رئیس المتغزلین کی شاعری میں عشق کا پرتو

رئیس المتغزلین کی شاعری میں عشق کا پرتو

ارم رحمٰن
لاہور، پاکستان

اگر شاعر کے مزاج میں تنوع اور روانی نہ ہو،
اس کی طبع نازک پر احساس کی گرانی نہ ہو ،
زیست میں روز نئی کہانی نہ ہو،
شاعری میں عشق کی حکمرانی نہ ہو،
تو پھر بہت ممکن ہے کہ وہ شاعر تو ہو
لیکن حسرت موہانی نہ ہو

"رئیس المتغزلین" کا لقب پانے والا شاعر کس پایے کا ہوگا یہ سوچنا چنداں محال نہیں. ایسا شاعر جو سر تا پا عشق کی تصویر پیش کرنے میں کامل و اکمل ہو، منظر کشی کہ دل میں اترے اور اسلوب ایسا کہ روح میں سما جائے، الفاظ کا چناؤ اور ترکیب استعمال اس قدر دل نشیں کہ شاعری کی چاشنی زبان و دہن سے پورے وجود میں سرایت کرتی محسوس ہو، عوام و خواص کوئی اس جادوئی الفاظ کے سحر سے نہ بچ سکے، اور جو بچ جائے تو پھر وہ یا حسرت موہانی کی شاعری نہیں یا اس قاری کو شاعری کی سمجھ ہی نہیں.
حسرت موہانی سراپا عشق تھے، ان کی غزل گوئی کا محور سدا عشق ہی رہا. شاعری کا اصل متن و مفہوم جو شاعری کا اصل نمائندہ ہے، وہ عشق ہے.
حساس اور دردمند دل رکھنے والے باصلاحیت شاعر عشق کی چوٹ پر ہی تو قلم چلاتے ہیں۔ قلم سے ہی شعر سانچے میں ڈھل ڈھل کر جذبات و احساسات کی ترجمانی کرتے ہیں اور اس بات پر کماحقہ عمل پیرا کوئی شاعر تاعمر قائم رہا تو وہ حسرت موہانی تھے.
حسرت موہانی اردو غزل گوئی کی تاریخ میں ایک ممتاز حیثیت رکھتے ہیں. ان کا خیال اور انداز بیان دونوں ہی شخصی اور روایتی عناصر کی آمیزش ہے.
حسرت موہانی کو قدیم غزل گو اساتذہ سے بڑا ذہنی و جذباتی لگاؤ تھا، کلاسیکل شاعری کا انھوں نے بڑا دقیق و وقیع مطالعہ کیا تھا، اپنی طبعیت کے مطابق ان کے مخصوص رنگوں کی تقلید بھی کی تھی، قدیم اساتذہ کے یہ رنگ حسرت کی شاعری میں منعکس دکھائی دیتے ہیں، خود حسرت کو بھی اس تتبع کا احساس تھا، لیکن ہر شاعر کا اپنا طرز سخن ہوتا ہی ہے، چاہے وہ کسی شاعر کی تقلید کرے یا نہ کرے، لاکھ رنگوں پر نظر ڈالے مگر شاعر کا اصل رنگ اس کی شاعری میں چھلک ہی پڑتا ہے.
اگر کوئی شاعر محض تقلید کی بنا پر شاعری کرے تو شاید وہ کچھ حد تک کلام لکھ لے لیکن اس پر اسی شاعر کی چھاپ بڑھائے گی جس کا وہ مقلد ہے یا پھر یوں کہہ لیجیے کہ اس کی اپنی شخصیت اور صلاحیت کہیں گمنام ہی رہ جائے گی، اس کے اصل انداز کو کھا جائے گی اور کوئی شخص اپنی اصل پہچان چھپانے میں زیادہ دیر تک کامیاب نہیں ہوپاتا۔
اسی طرح یہ بات تو کہہ سکتے ہیں کہ شاعر یک رنگ نہیں ہوتا، اس کی مختلف کیفیات، ذہنی، جسمانی اور نفسیاتی کشمکش، اس کے کلام میں نظر آتی ہیں. اس لیے کیفیت میں تو مختلف رنگ ہی ملتے ہیں اور کیفیت کو بیان کرنے کا مخصوص انداز ہی شاعر کے اسلوب کو دوسرے شاعروں سے منفرد بناتا ہے.
حسرت کی زبان لکھنوی ہے مگر رنگ دہلی کی نمود ہے. برجستہ اور بے ساختہ اظہار کرتے ہیں.
رکھتے ہیں عاشقان حسن سخن
لکھنوی سے نہ دہلوی سے غرض
حسرت کی شاعری میں جو سب سے منفرد بات ہے وہ ہے اسلوب کی سادگی اور سلاست. مشکل ترین بات کو سہل ترین انداز میں لکھنا بھی کمال ہے.
سہل کیا ہوں ممتنع حسرت
مغز گوئی میرا شعار نہیں
شاعر کی افتاد طبع میں اس صد رنگ روانی کا پایا جانا ہی تو شاعرانہ شخصیت کا خاصہ ہے، مگر شاعر پر اتنے سارے رنگوں میں سے سب سے زیادہ رنگ کون سا حاوی ہے یہ اس کے خون کی تاثیر میں ہوتا ہے، حسرت کے لیے عشق عبادت ہے، موصوف کی شاعری سر تا پا عشقیہ شاعری ہے اور عشق مجازی کا رنگ غالب ہے اور رنگ بھی کچا نہیں، پکا رنگ جو سننے اور پڑھنے والوں کو بھی اپنے رنگ میں رنگ لے،
فرماتے ہیں.
گھٹے گا ترے کوچے میں وقار آہستہ آہستہ
بڑھے گا عاشق کا اعتبار آہستہ آہستہ
دل و جان و جگر، صبر و خرد جو کچھ ہے پاس اپنے
یہ سب کردیں گے ہم ان پہ نثار آہستہ آہستہ
اپنی عاشقانہ مزاجی کے لحاظ سے اگر وہ کسی شاعر کے قریب نظر آتے ہیں تو وہ "مومن" ہیں. حسرت کا کہنا تھا:
"درد و تاثیر کے لحاظ سے مومن کا کلام غالب سے افضل اور ذوق سے افضل تر ہے."
حسرت ایک پرگو شاعر تھے، 13 دیوان مرتب کیے اور ہر دیوان کا دیباچہ خود لکھا.
حسرت بہت بلند ہے مرتبۂ عشق
تجھ کو تو مفت لوگوں نے بدنام کردیا
حسرت کی شاعری وصل و ہجر سے مزین، دل گداز اور کھری شاعری ہے، جس کا حرف حرف دل پر کندہ ہوجاتا ہے.
ہجر میں پاس میرے اور تو کیا رکھا ہے
اک تیرے درد کو پہلو میں چھپا رکھا ہے
حسن جزئیات کسی ماہر کی مصوری کی طرح نظر آتے ہیں، پڑھتے ہی وہ سارا منظر نظروں میں گھوم جاتا ہے.
اک موقع ہے حسن و شوخ ترا
کشمکش ہائے نوجوانی کا
اسی طرز حسن پر ایک اور جگہ فرماتے ہیں.
آئینے میں وہ دیکھ رہے تھے بہار حسن
آیا میرا خیال تو وہ شرما کے رہ گئے
کلام حسرت کو دوسرے شعرا سے ممتاز کرنے والی ایک صفت یہ بھی ہے کہ حسرت عشق و عاشقی کے ترجمان ہی نہیں بلکہ وہ عشق کے فلسفی بھی ہیں،
ان کے فلسفۂ عشق میں اخلاص اور سچائی محسوس ہوتی ہے، ایک سچا عاشق اپنے محبوب کی غیر موجودگی میں کبھی خوشی اور سکون محسوس کر ہی نہیں سکتا.
تیرے درد سے جس کو نسبت نہیں ہے
وہ راحت مصیبت ہے راحت نہیں ہے
اسی طرح عاشق اپنے محبوب کی عزت اور بھرم کی پاس داری کاضامن ہوتا ہے، کسی بھی پہلو سے وہ اپنے محبوب کے دل سے اترنا نہیں چاہتا، محبوب کی سنگ دلی یا بے رخی کے باوجود عشق کے ادب و آداب کے تقاضے بھولنا سچے عاشق کی شان نہیں،
حسرت کا بیان دیکھیے.
تغافل کا شکوہ کروں ان سے کیونکر
وہ کہہ دیں تو، بے مروت نہیں ہے
حسرت کا محبوب ایک جیتا جاگتا وجود رکھتا ہے، جس کا تخیل ان کی شاعری کو بھی زندہ کر دیتا ہے، جیسے ان کی شاعری بھی سانس لے رہی ہو.
پھرتی ہے اب تک دل کی نظر میں
کیفیت اس کی وہ نیم خوابی
پیراہن اس کا سادہ و رنگین
یا عکس میں ہے شیشہ گلابی
عشق کا فلسفہ سمجھنا اور محبوب کی نفسیات جاننا یہ حسرت کا ہی خاصہ ہے اور پھر ان احساسات کو موتیوں کی لڑی کی طرح پرو دینا کمال کرتا ہے، دل کش پیرایے میں ایک محبوب کی منظر کشی ملاحظ ہو.
ہوکے نادم وہ بیٹھے ہیں خاموش
صلح میں شان ہے لڑائی کی
ایک اور مقام پر عجیب سی کیفیت ارشاد کرتے ہیں، جس کی پیچیدگی اور پھر اس کو شعر کی صورت میں ڈھالنے کی رمز حسرت کو ہی ودیعت ہوئی تھی، کس خوب صورتی سے بیان کیا.
بزم اغیار میں ہر چند وہ بیگانہ رہے
ہاتھ آہستہ میرا پھر بھی دبا کر چھوڑا
حسرت کی شاعری میں چاہت کی جو شدت نظر آتی ہے وہ کسی عام شاعر کے کلام میں پڑھنے کو نہیں ملتی، ایسا لگتا ہے جیسے حسرت عشق میں تخت یا تختہ کے محاورے پر یقین رکھتے تھے، جیسے عشق اس قدر کیا جائے کہ کسی اور کی چاہت کی گنجائش نہ رہے، ٹوٹ کے چاہنے اور چاہے جانے کی روش ان کی شاعری کی جان ہے.
نہ شیریں و لیلی نہ فرہاد و مجنوں
زمانے میں اب ایک یا تم ہو یا ہم
اکثر لوگ عشق میں انا، ضد اور انتقام کی آگ میں سلگتے ہیں اور محبوب کی بے رخی کو منفی رنگ دیتے نظر آتے ہیں، یا یوں کہیے کہ عشق کو ایک سودے بازی کی طرح لیتے ہیں کہ محب کی چاہت کا جواب محبوب بھی اسی شدت سے دے، حالانکہ محبت کا جذبہ زور زبردستی سے اجاگر نہیں کیا جاسکتا اور سچے عاشق عامیانہ اور سفلی جذبات سے کوسوں دور ہوتے ہیں، یہاں ایک بات واضح کردوں کہ شاعر کی شاعری میں اس کی شخصیت کا پرتو بھی چھلکتا ہے، اچھے شاعر کا اچھا انسان ہونا لازمی نہیں، جب کہ ایک اچھا دل دماغ رکھنے والا اگر شاعرانہ صلاحتیں رکھتا ہے تو اس کا ظرف اس کے کلام میں نظر آئے گا، جیسے حسرت اس شعر میں اتنا گہرا مفہوم اتنی سادگی سے بیان کر گئے جو دوسرے شعرا کی شاعری میں ملنا مشکل ہے.
مٹے عیب سب عشق بازی میں حسرت
نہ بغض وحسد ہے نہ غصہ و کینہ
محبوب کی جدائی اور غیر موجودگی جو دل کو چیر ڈالے لیکن ترک محبت کے بعد کے تاثرات کیا ہوتے ہیں وہ عاشق ہی سمجھ سکتا ہے، کسی بے بس عاشق کے دل کا عالم کیا ہوگا، حسرت نے یہ کیفیت اس طرح بیان کی کہ ہر قاری جو اس کیفیت کا شکار ہوگا نم دیدہ ہونے سے رک نہیں سکے گا.
بھلاتا ہوں لاکھ لیکن برابر یاد آتے ہیں
الہی ترک الفت پر وہ کیونکر یاد آتے ہیں
حسرت نے مسلسل غزلیں بھی لکھیں، مطلع سے مقطع تک، ہر غزل کا مطمح نظر صرف عشق ہے،
پوری غزل میں جو سماں باندھ دیتے ہیں اس کی چھنکار کانوں میں گونجتی رہتی ہے، حسرت کی ایک شہرہ آفاق غزل ہی ان کے شاعرانہ ذوق اور حس لطافت سمجھنے کے لیے کافی ہے، جسے بعد میں دھیمے سروں میں گا کر استاد غلام علی صاحب نے دوام بخشا، اس غزل کے کچھ اشعار ملاحظہ کیجیے اور سر دھنیے.
چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے
ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانہ یاد ہے
تجھ سے کچھ ملتے ہی وہ بےباک ہوجانا میرا
اور ترا دانتوں میں وہ انگلی دبانا یاد ہے
کھینچ لینا وہ ترا پردے کا کونہ دفعتہً
اور دوپٹے سے ترا وہ منہ چھپانا یاد ہے
حسرت موہانی عشق کی معراج کا اظہار جو اس غزل میں کرگئے ان کے باقی دیوانوں کی غزلیں نہ بھی پڑھی جائیں تب بھی یہ غزل اردو شاعری کی بقا تک ان کی پہچان رہے گی.
***
ارم رحمٰن کی گذشتہ تخلیق : نوراں

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے