وسیم عقیل شاہ نئی نسل کا ایک معتبر نام

وسیم عقیل شاہ نئی نسل کا ایک معتبر نام

نثارانجم (کلکتہ)

وسیم عقیل شاہ افسانوی دنیا کا ایک جانا پہچانا نام ہے۔ اپنی منفرد سوچ، شاداب فکر، ندرت بیانی اور لکھنے میں محتاط رویے کے ذریعہ آسانی سے پہچان لیے جاتے ہیں۔ ان کے فکری تموج میں تنوع رنگی ہے. زمینی زندگی سے جڑی کہانیوں میں فرد، معاشرے ملت اور ملک کے ترجمان اور صالح روایتوں کے امین اور پاس دار بن کر ابھرتے ہیں۔ ان کی کہانی روایت فکر کے نعمت خانے میں جذبوں کی دھیمی آنچ پر پکنے والا ایک ایسا روایتی لذیذ ڈش ہے جو ادبی ذائقہ سے بھرپور اور کسی ماہر ادبی طباخ کی نگرانی میں بڑی خوش اسلوبی سے تیار کیا گیا ہے۔یہاں تصوف کی چھاؤں میں روحانیت کی صندلی خوشبو بھی ہے، عرفان و ایقان کا نور بھی. نعمت خانے میں کھنکتے ہوئے کانچ کے برتن کے ساتھ دھیمی دھیمی اشتہا انگیز خوشبو میں مچلتی ہوئی بھوک بھی ہے، جو کسی ریحانہ تہذیب کی منتظر ہے۔
مومن باڑے کی رمضانی گلی سے ہجرت کرکے سن رائز اپارٹمنٹ میں پنپنے والا یہ روایتی عمل اب جدید تہذیب کی صلیب پر ہے. یہ صالح راویت کی ہجرت کا، نقل مکانی کا، تبدل زمانی کا اور نئی نسل کے نئے مسکن میں منتقلی کا نوحہ ہے، جس میں نشاط انگیز کیفیت بھی ہے اور بین السطور درد انگیزی بھی۔
روایتی عشائیہ کمنڈلی سے پارسل کنٹینر تک کی دو نسلوں کی تہذیب کے پس منظر کی یہ رو داد ہے جسے افسانہ نگار نے ایک ماہر طباخ کی طرح ایک نعمت خانے کی مکمل جزیات نگاری کے ساتھ متحرک رواں انداز میں پیش کیا ہے۔
افسانہ نگار نے راویت کے دو shades کو زمانی و مکانی تغیر و تبدل کے منظر نامے میں پیش کیا ہے. مومن باڑے میں وقوع پذیر ہونے والی روایت کی پاس داری تصنع سے پاک تھی۔ یہاں عقیدت کے نور سے لیس اور خدمت کے جذبے سے شرسار ریحانگی تہذیب کے شناسا کردار تھے۔
روایت کی یہ پاس داری پیروں اور فقیروں کی خدمت روحانیت اور معرفت کے حصول کی بنیادوں پر قائم تھی۔ زمانی اور مکانی تبدیلی کے بعد نئی نسل کے ہاتھوں جب یہ کار خیر ہاتھ لگا تو روایت کی پاس داری میں ظاہری چمک و دمک تو تھی لیکن روایت روحانیت سے خالی ایک رسم اور خانہ پری بن کر رہ گئی۔
دونوں تہذیبوں کے درمیان روایت کی پاس داری ایک مشترک اور مصنوعی چیز بن کر رہ گئی۔ روایت کی امانت داری اور اس کسوٹی پر کھری اتر نہ سکی۔روایت سے روایت تک کے سفر میں یہ باطنی روح سے خالی ہوگئی۔
افسانہ نگار نے زمانی اعتبار سے بدلتے تہذیبی لوازمات کو بدلتے لفظوں کے تناظر میں بڑی خوبی سے ایک ادبی فارمیٹ میں پیش کیا ہے۔ ایسے لفظوں کا انطباق اور بنت سازی اس طرح کی ہے کہ دونوں ادوار کی تصویری جھانکیوں کے معنوی نقوش ظاہر ہوجاتے ہیں۔
ریحانگی تہذیب کے نعمت خانے سے فوزیائی ڈائننگ روم تک کی جزیات نگاری بڑے احتیاط کے ساتھ کی گئی ہے۔ فکر کے دستر خوان کو سجانے میں ایسے لفظوں کا چناؤ کیا گیا ہے جو اس زمانے کے نواح لفظ کا احاطہ کرتے ہیں۔ ہم کہانی میں تیزی سے بدلنے والی تہذیبی نسل اور اس کے ورثے کو دیکھتے ہیں. کبھی سینی میں سجے لسی سے لبالب آب خورے ہوا کرتے تھے، یہ روایت زمانی آنگن عبور کرکے کولڈ ڈرنکس تک آئی ہے۔ مومن باڑے کی رمضانی گلی والی تہذیب اپنے شائستہ تمدن کی دہلیز پھلانگ کر طباق رکابی، پِرچ کھیر سے ہوتے ہوئے سن رائز کے اپارٹمنٹ تک پہنچی ہے. کھیر سے گاجر کے حلوے تک سفر کرنے والی روایت سیگڑیاں دلیم، پلاؤ، زردہ، گوشت کا سالن، کفگیر، کوچے، چکن گریوی، بھنے ہوئے گوشت کے تری دار شوربہ، زیرہ رائس، سلاد کی پلیٹوں کی لمبی قطار، بٹر نان کے ڈھیر اور ڈھنگ سے سینکی گئی بھاپ اڑاتی روٹیوں تک کے پڑاؤ میں روایت ایک رسم بن کر رہ گئی۔ سبز قالین پر سرخ دسترخوان سے سجی تہذیب الوداع کہتی ہوئی اس ٹیبل تک آگئی ہے جس پر پلاسٹک کے سلور دستر خوان بچھے ہوئے ہیں۔
آفتابہ اور سلفچی سے مہمانوں کے ہاتھ دھلوانے والی تہذیب اپنی پرانی ڈگر سے کوچ کرکے واش بیسن تک آئی ہے۔
افسانہ نگار نے روایت کی منتقلی میں پرانی تہذیب کے لوازمات کو نئی جدید تہذیب کے لیے جگہ خالی کرتے ہوئے بڑی خوبصورتی سے دکھایا ہے۔ دونوں طرف کے تضادات اور مناظر کو تہذیب کے ترجمان زبان اور نئے مکاں و زماں میں بدلتے لفظوں کی مدد سے بڑی خوب صورتی سے اتارا ہے۔
ریحانہ یہاں ایک کردار نہیں بلکہ ایک روحانی تہذیب ہے. مومن باڑے سے سن رائز اپارٹمنٹ میں تہذیبی شفٹنگ دراصل ریحانہ تہذیب کو صدمے سے دوچار کرکے موت کے گھاٹ اتارنا ہے۔ یہ تہذیب فطری موت نہیں مری ہے بلکہ جدیدیت اور سوشل اسٹیٹس کو بنائے رکھنے کی چاہ میں پرانی صالح تہذیبی روایتیں ترمیم و تنسیخ کے عمل سے دوچار اب اپنے اصل حسن اور روح کے ساتھ نہیں ہیں۔ ان کی مضبوط دیواریں زمانی اور مکانی جھٹکے سے لرز رہی ہیں. نئی نسلوں میں یہ روا یتیں یا تو رو بہ زوال ہیں یا دم توڑ رہی ہیں۔
بہترین زبان بھرپور جذبات نگاری سے مزین ایک اچھی ثقافتی روحانی کہانی ہے۔
نئ نسل کے افسانہ نگاروں کی بھیڑ میں وسیم عقیل شاہ شاداب فکر،توانا لہجہ اور موضوعات کی تنوع رنگی سے آسانی سے شناخت کر لیے جاتے ہیں.
وسیم عقیل شاہ زمینی زندگی سے جڑی کہانیوں کو بننے میں طاق ہیں۔ کہانی کے کینوس پر تخیل کے برش سے لفظوں کے رنگ بکھیرتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ذہن کے اسکرین پر کرداروں سمیت سارا منظر اپنی پوری جزئیات نگاری کے ساتھ چل رہا ہو اور کہانی کار اپنے کردار کی انگلی پکڑے کہانی کے آخری چھور تک پہنچ رہا ہو، اس عمل میں قاری کردار اور منظر نگاری سے محظوظ اور کلائمکس کے سحر میں خود کو جکڑا ہوا پاتا ہے۔ کہانی "بجھے ہوۓ دئے" میں انتظار کی صلیب پر لٹکی امید اور یاس سے بھری امیشا کا کردار بھی خوب ہے اور فطری ہے۔ دیوالی کے موقعے پر صاف ستھرے اور اجلے مکانوں کے درمیان آکاش کے مکان کا بے رنگ ہونا جب کہ سارا گاؤں بقعہ نور بنا ہوا تھا۔
امیشا دیوار کی اوپری سطح پر ٹھوڑی رکھ کر گلی میں دیکھنے لگیـ گلی آج خوب صاف ستھری نظر آ رہی تھی. بس سوکھے پتے ہی تھے جو شرارتی بچوں کی طرح ادھر ادھر بھاگے جا رہے تھے۔ سوکھے پتے اور شرارتی بچوں سے اس کی تمثیل نے منظر کو فطری حسن کے قریب تر کردیا ہے۔ یہ تیوہار کا موقع تھا، اس لیے گاؤں کے تقریباً سارے مکان اجلے اجلے سے تھے اور ایک خوش گوار تاثر دے رہے تھےـ ایسے میں آکاش کے گھر کا نقشہ کھینچتے ہوئے یہ کہا گیا ہے کہ:
” اس وقت یہ گھر نہیں بلکہ روشن دیوں کی قطار میں ایک بجھا ہوا دیا نظر آ رہا تھاـ" اداسی کا منظر تخلیق کرتے ہوئے بجھے ہوئے دیے کی تمثیل تجسس آمیز ہے۔ قاری کو وہ یہاں نہیں بتاتے ہیں کے ایسا کیوں ہے۔ امیشا دیوالی کے موقعے پر اپنے والد کا انتظار کررہی تھی۔ بار بار ماں اور دادی سے پوچھ رہی تھی کہ ابو دیوالی پر گھر آرہے ہیں نا۔۔۔۔۔
"آکاش کے پاپا بھی شہر ہی گئے تھے نا، انھیں بہت سارے لوگوں نے مل کر کیوں مار دیا تھاـ"
صبح کے جاڑے کی دھوپ میں درختوں پر چہچہا تے پرندوں سے دن چڑھنے تک وہ اپنے والد کا انتظار کرتی رہی۔ دن ڈھلنے لگا اور شام کی سیاہی فضا میں پھیلنے لگی مگر اب تک اس کے والد کی کوئی خبر نہیں ہے۔ امیشا آنکھیں بچھائے منتظر تھی اپنے والد کی جو شہر گئے ہوئے تھے۔ قاری بھی امیشا کے انتظار کے دکھ اور اس کی شدت کو محسوس کرتا ہے۔ کہانی بجھے ہوئے دیے میں کہانی کار نے آکاش کے پتا کے حوالے سے امیشا کو انتظار کی عجیب سی نفسیاتی کشاکش میں گھرا اس طرح دکھایا ہے کہ مانو کوئی ناخوش گوار واقعہ رونما ہونے والا ہے۔آکاش کی فکر لیے اپنے والد کے انتظار میں بے حال تھی کہ:
"چورنگ پر اس کی من پسند پورن پولی، گلونی اور آمٹی رکھی تھی لیکن ایک ایک نوالہ اس کے لیے پہاڑ جیسا تھاـ اس کی نظر بار بار گھڑی پر جا کر ٹھہر جاتی. "
کہانی میں کچھ منظر اور بیان بڑے فطری لگے.
"سورج کسی نٹ کھٹ بالک کی طرح دور کہیں پچھم کی طرف جا چھپا تھاـ شام کا ملگجی اندھیرا دھیرے دھیرے آسمان کو کالی چادر سے ڈھک رہا تھاـ ادھر زمین پر روشنیوں کی ایک نئی دنیا جھلملا رہی تھی. گھر گھر دیے جل اٹھے تھےـ جدید طرز کے خوب صورت قندیلوں سے آنگن جگمگا رہے تھےـ لکشمی پوجا کا وقت آن پہنچا تھا."
"وہ پھلجھڑی کی طرح تڑ تڑ جل اٹھی تھی." آکاش سے ملنے جانے کی تڑپ اور ماں کا ہاتھ پکڑ کر کھانے کے لیے بیٹھا لینا اس نفسیاتی کیفیت کو کیا ہی خوب صورتی اور ندرت سے بیان کیا گیا ہے۔ امیشا اداس اور بہت غمگین تھی ـ اس کے دل میں ایک ہوک سی اٹھتی تھی. اپنے ہم جماعت آکاش کے گھر کو دیکھ کر وہ اور بھی غمگین ہو گئی، جو بے رنگ و روغن تھا اور عجیب اجڑا سا دکھائی دے رہا تھا. 
انتظار کی صلیب پر ٹنگی امیدوں سے اٹی اور یاس سے لدی امیشا کی کردار نگاری میں افسانہ نگار کے قلم نے فطری رنگ گھول دیا ہے۔ کہانی کے کلا یمکس میں قاری کا سارا تجسس کھل کر سامنے آتا ہے۔ ناخوش گوار واقعے کی آہٹ سے سہمی ہوئی قاری کی فکر امیشا کے والد کی خیریت سے گھر پہونچنے کی خبر سے اطمینان کی سانس لیتی ہے۔ پھر اچانک ہوا میں بہت سے راکٹ چھوٹے، نور کے بے شمار دانے آسمان میں بکھر گئے. راستے کے کنارے انار کی قطاریں شر شر کرتی جلنے لگیں. بچے ہاتھوں میں پھلجھڑیاں لیے کودنے لگے اور پٹاخوں کی گونج سے پوری گلی دہل اٹھی. لیکن، ان سب سے بے نیاز امیشا اپنے پاپا کے سینے سے جا لگی تھی. 
وسیم عقیل شاہ اس عہد کے بدتر سیاسی منظر نامے کے ترجمان ہی نہیں بلکہ اس سلگتے ہوئے نڈھال اور بے بس سیاسی منظر نامے کا بڑے کمال سے نقشہ بھی کھینچتے ہیں۔ جس میں ہم اس عہد کی سانسوں کی گرمی بھی محسوس کرتے ہیں۔ یہاں کہانی تماشا بین میں کہانی کار وزیر کا قالب میں ڈھل کر اپنی مدعا کا اظہار یوں کرتا ہے کہ کہانی کا نقطہ عروج کھل کر سامنے آتا ہے۔
"جہاں پناہ! اول تو سلطنت قدرتی آفت کی زد میں ہے. برسات مستقل مسئلہ بنی ہوئی ہے. جھیلیں، کنویں، تالاب سب سوکھے جا رہے ہیں. مویشی فوت ہو رہے ہیں. اناج کی قلت درپیش ہے. غربت در پے آزار ہے. شکم کی آگ آدمی کو سب کچھ کر گزرنے پر مجبور کیے ہوئے ہے. معیشت تنزل کے دہانے پر کھڑی سسکیاں لے رہی ہے. ملازمت مفقود اور تجارت مسلسل خسارہ اٹھا رہی ہے. غرض کہ حالات بد سے بدتر ہو چلے ہیں. جہاں پناہ، اگر اس صورت حال کا کوئی مناسب حل تلاش نہیں کیا گیا تو عن قریب…."
وسیم عقیل شاہ کے موضوعات کا کینوس بڑا ہے۔ کہانی تماش بین معاشرہ ملک اور فرد پر طاری بے حسی کا دکھڑا بیان کرتا ہے۔ بے حس معاشرہ اپنے اطراف کے مسائل سے بے خبر بے حسی کی چادر تانے سورہا ہے۔کہانی کار نے ایک ایسا کلوزیم پیش کیا ہے جس میں دو گلیڈٹر تلوار بازی کے مقابلے کے لیے تماش بین سے بھری پری کلوزیم میں آتے ہیں۔ بادشاہ کے ساتھ ساتھ وزیر، امرا، فوج کے افراد، مذہبی شخصیات اور عوام کا ہر طبقہ اس تماشہ گاہ میں موجود ہے۔ جہاں تلوار بازی میں ہارنے والے کو چیتے کے آگے چھوڑدیا جاتا ہے۔ چیتا پہلے تو اس زخمی شخص کے ساتھ کھیلتا ہے پھر اس کی گردن کو اپنے جبڑوں میں دبا کر پنجڑے میں گھسیٹ لے جاتا ہے۔ یہ وہ بے حس تماش بین کا تماشہ گاہ ہے جہاں ہارنے والے، زخمی ہونے والے اور چیتے کے ذریعہ جبڑوں میں دبوچنے پر خوشیاں منائی جاتی ہیں۔ ظلم ہوتے دیکھ لوگوں کو مزہ آتا ہے۔ عوام کی بے حسی کی کیفیت کو بادشاہ مزے لے کر یوں بیان کرتا ہے گویا مظالم کا ظلم اور تکلیف اس کے لیے ایک تفریح بخش مشغلہ ہے۔
"ہارنے والا جب زخموں سے اٹھنے والے درد سے تڑپتا ہے یا جب درندہ اس کی گردن اپنے جبڑے میں دبوچتا ہے تو یہ لوگ خوشی سے اچھل پڑتے ہیں، شور مچاتے ہیں، تالیاں بجاتے ہیں."
مصنف کی آواز دراصل وزیر کی آواز ہے جو سلطنت کے احوال سے دکھی ہے، حالات بدلنے کے لیے صدائیں لگاتا ہے۔ جہاں پناہ کے آگے ملک کی صورت حال اور سنگینی کو پیش کرتا ہے لیکن وزیر کی آواز بادشاہ کے قہقہوں میں ڈوب جاتی ہے۔ اور بادشاہ کو بھی اس کے سلطنت کی رعایا کی بے حسی کا علم ہے۔ اور وہ اس کا برملا اظہار بھی کرتا ہے۔
"اور حقیقت یہ بھی ہے کہ ان کی بے حسی نے انھیں اس درجے کا تماشا بین بنا دیا ہے کہ وہ اب کسی کی جیت پر خوشی کا اظہار نہیں کرتے اور نہ ان کے لیے تالیاں بجاتے ہیں. بلکہ وہ ہارنے والے کی ہار پر خوش ہوتے ہیں."
ہم یہاں ایک بے حس معاشرے کی نشتر زنی کرتے ہوئے اس ادیب کو پاتے ہیں جو معاشرے میں فعالیت لانے کا خوگر ہے، جو پرانے نظام پر خون کے آنسو بہاتا ہے۔ ان تماش بینوں کی بے حسی کو چاک کرنے کا تمنائی ہے۔ بادشاہ اپنی سلطنت کی رعایا کی بے حسی پر خوش ہے. وہ اپنی رعایا کی نفسیات سے کماحقہ واقف ہے۔
"اس نے حالات کو بدلنے کا راستہ چنا تھا جب کہ یہ لوگ خود نہیں چاہتے کہ ان کے حالات بدل جائیں. اس لیے کہ وہ جانتے ہیں یہ راستہ تلوار کے سایے سے گزرتا ہے. لہذا خوف اور بزدلی نے انھیں بے حس بنا دیا ہے. وہ اب صرف تماشا بین ہی بنے رہنا چاہتے ہیں."
اس منظر نامے میں ہمیں قدیم رومیوں جیسے حالت زار دکھائی دیتے ہیں.
کولوزیئم (Colosseum) روم کا ایک مشہور اکھاڑہ تھا. یہ اکھاڑہ رومن بادشاہ ٹائٹس نے تعمیر کروایا تھا. یہاں خونی کھیلوں کا مظاہرہ کیا جاتا تھا. غلاموں، جنھیں Gladiators کہا جاتا تھا،  کو آپس میں لڑایا جاتا تھا۔ جہاں لڑائی ہوتی تھی وہاں ریت کی موٹی تہہ بچھا دی جاتی تھی کہ لڑنے کے دوران زخمی glidiators کا خون ان ریت کی دبیز تہہ میں جذب ہوسکے۔ اس کلوزیم میں تقریبا 50 ہزار تماش بین کے بیٹھنے کی گنجائش تھی. بادشاہ، امرا، نائٹس مصاحبین، عام شہری اور غلام تماش بین کے طور پر موجود ہوتے تھے اور اس خونی کھیل سے محظوظ ہوتے تھے۔
قدیم روایت کی واپسی ایک خدشہ بن کر سروں پر منڈلا رہی ہے۔ ملک کی ابتر حالت دیکھ کر وزیر بھی خائف ہے اور موجودہ صورت حال کی سنگینی کو دور کرنے کے لیے بادشاہ کے آگے عرض داشت پیش کرتا ہے۔بادشاہ وزیر کی اس فکرمندی کو دور کرتے ہوۓ کہتا ہے. 
"تمھیں ان کی فکر میں ہلکان ہونے کی ضرورت نہیں، سلطنت کی رعایا بے حس ہو چکے ہیں اور بے حس رعایا سے میری سلطنت کو کبھی کوئی خطرہ لاحق نہیں ہو سکتا." اس کہانی کی اصل خوبی اس کے ٹریٹمنٹ میں ہے۔ یہاں تکنیک کا جوہر کہانی کی رگوں میں تشکیلی عروج سے منتہائے کمال تک ہے۔ یہ کہانی کہنے کا ہنر ہے جو کہانی کار کی تخلیق میں جھلکتا ہے۔ کہانی کی تشکیلی فضا بننے میں یہاں تک کہ جزئیات نگاری میں بھی وہ بڑا محتاط رویہ اپناتے ہیں۔ الفاظ کی کفایت شعاری economy of words جملے متن میں رمز و ایما گھول دیتے ہیں۔ رمز و ایما صنف شاعری میں بڑی اہمیت کا حامل ہے لیکن جب کوئی کہانی کار اس رمز و ایما کو برتتا ہے تو زبان میں معنویت کے ساتھ جامعیت اس فکر کو اور بھی شاداب بنا دیتی ہے۔ ان کی شادابی فکر اور موضوع کی رنگا رنگی دوسروں سے الگ کرتی ہے۔
***
صاحب مضمون کی گذشتہ نگارش:کچے رنگوں کی محبت

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے