خاکہ کا فن اور منور رانا

خاکہ کا فن اور منور رانا

محمد منظر حسین
اسسٹنٹ پروفیسر
پوسٹ گریجویٹ شعبۂ اردو، مولانا آزاد کالج، کولکاتا

عالمی اردو ادب میں منور رانا کی شناخت کئی حیثیتوں سے ہے۔ وہ ایک عالمی شہرت یافتہ شاعر، ناظم مشاعرہ، انشائیہ نگار، طنز و مزاح نگار، خاکہ نگار اور جاذب شخصیت کے مالک ہیں۔ کسی مشاعرے میں ان کی شرکت مشاعرے کی کامیابی کی ضامن ہے۔ کم و بیش ۵/ ۶ دہائیوں سے وہ اردو ادب کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ انھوں نے تقریباً تمام موضوعات پر اشعار کہے ہیں لیکن ان موضوعات میں ’ماں‘ جیسے مقدس رشتے کو اولیت حاصل ہے۔ انھوں نے جس انداز سے ماں کے موضوع کو اپنایا ہے، اردو شاعری میں دوسرے شعرأ کے یہاں خال خال ہی نظر آتا ہے۔ ان کی نثری تصانیف کسی بھی زاویے سے ان کی شاعری سے کم درجہ نہیں رکھتی۔ انھوں نے انشائیے بھی لکھے اور خاکے بھی۔ اردو شاعری میں منور رانا کا ایک الگ مقام و مرتبہ ہے لیکن میری ذاتی رائے ہے کہ منور رانا نے اگر شاعری نہیں بھی کی ہوتی، تب بھی وہ اردو ادب میں اپنی نثر کی بدولت زندہ جاوید رہتے۔ اردو نثر میں منور رانا اپنے انشائیے، طنز و مزاح اور خاکے کی بدولت اپنی شناخت قائم کر چکے ہیں۔
اردو ادب میں خاکہ نگاری کا فن اپنی ایک الگ پہچان رکھتا ہے۔ اس کی حیثیت مضمون کی سی ہے۔ جس طرح مضمون میں مختلف موضوعات کا جائزہ پیش کیا جاتا ہے، اسی طرح خاکہ میں کسی شخصیت کی زندگی کے اہم نکات کو دل چسپ انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔ اس صنف کی دھندلی تصویریں ہمیں داستانوں اور تذکروں میں نظر آتی ہیں لیکن اس صنف ادب کا باقاعدہ آغاز بیسویں صدی کی تیسری دہائی سے ہوتا ہے۔ ١٩٢٧ء میں مرزافرحت اللہ بیگ نے نظیر احمد کا خاکہ ’نذیر احمد کی کہانی، کچھ ان کی اور کچھ میری زبانی‘ کے عنوان سے لکھا، جو نہ صرف ان کا پہلا خاکہ ہے بلکہ اردو ادب میں بھی اسے اوّلیت حاصل ہے۔ خاکہ نگاری کا فن ایک ایسا آرٹ ہے جو چاول پر قل ھو اللہ لکھنے کے مترادف ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ نثر میں غزل کا فن ہے تو بے جا نہ ہو گا۔ یعنی کم سے کم لفظوں میں زیادہ سے زیادہ باتیں کہنے کے آرٹ کو خاکہ نگاری کہا جاتا ہے۔اس فن میں اس قدر وسعت ہے کہ ایک پھول کے مضمون میں سارے گلشن کے روح کو بند کیا جاسکتا ہے۔دیگر اصناف ادب کی طرح اس صنف کی بھی آج تک جامع اور مکمل تعریف نہیں کی جاسکی ہے۔ مختلف ناقدین ادب نے اپنے اپنے انداز میں خاکہ کی تعریف کی ہے، جسے ہم ذیل میں پیش کر رہے ہیں:
ڈاکٹر خلیق انجم لکھتے ہیں کہ:
”خاکہ کا فن بہت مشکل اور کٹھن فن ہے۔ اسے اگر نثر میں غزل کا فن کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ جس طرح غزل میں طویل مطالب بیان کرنے پڑتے ہیں، ٹھیک اسی طرح خاکے میں مختصر الفاظ میں پوری شخصیت پر روشنی ڈالنی پڑتی ہے۔“
نورالحسن نقوی خاکہ نگاری کے تعلق سے رقم طراز ہیں:
”خاکہ نگاری ادب کی ایک دل کش صنف ہے۔ اس کا آرٹ غزل اور افسانے کے آرٹ سے بہت مشابہت رکھتا ہے، مراد یہ کہ افسانہ و غزل کی طرح یہاں بھی اشارے اور کنایے سے کام لیا جاتا ہے کیوں کہ اختصار اس کی بنیادی شرط ہے۔ خاکے میں کسی شخصیت کے نقوش اس طرح ابھارے جاتے ہیں کہ اس کی خوبیاں اور خامیاں اجاگر ہو جاتی ہیں اور ایک جیتی جاگتی تصویر قاری کے پیش نظر ہو جاتی ہے۔ ایک چیز ایسی ہے جو خاکہ کی دل کشی میں اضافہ کرتی ہے، وہ یہ کہ جس کا خاکہ پیش کیا جا رہا ہے اس کی کم زوریاں قاری کے دل میں اس کے لیے نفرت نہیں بلکہ ہمدردی پیدا کریں اور خاکہ پڑھ کے بے ساختہ کہے کہ کاش اس شخص میں یہ کم زوریاں بھی نہ ہوتیں……خاکہ نہ سیرت نگاری اور نہ سوانح عمری۔ یہ کسی دلآویز شخصیت کی دھندلی سی تصویر ہے۔ اس میں نہ اس کی زندگی کے اہم واقعات کی گنجائش ہے نہ خاص خاص تاریخوں کی اور نہ زیادہ تفصیل کی۔ مصنف نے کسی شخص میں کچھ قابل ذکر خصوصیات دیکھی ہوں اور انھیں دلچسپ انداز میں بیان کر دے تو یہی خاکہ ہے۔“
انور ظہیر خاں نے خاکہ کی تعریف اس طرح کی ہے:
”خاکہ کسی ذہنی اور جسمانی وجود کا ایکسرے ہوتا ہے یا پوسٹ مارٹم رپورٹ…. اس میں شخصیت کو اس کے اصلی چہرے مہرے، رفتار و افکار اور احوال و آثار کے ساتھ ایک شگفتہ، شیریں، سلیس و رواں پیرایے میں پیش کیا جاتا ہے، جہاں دال میں نمک کے برابر تخیل کی کار فرمائی تو ہو سکتی ہے لیکن ابہام، مبالغے اور غلو کی آمیزش نا قابل قبول ہوتی ہے۔ اس میں داخلی اور خارجی عناصر کو ہم آمیز کر کے دودھیا کاغذ پر اس طرح رکھ دیا جاتا ہے کہ تمام تر حقیقت بیانیوں اور سفاکیوں کے ساتھ خاکے کے کردار سے ذاتی ربط و ضبط اور ہمدردی کا جذبہ موج تہہ نشیں کی طرح موجود ہو، ورنہ خاکہ پایۂ اعتبار سے ساقط ہو جائے گا اور خاکہ نگار کا وقارمجروح ہوگا۔“
نثار احمد فاروقی لکھتے ہیں:
”خاکہ نگاری سوانح عمری سے مختلف چیز ہے کہ سوانح عمری میں خاکے کی گنجائش ہوتی ہے لیکن خاکے میں سوانح عمری مشکل سے سماتی ہے۔“
ڈاکٹر صابرہ سعید لکھتی ہیں :
”خاکے کی کوئی ایسی جامع تعریف کرنا ممکن نہیں ہے جو اس کے تمام فنی اور ادبی پہلوؤں پر حاوی ہو۔ البتہ اس کے بنیادی اصول اور اہم خط و خال کی یوں نشان دہی کی جا سکتی ہے کہ خاکہ ایک صنف ادب ہے۔ اس کا سانچہ انشائیہ کا ہوتا ہے اور اس میں کسی شخصیت (حقیقی یا خیالی) کی زندگی، سیرت و صورت اور کارناموں کی جھلکیاں پیش کی جاتی ہیں اور وہ شخصیت کے ایک ایسے مطالعہ کو پیش کرتا ہے جس سے پڑھنے والے کو جمالیاتی حظ حاصل ہو۔“
Sir Thomas Overbury خاکے کے بارے میں لکھتے ہیں:
”خاکہ ایک تصویر ہے’حقیقی یا شخصی‘ جسے مختلف رنگوں میں اتارا جاتا ہے اور یہ سب رنگ ایک سایہ یا عکس سے جگمگا اٹھتے ہیں۔“
شمیم کرہانی نے خاکہ کی تعریف کچھ اس طرح سے کی ہے:
”خاکہ نگاری ادب کی ایک صنف ہے جس میں شخصیتوں کی تصویریں اس طرح براہ راست کھینچی جاتی ہیں کہ ان کے ظاہر و باطن دونوں قاری کے ذہن نشین ہو جاتے ہیں اور ایسامعلوم ہو،جیسے پڑھنے والے نے نہ صرف قلمی چہرہ دیکھا ہے بلکہ خود شخصیت کو دیکھا بھالا اور سمجھا بوجھا ہو!“
مندجہ بالا خیالات کی روشنی میں ہم خاکے کے بارے میں بہ آسانی یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ ایک ایسی صنف ادب ہے جس کا تقابل مجسمّے یا تصویر سازی سے کیا جا سکتا ہے۔ مجسمہ ساز اپنے اوزار سے پتھر کو انسانی شکل و صورت کے سانچے میں ڈھال دیتا ہے، مصور کاغذ پر قلم، پنسل، برش اور رنگوں کی مدد سے تصویر بنا دیتا ہے جب کہ خاکہ نگار اپنے قلم اور ذہنی ترنگ کی مدد سے ایک چلتی پھرتی تصویر بنا تا ہے اور یہی خصوصیت خاکہ نگاری کے فن کو دوسرے فن سے ممتاز کرتی ہے اور یہ خصوصیات منور رانا کے خاکوں میں بدرجۂ اتم موجود ہیں۔
منور رانا بنیادی طور پر ایک فن کار ہیں اور عام آدمی کے مقابلے فن کار زیادہ حساس طبع ہوتا ہے۔ ان کی حساسیت نظم و نثر کی شکل میں صفحۂ قرطاس پر نمایاں ہے۔ منور رانا کے کل تین نثری مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں۔ ان مجموعوں کو ہم کسی ایک صنف پر محیط نہیں کر سکتے ہیں کیوں کہ ان میں خاکے اور انشائیے دونوں ہی شامل ہیں۔ ان کی پہلی کتاب ’بغیر نقشے کا مکان‘ ہے۔ اس میں دس خاکے اور اٹھارہ انشائیے ہیں۔ دوسری کتاب ’سفید جنگلی کبوتر‘ جس میں چودہ خاکے اور گیارہ انشائیے ہیں جب کہ آخری کتاب ’چہرے یاد رہتے ہیں‘ میں دس خاکے اور انشائیے موجود ہیں۔
منور رانا کی ان کتابوں کے مطالعے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ انھوں نے خاکہ نگاری کی پرانی روایت سے مختلف، ایک نئی روایت کی بنیاد ڈالی ہے۔ اس سے قبل تک کی روایت یہ تھی کہ زیادہ تر خاکے اس طرح کے لکھے جاتے تھے کہ جس شخصیت کا خاکہ لکھا جاتا تھا، عنوان اسی کے نام سے دیا جاتا تھا لیکن منور رانا نے اس روایت سے انحراف کرتے ہوئے اپنی راہ خود نکالی ہے۔ عام طور پر ان کے خاکے کا عنوان شخصیت کے نام پر نہیں ہوتا بلکہ شعر کے ایک مصرعے کی طرح ہوتا ہے،  چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں:

پھول پر باغ کی مٹی کا اثر ہوتا ہے (مظفر حنفی)

آج لگتا ہے سچ بول دیا میں نے (انور جلال پوری)

ہم سر دار بھی بولیں گے تو سچ بولیں گے (عین رشید)

کیسے کیسے تیرنے والوں کو دریا کھا گئی (حکیم صاحب)

اگر میرا بھی ایک بھائی لڑکپن میں نہیں مرتا (یحی رانا)
 منور رانا کو ہمیشہ نام نہاد اردو داں اور اردو اکاڈمیوں سے شکایت رہی ہے، جس کا اظہار انھوں نے کہیں ڈھکے چھپے لفظوں میں اور کہیں بلا جھجک کیا ہے۔ وہ اپنے ایک خاکہ ’میرے اندر کا مسلمان نہیں مرتا ہے‘ جو کرشن ولبھ بھائی شرما عرف بڑے ٹھاکر پر لکھا گیا ہے؛  میں انھوں نے اردو شاعروں کی ناگفتہ بہ حالت اور اردو اکاڈمیوں کی اس تعلق سے چشم پوشی پر اپنی طنز کا گہرا نشتر چلایا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
”جہاز سے اترتے وقت بڑے ٹھاکر نے مجھ سے بہت انکساری سے پوچھا کہ آپ کوگاڑی ایر پورٹ پر ریسیو کرنے آئے گی؟ اب اسے میں کیا بتاتا کہ اردو زبان کے شاعر کو چار کاندھے نصیب ہو جاتے ہیں، یہی بہت بڑا اعزاز ہے، ورنہ اردو شاعر و ادیب کے آخری سفر کا کام بھی اردو اکیڈیمیوں کو سونپ دیا جائے تو دو کاندھوں میں بھی کٹوتی کریں بلکہ ممکن ہے کسی ہاتھ گاڑی یا رکشے پر لادکر قبرستان روانہ کر دیا کریں کہ اس میں وقت اور کندھوں کی بچت کا پہلو پوشیدہ ہے۔ اب میں اسے کیسے بتاتاکہ لال قلعہ کے مشاعرے میں شرکت کی سزا کے طور پر کئی بار تو بھوکا بھی سونا پڑا ہے، کیوں کہ ان کی طرف سے تو کھانے کا انتظام ہوتا نہیں ہے اور مشاعرے کے بعد اکثرہوٹل بند ہو چکے ہوتے ہیں۔“
تخلیق کاروں کو ابتدا سے ہی نقادوں سے بیررہا ہے، جس کا اظہار ان لو گوں کی طرف سے مسلسل ہوتا آیا ہے۔ منور رانا بھی ایک تخلیق کار ہیں اور ایک فن کار کا دل رکھتے ہیں۔ انھیں بھی نقادوں کے گروہ سے شکایت رہی ہے۔ انھوں نے تو نقاد کو ڈاکوؤں سے بھی کم تر بتایا ہے کیوں کہ ان کے مطابق ڈاکوؤں کے پاس تو دل جیسی قیمتی شئے بھی ہوتی ہے جس کے اندر ایک نرم گوشہ بھی ہوتا ہے لیکن نقاد تو دل جیسی اہم چیز سے بھی محروم ہیں۔ ان کی فکر ہمیں بتاتی ہے کہ اچھا نقاد وہی ہوتا ہے، جو تخلیق کار ہوتا ہے کیوں کہ جب کوئی تخلیق کار خراب ہوتا ہے تو نقاد بن جاتا ہے جس کا ذکر انھوں نے کہیں ڈھکے چھپے لفظوں میں تو کہیں کھلے عام کیا ہے۔ وہ مظفر حنفی کے خاکے ’پھولوں پر باغ کی مٹی کا اثر ہوتا ہے‘ میں رقم طراز ہیں:
”جس طرح عام بھاجپائیوں کے مقابلے میں اٹل بہاری واجپئی جی معتدل مانے جاتے ہیں۔ اسی طرح کٹر اور خونخوار قسم کے نقادوں کی بہ نسبت ڈاکٹر صاحب کسی حد تک شریف دکھائی دیتے ہیں۔ چونکہ عام طور سے نقاد حضرات کے سلسلے میں تصوّر ہوتا ہے کہ وہ بہت خوفناک، جلالی اور سینگ مارو قسم کے ہوتے ہیں، یعنی لال کپڑا دیکھتے ہی بھڑک اٹھنے والا جیسا (کچھ ہوتے بھی ایسے ہی ہیں) لیکن اپنے ڈاکٹر صاحب بالکل مختلف ہیں۔ اس کی پہلی اور آخری وجہ یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب بنیادی طور پر شاعر ہیں۔ جب خراب ہوئے تو نقاد ہو گئے بلکہ کبھی کبھی ان سے گفتگو کرنے کے بعد یہ احساس ہوتا ہے کہ شاید کسی مجبوری نے انھیں نقاد بنا دیا ہے، جیسے پچھلے زمانے میں زمینداروں کے ستائے ہوئے کسان اور مزدور ڈاکو بن جاتے تھے(حالاں کہ  اس مثال سے میں متفق نہیں ہوں کیوں کہ ڈاکوؤں کے دل میں ایک نرم گوشہ ہوتا تھا لیکن نقاد کے پاس تو دل ہی نہیں ہوتا) لیکن یہ حقیقت ہے کہ سماجی مجبوریاں امراؤجان ادا اور ڈاکو پتلی بائی بناتی ہیں اور معاشی مجبوریاں نقاد کو پیدا کرتی ہیں۔“
ایک اور مضمون میں وہ لکھتے ہیں:
”کبوتر بازی میں ایک لفظ کا چلن عام ہے۔ ’بھڑ کی دنیا‘ اس کے معنی بدلتے جاتے ہیں کہ جب کوئی تھکا ہارا کبوتر وقت سے پہلے اپنی چھتری کی طرف واپس آنا چاہتا ہے، تو تازہ دم کبوتر اسے اپنے ساتھ بلندی تک دوبارہ لے جا کر تارا بنا دیتا ہے۔ اردو ادب میں کمزور شاعروں اور ادیبوں کو تارہ بنانے کے لیے ہر چھتری کے آس پاس کچھ کبوتر بیٹھے رہتے ہیں جنھیں عرف عام میں نقاد کہا جاتا ہے۔“
منور رانا کی تحریروں میں مزاح اور ظرافت کے مقابلے طنز کا رنگ غالب ہے۔ اسی وجہ سے انھیں ادبی حلقوں میں مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے جس کا اظہار خود انھوں نے اپنی تحریروں میں بھی کیا ہے۔ انھوں نے اپنی تحریروں میں ’حکیم صاحب‘ کے فرضی کردار کا بہت استعمال کیا ہے۔ جو باتیں وہ بہ ذات خود نہیں کہہ سکتے ہیں، اسے حکیم صاحب کی زبان سے ادا کرواتے ہیں۔ اس کردار کا استعمال انھوں نے اس قدر کیا ہے کہ کبھی کبھی گمان ہوتا ہے کہ اس کردار کا تعلق حقیقی دنیا سے ہی ہے کیوں کہ انھوں نے اس کردار کو حقیقت کا رنگ دینے کے لیے ’کیسے کیسے تیرنے والوں کو دریا کھا گئی‘ کے عنوان سے حکیم صاحب کا خاکہ بھی لکھا ہے۔ منور رانا اور بشیر بدر میں ہمیشہ  اختلاف رہا ہے۔ دونوں ہی ایک دوسرے پر طنز کرنے میں سبقت لے جانے کی فراق میں رہتے ہیں۔ حکیم صاحب کے خاکے میں انھوں نے حکیم صاحب کے ذریعے بشیر بدر پر گہرا طنز کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
”اللہ جنت بخشے حکیم صاحب کو، ان کی علمی اور قلمی صحبت سے فیضیابی کا نتیجہ ہے کہ آج شہر میں میری تحریروں کی بہت مانگ ہے، حالاں کہ اس مانگ میں حریفوں نے زبردستی سیندور بھرنے کی بہت کوشش کی لیکن بقول بشیر بدر:
میری شہرت سیاست سے محفوظ ہے
یہ طوائف بھی عصمت بچا لے گئی
حالاں کہ اس شعر کے دوسرے مصرعے سے حکیم صاحب نے ہمیشہ اختلاف کیا۔ ان کا کہنا تھا کے طوائف ہے، تو اس کی عصمت کہاں محفوظ ہوگی بلکہ ایک بار انھوں نے بشیر بدر کو بھی دبے لفظوں میں سمجھانے کی کوشش کی تھی، لیکن جو شخص مشاعرے میں صرف شعر پڑھنے کے پیسے لیتا ہو اور سمجھتا گھاٹے میں ہے، اس کی سمجھ میں حکیم صاحب کی یہ بات کہاں آسکتی تھی، لہٰذا بشیر بدر نے فوراً تاویل پیش کر دی کہ یہاں طوائف نہیں طوائف زادی سمجھئے، میں نے غزل کے فریم کی مجبوری کی وجہ سے ایک لفظ کی کنجوسی کی ہے۔ ہاں! اگر میری جگہ بانئی آزاد غزل مظہر امام ہوتے تو دوسرے مصرعے میں اس کا شجرہ تک بیان کر سکتے تھے۔“
منور رانا  کے خاکوں کی ایک اہم خصوصیت یہ بھی ہے کہ انھوں نے اپنی تحریروں میں ثقیل اور بھاری بھرکم الفاظ کے استعمال سے پرہیز کیا ہے اور ہمیشہ آسان، عام فہم اور ہم آہنگ الفاظ کے استعمال سے اپنے خاکوں کو مزین کیا ہے۔ وہ بر محل جملوں کا استعمال کرتے ہیں۔ مثالوں اور تشبیہوں کا استعمال بروقت اور بر محل کرتے ہیں۔ ان کی تحریریں دل چسپ واقعات اور لطائف سے پر ہوتی ہیں۔ انھی خصوصیات کی وجہ سے ان کی تحریریں اور زیادہ پرزور اور جاذب نظر آتی ہیں۔ ان کی تحریروں میں یہ وصف شاید ان کی شاعری کی سے آیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی نثر میں بھی اشعار کا بر محل استعمال کرتے ہیں۔ ان کے خاکوں کی یہی سب خصوصیات قاری کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر ان کے خاکے ’کیسے کیسے تیرنے والوں کو دریا کھا گیا‘ کا اقتباس ملاحظہ ہو۔ وہ لکھتے ہیں:
”رضوان احمد نے حکیم صاحب سے خالص بہاری لہجے میں سوال کر لیا کہ آپ روزہ کیوں نہیں رکھتے؟ حکیم صاحب ایک بار تو لڑ کھڑائے، پھر اعتماد کی بیساکھی تھام کر یوں گویا ہوئے۔ فقیروں، درویشوں اور پیغمبروں نے دنیا کو سرائے سے تعبیر کیا ہے، لہٰذا اگر دنیا ایک سرائے ہے تو میں مسافر ہوں اور مسافر پر روزہ کبھی فرض نہیں ہوتا۔ ظاہر ہے کہ اس جواب کے بعد رضوان احمد کو صرف دانا پور ایکسپریس ہی دکھائی دے سکتی تھی، لہٰذا موصوف یہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے کہ دانے دانے پر لکھا ہے کھانے والے کا نام۔“
منور رانا کی پیدائش اور ابتدائی تعلیم و تربیت رائے بریلی میں ہوئی۔ اسکول اور کالج کی تعلیم کلکتے میں ہوئی اور کاروباری سلسلے میں انہیں لکھنو میں بھی رہنا پڑا۔ گویا ان تینوں شہروں سے ان کا گہرا لگاؤ ہے۔ ان کے اس لگاؤ سے سید مجاور حسین اتنے متاثر ہوئے کہ انھوں نے ایک مضمون ’تین شہروں کا چوتھا آدمی‘ لکھ ڈالا، جس سے منور رانا کی شخصیت کے مختلف خد و خال ہمارے سامنے رونما ہوتے ہیں۔ ان تین شہروں اور الٰہ آباد سے منور رانا کا قلبی لگاؤ ہے۔ انھوں نے ان شہروں کا خاکہ لکھ کر  ان کا حق ادا کر دیا ہے۔ انھوں نے اپنی تحریروں میں ان شہروں کا ذکر اس طرح کیا ہے کہ وہاں کی تاریخی، ادبی، سیاسی، ثقافتی اور تہذیبی قدریں ہماری نظروں کے سامنے گردش کرنے لگتے ہیں اور ہمیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم اسی شہر میں موجود ہیں۔ وہ اپنے خاکے ’غزل کا گھر کراچی ہے نہ دِلّی‘ میں شہر کلکتہ کا ذکر کچھ اس طرح کرتے ہیں:
”کلکتہ تو زبان کا وہ جڑاؤ کنگن ہے جس میں اردو، فارسی اور عربی کے ہزارہا نادر و نایاب نگینے جڑے ہوئے ہیں۔ میں پوری ذمہ داری سے یہ بات عرض کر رہاہوں کہ اٹھارویں صدی میں فورٹ ولیم اردو زبان و اداب کا ایک مضبوط اور مستحکم قلعہ تھا۔“
الٰہ آباد کا نقشہ منور رانا نے کچھ اس طرح کھینچا ہے:
”آج بھی شہر الٰہ آباد کے ادبی خدمات سرد نہیں ہوئے ہیں۔ آج بھی گنگا اور جمنا کی لہروں کا سریلا پن باقی ہے۔ آج بھی مسلم ہوسٹل کی گہما گہمی کا وہی عالم ہے۔ آج بھی برکت ٹی اسٹال شاعروں اور ادیبوں کا میخانہ ہے۔ آج بھی سیاست اس شہر میں آنکھیں نیچی کر کے چلتی ہے۔ آج بھی امرود کی مہک سارے شہر کو دیوانہ کر دیتی ہے۔ آج بھی غزل کے شیدائی اپنا مذہب نہیں جانتے ہیں۔ آج بھی سلاکی حلوائی کی پوری سبزی اور قادر حلوائی کے گاجر کے حلوے کے دیوانوں کی گنتی نہیں کی جا سکتی۔ آج بھی امام بخش (جلاد) کی چائے اپنے آپ میں کئی بوتلوں کا نشہ رکھتی ہے۔ ہائی کورٹ کی پر شکوہ عمارت جو انصاف اور نا انصافی کے ہزاروں واقعات کی چشم دید گواہ ہے۔ سیاسی اقتدار اور ہوس نغمہ تر نے اس عمارت کے وقار کو بھی کچھ میلا کر دیا ہے۔ آنند بھون ایک تاریخ ساز عمارت ہے۔ ایک زمانے تک یہ مجاہدین آزادی کی سب سے بڑی چھاؤنی تھی۔ اس عمارت میں داخل ہوتے ہی ہندستان کے شریف سیاست دانوں کے چہرے نگاہوں کے سامنے گھومنے لگتے ہیں۔خسرو باغ اور جمنا کنارے کا قلعہ آج بھی مغلیہ سلطنت کی سلیقہ مندی کی داد طلب کرتے محسوس ہوتے ہیں۔ صفائی کے اعتبار سے یہ شہر اتر پردیش کے دوسرے شہروں کے مقابلے غنیمت ہے۔“
لکھنو کے بارے میں لکھتے ہیں:
”لکھنو اگر ایک طرف اپنی حاضر جوابی، خوش مزاجی، بذلہ سنجی، شاداب چہرگی، دوست نوازی اور قلندرانہ روش کے لیے مشہور ہے تو دوسری طرف ادبی تنگ نظری، خود پرستی، ادیبوں کی گھٹیا معرکہ آرائیوں، بے جا ٹھٹھول بازی اور دوسروں کی شخصیت میں کیڑے نکالنے کے لیے بھی بدنا م ہے۔“
منور رانا کے خاکوں کی ایک اہم خصوصیت یہ بھی ہے کہ انھوں نے خاکے لکھتے وقت کسی بھی شخصیت سے متاثر ہوئے بغیر صرف اپنی ذاتی وابستگی اور تعلقات کو ہی مد نظر رکھا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کے زیادہ تر خاکے اپنے قرب جوار اور رشتے داروں پر محیط ہیں۔ انھوں نے ایسے لوگوں پر بھی خاکے لکھے ہیں، جن سے صرف چند ملاقاتیں ہیں لیکن اسے پڑھنے سے ہمیں دھوکا ہوتا ہے کہ اس شخصیت کے تعلقات منور رانا سے بہت پرانے اور گہرے ہیں، جیسے ان کا خاکہ ’میرے اندر کا مسلمان نہیں مرتا ہے‘ جو کہ کرشن ولبھ شرما عرف بڑے ٹھاکر کے اوپر لکھا گیا ہے۔ منور رانا کی ان سے پہلی ملاقات ہوائی جہاز میں ہوتی ہے اور اس کے بعد بھی چند ملاقاتیں ہوتی ہیں لیکن اس خاکے کو پڑھنے پر ہمیں دھوکا ہوتا ہے کہ دونوں کے تعلقات بہت پرانے اور گہرے ہیں۔ یہ خاکہ بہت دل چسپ ہے اور سب سے زیادہ چونکانے والی بات اس خاکے کا اختتام ہے۔ منور رانا اس کے اختتام میں لکھتے ہیں:
”گفتگو کے دوران اچانک بڑے ٹھاکر مجھ سے کہنے لگے کہ: منور بھائی! ایک بار آپ نے ٹرانسپورٹ کے کام کے سلسلے میں مجھ سے کہا تھا۔ میرے ہاں کہنے پر وہ کہنے لگے کہ آج کل چار ریاستوں میں میرے بھگتوں کی حکومت ہے (ان دنوں مدھیہ پردیش، راجستھان، دہلی اور اتر پردیش میں بی. جے.پی کی نئی نئی سرکار بنی تھی) کوئی بھی کام ہو تو کروا لیجئے، بہت اچھا موقع ہے۔ میں نے ہنستے ہوئے پوچھا: آپ کے کہنے سے یہ لوگ میرا کام کردیں گے۔ بڑے ٹھاکر نے پورے اعتماد سے کہا کہ: یقینا میں جو کہوں گا، وہ کریں گے۔ بھئی یہ اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ کلیان سنگھ میرے پریوار کے لوگوں کے پاؤں کی دھول کو چندن سمجھ کر اپنی پیشانی پر ملتے ہیں۔ میں نے کہا: بڑے ٹھاکر! اگر یہ آپ کا اتنا ہی کہا مانتے ہیں تو ان لوگوں سے آپ میری بابری مسجد واپس دلوادیجئے۔ ایک لمحے کے لیے پورے ماحول پر ایسی خاموشی چھا گئی جو ویران سے قبرستان میں بھی نہیں ہوتی ہے۔ سادھو سنت سب مجھے کینہ توز نظروں سے دیکھنے لگے۔ راز صاحب مرحوم شہادت سے پہلے کلمہ پڑھنے میں مصروف ہوگئے لیکن بڑے ٹھاکر نے میرے اس جملے کو بہت Sportingly لیا۔ خوب زور سے ہنسے لیکن ان کی ہنسی میں غصہ تھا، نہ کوئی شکایت۔ ان کے ہونٹ تو صرف نئے نئے پھول کی طرح کھل گئے تھے۔ وہ چند لمحوں کے لیے خاموش ہو گئے، پھر اپنی شخصیت کی صداقت کا نور بکھیرتے ہوئے بولے بابری مسجد وہ کیسے دے سکتے ہیں، اس کی بدولت تو ان بیچاروں کو حکومت ملی ہے۔“
منور رانا کے خاکوں کا مطالعہ کرنے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ان کے خاکوں میں مشاہیر کے ساتھ عام شخصیت کے چہرے اور خد وخال ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ ان کے کردار اور خدمات کے بہت سارے پہلو ابھر کر سامنے آجاتے ہیں، جیسے حکیم صاحب، مظفر حنفی، قرۃالعین حیدر، احسن مفتاحی، قیصر شمیم، کرشن بہاری نور، بڑے ٹھاکر صاحب، یحییٰ رانا وغیرہ۔  ایک اچھے خاکہ نگار ہونے کے باوجود ان کے خاکوں میں ایک کمی راہ پاجاتی ہے کہ وہ کسی بھی شخصیت کا مکمل خاکہ پیش نہیں کرتے ہیں۔ وہ ہمیں نہ صرف ان شخصیات کی جھلکیاں دکھاتے ہیں بلکہ  اشاروں اشاروں میں ان کے تعلق سے بہت کچھ کہہ جاتے ہیں لیکن اس کمی کے باوجود اردو خاکہ نگاری میں منور رانا کا نام سنہرے حرفوں سے لکھا جائے گا۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ قمر رئیس کے اقتباس پہ بات مکمل کی جائے:
”بلا شبہ ان تحریروں میں کئی جانی مانی شخصیتوں کے چہرے اور خد و خال ابھر تے ہیں۔ ان کے کردار اور ان کی منفرد خدمات کے کئی پہلو ابھر کرسامنے آجاتے ہیں، جیسے کرشن بہاری نور، ساغر اعظمی، محمد امین، احسن مفتاحی، اور قرۃالعین حیدر لیکن منور رانا خاکہ نگاری کی صلاحیت کے باوجود کسی کا بھی رسمی اور مکمل خاکہ پیش نہیں کرتے۔ وہ بڑے شگفتہ پیرایے میں صرف ان کی جھلکیاں دکھاتے ہیں اور اشاروں اشاروں میں ان کی ذات سے اپنے پر خلوص تعلق کا ہمیں گواہ بناتے ہیں۔ ان کی حق گوئی یہاں بھی آگے رہتی ہے۔ تصنع، بیجا تحسین اور مبالغہ آرائی سے کم و بیش ان کی ہر تحریر پاک ہوتی ہے۔ ان کی شاعری میں جہاں تخیل کی نزاکت اور نکتہ آفرینی ہے، وہاں ان کی با ضمیر حقیقت پسندی نثری اظہارکے بڑے دل کش پیکر تراشتی ہے۔ دل چاہتا ہے کہ تخلیقی اظہار کے ان دونوں اسالیب کو وہ سیراب کرتے رہیں۔“
***
e-mail: aumanzar@gmail.com
 منظر حسین کی گذشتہ نگارش: کتاب: ظفر اوگانوی بیچ کا ورق کے تناظر میں

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے