زندگی کے حوصلے کا شاعر: حسنین عاقب

زندگی کے حوصلے کا شاعر: حسنین عاقب

سہانا پروین 
غلام نبی آزاد ڈی ایڈ کالج پوسد

اور تھوڑا سا بکھر جاؤں یہی ٹھانی ہے
زندگی! میں نے ابھی ہار کہاں مانی ہے

اس شعر کے خالق ہیں خان حسنین عاقب۔ حسنین عاقب پیشے سے معلم ہیں۔ ادب میں وہ شاعری، تحقیق اور تنقید نگاری میں اپنا ایک الگ مقام رکھتے ہیں۔ 8 جولائی 1971 کو اکولہ میں ان کی ولادت ہوئی۔ پچھلے 25 برسوں سے وہ پوسد شہر میں تدریس کے سلسلے میں مقیم ہیں۔ حسنین عاقب اردو کے علاوہ انگریزی، فارسی، ہندی اور مراٹھی زبانیں بھی بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔ وہ ہند و پاک میں ایک بہترین شاعر کے علاوہ ایک بہترین مترجم کے طور پر بھی اپنی خاص پہچان رکھتے ہیں۔ ویسے تو ہمارے اطراف بہت سے تخلیق کار اور شاعر موجود ہیں لیکن حسنین عاقب کی شخصیت ایک الگ مرتبہ رکھتی ہے ۔ انھوں نے اب تک دسیوں کتابیں لکھی ہیں۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ رم آہو 2013 میں شائع ہوا تھا۔ یہ ان کی پہلی کتاب تھی۔ اس کے علاوہ ان کی کئی کتابیں منظر عام پر آئیں، جن میں خامہ سجدہ ریز، اقبال بہ چشم دل، کم و بیش، تے سے تنقید، آسماں کم ہے وغیرہ شامل ہیں۔ وہ شاعری میں غزل، حمد و نعت، ماہیہ نگاری، نظم گوئی جیسی اصناف میں مہارت رکھتے ہیں۔ وہ اردو، انگریزی، ہندی اور فارسی میں بھی شعر کہتے ہیں اور ان زبانوں میں ترجمہ بھی کرتے ہیں۔ اگر حسنین عاقب کی تعلیمی خدمات دیکھی جائیں تو وہ 30 سال سے زیادہ معلمی کے پیشے سے جڑے ہوئے ہیں۔ انھوں نے اس دوران ہزاروں طلبہ کی رہ نمائی کی ہے اور ان کو سماج کا ایک ذمہ دار اور اچھا معلم بنانے کی کوشش کی ہے۔ ان کے شاگرد ریاست اور ملک بھر میں ہی نہیں بلکہ بیرون ملک بھی موجود ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے ڈی. ایل. ایڈ کے نصاب کے لیے اردو میں دو اور انگریزی میں چار کتابیں لکھی ہیں۔ بی اے فائنل میں بھی ان کی دو کتابیں پڑھائی جاتی ہیں۔ وہ بال بھارتی کی اردو اور فارسی دونوں لسانی کمیٹیوں کے ممبر بھی رہے ہیں۔ انگریزی میں ان کی کتاب "فلائٹ آف اے ونگ لیس برڈ" بھی بہت مشہور ہوئی۔ انگریزی کے حوالے سے اگر ہم بات کریں تو حسنین عاقب نے بہت اہم کارنامے انجام دیے ہیں۔ انھوں نے قران پاک کے تیسویں پارے کی تمام سورتوں کا انگریزی زبان میں منظوم یعنی نظم کی شکل میں ترجمہ کیا ہے۔ یہ ایک بے مثال کام ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے نعت کے لیے انگریزی میں پروفی ایم کا لفظ ایجاد کیا اور انگریزی میں پروفی ایمز لکھیں۔ لیکن ان کا سب سے اہم کام اردو ادب میں ہے۔ اردو زبان سے انھیں عشق ہے، اسی لیے ایک انٹرویو میں انھوں نے کہا تھا: "اگر اردو کو زندہ رکھنا ہے تو ہر گھر میں اردو کا رسالہ اور اخبار ہونا چاہیے۔" خان حسنین عاقب نے ملک بھر میں مشاعروں میں شرکت کے ذریعے اپنے علاقے کی نمائندگی کی ہے۔ ان کا نام دور تک پہنچا ہوا ہے۔ وہ ایک بہت اچھے معلم بھی ہیں۔ وہ غلام نبی آزاد کالج پوسد میں پچھلے 25 برسوں سے زیر تربیت معلمین کو پڑھاتے ہیں۔ معلم کی حیثیت سے وہ ہمیشہ Helping nature رکھتے ہیں۔ اگر ہم ان کی شاعری کی بات کریں تو ان کے ہر شعر کے معنی اور مطلب واضح ہوتے ہیں، جو سمجھنے والے کے لیے آسان اور معنی خیز ہوتے ہیں۔ علامہ اقبال کی طرح عاقب بھی ملت کی اجتماعیت کو اہمیت دیتے ہیں۔ وہ ہمیشہ علامہ اقبال کے اس شعر کو بیان کرتے ہیں:
فرد قائم ربط ملت سے ہے، تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں
ان کی شاعری سب سے ہٹ کر اور منفرد ہے۔ وہ کہتے ہیں:
کانچ کا بن کے ایک گلاس رہو
اور پھر میرے آس پاس رہو
میں تمہاری خوشی کو کافی ہوں
تم سے کس نے کہا اداس رہو
ان اشعار میں انھوں نے کتنی خوبصورتی سے کانچ کا گلاس کی ترکیب استعمال کی ہے۔ یہ بہت معنی خیز ہے۔ ان کے اشعار سننے والے کو اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں۔ اردو زبان سے انھیں بہت محبت ہے اس لیے وہ کہتے ہیں:
زباں کھولے تو جادو بولتا ہے
میرا محبوب اردو بولتا ہے
ان کے لہجے میں محبت ہے زباں میٹھی ہے
جب سے بچوں نے میرے اردو زباں سیکھی ہے
یعنی وہ اردو زبان کو محبت کی زبان مانتے ہیں۔ اسی لیے اتنے خوب صورت شعر کہتے ہیں۔ نئی نسل کے لیے انھوں نے یہ شعر بھی کہا:
زباں پر اپنی اے عاقب نہ کلمے ہیں نہ سورے ہیں
اگر یہ سب نہیں تو سوچو ہم کتنے ادھورے ہیں
وہ بڑوں کا ادب کرنے کو بہت ضروری اور اہم مانتے ہیں۔ اسی لیے ادب پر انھوں نے بڑے عمدہ شعر کہے ہیں:
کرو جو بات بڑوں سے، ادب ضروری ہے
کیا نہیں جو ابھی تک وہ اب ضروری ہے
جس نے ادب لکھا تو وہ بس ایک ادیب ہے
جس کو ادب نصیب ہوا خوش نصیب ہے
عاقب ماں کے رشتے کو بھی بہت اہمیت دیتے ہیں۔ ماں کے بارے میں ان کے خیالات نہایت اعلا اور پاکیزہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں:
عمر بھر مجھ پہ وہ نثار رہی
میری خاطر وہ بے قرار رہی
قرض عاقب نے سب اتار دیے
ماں کی ممتا ہی بس ادھار رہی
کتنی سچی بات ہے کہ ماں کا قرض اتارنا ناممکن ہے۔ شاعر نے یہ بات کتنی خوب صورتی سے کہہ دی ہے۔ حسنین عاقب کی غزلیہ شاعری کا انداز بھی سب سے الگ اور مختلف ہے۔
وہ نئے لہجے میں غزل کہتے ہیں۔ خدا کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں:
اے خدا! جیسی ہے تیری دنیا
اس سے کتنی الگ میری دنیا
میری دنیا بھی کوئی دنیا ہے
عارضی اور سرسری دنیا
راستے ہو گئے کہاں غائب
جن پہ تھی گامزن کبھی دنیا
حسنین عاقب آج کے دور  کی غزل کہنے والے شاعروں میں سب سے الگ مقام رکھتے ہیں۔ ان کے اشعار آج کے حالات کی عکاسی کرتے ہیں اور سننے اور پڑھنے والوں کی زبان پر چڑھ جاتے ہیں:
اختلاف رائے کا اظہار ہونا چاہیے
ہاں مگر اس کا بھی ایک معیار ہونا چاہیے
اپنی قیادتوں میں حوالے کے واسطے
کافی ہے ایک چراغ اجالے کے واسطے
ہم عشق کو فقط ایک تجربہ سمجھتے ہیں
اسے ردیف نہیں قافیہ سمجھتے ہیں
اسی غزل میں وہ ایسی بات کہتے ہیں جو ان کی زندگی کی سچائی بھی ہے۔ وہ زندگی کے بارے میں ایسی باتیں کہتے ہیں جو  فلسفہ بن جاتی ہیں۔
جو بات ہم کسی محفل میں یوں ہی بول آئے
بہت سے لوگ اسے فلسفہ سمجھتے ہیں
یعنی شاعر یہ کہہ رہا ہے کہ جو بات وہ عام طور پر لوگوں سے کرتا ہے اس میں زندگی کا فلسفہ شامل ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے ہم حسنین عاقب کو زندگی کے فلسفے اور زندگی کے حوصلے کا شاعر بھی کہہ سکتے ہیں۔ غرض وہ ایک ایسے شاعر ہیں جن کی شاعری پڑھنے والے کو اپنی جانب کھینچنے کی طاقت رکھتی ہے۔
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں: خطاب بہ معلمین اردو

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے