ایران کا سفر

ایران کا سفر

شاہ عمران حسن
(مدیر کتابی سلسلہ آپ بیتی، نئی دہلی)
Moblie No. 9810862382
E-mail: sihasan83@gmail.com

ایشیا کے خوب صورت ترین اور خودکفیل ملک ایران کے دارالحکومت تہران میں کتابوں کی 23ویں عالمی نمائش 5 مئی 2010ء تا 15 مئی2010ء کے درمیان منعقد ہوئی۔ عالمی نمائشِ کتب اگرچہ 5 مئی 2010ء سے شروع ہوگئی تھی؛ تاہم مجھ کو اس میں شرکت کا موقع تاخیر سے ملا۔ اس کی وجہ یہ ہوئی کہ میرا ویزا بہت دیر بعد بنا۔ ہندستان سے 8 مئی 2010ء کی رات میں ایران کے لیے روانگی ہوئی اور ڈیرھ ہفتہ وہاں قیام کے بعد 19 مئی 2010ء کو وطن واپسی ہوئی۔ اِس سفر میں مختلف قسم کے تجربات پیش آئے، جس کی مختصر روداد بہ طور سند یہاں درج کی جارہی ہے۔
ایران اگرچہ ایک خودکفیل ملک ہے مگر میڈیا میں اس ملک کی تصویر اچھی نہیں ہے۔ کیوں کہ میڈیا کی اکثریت اس ملک کی منفی تصویر کو اُجاگر کرتی ہے، ایران کے سفر سے پہلے میری بھی اس ملک کے تعلق سے منفی تصویر ہی بنی ہوئی تھی؛ سفر کے بعد اس ملک کے تعلق سے میری بہت ساری غلط فہمیاں دور ہوئیں۔
ایران کا کل رقبہ 16 لاکھ 48 ہزار مربع کلومیٹر ہے جو اپنے رقبے کے لحاظ سے دنیا کا سترہواں بڑا ملک ہے جب کہ اس ملک کی کل آبادی فی الوقت (سنہ 2024ء) ساڑھے آٹھ کروڑ سے زائد افراد پر مشتمل ہے۔ اور آبادی کے لحاظ سے بھی یہ دنیا کا سترہواں بڑا ملک ہے۔ ایران کا موجودہ پرچم 29 جولائی 1980ء کو بنایا گیا تھا جو ایرانی انقلاب سے آنے والی تبدیلیوں کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ پرچم تین رنگوں یعنی سبز، سفید اور لال پر مشتمل ہے۔ درمیانی رنگ سفید ہے، سفید پٹی کی دونوں جانب 22 بار لفظ ’اللہ‘ کوفی رسم الخط میں لکھاہوا ہے۔
ایران کے شہر تہران کو ملک کا سب سے بڑا شہر اور دارالحکومت ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ تہران دنیا کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک ہے۔ اس شہر کا کل رقبہ 730 مربع کلومیٹر ہے اور جہاں ایک کروڑ سے زائد افراد رہتے اور اپنی ضروریاتِ زندگی پوری کرتے ہیں۔ یہ شہر توچال (Tochal) پہاڑ کے دامن میں بسا ہوا ہے۔ اگر آپ توچال پہاڑ پر کھڑے ہوں تو تہران کو آپ اپنے قدموں میں دیکھ سکتے ہیں۔ اس شہر میں دوسرے علاقوں کی نسبت سورج ذرا تاخیر سے غروب ہوتا ہے۔
مشہد ایران کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ شیعہ مذہب کے آٹھویں امام ’امام علی رضا‘ کی’ آرام گاہ‘ بھی اسی شہر میں ہے۔ ایران کی سب سے بڑی امام بارگاہ بھی اسی شہر میں ہے جو پانچ لاکھ سے زائد مربع میٹر پر محیط ہے۔ یہاں ہر سال ایک کروڑ سے زائد شیعہ زائرین زیارت کرنے آتے ہیں۔ ایران کا تیسرا بڑا شہر ’اصفہان‘ ہے۔ اسے ’اصفہان نصف جہان‘ بھی کہا جاتا ہے یعنی اگر آپ نے آدھی دنیا دیکھنی ہے تو اصفہان کو دیکھ لیں۔ اس شہر میں ڈیڑھ ہزار کے قریب یہودی آباد ہیں۔ یہودیوں کا ایک نمائندہ ایران کی پارلیمنٹ میں ان کی نمائندگی کرتا ہے۔
ڈاکٹر ثانی اثنین خان کے قائم کردہ اشاعتی ادارہ گڈورڈ بکس (قائم شدہ:1996ء) کے تعاون سے میرا ایران کے لیے سفر ہوا، تہران عالمی نمائش کتب میں گڈورڈبکس نے بھی حصہ لیا تھا، جس کا انتطام و انصرام سنبھالنے  کی غرض سے مجھ کو تہران کے سفر پر روانہ ہونا پڑا۔
اس سفر کا پہلا تجہربہ اس وقت پیش آیا جب کہ میں تابش جمال (نئی دہلی) کے ساتھ نئی دہلی میں واقع ایرانی سفارت خانہ ویزا حاصل کرنے کے لیے 4 مئی 2010ء کو گیا۔ میں نے دو ویزوں کے لیے درخواست دی تھی، ایک خود کے لیے اور دوسرے ڈاکٹر ثانی اثنین خان کے لیے۔
درخواست فارم پر میرا نام ’شاہ عمران حسن‘ دیکھ کر رابطہ عامہ پر بیٹھے شخص نے کچھ نہیں کہا۔ تاہم، جب اس نے نام ’ثانی اثنین‘ دیکھا تو وہ چراغ پا ہوگیا۔ اس نے تقریر شروع کردی: ’یہ کس قسم کا نام ہے، رسولِ خدا کے بعد صرف حضرت علی کرم اللہ وجہہ آتے ہیں اور کوئی نہیں ہے، آپ لوگ کچھ سمجھتے نہیں ہیں، کچھ جانتے نہیں ہیں اور نام ’ثانی اثنین‘ رکھ لیتے ہیں۔‘
خیال رہے کہ ثانی اثنین کے معنی ہیں دو میں کا دوسرا (Second of the two)۔ ثانی اثنین نام کے لیے مستعمل نہیں ہے، یہ ایک لقب ہے جو پیغمبر اسلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی حضرت ابوبکر صدیقؓ (وفات: 23 اگست634ء) کے لیے قرآن میں استعمال ہوا ہے. آپ قرآن کی سورہ التوبہ کی آیت نمبر 40 میں اس کی تفصیل دیکھ سکتے ہیں۔(اوراقِ حیات، شاہ عمران حسن،صفحہ:167، سالِ اشاعت: 2015ء، ناشر رہبر بُک سروس، نئی دہلی)
میں نے سفارت خانہ میں تعینات اس شخص کی لایعنی باتوں کا کوئی جواب نہیں دیا کیوں کہ فی الوقت مجھ کو ویزے کی ضرورت تھی۔ ایرانی ویزے کے قواعد کے مطابق مجھ کو ایچ. آئی.وی(HIV) ٹیسٹ کراکر اس کی رپورٹ جمع کرنے کا حکم دیا گیا اور میں نے زندگی میں پہلی مرتبہ ایچ. آئی. وی کا ٹیسٹ کرایا اور رپورٹ نارمل آئی اور مجھ کو ایران جانے کی اجازت مل گئی۔
جب میں نے ایران کی سرزمین پر قدم رکھا تو سفارت خانہ ایران کے برعکس تجربہ ہوا؛ یہاں میرے ساتھ کسی قسم کی زیادتی نہیں ہوئی بلکہ ہر جگہ اجنبی ملک کے اجنبی شہریوں نے میرا تعاون ہی کیا۔
ایران اپنی قدیم و جدید تہذیب کے اعتبار سے ایک خوب صورت ملک ہے، اگر موقع ملے تو زندگی میں کم از کم ایک بار ایران کا سفر ضرور کرنا چاہیے۔ کم خرچ میں سیر و سیاحت کے لیے ایران ایک بہترین ملک ہے۔ وہیں دیگر ممالک کے مقابلے یہ ملک ترقی یافتہ بھی ہے۔ یہاں نظم و نسق اور پبلک ٹرانسپورٹ قابلِ بھروسہ نظر آیا، آپ کسی بھی علاقے کا سفر بس کے ذریعہ بہت ہی کم کرایے میں کرسکتے ہیں۔
ایران میں اگرچہ شیعہ مسلک کا غلبہ ہے، اس کے باوجود یہاں شیعہ سنی میں کسی قسم کی منافرت نہیں پائی جاتی ہے، اگرچہ میڈیا میں یہ خبریں آتی ہیں کہ وہاں شیعہ فرقے نے سنی کمیونٹی کو ظلم وستم کا نشانہ بنایا ہوا ہے۔
میں سُنی مسلک سے تعلق رکھتا ہوں۔ اس لیے جب میں ایران گیا تو ذہنی اعتبار سے تذبذب کا شکار تھا کہ نہ معلوم میرے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا، مگر ایران میں میرے ساتھ کسی نے کوئی برا سلوک نہیں کیا۔ یہاں کے لوگوں سے ملنے کے بعد میرے تمام خدشات دور ہوگئے۔
سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ایران کی حکومت بنیاد پرست (orthodox) ہے مگر وہاں کی عوام بنیاد پرست نہیں ہے، وہ جدیدیت پسند ہے، اس نے نئے رجحانات پابندیوں کے ساتھ اختیار کر رکھے ہیں۔
آپ کس مذہب سے ہیں؛ اس سے ایران کے مقامی باشندوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا، مقامی افراد ہر ایک مذہب کا احترام کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ البتہ شیعہ اکثریتی ملک ہے تو ان کا غلبہ ہر جگہ نظر آتا ہے۔ دیوار و در اسی کی گواہی دیتے ہیں۔ یہاں کی اکثریت اپنے مسلک سے مبرا نظر آتی ہے۔
ایرانی حکومت کی جانب سے عموماً ایک ماہ کے لیے وزٹ ویزا (Visit Visa)جاری کیا جاتا ہے۔ ایک ماہ کے اندر آپ ایران کے کسی بھی حصے میں گھوم سکتے ہیں نیز بیرونی سیاح کو کسی بھی مقام پر شناختی کارڈ دکھانے کی ضرورت پیش نہیں آتی، آپ خواہ کسی علاقے یا سیاحتی مرکز پر جائیں، آپ کو کہیں بھی آنے جانے کی آزادی ہے، کوئی نہ تو کبھی آپ سے پاسپورٹ طلب کرتا ہے اور نہ کوئی ویزے سے متعلق سوال کرتا ہے، البتہ جس ہوٹل میں آپ قیام کرنا چاہتے ہیں وہاں پاسپورٹ ایک خاص مدت کے لیے جمع کروانا پڑتا ہے۔
مقامی افراد نہ صرف راستہ بتاتے ہوئے نظر آتے ہیں بعض اوقات آپ کو وہ منزل پر بھی پہنچا دیتے ہیں۔ اگر کبھی آپ کچھ خرید رہے ہیں اور ایرانی ریال کا حساب آپ کی سمجھ نہیں آرہا ہو تو وہاں بھی لوگ مدد کے لیے آجاتے ہیں اور آپ کے پاس سے مطلوبہ کرنسی لے کر دکان دار کو دیتے ہیں اور بقیہ پیسے واپس کردیتے ہیں، دکان دار اجنبی سمجھ کر آپ سے زائد پیسے وصول نہیں کرتا ہے۔
میں 8 مئی 2010ء کو تہران کے آیت اللہ امام خمینی بین الاقوامی ہوائی اڈہ پر اترا تو صبح کا اُجالا ہوا چاہتا تھا۔ میں نے کچھ دیر سورج کے طلوع ہونے کا انتظار کیا تا کہ شہر کو صبح کی پہلی کرن میں دیکھ سکوں اور اس کو اپنے موبائل میں قید کر سکوں، مگر جب میں نے اپنی جیب سے کیمرہ والا موبائل (Nokia Xpressmusic) نکالا تو وہ ڈیڈ (dead) ہو چکا تھا، وہ خراب ہو چکا تھا۔ یہ سب سے بڑا حادثہ تھا جو مجھ کو ایرپورٹ پر پیش آیا۔ ایران کے سفر کے باوجود میں ایران کی کوئی بھی تصویر اپنے موبائل میں قید نہ کر سکا۔ حالاں کہ یہ نیا موبائل تھا، جسے میں نے متحدہ عرب امارات کے سفر کے دوران خریدا تھا۔
آیت اللہ امام خمینی ایرپورٹ بڑا صاف و شفاف نظر آیا۔ جب میں ایرپورٹ سے باہر نکلا تو شہر بھی بالکل صاف ستھرا دکھائی دیا، سڑک پر ایک چھلکا یا ایک ریپر (wrapper) تک نظر نہیں آیا۔ مجھ کو حیرت ہوئی کہ ایرانی لوگوں نے کس طر ح اپنے شہر اور ملک کو اتنا صاف ستھرا بنا رکھا ہے۔ عام طور پر یہ خبریں آتی ہیں مسلمان گندی بستیوں میں رہتے ہیں، وہ گھر اور اطراف گندہ رکھتے ہیں، جب کہ مذہب اسلام میں صاف صفائی کی تلقین کی گئی ہے۔ ایران ایک مسلم ملک ہے، وہاں کی صاف صفائی دیکھ کر مسلمانوں کے تعلق سے پھیلی ہوئی منفی شبیہ ’مثبت خبر‘ میں بدل جاتی ہے، ایران اس بات کی مکمل تردید کرتا ہے کہ مسلمان گندی بستیوں میں رہتے ہیں۔ اصل معاملہ حکومتی نظم و ضبط کا ہے۔ اگر حکومت صاف صفائی کے مقابلے میں سخت ہے تو شہری بھی اس کی پابندی کریں گے، اس معاملے میں مسلمان اور غیر مسلمان کی تفریق بے معنی ہے۔
ایران کا نام میں نے ایم ڈبلو ای ہائی اسکول (مونگیر،بہار)میں ساتویں جماعت میں سنہ 1996ء میں فارسی کی ابتدائی کتاب پڑھنے کے دوران سنا تھا، فارسی زبان کے استاد شاعر مثلاً فردوسی، شیخ سعدی شیرازی، فریدالدین عطار، شمس تبریزی وغیرہ کے اشعار میری درسی کتاب کا حصہ تھے، ان سب کا تعلق ایران سے تھا۔
ایم ڈبلو ای ہائی اسکول (مونگیر،بہار) کے ایک استاذ ہیڈ مولوی مولانا سید فضیل اشرف ہوا کرتے تھے، وہ بچوں کو فارسی پڑھایا کرتے تھے، اگرچہ میں ایک لفظ بھی فارسی زبان کا نہیں سیکھ سکا، کیوں کہ میں نے اس زبان میں کبھی بھی دل چسپی نہیں لی۔
بہت بچپن میں والد محترم شاہ شبیر حسن (وفات: 2 جولائی 2016ء) مجھے اکثر شیخ سعدی شیرازی کی کتابوں گلستاں اور بوستاں کی حکایات سنایا کرتے تھے، جن میں بہتر طریقے سے زندگی گزارنے کے رہنما اصول بتائے گئے ہیں۔ نیز میرے والد اور میرے نانا ملاّ محمد حسین (وفات: 8جولائی 2017ء) فارسی زبان سے نہ صرف واقف تھے بلکہ وہ دونوں اپنی گفتگو کے دوران فارسی کے اشعار بھی سنایا کرتے اور پھر اس کی تشریح بھی کیا کرتے تھے۔
میرے نانا اپنے بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے، ان کے بھائیوں نے ان سے بہت زیادہ کام لیا تھا، ان کے ساتھ بڑی زیادتی کی تھی اور انھیں اپنی نگرانی میں رکھا تھا۔ اس کا ان کے دل پر بہت گہرا اثر ہوا تھا۔ اس لیے وہ اکثر اپنی گفتگو میں فارسی کا ایک مصرع سنایا کرتے تھے:
سَگ باش بَرادرِ خُورد مَباش
ایم ڈبلو ای ہائی اسکول کے علاوہ دوسرے اسکول یعنی ضلع ہائی اسکول مونگیر میں بھی مجھ کو پڑھنے کا موقع ملا، آٹھویں سے دسویں تک فارسی میرا انتخابی مضمون تھا۔ مگر اس اسکول میں فارسی زبان کے ایک بھی استاد نہیں تھے۔ اگرچہ امتحانات ہوتے رہے اور نتائج بھی نکلتے رہے مگر پھر بھی میں فارسی نہیں سیکھ سکا۔ خیال رہے کہ فارسی کے پرچے میں 60 فی صد سے زائد جوابات اردو میں دینے ہوتے تھے اور ایک طالب علم آسانی سے 60 فی صد نمبر حاصل کرکے پاس ہوجایا کرتا تھا۔ مجھ کو آج تک اس بات کا پتہ نہ چل سکا کہ ممتحن کس طرح فارسی کے پرچے تیار کرتے تھے اور استاد کے بغیر بچوں کو فارسی زبان میں نمبر دیتے تھے اور بچے پاس بھی کرتے تھے۔
ان دنوں درسی کتب کی شرحیں اُردو میں دستیاب تھیں۔ میں نے بھی فارسی کی شرح خرید لی تھی، میں باربار شرح پڑھتا؛ بچپن کی عمر میں ان کتابوں کا مطالعہ دل چسپ لگتا تھا کیوں کہ ان میں کہانیاں ہوتی تھیں؛ اور ان میں اخلاق و حکمت کی بے شمار باتیں بتائی گئیں تھی۔
میں نے ایک بار فارسی کی مشہور زمانہ قواعد کی ابتدائی کتاب ’آمدنامہ‘ خرید کر اس کا مطالعہ بھی کیا۔ اس میں موجود گردان آمدن آمد آمدند آمدی آمدید آمدم وغیرہ بھی رٹنے کی کوشش کی تاہم معاملات لاحاصل رہے اور میں فارسی زبان سے ہمیشہ نابلد رہا، اس لیے ایران کے سفر میں مجھ کو بے حد شرمندگی ہوئی کہ میں ایک ایسے ملک کے سفر پر ہوں جہاں کی زبان فارسی ہے اور میں فارسی نہیں جانتا ہوں، گویا وہی صورتِ حال تھی جس کو نظام الدین اولیا  کے شاگردِ خاص امیرخسرو دہلوی نے کہا تھا:
زبانِ یارِ من ترکی ومن ترکی نمی دانم
چہ خوش بودے اگر بودے زبانش در دہانِ من
اسکول کے زمانے میں نہ جانے کس طرح مجھ کو فارسی زبان کے دو شعر یاد ہوگئے، جو آج بھی یاد ہیں، یہی دونوں شعر میں ہر بار امتحان کے مواقع پر پرچے میں لکھ دیا کرتا تھا اور نمبر آجایا کرتے تھے:
ای نامِ تو بہترین سرِ آغاز
بی نامِ تو نامہ کی کنم باز

مغفرت دارد اُمید از لطف تو
زانکہ خود فرمودۂ لا تقنطوا
میں نے ریاست بہار کے ضلع مونگیر میں قیام کے دوران بارہویں جماعت فرسٹ ڈیویزن سے پاس (2002ء) کرنے کے بعد بابائے قوم مہاتما گاندھی کی یوم پیدائش یعنی 2 اکتوبر سے ریڈیو سننا شروع کیا، کیوں کہ اس سے قبل میرے گھر میں ریڈیو نہیں تھا۔ میں نے اسی دن ایک پیناسونک(Panasonic) کمپنی کا ریڈیو خریدا اور اس میں نشر ہونے والے پروگرام سننے لگا۔ ان دنوں میں پابندی کے ساتھ آل انڈیا ریڈیوکے علاوہ بی بی سی اردو، بی بی سی ہندی، وائس آف امریکا (اردو)، ریڈیو تہران (ہندی)، ریڈیو ڈائچے وھیلے، ریڈیو ویریٹاس ایشیا، ریڈیو چائینا انٹرنیشنل (اردو) اور ریڈیو کویت کی اردو مجلس پابندی  وقت کے ساتھ سنا کرتا تھا، اس سے میری صلاحیتوں میں بے پناہ اضافہ ہوا۔
ریڈیو کویت کا پروگرام رات میں ساڑھے نوبجے نشر ہوتا تھا۔ اس میں ابتداءً قرآنی آیت کی تلاوت اور تفسیر پڑھی جاتی تھی۔ مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی کی تفسیر ’تفہیم القرآن‘ کا کوئی ایک چھوٹا سا حصہ سامعین کو پیش کیا جاتا تھا۔ اس کے بعد کسی حدیث کا درس ہوتا تھا۔ حدیث بیان کرنے سے قبل علامہ اقبال کا مشہور زمانہ فارسی شعر پڑھا جاتا تھا، اس شعر کو میں نے اسی دوران اپنی ڈائری میں نوٹ کرلیا تھا:
بمصطفیٰ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او نرسیدی، تمام بولہبی است
اسی دوران میں نے دیگر ریڈیو سروس کے علاوہ ’ریڈیو تہران‘ کی ہندی نشریات کے پتے پر خط بھی لکھا۔ اس کے بعد ریڈیو تہران کی جانب سے میرے پتے پر بہت دنوں تک تہران ریڈیو کا ماہوار ترجمان ’ریڈیو تہران‘ بھی آتا رہا۔ اس ماہنامے میں متنوع قسم کی معلومات ملک ایران کے بارے میں درج ہوتی تھیں۔ جس کا مطالعہ میں ہر ماہ پابندی کے ساتھ کرنے لگا۔
اس طرح ایران کے بارے میں میری معلومات اور دل چسپی میں اضافہ ہوتاچلا گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ میں بچپن سے ہی ایران کے بارے میں کچھ نہ کچھ پڑھتا رہا ہوں۔
ایران کی تاریخ 2500 سال قبل مسیح تک جاتی ہے۔ اسلامی تاریخ میں بھی ایک اہم صحابی ایران سے تعلق رکھتے تھے، جن کو دنیا ’سلمان فارسی‘ کے نام سے جانتی ہے، وہ ایران کے شہر اصفہان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تھے، انھوں نے ہی غزوہ خندق کے موقع پر ’خندق‘ کھودنے کا مشورہ دیا تھا، کیوں کہ ایران کے لوگ قدیم زمانہ سے خندق کھود کر جنگ کیا کرتے تھے، جس میں انھیں کا میابی ملتی تھی، غزوہ خندق میں بھی کامیابی ملی تھی۔
جیسا کہ تاریخ کی کتابوں میں ہے کہ غزوۂ خندق (5ھ) کے موقع پر مشرکین کی 10 ہزار فوج نے ابوسفیان کی امارت میں مدینہ پر چڑھائی کی تھی۔ جب وہ لوگ مدینہ کے قریب پہنچے اور وہاں شہر کے کنارے گہری خندق کھدی ہوئی دیکھی تو ابوسفیان نے کہا کہ خدا کی قسم یہ ایک ایسی تدبیر ہے جیسی تدبیر کرنا ابھی تک عرب نہ جانتے تھے:
واللہ ھٰذ لمکیدة ماکانت العرب تکیدھا
ظہورِ اسلام کے بعد دنیا کے بیشتر علاقے اسلامی حکومت کی تحویل میں آگئے، یہاں تک کہ ایک بار خلیفہ ہارون الرشید نے بادل کے ٹکرے کو دیکھ کر کہا تھا کہ تو جہاں بھی برس تیرا خراج تو میرے پاس ہی آئے گا۔ ایران اسلام کے زمانہ اوّل میں مسلمانوں کی تحویل میں آگیا۔ اس تعلق سے ایک سبق آموز واقعہ یہاں نقل کیا جاتا ہے:
ایران خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانۂ خلافت میں فتح ہوا۔ اس وقت ایران کی مسلم افواج کے سپہ سالار حضرت سعد بن ابی وقاص تھے۔ اس جنگ میں ایرانیوں کا کافی نقصان ہوا۔ چنانچہ انھوں نے گفت و شنید کی پیش کش کی. حضرت سعد نے مختلف وفود کو رستم اور یزدگرد (Yazdegerd III) کے دربار میں بھیجا۔ مثلاً نعمان بن مُقرن، فرات بن حیان، حنظلہ بن ربع، عُطاردبن حاجب، اشعث بن قیس، مغیرہ بن شعبہ، عمروبن معدیکرب کے وفود وغیرہ۔
تاریخ میں ان سفارتوں کی کافی تفصیلات آئی ہیں۔ آخری مرحلے میں حضرت مغیرہ کا وفد شہنشاہ یزدگرد کے زرق برق دربار میں آیا۔ مدائن کے محل میں انھوں نے انتہائی بے خوفی کے ساتھ تقریر کی۔ یزدگرد اس کو سن کر بگڑ گیا۔ اس نے کہا کہ تم میرے سامنے اِس طرح کی باتیں کرتے ہو، اگریہ قاعدہ نہ ہوتا کہ سفیر (ambassador) قتل نہ کیے جائیں تو میں تم کو ضرور قتل کردیتا۔ اب تم واپس جاکر اپنے امیر کو بتا دو کہ میں سپہ سالار رستم کی سرکردگی میں ایسا لشکر بھیجنے والا ہوں جو تم سب کو قادسیہ کے خندق میں دفن کردے گا۔
پھر یزدگرد نے محل کے آدمیوں سے کہا کہ ایک ٹوکری میں مٹی بھر کر لاؤ۔ مٹی لائی گئی تو اس نے مسلمانوں کے وفد سے مخاطب ہوکر پوچھا تم میں سب سے زیادہ شریف کون ہے؟
وفد کے افراد چپ رہے۔ اس کے بعد عاصم بن عمرو بولے کہ میں سب سے زیادہ شریف ہوں۔ یزدگرد نے حکم دیا کہ مٹی کی ٹوکری عاصم بن عمر و کے گلے میں لٹکائی جائے اور ان کو یہاں سے بھگادیا جائے یہاں تک کہ وہ مدائن کے باہر چلے جائیں۔
شاہی حکم کے مطابق مٹی کی ٹوکری عاصم بن عمرو کے گلے میں لٹکادی گئی۔ وہ اس کو لے کر مدائن کے محل سے نکلے اور اونٹنی پر سوار ہوکر تیزی سے قادسیہ کی طرف روانہ ہوئے، جہاں حضرت سعد بن ابی وقاص مقیم تھے۔ وہاں پہنچ کر انھوں نے حضرت سعد کو ساری روداد سنائی اور مٹی کی ٹوکری ان کے سامنے رکھ دی، اس کے بعد جو واقعہ پیش آیا وہ تاریخ کے الفاظ میں ہے: ’خوش ہوجاؤ کیوں کہ خدا قسم اللہ نے ہمیں ان کے اقتدار کی کنجیاں دے دی ہیں۔‘ (ماہنامہ الرسالہ اکتوبر 1985ء، صفحہ:11-12)
اِسلامی تاریخ کو ایران سے بہت کچھ ملا ہے۔ ’اللہ‘ کے بجائے ’خدا‘ کا لفظ ایران کی دین ہے۔ ایران کے لوگ ہاتھ اُٹھا کر سلام کرتے تھے، اسلامی تاریخ میں اس کو ایک بہتر تہذیب کے طور پر اپنایا گیا۔ اس کے علاوہ ’برقع کلچر‘ بھی ایران سے آیا ہے، کیوں کہ اس قسم کا لباس عرب میں رائج نہ تھا۔
جہاں ایران اور اسلامی تہذیب کے تعلقات قدیم رہے ہیں، وہیں ہند ایرانی تعلقات بھی کافی پرانے ہیں۔ ہندستان کے خطے خطے میں قدیم ایرانی تہذیب کے نمونے آج بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ نیز آج بھی ایران و ہندستان کے تعلقات بہت اچھے ہیں حتیٰ کہ بڑی تعداد میں ہندستان کے لوگ وہاں تعلیم حاصل کرنے اور تجارت کی غرض سے جاتے ہیں، وہیں ایک بڑی تعداد شیعہ کمیونٹی کی بھی ہے جو زیارت کی غرض سے ایران کے مختلف شہروں کو جاتے ہیں۔
ایران میں سکھ کمیونٹی مختلف قسم کی تجارت کرتی ہوئی نظر آئی، حتیٰ کہ ان کی کمپنیوں میں ایرانی نوجوان لڑکے اور لڑکیاں کام کرتے نظر آئے۔ ایران میں ایک موقع پر ایک سردار میرے ترجمان بنے، انھوں نے میری بہت مدد کی۔ جب تک میں ایران میں رہا ان سے برابر ملاقاتیں ہوتی رہیں۔
سفر کے دوران؛ میں جس ایرانی سے بھی ملا اس نے غیر معمولی اپنائیت اور محبت دکھائی۔ وہ لوگ ہندستان اور ہندستانیوں کو محبت بھری نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ جب کوئی میرے بک اسٹال پر آتا اور میں اس سے فارسی میں اس کا نام پوچھتا تو نووارد بہت زیادہ خوش ہوجاتا۔ نام بتاتے ہوئے اس کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل جاتی تھی، کیوں کہ میں فارسی کے صرف ایک جملے سے واقف تھا: اسمِ شما چیست؟
ہند ایرانی تعلقات پر مولانا وحیدالدین خاں نے کئی صفحات پر مشتمل ایک مضمون تحریر کیا تھا، وہ بہت اہم مضمون ہے، یہاں اس مضمون کا ایک حصہ نقل کیا جاتا ہے:
’ تاریخی طور پر ہندستان میں تقریباً 700 سال کا زمانہ ایسا گزرا ہے جب کہ ملک میں فارسی زبان کو اُسی طرح غلبہ حاصل تھا جس طرح انگریز کے آنے کے بعد یہاں انگریزی زبان کو غلبہ حاصل ہوا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک محمد بن قاسم کو چھوڑ کر ملک میں جتنے بھی مسلم فاتحین آئے تقریباً سب کی زبان فارسی تھی۔ چنانچہ الناس علی دین ملوکہم کے اصول پر فارسی زبان اور کلچر کو یہاں غیر معمولی فروغ حاصل ہوا۔ اس تاریخی عمل کے اثرات آج بھی مختلف صورتوں میں یہاں دیکھے جاسکتے ہیں۔ مثلاً آج بھی کسی مہمان کی آمد پر’ خوش آمدید‘ کہنا یا رخصتی کے وقت ’خدا حافظ‘ کہنا براہِ راست طور پر فارسی زبان و تہذیب کے اثرات کا نتیجہ ہے۔
اس دور میں فارسی زبان اور کلچر کے جو اثرات ملک کے اوپر پڑے ان میں سے ایک یہ تھا کہ فارسی کے اقوال اور اشعار زبان زد عام ہو گئے۔ خاص طور پر اہلِ علم کے درمیان عام طور پر یہ حال ہو گیا کہ کسی بھی موقع پر کوئی حکیمانہ بات یا کوئی سبق آموز کلمہ کہنا ہو تو فوراً فارسی کا کوئی ضرب المثل یا کوئی شعر لوگوں کی زبان پر آجاتا تھا۔
اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ اس ملک میں صدیوں تک یہ حال رہا ہے کہ نہ صرف کلچر کے پہلووؤں میں فارسی زبان کے اثرات ظاہر ہوئے بلکہ یہاں کی سماجی زندگی میں اخلاقیات کی تشکیل کا ذریعہ سب سے زیادہ فارسی اقوال و امثال بنے رہے۔ مثلاً ایک لمبے زمانہ تک یہ حال تھا کہ کسی ہندستانی گھر میں کوئی مہمان آتا اور اس کے کھانے کے لیے کپڑے کا دستر خوان بچھایا جاتا تو اس کے اوپر یہ فارسی شعر لکھا ہوا ہوتا تھا:
شکر بجا آر کہ مہمان تو
روزیِ خود می خورد برخوان تو
یعنی شکر ادا کر کہ تمھار امہمان اپنی روزی کو تمھارے دستر خوان پر کھا رہا ہے۔
اس طرح صدیوں تک فارسی زبان اس ملک میں حکمت ربانی اور اخلاقیات انسانی کی اشاعت کا ذریعہ بنی رہی۔ لوگوں کی سوچ اور ان کا اخلاقی سلوک فارسی کلچر سے غیرمعمولی طور پر متاثر رہا۔ (ماہنامہ الرسالہ فروری 1998ء، صفحہ:21)
جب فارسی زبان اور ہندستان پر بات چل رہی ہے تو یہ عرض کرتا چلوں کہ مغل شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر فارسی زبان میں کلام کرتا تھا۔ اس کے دربار میں دیگر مذاہب کے افراد مثلاً عیسائی اور ہندو وغیرہ بھی تھے۔ اس کے درباری بھی فارسی میں اس سے گفت و شنید کرتے تھے اور جس کی زبان فارسی نہیں ہوتی وہ ترجمان کی مدد سے اپنی باتیں بادشاہ وقت تک پہنچاتے تھے۔
اکبر ہر مذہب کا احترام کرتا تھا ایک بار اس کی خواہش ہوئی کہ وہ بائبل کا مطالعہ کرے۔ ایک پادری نے فارسی زبان میں بائبل کا ترجمہ کراکر اس تک پہنچا دیا تھا۔ اکبر نے اس کا مطالعہ کیا یا نہیں، اس بارے میں تاریخ میں بہت کم معلومات ملتی ہیں۔
فارسی زبان کے اشعار علم و حکمت سے پُر ہیں، کم لفظوں میں ان اشعار میں پند و نصیحت کی جو باتیں کہیں گئی ہیں؛ ان میں بیشتر ابدی صداقت پر مبنی ہیں، یہی وجہ ہے کہ کسی نہ کسی اعتبار سے میں اپنی کتابوں میں فارسی کا کوئی شعر یا مصرع نقل کرنے کی کوشش ضرور کرتا ہوں۔ مثلاً میں نے مشہور مجاہد  آزادی مولانا منت اللہ رحمانی کی حیات و خدمات پر 240 صفحات پر مشتمل ایک تفصیلی کتاب سنہ 2012ء میں’حیاتِ رحمانی‘ لکھی؛ اس کتاب کا اختتام فارسی کے اِس پُرحکمت مصرعے کے ساتھ ہوتا ہے:
ہنر بچشم عداوت بزرگ تر عیب است
یعنی عداوت کی آنکھ سے دیکھنے میں ہنر بھی بہت بڑا عیب بن جاتا ہے۔ (حیاتِ رحمانی، شاہ عمران حسن، صفحہ: 235)
ایران کی جدید تاریخ میں محمد رضا شاہ پہلوی کا نام بہت ہی اہمیت کا حامل ہے۔ وہ ایران میں جدید انقلاب لانا چاہتے تھے تاہم وہ کامیاب نہ ہو سکے بلکہ ان کی جگہ شیعہ مذہبی رہنما آیت اللہ خمینی کی قیادت میں 1979ء میں مذہبی انقلاب آگیا اور رضا شاہ پہلوی کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔
ایران قدیم تہذیب و ثقافت والا ملک ہے۔ اس کا قدیم نام فارس ہے۔ سنہ 1935ء میں’ یوم نوروز‘ کے موقعے پر ایران کے اس وقت کے حکمراں محمد رضا شاہ پہلوی (1919-1980ء) نے ملک کا نام فارس سے بدل کر ’ایران‘ رکھ دیا۔ اور جب یہ ملک وہاں کے اسلام پسندوں کے ہاتھ میں آگیا تو اس کا نام ’اسلامی جمہوریہ ایران‘ رکھ دیا گیا۔ ایسا کہا جاتا ہے کہ ایران کے لفظی معنی بُزرگ کے ہیں اور یہ لفظ سنسکرت زبان کے لفظ آریہ سے آیا ہے۔
محمد رضا شاہ پہلوی کے دورِ حکومت میں ایران میں یورپی ممالک کی آمد رفت کثرت سے شروع ہوگئی، جس کی وجہ سے  ملک کے اندر مغربی تہذیب کو فروغ ملنے لگا اور اس کے منفی نتائج آنے بھی شروع ہو گئے۔ اور یہی وجہ ہے کہ قدیم تہذیبی و مذہبی روایت کے حاملین کی جانب سے احتجاج شروع ہوگیا، جس کے نتیجے میں ملک میں افراتفری اور خانہ جنگی کی سی کیفیت شروع ہوگئی۔ دریں اثنا آیت اللہ خمینی نے دیگر مذہبی رہنماؤں کے ساتھ مل کر بادشاہیت کا تختہ پلٹ دیا، بالآخر دسمبر 1978ء میں محمد رضا شاہ پہلوی کو ایران چھوڑ کر قاہرہ (مصر) میں پناہ لینی پڑی، جہاں محض دو برس بعد ان کا انتقال ہوگیا۔
دنیا بھر کے اسلام پسند رہنماؤں اور علماے کرام نے ایران کی نئی اسلامی حکومت کے نام مبارک بادی کا پیغام بھیجا جن میں ایک اہم نام مولانا سید ابوالاعلیٰ مودوی کا بھی ہے، جنھوں نے بذریعہ تار 14 دسمبر 1978ء کو ایران کے نئے سربراہ ڈاکٹر ابراہیم یزدی کو مبارک پیش کرتے ہوئے لکھا تھا:
We are whole heartedly with Islamic movement of Iran.
جہاں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے ایرانی انقلاب کو ’اسلامی انقلاب‘ قرار دیا وہیں دیگر علما مثلاً مولانا وحیدالدین خاں نے اسی زمانہ میں اپنے بیان میں کہا تھا کہ ’ایران کا انقلاب اسلامی انقلاب نہیں ہے، وہ صرف منفی نوعیت کا ایک مخالف شاہ انقلاب ہے۔‘ (ماہنامہ الرسالہ جولائی 1985ء، صفحہ: 28)
آیت اللہ خمینی پیرس سے اسلامی انقلاب کی قیادت کر رہے تھے، محمد رضا شاہ پہلوی کے وطن چھوڑنے کے بعد وہ فاتحِ ایران کی حیثیت سے فروری 1979ء میں ایران آئے اور یہاں انھوں نے ’اسلامی جمہوریہ‘ کی بنیاد رکھی۔ اسلامی حکومت کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ جن خواتین کی عمر 9 سال سے زائد ہوگی، ان پر کالے حجاب کی پابندی لازمی ہوگی۔
سنہ 1989ء میں بدنامِ زمانہ مصنف سلمان رشدی کی کتاب ’شیطانی آیات‘ کی اشاعت پر ایرانی شیعہ رہنما آیت اللہ خمینی نے سلمان رشدی کے خلاف قتل کا فتویٰ صادر کیا تھا۔ انگریزی اخبار دی ٹائمس آف انڈیا کی اشاعت 17فروری1989ء کے مطابق امام خمینی نے اپنے فتوے میں مزید کہا تھا قتل کرنے والا اگر ایرانی ہے تو اس کو دوملین ڈالر سے زائد ($2.6Million) رقم انعام میں دی جائے گی اور اگر غیرایرانی ہے تو اس کو ایک ملین ڈالر ($1Million) کی انعامی رقم دی جائے گی۔
سنی علماے کرام نے بھی اس فتوے کی تائید میں اپنا بیان دیا۔ قومی آواز (نئی دہلی) کے شمارہ 20 فروری 1989ء کے مطابق دارالعلوم ندوةالعلماء کے ناظم اور معتبر عالم دین مولانا سید ابوالحسن علی ندوی نے امام خمینی کی تائید میں کہا کہ سلمان رشدی نے مذہب اسلام کی سخت توہین کی ہے، جس سے پوری دنیا کے مسلمانوں میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی ہے، امام خمینی کے فرمان پر مسلمان اطمینان کا اظہار کر رہے ہیں۔ اسلام میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کے مجرم کو سزائے موت دی جاتی ہے، مسلم علما اور مفتی اس معاملہ میں متفق ہیں۔ (قومی آواز، 20 فروری 1989ء، صفحہ:1)
اس کے بعد ایرانی مذہبی پیشوا آیت اللہ خمینی کو مسلم دنیا میں ایک ہیرو کے طور پر پیش کیا گیا اور ایک لمبی مدت تک ساری دنیا میں یہ معاملہ سُرخیوں میں رہا، نیز اس کی تفصیل بڑی ہی طویل ہے، یہاں اس کو دہرانا ممکن نہیں؛ اس کو عالمی میڈیا نے شیطانی آیات تنازع (Satanic Verses controversy) کا نام دیا۔
ایران خود کو اسلامی ملک کہتا ہے مگر وہاں موسیقی، فلم اور مجسمہ سازی پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ ایران کے اندر جگہ جگہ سینما گھر بنے ہوئے ہیں جہاں ایرانی فلمیں دکھائی جاتی ہیں اور لوگ بڑے شوق و ذوق کے ساتھ فلمیں دیکھتے ہیں. اِسی طرح آپ ایران کے کسی بھی حصے میں جائیں، وہاں آپ کو کوئی نہ کوئی مجسمہ ضرور نظر آئے گا؛ کہیں تخت جمشید تو کہیں گھوڑے کا مجسمہ نظر آتا ہے، کہیں شیخ سعدی کا مجسمہ تو کہیں کسی اور شخصیت کا۔ ایرانی لوگ بت پرستی کو نہیں مانتے ہیں لیکن مجسمہ سازی کو غلط بھی نہیں گردانتے ہیں۔
وہیں یہ بڑی عجیب بات ہے کہ ایران میں سیٹلائٹ ٹی وی(satellite television) پر مکمل پابندی ہے اور نہ ہی یہاں انگلش مووی (english movie) دیکھنے کی اجازت ہے۔
اِس ملک میں شراب بیچنے اور پینے پر مکمل پابندی ہے لیکن پھر بھی ایک سروے کے مطابق ہر سال اس ملک میں ساڑھے آٹھ کروڑ لیٹر شراب پی جاتی ہے۔ اگر شراب پیتے ہوئے کوئی پکڑا جائے تو اس کو 80 کوڑوں کی سزا دی جاتی ہے۔
اسی طرح ایران میں حقہ تقریباً ہر گھر میں موجود ہے، جسے بوڑھے جوان اور عورتیں شوق سے پیتی ہیں۔
ایران میں ہندستان کی طرح مختلف تہذیب و ثقافت کے لوگ نہیں بستے، بلکہ یہاں ایک ہی تہذیب ہے، وہ ہے شیعہ تہذیب۔ یہاں ہر جگہ مذہبی فکر کا غلبہ ہے اور آئے دن کوئی نہ کوئی مذہبی پروگرام منعقد ہوتے رہتے ہیں۔
8 مئی 2010ء کو ہندستان کے دارالحکومت نئی دہلی کے اندرا گاندھی بین الاقوامی ہوائی اڈے سے مہان ایئر لائنز کی فلائٹ نمبر (W55072) سے رات کو روانگی ہوئی۔ ایران کے دارالحکومت تہران میں، میں صبح کے چھ بجے اُتر گیا۔
7 مئی2010ء کو گڈ ورڈ بکس کے سربراہ ڈاکٹر ثانی اثنین خان کا فون آیا کہ7 اور 8 مئی 2010ء کی درمیانی شب میں ایران کے لیے روانگی ہے، ویزا بن کر آ گیا ہے۔
میں پاسپورٹ لیے بغیر اپنی رہائش گاہ (شاہین باغ، نئی دہلی) سے دفتر (گڈ ورڈ بکس، نظام الدین، نئی دہلی) چلا گیا، خیال تھا کہ کچھ ضروری کام کرنے کے بعد واپس گھر آجاؤ گا مگر ایسا ہو نہ سکا کیوں کہ مجھ کو دفتر میں تاخیر ہوتی چلی گئی، بالآخر مجھے اپنی رہائش گاہ سے پاسپورٹ اور ضروری سامان منگوانا پڑا۔
ان دنوں میں سید شاہ حسیب اختر (شاہ عالم) اور اعجاز احمد صدیقی کے ساتھ ایک مشترک فلیٹ میں رہائش پذیر تھا۔ وہ دونوں میرے لیے میرا ضرورری سامان لے کر آ گئے۔ میں اپنا سامان لے کر ایئر پورٹ کے اندر داخل ہوا، بورڈنگ کارڈ ملا اور میں جہاز میں سوار ہو کر آسمان کی بلندیوں سے بات کرنے لگا۔ جب تہران پہنچا تو وہاں جلی حرفوں میں انگریزی میں یہ لکھا تھا ©:
Imam Khumani International Airport
جب کہ دوسری جانب ایک قد دیوار شیشہ پر فارسی میں درج تھا: خوش آمدید!
تہران میں ایر پورٹ پر کوئی رونق نظر نہیں آئی۔ ہر طرف خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ ہوسکتا ہے صبح کا وقت تھا؛ اِس لیے چہل پہل نہیں تھی۔ ایر پورٹ کا عملہ کسی کی جانچ کر رہا تھا اور کسی کی نہیں۔
میری باری آئی تو اس نے مجھ کو یوں ہی جانے دیا۔
میں نے ایر پورٹ پر ایک سم کارڈ خریدا کیوں کہ ان دنوں میرے موبائل میں انٹر نیشنل کال کی سہولتیں دستیاب نہیں تھیں۔ یہاں کے سم کارڈ کا نام ایران میل (Iran Cell) تھا۔ میرا نمبر حسب ذیل تھا:
0098-09387094301
میں نے نمبر تو حاصل کر لیا مگر اس کو ایکٹیو (active) ہونے میں 8 گھنٹے سے زائد لگ گئے، جب کہ عرب امارات وغیرہ میں ایسا نہیں ہے، وہاں موبائل نمبر فوراً ایکٹو ہو جایا کرتا ہے۔
میرے لیے پیشگی طور پر تہران میں ہوٹل بک نہیں تھا۔ اس لیے میں ایرپورٹ کے رابطہ عامہ پر پہنچا۔ استقبالیہ پر 23-24 برس کی ایک خوب صورت سی لڑکی بیٹھی ہوئی تھی۔ وہ انگریزی میں بات کر سکتی تھی، اس کو میں نے تفصیل بتائی کہ میں یہاں ’عالمی نمائش کتب‘ میں شرکت کی غرض سے ہندستان سے آیا ہوں۔
اس لیے مجھے ایک ایسی جگہ ہوٹل چاہئے جو نمائش گاہ سے قریب ہو۔ اس نے میری بات توجہ سے سنی اور دو تین جگہ فون پر رابطہ کیا، اس کے بعد اس نے مجھ کو ہوٹل کا پتہ لکھ کر دیا:
Hotel Sasan, Dr. Shariati Ave, Upper Moulana Rouje, Close to Ministery of Health, Tehran, Ph:77509719/77601961
میں نے اس خوب صورت سی نازک اندام لڑکی کا شکریہ ادا کیا اور پر چی لے کر باہر ٹیکسی اسٹینڈ کی طرف چل پڑا۔ اس لڑکی نے ہوٹل کا پتہ انگریزی میں نہیں فارسی میں تحریر کیا تھا۔ چوں کہ فارسی رسم الخط سے میں واقف تھا، اس لیے عبارت پڑھنا میرے لیے مشکل نہیں تھا۔
ایر پورٹ سے باہر نکلا، بہت سے لوگ میری جانب لپکے، ایک خوب صورت سا شخص میری طرف بڑھا، میں نے اس کے ہاتھ میں مذکورہ پر چی رکھی اس نے معمولی سی انگریزی میں بات کی اور میں اس کی ٹیکسی میں سوار ہو کر ہوٹل کی طرف چل پڑا۔ ایر پورٹ سے ہوٹل کی مسافت 64 کلو میٹر تھی، جو کہ ایک گھنٹہ کے اندر پوری ہوئی۔
چوں کہ رابطہ عامہ کی لڑکی نے میرے لیے ہوٹل کا کمرہ پہلے سے بک کر دیا تھا، اس لیے مجھ کو آسانی ہوئی۔ ہوٹل ’ساسان‘ ایک ٹو اسٹار ہوٹل تھا، مگر بہت معمولی سا تھا۔ اس کی تیسری منزل پر کمرہ نمبر 307 میں، میں ٹھہرا۔
میں اس ہوٹل میں 8 مئی 2010ء سے مسلسل 16 مئی 2010ء تک رہا۔ جب تک نمائش کتب جاری رہی، میں ہوٹل سے بہت کم باہر نکلتا، بس نمائش گاہ کے لیے صبح نکل جاتا اور شام کو واپس لوٹ آتا تھا۔ تہران میں مجھ کو بہت کم ٹیکسی میٹر سے چلتی ہوئی نظر آئی، اس لیے ایسا ہوتا کہ ڈرائیور جتنا بولتا اتنا مجھ کو ادا کرنا ہوتا تھا۔ یہاں کا ٹریفک نظام بھی مجھ کو بہتر نہ لگا، لوگ عام طور پر لال بتی کا خیال کرتے ہوئے نظر نہیں آئے، اس لیے ایسا ہوتا کہ پیدل چلنے والوں کو دونوں طرف دیکھ کر سڑک پار کرنی ہوتی تھی، خاص کر اس وقت جب موٹر سائیکل سوار مختلف سمت سے آ رہے ہوں۔
خیال رہے کہ یہاں موٹرسائیکل سوار بھی کثرت سے دکھائی دیے۔ یہاں تقریباً تمام بائک میں ایک بڑا شیشہ سامنے لگا ہوتا ہے، یہ شیشہ گرم دھوپ اور سرد ہواؤں سے موٹرسائیکل سوار کی حفاظت کرتا ہے۔
ہوٹل ساسان سے نمائش گاہ کی دوری تقریباً 7 کلو میٹر تھی۔ جس کو میں کبھی ٹیکسی اور کبھی میٹرو سے پوری کرتا تھا۔ نمائش گاہ شہید بہشتی میٹرو اسٹیشن سے قریب واقع تھی، جس کا نام تھا: مصلیٰ بزرگ امام خمینی۔
ایک مقامی شخص نے بتایا کہ اس نمائش گاہ میں سالوں بھر ثقافتی پروگرام منعقد ہوتے رہتے ہیں اور عیدین کی نماز بھی یہاں ادا کی جاتی ہے۔
ایران کے اندر میٹرو کا نظام بہت ہی شان دار ہے۔ کسی بھی شہر میں جانے کے لیے میٹرو کی خدمات بہ آسانی آپ کو مل جاتی ہیں؛ جس سے روز مرہ کے سفر میں آسانی ہوتی ہے اور عوام کام کرنے کے لیے ایک لمبی دوری بہ آسانی طے کر لیتے ہیں۔ میٹرو ٹرین ایک مقررہ وقت پر چلتی ہے. اس سے کسی کو دشواری نہیں ہوتی ہے، اگرچہ بھیڑ ہونے کی وجہ سے بہت کم کسی کو بیٹھنے کی جگہ مل پاتی ہے۔
جب میں 8 مئی 2010ء کی صبح کو نمائش گاہ پہنچا تو یہاں انگریزی بولنے والا کوئی نظر نہیں آیا۔ یہاں استقبالیہ میں ایک لڑکی ملی، اس نے مجھے دوسری لڑکی کے حوالے کیا، دوسری نے تیسری لڑکی کے حوالے کیا۔ تیسری لڑکی مجھ کو لے کر کتاب میلہ کے منتظم کے دفتر میں گئی۔ منتظم اعلیٰ کا نام علی علی پور (Ali Alipour) تھا، انھوں نے والہانہ انداز میں میرا خیر مقدم کیا۔ وہ انگریزی جانتے تھے، انھوں نے بتایا کہ وہ متعدد دفعہ ہندستان کا سفر کرچکے ہیں۔ انھوں نے اپنے ساتھ مجھے ناشتہ بھی کرایا۔
میں ادارہ گڈ ورڈ بکس کی جانب سے گیا تھا اور وہاں میرا اسٹال بک تھا۔ مگر کتابیں نہیں کے برابر فروخت ہوئیں، جس طرح میں نے کتا بیں باکس (box) سے نکال کر سجائی تھیں، اسی طرح دوبارہ باکس میں پیک (pack) کر کے رکھ دینی پڑی۔ البتہ بچوں کی چند اسلامی کتابیں اور مولانا وحیدالدین خاں کا انگریزی ترجمہ قرآن لوگوں نے ہمارے اسٹال سے حاصل کیا، بہ مشکل سو ڈالر کی کتابیں فروخت ہو پائیں۔ اس طرح تقریباً ایک لاکھ روپے سے زائد کا ادارہ کا خسارہ ہو گیا۔یہ الگ بات ہے کہ راقم الحروف کو ایران کی سیاحت یا بہ الفاظِ دیگر مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔
ایران کی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ تیل اور گیس ہے۔قدرتی گیس پیدا کرنے والا یہ دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے۔ پوری دنیا کے کل تیل کا 10 فی صد صرف ایران میں ہی پایا جاتا ہے۔ تیل اور گیس کے علاوہ سیاحت اس ملک کی آمدنی کا بڑا ذریعہ ہے۔ یہاں ہر سال 70 سے 80 لاکھ غیر ملکی سیاح آتے ہیں. سیاحوں کی ایک بڑی تعداد تہران کے علاوہ زیادہ تر تین شہروں کا رُخ کرتی ہے۔ ان میں اصفہان، شیراز اور مشہد شامل ہے۔ ایران میں آنے والے غیر ملکی سیاحوں میں 10 فی صد کا تعلق امریکہ اور یورپی ممالک سے ہوتا ہے۔
ایران ڈرائی فروٹ (Dry Fruits) پیدا کرنے والا دُنیا کا 34 واں بڑا ملک ہے؛ جس میں چیری، پستا اور آخروٹ شامل ہیں جو نہ صرف باقی ممالک سے سستے ہوتے ہیں بلکہ معیار میں بھی اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے۔
یہاں کے گروسری اسٹور (grocery store) جانے کا اتفاق ہوا۔ گروسری اسٹور میں تقریباً اسی قسم کے پروڈکٹس (products) دکھائی دیے جو ہمیں ہندستان میں بھی ملتے ہیں۔ کہیں پی نٹ بٹر (peanut butter) رکھا ہوا تھا تو کہیں چاکلیٹ (chocolate)۔ مگر دل چسپ بات ان ساری چیزوں کے بارے میں یہ تھی کہ یہ سارے کے سارے ملکی برانڈ (brand) تھے۔ وہ یورپین یا امریکن یا ویسٹرن برانڈ نہیں تھے۔ سارے کے سارا مال ملک کا بنا ہوا دکھائی دیا۔ ایران نے واقعی میں پابندیوں کی وجہ سے خود کو ایک ’خود کفیل ملک‘ بنا لیا ہے۔
عا لمی نمائش کتب میں میرے اسٹال سے متصل ایک ایرانی بچوں کی خاتون آرٹسٹ ’مہداوی‘ کا اسٹال تھا۔ مہداوی سے میری ملاقات بڑی دل چسپ رہی، اگرچہ وہ انگریزی زبان نہیں جانتی تھیں۔ مہداوی کی دو بہت ہی خوب صورت بیٹیاں تھیں، ایک کی عمر سترہ سال تھی اور دوسرے کی عمر اٹھارہ سال۔ ان میں ایک کا نام ماریہ تھا۔ اس کی عمر اٹھارہ سال تھی۔ وہ انگریزی جانتی تھی۔ اس کی مدد سے میں نے مہداوی سے گفتگو کی۔
مہداوی نے بتایا کہ وہ ایک لمبی مدت سے بچوں کے لیے پینٹنگ کرتی رہی ہیں۔ وہ کمپوٹرائزڈ پینٹنگ (computerized painting) کو پسند نہیں کرتی ہیں، انھوں نے کہا کہ مجھ کو ہنڈ پینٹنگ (hand painting) زیادہ پسند ہے اور اس میں، میں اپنے جذبات کا بہتر ڈھنگ سے اظہار کرسکتی ہوں۔
ماریہ کو میں نے بہ طور تحفہ مولانا وحیدالدین خاں کا ترجمہ کردہ انگریزی قرآن دیا۔ وہ بہت خو ش ہوگئیں، انھوں نے میرا بار بار شکریہ ادا کیا۔ دوسری ملاقات میں انھوں نے بتایا کہ انگریزی ترجمہ قرآن انھیں بہت اچھا لگا حتیٰ کہ ماریہ نے یہاں تک کہا کہ انگریزی ترجمہ فارسی ترجمہ سے بہتر ہے:
English translation is better then Persion.
ماریہ نے اپنی گفتگو میں اس بات کا اعتراف کیا کہ جب میں فارسی ترجمہ قرآن کو پڑھتی ہوں وہ مجھ کو سمجھ میں نہیں آتا ہے تاہم جب میں نے مولانا وحید الدین خاں کا انگریزی ترجمہ قرآن پڑھا تو میرے لیے قرآن کو سمجھنا زیادہ آسان ہوگیا۔
عالمی نمائشِ کتب کے آخری دن مہداوی اور ان کی دونوں بچیوں سے میری الوداعی ملاقات ہوئی۔ انھوں نے ڈرائی فروٹ سے میری ضیافت کی، جب ایک اجنبی ملک میں کوئی آپ کے ساتھ اپنا پن کا رویہ دکھائے تو بڑا اچھا لگتا ہے۔ اگرچہ یہ سب لمحاتی رفاقت اور دوستی ہوتی ہے؛ جس کا اختتام ابدی جدائی ہے۔
میرا نام ’شاہ عمران حسن‘ ہے اِس لیے مقامی افراد مجھ کو شیعہ سمجھ رہے تھے، جب کہ کچھ سنی بھائی آئے تو وہ سمجھ گئے کہ میں شیعہ مسلک سے نہیں ہوں۔ یہ وہ لوگ تھے جو انگریزی میں گفتگو کرسکتے تھے۔ ان میں سے ایک باریش’سنی مسلم‘ بھی تھے، جو تبلیغی جماعت سے وابستہ تھے۔ انھوں نے بتایا کہ یہاں سنیوں کو بڑے مسائل ہیں، انھیں اپنی شناخت چھپا کر رکھنی پڑتی ہے کیوں کہ یہاں شیعوں کی اکثریت ہے۔
انھوں نے بتایا کہ وہ لوگ تبلیغی جماعت کا کام بھی وہاں نہیں کر پا رہے ہیں۔ انھوں نے اپنا نام مخفی رکھا۔ وہ مجھ سے اس انداز میں کلام کر رہے تھے، ایسا لگ رہا تھا کہ وہ مجھ سے سرگوشی کر رہے ہیں، اس وجہ سے ان کی باتیں کچھ سمجھ میں آتی تھیں اور کچھ نہیں۔
ان پر ایک الگ قسم کا خوف طاری تھا کہ شیعہ برادری ان پر شبہ کرنے لگے گی۔ انھوں نے کچھ مقامی مسائل کا ذکر کیا۔ اس قسم کے مقامی مسائل ہر اس ملک میں ہوتے ہیں جہاں کسی خاص کمیونٹی کی اکثریت ہوتی ہے۔
مجھے ان کی باتوں سے ایسا لگا کہ انھیں نماز وغیرہ پڑھنے میں دشواری ہوتی ہے کیوں کہ ایران کے قانون کے مطابق جس علاقے میں جس فرقے کی آبادی زیادہ ہوگی۔ اس مسجد کا امام اسی فرقے کا ہوگا مثلا ًجس علاقے میں زیادہ تر شیعہ مسلک کے لوگ آبادہوں گے، اس مسجد کا امام بھی شیعہ ہوگا اور سنی مسلمانوں کو اس کے پیچھے نماز پڑھنا ہوگی۔
ایران کی یادوں میں سے ایک یاد صدرالدین گوہاری سے ملاقات ہے۔ ان سے میری ملاقات 12 مئی 2010ء کی شام کو شہید بہشتی میٹرو اسٹیشن پر ہوئی۔ میٹرو میں بے انتہا بھیڑ تھی۔ میری ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ میں میٹرو کے اندر چڑھوں، میں پلیٹ فارم کے ایک بینچ پر بیٹھ گیا۔ اچانک میری زبان سے نکلا:
It’s crowded , how can I get into the metro.
میرے قریب پلیٹ فارم کی سیٹ پر بیٹھا نو جوان صدر الدین گوہاری تھا۔ وہ میری بات سن کر میری طرف متوجہ ہوا، اس نے انگریزی میں کہا:
They are going to kill theirself.
اس کے بعد میری اس سے گفتگو ہونے لگی۔ اس نے بتایا کہ وہ ایک غریب خاندان سے تعلق رکھتا ہے، گوہاری اس کا خاندانی نام ہے۔ وہ آرکیٹیٹ (architect) کا طالب علم ہے۔ اس کی عمر 26 برس ہے۔
صدرالدین گوہاری ایک ذہین طالب علم تھا، اس سے مختلف موضوعات پر گفتگو ہوئی۔ جب شیعہ سنی کے جھگڑے پر گفتگو ہوئی تو اس نے کہا:
If our God, our Prophet, our Religion is one, So why there is war between Shia muslim and Sunni muslim.
اسی بات کو علامہ اقبال نے’ جوابِ شکوہ‘ میں یوں بیان کیا ہے:
منفعت ایک ہے اِس قوم کا نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی دین بھی ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
جب اس کو یہ معلوم ہوا کہ میں ہندستان سے ہوں، تو صدر الدین گوہاری نے بے اختیار ہو کر کہا کہ آپ اس عظیم ملک سے آئے ہیں جہاں کا ایک رہنما امن کا پیامبر تھا، اس کا نام مہاتما گاندھی تھا۔ میں نے مہاتما گاندھی کے بارے میں اپنی درسی کتاب میں پڑھا تھا۔ تہران کی ایک شاہراہ گاندھی اسٹریٹ (Gandhi Street) بھی مہاتما گاندھی کے نام پر وقف ہے۔
جب اس نے میرے وطن ہندستان کا نام لیا تو میرا دل فرطِ مسرت سے جھوم اُٹھا کہ ایک غیر ملکی بابائے قوم ’مہاتما گاندھی‘ کانام لے رہا ہے، وہ ان کو گویا خراج تحسین پیش کر رہا ہے۔ اس سے ہندستان کے موضوع پر مختلف قسم کی باتیں ہوئیں۔ میں نے تفصیل سے اس کو اپنے وطن عزیز کے بارے میں بتایا۔ جب کوئی بدیسی آپ کے وطن کی تعریف کرے تو خود بہ خود انسان کو فخر ہونے لگتا ہے۔ اس نے بتایا کہ اس نے مہاتما گاندھی کے علاوہ نوبل انعام یافتہ رابندر ناتھ ٹیگور کے بارے میں بھی بچپن کے دنوں میں مطالعہ کیا ہے۔
وہ ان عظیم ہندستانی شخصیتوں سے بہت زیادہ متاثر نظر آیا۔ جب میں نے اس سے پوچھا کہ کیا آپ ہندستان آنا پسند کریں گے تو اس نے تھکے ہوئے عزم کے ساتھ جواب دیا:
I want to go to India for higher study, but I am a poor man, I am not a rich man.
میرے پاس  اس اجنبی شخص کو تحفے میں دینے کے لیے میرے ہینڈ بیگ (hand bag) میں کچھ بھی نہیں تھا۔ اس وقت کوئی کتاب بھی نہیں تھی۔ میرے ہینڈ بیگ میں ایک روپیہ کا سکہ (coin) ملا۔ میں نے بہ طور یادگار اس کو دیا۔ اس نے شکریہ کے ساتھ اس کو قبول کیا۔
صدرالدین گوہاری میرا ہم عمر تھا۔ اس لیے اس سے بے تکلفانہ انداز میں گفتگو ہوتی رہی۔ اس نے ایک موقع پر مجھ سے سوال کیا؟
Are you married?
میں نے از راہِ تفنن اس سے کہا:
This time I am not married.
اگرچہ مجھے اس سے کہنا چاہئے تھا کہ ابھی تک میری شادی نہیں ہوئی ہے:
I am not married yet.
اس نے میرے الفاظ سن کر کہے:
Before you were married and you have been taken divorce.
اس کے بعد دونوں ہنس پڑے اور دیر تک ہنستے رہے۔ اس نے مجھ سے آخر میں سوال  کیا کہ آپ دوبارہ ہندستان سے ایران آنا پسند کریں گے؟
میں نے اس کے جواب میں کہا کہ میرا یہاں ’ایران‘ آنا، ایک اتفاق ہے۔ مجھے نہیں لگتا ہے کہ آپ کی سرزمیں پر دوبارہ میں قدم رکھ پاؤں گا۔
ایک گھنٹہ سے زائد کا وقت میں نے اس اجنبی نوجوان کے ساتھ بتایا۔ وہ ایک دل چسپ نوجوان تھا اور میں باتوں باتوں میں اتنا محو ہوا کہ میں نے متعدد میٹرو ٹرین چھوڑ دی۔
میں اس کے ساتھ مزید وقت بتانا چاہتا تھا مگر میرا وقت ختم ہوا چاہتا تھا۔ میں نے وقت دینے کے لیے اس کا شکر یہ ادا کیا، اس کی جانب آخری دفعہ دیکھا اور مصافحہ کرتا ہوا میٹرو میں سوار ہوگیا۔
مجھے بہ قول کشور ناہید معلوم تھا کہ ’یہ لمحہ بھر کی رفاقت ہے؛ پھر کبھی نہ ملنے کی جدائی ہمیشہ موجود رہے گی۔‘ اسی بات کو فارسی کے ایک مصرعے میں یوں کہا گیا ہے:
ای بسا آرزو کہ خاک شدہ
ہندستان واپس آنے کے بعد میں نے رابطہ عامہ کی ویب سائٹ پر اس اجنبی کو تلاش کرنے کی بہت کوشش کی، مگر اس میں مجھ کو ناکامی ہی ملی۔ تاہم وہ شخص بہت دنوں تک یاد آ تا رہا۔
آج بھی ایران میں رابطہ عامہ کی بہت سی سائٹ پر ملکی قوانین کی تحت پابندی عائد ہے۔ ٹوئٹر، یوٹیوب اور دیگر سائٹ پر پابندی لگی ہے، تاہم کبھی فیس بک چلتا ہے اور کبھی بند ہوجاتا ہے. البتہ یہاں انسٹاگرام کھلا ہے اور چلتا رہتا ہے۔
دورانِ سفر بے شمار انسانوں سے انسان کی ملاقات ہوتی ہے اور لوگ بچھڑ جاتے ہیں۔ کچھ لوگ ہمیں یاد رہ جاتے ہیں اور کچھ لوگوں کو ہم یا درہ جاتے ہیں۔ بہ قول فارغ بخاری:
سفر میں کوئی کسی کے لیے ٹھہرتا نہیں
نہ مڑ کے دیکھا کبھی ساحلوں کو دریا نے
نمائش گاہ کے باہر بڑی تعداد میں کھانے پینے کے اسٹال لگے ہوئے تھے، اس کے علاوہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ڈبا بند کھانے بھی فروخت کر تے ہوئے دکھائی دیے۔ ان دنوں پانچ ہزار ایرانی ریال میں وہاں کھانے کی ڈش ’چلو کباب‘ مل جایا کرتی تھی۔ چلو کباب میں چاول کے ساتھ ہاٹ ڈاگ (hot dog) کی طرح کباب ہوتا تھا، جس کو ملا کر کھانا ہوتا تھا۔ میں اکثرہا دن کے اوقات میں یہی کھاتا رہا کیوں کہ اس کی قیمت بھی کم تھی اور کھانا بھی ذائقے دار تھا۔ میں کھانا خرید کر پارک میں رکھے ہوئے میز پر بیٹھ کر کھاتا تھا، جب کہ ایرانی حضرات ہری گھاس پر بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ایرانی لوگ میز پر کھانے کے بجائے زمین پر بیٹھ کر کھانا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ ایران کے زیادہ تر کھانے ہندستانی کھانوں سے ملتے جلتے ہیں؛ البتہ ذائقہ الگ الگ ہے۔
ایران کے اندر میں نے دیکھا کہ لوگ کسی بھی واقعہ پر ’یا خدا‘ کے بجائے’یا علی‘ بولتے ہوئے نظر آئے، حتیٰ کہ ٹیلی ویژن پر جو ایرانی فلم میں نے سب ٹائٹلس (subtitles) کی مدد سے دیکھی؛ اس میں بھی یہ عبارت مکالمے کے طور پر درج ہوتی تھی:
Ali be with you.
ہوٹل کے کمرہ میں جو ٹی وی رکھا ہوا تھا اس میں سارے چینل فارسی زبان میں نظر آ رہے تھے۔ صرف دو چینل انگریزی میں تھے۔ ایک الجزیرہ ٹی وی اور دوسرے پریس ٹی وی کا پروگرام انگریزی میں آتا تھا۔ اس لیے میں یہاں رہتے ہوئے بھی ایران کی مقامی خبریں نہ دیکھ اور نہ سن سکا۔
فارسی اس ملک کی سرکاری اور قومی زبان ہونے کا درجہ رکھتی ہے۔ یہ بہت ہی منفرد بات ہے۔ یہاں فارسی زبان میں تمام قسم کی تعلیم دی جاتی ہے۔ مادری زبان میں تعلیم ہونے کی وجہ سے تعلیم حاصل کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی. خیال رہے کہ آیت اللہ خمینی نے اقتدار سنبھالنے کے بعد مختلف ممالک میں پھیلے ہوئے ایرانی کونسلیٹ (irani consulate) کو حکم صادر کیا تھا کہ مقامی جانکاریاں بہ الفاظِ دیگر علمی کتابوں کا ترجمہ فارسی زبان میں کیا جائے اور اسے ایران میں فراہم کیا جائے۔
اس حکم کے بعد پوری دنیا میں پھیلے ہوئے تمام ایرانی کونسلیٹ میں ترجمہ کا شعبہ قائم کیا گیا اور تمام طرح کے علوم کا ترجمہ فارسی زبان میں ہونے لگا۔ مختلف علوم کی کتابیں فارسی میں ترجمہ ہوکر ایران پہنچنے لگیں اور وہاں اس کی تعلیم دی جانے لگی۔ اس سے اچانک دنیا جہاں کے مختلف علوم تک ایرانیوں کی رسائی ان کی مادری زبان میں ممکن ہوگئی۔
دنیا بھر میں ایرانی کونسلیٹ کی جانب سے اخبارات میں مترجم کے لیے اشتہارات دیے گئے اور بڑی تعداد میں فارسی جاننے والوں کو ایرانی کونسلیٹ میں مستقل ملازمت ملی۔ مجھے ایک صاحب کا قصہ معلوم ہوا۔ یہ واقعہ میں نے کہیں سنا تھا، اگرچہ میں نے اس واقعے کی تصدیق نہیں کی ہے۔
وہ صاحب پاسپورٹ آفس میں کام کرتے تھے اور فارسی زبان جانتے تھے۔ ایران میں اسلامی انقلاب کے زمانے میں وہ سبک دوش ہوئے. ان کی پنشن (Pension) بہت معمولی سی تھی، جس سے ان کی روز مرہ کی ضرورتیں بھی بہت مشکل سے پوری ہو رہی تھیں۔ وہ پریشان تھے کیوں کہ ابھی انھیں اپنے بچیوں کی شادیاں بھی کرنا تھیں۔
انھیں صرف فارسی زبان آتی تھی، انھوں نے کچھ کام کرنے کی بہت تگ و دو کی، مگر انھیں کوئی کام نہ ملا۔
اُسی زمانے میں ایرانی کونسلیٹ کی جانب سے ایک اشتہار آیا کہ فارسی زبان کے ماہرین کی ضرورت ہے؛ جو فارسی زبان میں ترجمہ کرنا جانتے ہوں وہ یہاں درخواست دے سکتے ہیں۔
انھوں نے فوراً ایرانی کونسلیٹ میں درخواست دی۔ ان کی درخواست منظور کر لی گئی اور اس طرح ان کی دوبارہ نوکری شروع ہو گئی۔ جب تک وہ باحیات رہے؛ایرانی کونسلیٹ سے جڑے رہے اور اردو کتابوں کا ترجمہ فارسی میں کرتے رہے اور اس طرح ان کے معاشی مسائل حل ہوتے گئے۔
ایران کی ایک ویب سائٹ (en.irna.ir) کے مطابق یہاں کی تعلیمی شرح 90 فی صد ہے۔ مادری زبان میں تعلیم دینے کا عمومی فائدہ یہاں دکھائی دیتا ہے۔ یہاں کے لوگ غیر معمولی تعلیم یافتہ ہیں۔ وہ لوگ اپنی تاریخ پر فخر بھی کرتے ہیں اور اس سے جڑے بھی رہنا چاہتے ہیں۔ ان کی گفتگو سے ان کے تعلیم یافتہ ہونے کا اندازہ ہوتا ہے۔
عالمی نمائش کتب کے دوران ایک تعلیمی ادارے کی جانب سے مجھ کو پریڈک ٹیبل (Periodic Table) دیا گیا۔ مجھ کو یہ دیکھ کر سخت حیرت ہوئی کہ یہ بھی فارسی زبان میں ہے۔ آپ اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ انھوں نے یورپ اور امریکہ کی طرح اپنی مادری زبان کو غیر معمول اہمیت دی ہے، جس کا مثبت نتیجہ ایران میں روز روشن کی طرح عیاں ہے۔
ایران میں، میں جب تک رہا میری طبیعت خراب رہی، یہاں مجھ کو مستقل طور پر بخار رہا اور میرے ناک سے مسلسل خون بہتا رہا۔ تاہم میں یہاں کوئی علاج نہ کروا سکا۔ البتہ میں نے ایک ایمر جنسی رابطہ کا نمبر رکھا اور انگریزی میں ایک پرچی پر اپنی تفصیلات درج کر لی تھی کہ اگر مجھ کو کچھ ہو جائے تو ہندستان میں میرے گھر والوں کو اس کی اطلاع مل جائے۔
ایران کی ایک خوش گوار دریافت ’ڈاکٹر سبھاش کمار‘ تھے۔ جن سے اب بھی روابط ہیں۔ ان کا تعلق ریاست بہار کے نالندہ سے ہے۔ انھوں نے تہران یونی ورسٹی سے فارسی زبان میں پی ایچ ڈی کی ہے۔ وہ اچانک میرے بک اسٹال پر 13مئی2010ء کو تشریف لائے، انھوں نے اپنا تعارف کرایا، پھر ان سے میری گفتگو ہونے لگی۔ وہ مسلسل دو دنوں تک میرے پاس آتے رہے، اس کے بعد وہ ضد کر کے مجھ کو ہوٹل سے نکال کر اپنی قیام گاہ پر لے گئے اور تہران کے مختلف مقامات کی سیر کرائی۔
انھوں نے مجھ کو تہران کا قدیم بازار اور برجِ آزادی (Azadi Tower) دکھایا، یہ مقامات مجھ کو بہت پسند آئے۔ تہران کے قدیم بازار ’بازارِ بزرگ‘ سے میں نے وہاں کی مشہور مٹھائی سوہان (Sohan) خریدی۔ ایران کی مٹھائی سوہان دُنیا بھر میں مشہور ہے۔ سوہان دراصل حلوہ قسم کی ایک مٹھائی ہے اور ہندستان میں دیوالی کے موقع پر بنائی جانے والی خاص مٹھائی سون پاپری (soan papdi) سے اس کا ذائقہ ملتا جلتا ہوتا ہے۔
تہران کے بازارِ بزرگ میں روایت کی جھلک ملتی ہے، ایرانی لوگوں نے اس کو اسی طرح برسوں سے قائم رکھا ہوا ہے، جس طرح یہ پہلے سے تھا۔ یہاں مرد و عورت سبھی مل جل کر سامان فروخت کرتے ہوئے نظر آئے۔ بہت سے لوگ آواز لگا کر اپنی اشیا فروخت کر رہے تھے۔ٹھیک ویسا ہی منظر تھا جو ہندستان کے ہفت روزہ بازار کے مواقع پر دکھائی دیتا ہے۔
ایک شام میں ڈاکٹر سبھاش کمار کے ساتھ ’برجِ آزادی‘ کو دیکھنے گیا۔ تہران کے وسط میں برجِ آزادی سنہ 1971ء میں تعمیر کیا گیا تھا۔ یہ دراصل ایک بہت بڑا پارک ہے۔ یہ پارک اسی طرح کا ہے جس طرح ہمارے ملک ہندستان کے دارالحکومت نئی دہلی میں انڈیا گیٹ ہے۔ جہاں شام کے وقت لوگ دن بھر کی تھکن اُتارنے کے لیے جمع ہوتے ہیں، کھاتے پیتے ہیں، باتیں کرتے ہیں اور پھر گھر چلے جاتے ہیں۔
برجِ آزادی دیکھنے کے لیے بڑی تعداد میں سیاح آتے ہیں اور مقامی افراد بھی قابلِ لحاظ تعداد میں دکھائی دیتے ہیں۔ یہ افسوس کی بات ہے کہ میرے پاس کیمرہ نہیں تھا اور موبائل بھی ٹوٹ گیا تھا۔ اِس لیے میں برجِ آزادی کی کوئی بھی تصویر اپنے پاس قید نہ کر سکا، میرے پاس اس کی صرف یادیں ہیں اور بس یادیں!
میرے ایران کے سفر کی خبر مولانا وحیدالدین خاں کے مشہورِ زمانہ ماہنامہ’ الرسالہ‘ کے مستقل کالم ’خبرنامہ اسلامی مرکز‘ کے تحت جولائی 2010ء میں شائع ہوئی، نیز اس میں ڈاکٹر سبھاش کمار کے تعاون کا بھی ذکر ہے:
’ایران کی راجدھانی تہران کے معروف مقام ’مصلیٰ بزرگ امام خمینی‘ پر 23 واں تہران انٹر نیشنل بک فیر منعقد ہوا، جو 5-15 مئی 2010ء تک جاری رہا۔ ہندستان سے گڈورڈ بکس نے بھی اس بک فیر میں حصہ لیا۔ یہ ہندستان کا واحد بک اسٹال تھا۔ لوگ بڑی تعداد میں اسٹال پر آئے اور صدر اسلامی مرکز کا انگریزی ترجمہ قرآن اور دیگر کتا بیں حاصل کیں۔ اس موقع پر تہران یونی ورسٹی کے رسرچ اسکالر ڈاکٹر سبھاش کمار (ہندوستان) نے اپنا بھر پور تعاون دیا۔ یہاں بک اسٹال کا انتظام شاہ عمران حسن نے سنبھالا تھا۔ (ماہنامہ الرسالہ جولائی 2010ء، صفحہ:41)
جب میں ایران کا سفرنامہ تحریر کرنے بیٹھا تو میں یہ بھول گیا کہ میں کس ایرلائنز سے تہران گیا تھا، اس کا نمبر کیا تھا، میری عادت ہے کہ میں کاغذات سنبھال رکھتا ہوں۔ میں نے اس ٹکٹ کی پرنٹ کاپی بھی سنبھال کر رکھی تھی، تلاش و جستجو کے بعد مجھ کو وہ ٹکٹ مل گیا اور تفصیلات بھی۔ اس طرح مجھ کو فارسی کے اس شعر کا مفہوم سمجھ میں آیا کہ رکھی ہوئی چیز کبھی نہ کبھی ضرور کام آتی ہے:
داشتہ آید بہ کار، گرچہ باشد زہر مار
میں نے ایران کے اندر الگ تہذیب و ثقافت دیکھی، ایک الگ دنیا دیکھی تھی۔ خواتین کو ٹیکسی چلاتے ہوئے دیکھا۔ ڈبے میں پیک کر کے چاول اور گوشت فروخت کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ یہ ایک الگ ہی منظر تھا کہ جن کو میری آنکھوں نے پہلی بار دیکھا تھا۔
میں ایران کے سفر سے قبل سمجھتا تھا کہ یہاں کی خواتین مظلوم ہیں، ان پر وہاں کے مردوں کا تسلط قائم ہے، مگر مشاہدہ کرنے کے بعد مجھ کو برعکس قسم کا تجربہ ہوا۔ ایران پہنچ کر اندازہ ہوا کہ یہاں کی خواتین بڑی ہی روشن خیال ہیں، وہ پُراعتماد نظر آئیں۔ مذہبی امور کو چھوڑ کر تمام شعبہ جات میں ایرانی خواتین نظر آتی ہیں اور وہ مرد کے شانہ بہ شانہ کام کرتی ہوئی دکھائی دیں۔ دیگر مسلم ممالک میں خواتین کے کام کرنے کا تناسب کم ہے مگر ایران کے اندرخواتین ہر شعبہ جات میں نظر آتی ہیں:
Labour force participation ratio for female is very high in Iran.
ایران کی مشہور قانون داں شیری عبادی کو اَمن کا نوبل انعام سنہ 2003ء میں دیا گیاتھا، اس کے ٹھیک 20 برس بعد یعنی 2023ء میں ایران کی مشہور سماجی کارکن نرگس محمدی کو امن کا نوبل انعام دیا گیا۔ ایران پہلا مسلم ہے جہاں کی دو خواتین نے نوبل انعام برائے امن حاصل کیا ہے۔
ایران کی لڑکیاں ایشیا کی خوب صورت ترین لڑکیاں سمجھی جاتی ہیں۔ خاص طور پر جب یہ سر پر حجاب پہنتی ہیں تو اور بھی زیادہ حسین اور پرکشش دکھائی دیتی ہیں. یہ لڑکیاں اپنے ملک کے قوانین کا مکمل احترام کرتے ہوئے حجاب زیب تن کرتی ہیں۔
ایران میں طلاق کی شرح 60 فی صد ہو چکی ہے؛ جس کی سب سے بڑی وجہ یہاں پر کی جانے والی عجیب و غریب طریقوں سے شادیاں ہیں. جس میں کچھ شادیاں کچھ دنوں، کچھ ہفتوں اور کچھ مہینوں کے لیے ہوتی ہیں۔ وقت ختم ہو جانے پر ’طلاق‘ ہو جاتی ہے۔ اس نکاح کو نکاح متعہ (النکاح المتعہ) کہا جاتا ہے۔ اس ملک میں شادی کے لیے لڑکی کی عمر 13 سال اور لڑکے کی عمر 15 سال ہونا ضروری ہے۔
ایرانی خواتین موٹر سائیکل یا بائیک پر بیٹھتے ہوئے اپنے دونوں پیر دونوں طرف رکھتی ہیں۔ یہ حفاظتی تناظرمیں بہتر ہے؛ جب کہ دیگر مسلم ممالک یا پھر ہندستان کی مسلم خواتین بائیک پر دونوں پیر ایک طرف کرکے بیٹھتی ہیں۔ اس سے گرنے اور چوٹ لگنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔حفاظتی تناظر میںیہی بہتر ہے کہ جب کوئی بائیک پر پیچھے کے حصے میںبیٹھے تو اپنے دونوں پیر دونوں طرف رکھے۔
ایرانی قانون کے مطابق 15 سال سے کم عمر کا لڑکا اگر کوئی جرم کرے تو اس کو کوئی سزا نہیں دی جاتی۔ جب کہ لڑکیوں کی عمر نو سال مقرر ہے۔ سنہ 2013ء میں بنائے گئے قانون کے مطابق یہاں پر کسی بھی عمر کا شخص 13 سال کی لڑکی سے شادی کر سکتا ہے۔ ایران میں عجیب وغریب طور پر’ اولاد‘ پر صرف اور صرف ’باپ‘ کا حق سمجھا جاتا ہے۔ اگر میاں بیوی میں کسی وجہ سے علاحدگی ہو جائے تو بچے باپ کے پاس رہتے ہیں ۔
ایران کی کرنسی کی بری حالت دیکھی۔ دس دس لاکھ روپے کا ایک نوٹ دیکھا۔ ایران کی کرنسی کو ’ایرانی ریال‘ کہا جاتا ہے۔ یہ دُنیا کی کم زور ترین کرنسی ہے۔
سنہ 2010ء میں ایک ہندستانی روپیہ 225 ایرانی ریال کے برابر تھا اور ایک امریکی ڈالر کے بدلے ساڑھے دس ہزار ایرانی ریال ملتے تھے۔ آج (2024ء) میں ایک ڈالر تقریباً 42 ہزار ایرانی ریال کے برابر ہے، جب کہ ایک ہندستانی روپیہ507 ایرانی ریال کے برابر ہے۔ اس سے آپ اس ملک کی کرنسی کی قیمت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ اس طرح اگر آپ کے پاس ایران میں 300 امریکی ڈالر ہیں تو آپ کا شمار کروڑ پتی ایرانی لوگوں میں ہوگا۔
عالمی طاقتوں نے ایران پر مختلف قسم کی پابندیاں لگا رکھی ہیں، ان پابندیوں کے تحت ایران کے ساتھ تجارتی لین دین کو جرم قرار دیا گیا ہے. ان پابندیوں کے دوران ایران نے خود کو اس قدر خود کفیل بنا لیا ہے کہ اب اس کو کسی بھی ملک سے بہت کم کوئی چیز خریدنی پڑتی ہے. یہی وجہ ہے کہ ڈالر اتنا مہنگا ہو جانے کے باوجود اس ملک میں نہ تو کوئی عوامی احتجاج ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی مہنگائی کا رونا روتا ہے۔
میں نے ہوٹل کا بل (bill) جو ادا کیا، وہ امریکی ڈالر کے حساب سے صرف 340 تھا۔ اور مقامی کرنسی کے اعتبار سے 34 لا کھ ایرانی ریال۔ عجیب بات ہے کہ ایرانی لوگ امریکہ سے شدید نفرت کرتے ہیں تاہم وہ امریکی ڈالر لینا پسند کرتے ہیں۔
میں مختلف یادوں اور تاثرات کے ساتھ مہان ایر لائنز (Mahan Airlines) کی فلائٹ نمبر (W55071) سے اپنے وطن ہندستان 19 مئی2010ء کی صبح کو واپس لوٹ آیا۔ میں نے ایر پورٹ پر فجر کی نماز ادا کی اور ایک ٹیکسی لے کر نئی دہلی میں واقع اپنی قیام گاہ کی جانب چل پڑا۔ میرے ذہن میں عابد ادیب کا یہ شعر گونج رہا تھا:
سفر میں ایسے کئی مرحلے بھی آتے ہیں
ہر ایک موڑ پہ کچھ لوگ چھوٹ جاتے ہیں
***
شاہ عمران حسن کی گذشتہ نگارش: سرسید احمد خان: ایک بے مثال رہنماے ملت

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے