 1936 to June 1936
4.Ms. A. Joel, July 1936 to December 1939
5. Mrs. A. Elias, January 1940 to August 1940
6. Mrs. L. Lewis, September 1940 to January 1941
7. Mrs. N. Shamsuddin, February 1941 to September 1941
8. Mrs.A.Elias, October 1941 to June 1942
9. Mrs. Yohan Masih, July 1942 to 15.4.1944
10. Mrs. A. Elias, 16.4.1944 to December 1944
11. Mrs. I. Prett, January 1945 to December 1945
12. Mrs.Sirkar, January 1946 to 12.7.1950
13. Ms. Jamila Khatoon, 13.7.1950 to October 1954
14. Ms.M.V.Singh, 19.1.1955 to 15.9.1961
15. Mrs.Mehrunnia Hasan, 16.9.1961 to 19.10.1964
16.Ms.Uma Srivastav 20.10.1964 to 5.11.1967
17.Mrs.H.Nighat, 6.11.1967 to 30.6.1999
18.Mrs.Abida Hasan, 1.7.1999 to 30.6.2000
19. Mrs.K.N.Sabir, 1.7.2000 to 30.6.2002
20. Ms.Nooru Sabah, 1.7.2002 to 11.7.2002
21. Mrs.Shamim Bano, 12.7.2002 to 31.7.2018
22. Mrs.Talat Iqbal, 1.8.2018 to 31.3.2020
23.Dr.Hamida Bano, 1.4.2020 to present
اسی طرح ایسوسی ایشن کے پہلے پریسیڈنٹ آنریبل چیف جسٹس سر شاہ محمد سلیمان ان کے بعد بتدریج بیگم سلیمان، محترمہ محمود جہاں بیگم، بیگم تارا رشید شروانی اور بیگم راشدہ ایم۔ زیڈ۔ خان کے نام آتے ہیں۔
ڈاکٹر حمیدہ بانو موجودہ پرنسپل حمیدیہ گرلز انٹر کالج یہیں کی فارغ طالبہ ہیں۔ ١٩٧٥ء میں حمیدیہ انٹر کالج ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے ڈگری کالج کی صورت اختیار کر گیا اور آج یہ الہ آباد یونی ورسٹی سے منسلک ایک مائینارٹی پی جی کالج ہے۔ بیگم خورشید خواجہ کے چھوٹے بیٹے جناب اجمل خواجہ نے اس کی بلڈنگ کی توسیع کے لیے ایک خطیر رقم کا عطیہ دیا۔ اس کی موجودہ پرنسپل پروفیسر ناصحہ عثمانی بھی حمیدیہ انٹر کالج کی سابق طالبہ ہیں۔ راقم الحروف کو بھی اسی مادر علمی کی آغوش میں ١٩٦٧ء سے ١٩٧٤ء تک تعلیم و تربیت کے حصول کا شرف حاصل ہوا اور بحیثیت صدر شعبہ عربی و فارسی، الہ آباد یونی ورسٹی، یوپی بورڈ کے ١٩٢١ء میں صد سالہ جشن کے موقعے پر Best Alumnae کے زمرے میں حمیدیہ انٹر کالج کی جانب سے اس کا نام درج ہے۔
الغرض مذکورہ بالا تعلیمی ادارے اور ان سے مستفید ہونے والے طلبہ بالواسطہ یا بلاواسطہ سر سید کے تعلیمی نظریے کے مرہون منت ہیں۔ آوریل اے پاویل کے بیانات اور سر سید کے خطوط اس کی تصدیق کرتے ہیں۔سر ولیم میور کا سر سید سے مشورہ کر کالج قائم کرنا، اس کا الہ آباد یونی ورسٹی میں تبدیل ہو جانا، ولیم میور کی مدد سے مسلم بورڈنگ ہاؤس کا قیام، مولوی سمیع اللہ خان کے افراد خانہ کی تعلیمی دل چسپی کے سبب ایک طرف جامعہ ملیہ اسلامیہ کا وجود میں آنا اور الہ آباد میں فروغ تعلیم نسواں، ان تمام کے پیچھے سر سید کا تعلیمی نظریہ کار فرما ہے اور ہم سب اس کے مرہون منت ہیں۔ گو آج سر سید اور ان کے تعلیمی نظریہ کو فروغ دینے والے حضرات ہمارے درمیان نہیں ہیں مگر ان کی فکر خوشبو بن کر فضا میں ہر چہار سو بکھری ہوئی ہے اور ہم سے تقاضا کر رہی ہے کہ قوم کے ہر فرد کے مشام تک اس کے معطر پیغام کو پہنچا دیں۔
***
پروفیسر صالحہ رشید کی گذشتہ نگارش یہاں پڑھیں : میر تقی میرؔ کے فارسی کلام کی عصری معنویت

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے