کچے رنگوں کی محبت

کچے رنگوں کی محبت

ناہیدطاہر

محفلِ مشاعرہ، جس پر رنگینی چھائی ہوئی تھی یہاں ہر طرح کے غزل گو شاعر مدعو تھے۔ کسی نے انقلابی کلام پیش کیا اور کسی نے نیم رومانوی اشعار سے سامعین کے دلوں کے تار چھیڑ دیے تھے۔ لیکن فائزہ پروین کے آتے ہی ایک پُرکیف سماں بندھ گیا۔ وہ ہمیشہ کی طرح محفل پر چھا گئی۔ سامعین اور معزز صدر کی جانب سے اتنی پذیرائی اور دادِ تحسین حاصل ہوئی کہ وہ مغرور ہونے لگی۔ اس کی آنکھوں کی چمک بڑھ گئی تھی۔
مشاعرہ جب اختتام کو پہنچا تو مختلف الالوان ضیّافتوں سے سجے میز پر پروین نے ڈنر کیا۔ کچھ ساعتوں بعد ہاتھ میں پیپسی کی ٹن لیے لان میں چلی آئی۔
لان کی کھلی فضا بدن کے ساتھ جیسے روح کو معطر کرگئی۔ وہ پیپسی کے چھوٹے چھوٹے سِپ لیتی ہوئی ٹہل رہی تھی، اچانک کہیں سے خوب صورت آواز سماعت سے ٹکرائی۔ آواز میں اتنا سحر تھا کہ وہ مبہوت ہو کر اس سمت کھینچی چلی گئی۔ پتا نہیں کون تھا جو اس کا کلام نہایت خوب صورت ترنم میں پڑھ رہا تھا۔
سُر کی تان ٹوٹی تو اس پر چھایا سحر بھی ٹوٹا اور وہ بے اختیار تالیاں بجانے لگی۔
وہ شخص بدحواسی کے عالم میں کھڑا ہوا اور دوسرے ہی پل حیرت ومسرت سے کہہ اٹھا۔
” فائزہ پروین آپ ؟“
جواب میں پروین دل فریب انداز میں مسکرائی اور کچھ توقف کے بعد گویا ہوئی۔
” آپ کی آواز بہت خوبےصورت ہے !“
دوسرے ہی لمحے پروین کے چہرے پر حیرت کی پرچھائیاں لہرا گئیں۔ اس غیر متوقع طور پر رونما معجزے سے وہ حیرت کے سمندر میں غوطہ زن تھی۔
دل و دماغ پر یادوں کا دھواں پھیلنے لگا۔ ’معاذ ‘ وجود کے تئیں ایک طوفان سا اٹھا۔ وہی جاذب نظر، بلند قد، خوبرو نوجوان جس کی آنکھوں پر صرف عینک کا اضافہ ہوا تھا۔ وہ خاموش تھی، اس کی سماعت سے اس شخص کی گمبھیر آواز ٹکرائی۔
”یقین کریں ، میں آپ کا بہت بڑا مداح ہوں۔“
جواب میں پروین نے دل فریب انداز میں مسکراتی ہوئی شیریں آواز میں اجازت طلب کی. 
”کیا میں یہاں بیٹھ سکتی ہوں۔؟“
” شرمندہ نہ کریں یہ تو میری خوش نصیبی کہلائے گی“
اس کا لہجہ پُرمسرت تھا۔
پروین شکریہ ادا کرتی ہوئی اُس کے پہلو میں بیٹھ گئی۔کچھ لمحات تعارفی گفتگو کے نذر ہوئے پھر معاذ ، اجازت طلب کرتا ہوا پروین کی پہلی غزل اپنی خوب صورت آواز میں سنانے لگا جو ابتدائی دنوں میں بہت ہی مشہور ہوئی تھی۔
فلک پہ چمکتا چاند اور لان کے کناروں پر کیاریوں میں سجے پھولوں کی بھینی بھینی خوشبو نے دل و دماغ کو معطر کیا۔ آواز کاجادو تھا یا ماحول کا سحر، دونوں کے وجود پر سرور آمیز کیفیت طاری ہونے لگی۔ معاذ کے پاس پروین کے کلام کا ایک ذخیرہ موجود تھا، پروین کی سانسیں سینے میں الجھنے لگیں۔ جس کی یاد اور ہجر میں قید، اس نے بے شمار اشعار لکھے تھے۔ وہی شخص ساری امانتیں سنبھالے، حقیقت کا روپ دھارے اس کے پہلو میں آبیٹھا تھا۔
” مجھے آپ کے کئی اشعار یاد ہیں۔“
” اچھا “
” آپ استادِسخن ہیں۔ “
یہ سن کر پروین دوبارہ مسکرائی اور شکریہ ادا کیا۔
” آپ کا آٹوگراف چاہتا ہوں۔“
اس نے ڈائری پیش کی۔ پروین کچھ تذبذب کا شکار رہی، پھر اس نے ہاتھ بڑھا کر ڈائری تھام لی اور لکھا۔
”اس حقیقت کے نام، جسے میں نے سراب سمجھا ۔“
نیچے اپنا نام لکھ دیا۔ خوب صورت عبارت کا مفہوم سمجھنے سے قاصر معاذ کے چہرے پر مسرت خیز تبسم کِھلا۔
”بہت بہت شکریہ۔۔۔!!
” آپ شملہ سے تعلق رکھتی ہیں؟“
”جی!“
” میرا آبائی وطن بھی وہی ہے۔“
” مجھے پتا ہے !“
”کیا مطلب ؟“
معاذ حیرت سے پروین کو دیکھنے لگا۔
” ہم کبھی پڑوسی ہوا کرتے تھے۔“
” واقعی؟ تعجب کا مقام ہے؟ مجھے اس بات کا علم ہی نہیں ؟“
وہ ایک بار پھر حیرت سے اچھل پڑا۔
” مرتضٰی احمد خان میرے والد محترم
تھے “
پروین نے انکشاف کیا تو وہ کُھل کر مسکرایا۔
” اوہ! بالکل پڑوس میں ان کا مکان تھا۔ لیکن میں نے آپ کو کبھی نہیں دیکھا۔؟ جب کہ ان کے ایک فرزند، علی میرے ہم عمر تھے۔ ان سے رسمی تعلقات تھے ۔“
” جی۔۔! ابو کی خواہش تھی کہ علی بھائی آپ جیسے ہونہار انسان بنیں۔“
”اوہ۔۔! “
معاذ ، پروین کی باتیں بڑی دل چسپی سے سنتا ہوا مسکرائے جارہا تھا۔
” محلے میں سب آپ سے متاثر تھے۔“
” یہ بات قابلِ قبول نہیں!“
اس نے شرمندگی سے ہنستے ہوئے کہا۔ اس طرح گفتگو کا سلسلہ تقریب کے اختتام تک جاری رہا۔
” کل کی شام آپ کے ساتھ گزارنا چاہتا ہوں، کہیں آپ مصروف تو نہیں؟“
”میں نے تو زندگی سونپ رکھی ہے، ایک شام کی بات کررہے ہو ؟“
پروین کی دھڑکنیں شکوہ کرگئیں۔ پروین کو خاموش پاکر اس نے دوبارہ اصرار کیا۔
”ان شاءاللہ میں کوشش کرتی ہوں۔ “
معاذ ایک سافٹ ویئر انجینئر تھا۔ سلجھا ہوا، قابل انسان، محلے کے بزرگ چاہتے تھے کہ ان کی اولاد بھی معاذ کی روش اختیار کرے۔ خود پروین کے والدین کی آرزو تھی کہ ان کا بیٹا علی، معاذ جیسا ہونہار بنے۔
گھر میں صبح و شام صرف معاذ اور اس کی خوبیوں کا ذکر ہوتا تھا۔ پروین، معاذ کی خوبیوں سے واقف تو نہیں تھی ہاں دن رات کے ذکر نے اس کے دل میں معاذ کے لیے حسین و رنگین جذبات بیدار کردیے۔ دل ہولے ہولے دھڑکنے لگا اور ان دھڑکنوں پر معاذ کا نام لکھا جانے لگا۔وہ ہر پل اسے سوچتی اور تنہائی میں اس کے تصور سے ڈھیر ساری باتیں کرتی۔ خوب صورت جذبات و احساسات سے مزین وقت کھلکھلاتا ہوا آنکھ مچولی کھیلتا تیزی سے گزر گیا۔ معاذ، ترقی کی منازل طے کرتا چلاگیا۔ اس کے برعکس پروین کی زندگی کسی کچھوے کی مانند رینگنے پر مجبور تھی۔ مفلسی، بے روزگاری، آہیں اور تفکرات نے گھر کے آنگن میں بسیرا کر رکھا تھا۔امن اور سلامتی کے کبوتر کا یہاں گزر ہی نہیں ہوتا۔ ان حالات میں پروین کی شادی بہت بڑا مسئلہ تھی۔ غریبی اس قدر تھی کہ بیاہ کے تئیں سوچنا جیسے جرم تھا۔ اکثر وہ خیالوں کی مہکتی راتوں میں معاذ کے ساتھ ایک زندگی جی لیتی، احساس کے دھویں کو ڈائری میں تحلیل کرنے کی کوشش کرتی۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ وہ ایک شاعرہ بن کر دنیا کے سامنے ابھر آئی۔ بے رحم وقت نے کوئی کروٹ نہیں بدلی، صرف یہ احسان کیا کہ اسے وقت کی معروف ترین شاعرہ بنا دیا۔
معاذ نے کسی امیرزادی سے شادی کرلی اور یہ خبر پروین پر بجلی بن کر گر پڑی تھی۔ وہ جیسے غم و یاس کے سمندر میں ڈوبتی چلی گئی۔ اس کے اشعارمیں یاسیت، ہجر اور تنہائی کے رنگ اترنے لگے۔ پھر ایسا ہوا کہ شادی کے چند ہی ہفتوں بعد وہ اپنی بیوی کو لے کر کہیں روپوش ہوگیا۔
معاذ کی گاڑی وسیع سڑک پر فراٹے بھرتی ہوئی منزل کی جانب کوشاں تھی۔ دونوں کے درمیان بوجھل سی خاموشی طاری رہی۔ ہاں دل کی دھڑکنیں صاف سنائی دے رہی تھیں۔ خوب صورت جھیل کے کنارے پہنچ کر معاذ نے گاڑی پارک کی۔
گنگناتی ہوئی سرمئی شام کا منظر بہت حسین اور دل فریب تھا۔ پرندے، رنگ برنگی، شوخ مچھلیوں کا شکار کرتے ہوئے مغرور دکھائی دے رہے تھے۔ بطخوں کے خوب صورت جوڑے ایک دوسرے سے چونچیں ملاتے ہوئے جیسے عہدِ وفا کی پاس داری کرتے نظر آئے۔۔۔ یہ نظارہ سیاحوں کی دل چسپی کا خصوصی مرکز بنا ہوا تھا۔ سیاحوں کے موبائل سیلفی کے ذریعے ان کی معصوم محبت کے گواہ عینی بنتے ہوئے مسکرا رہے تھے۔
سرسراتی ہوائیں اور ان ہواؤں سے اڑتے خشک زرد پتے، ڈوبتے سورج کی سنہری کرنیں، ماحول کو ایک جادوئی کیفیت بخش رہی تھی۔
معاذ پروین کی کئی غزلیں خوب صورت ترنم میں سناتا چلا گیا. 
”آپ کی فیملی اور بچے کیسے ہیں؟“
اس اچانک کیے گئے سوال پر معاذ بجھ گیا۔ پروین نے محسوس کیا، شاید ذاتیات پر مبنی سوال معاذ کو ناگوار گزرا تھا۔
” آپ سنائیں آپ نے شادی کیوں نہیں کی؟ آئے دن یہ موضوع میڈیا پر خوب گردش میں رہتا ہے۔“
معاذ نے سوال کے جواب میں سوال داغا تو پروین ہنس پڑی۔
”آپ میرا سوال تو حذف کرگئے۔۔۔
خیر! شادی نہیں کرنے کی وجہ، مجھے کسی راج کمار سے عشق ہوگیا تھا“
”کہیں وہ ، میں تو نہیں؟“
”خوش فہمی!“
پروین زور سے ہنسی، معاذ بھی ہنسنے لگا۔
” مجھے اکثر ڈوبتے سورج کی کرنیں اداس کر دیتی ہیں، حیرت ہے آج میں اداس نہیں“
پروین سنہری بوجھل کرنوں کو دیکھتی ہوئی گنگنائی۔ معاذ اس کی جھیل سی گہری آنکھوں میں کھو گیا۔
فطرت کا لطف اٹھاتے ہوئے دونوں نے اس شام کو یادگار بنایا۔
دوسری شب معاذ نے پروین کو ڈنر پر مدعو کیا۔ اس کی نگاہیں معاذ کی بیگم اور بچوں کو تلاش کررہی تھیں۔ معاذ  اس کی کیفیت بھانپتے ہوئے ہنسا۔
” شاید آپ میری بیگم اور بچوں کو ڈھونڈھ رہی ہیں؟“
” جی ہاں“
” میری بیوی میرے ساتھ نہیں رہتی “
”میں سمجھی نہیں؟“
” شادی کے صرف چند ماہ بعد ہی اس نے مجھ سے خلع لے لیا تھا۔“
پروین حیرت سے معاذ کو دیکھنے لگی۔ معاذ ایک قابل انسان تھا۔ دنیا کی ہر آسائش اس کے قدم چوم رہی تھی۔بیوی کا خلع لینا یقینا ایک معما تھا۔
کھانا، معاذ نے خود بنایا تھا، جو بے حد لذیذ تھا۔ اس حسین شام کی ملاقات نے ہجر کی چادر اوڑھے دونوں کو جدا ہونے پر مجبور کیا۔ یادوں کے خوش نما پھول سمیٹے وہ شملہ لوٹ آئی۔
دونوں کے درمیان گہری دوستی ہوئی، اکثر رات بھر بے شمار موضوعات پر تبادلۂ خیال ہوتا لیکن ذاتیات پر مبنی گفتگو سے دونوں ہی پرہیز کرتے۔
یوں وقت تیزی سے آگے بڑھتا چلا گیا۔ اس دوران پروین کے والدین کا انتقال ہوگیا، بھائی اپنے سسرال ممبئی شفٹ ہوا۔
پروین کی تقرری کسی کالج میں بہ طورِ پروفیسر ہوگئی۔
ایک شام ڈور بیل پر پروین نے دروازہ کھولا تو سامنے معاذ کو پاکر حیران رہ گئی۔
”آپ۔۔۔؟“
”جی۔۔۔! “
اس نے مسکراتے ہوئے پروین کی آنکھوں میں جھانکا۔
” سرپرائز، بنا کسی اطلاع ؟“
”آفس کے کام سے شملہ آیا ہوں، سوچا اپنی دوست کی خیریت پوچھ آؤں۔“
” اچھا کیاکچھ تو حوصلہ دکھایا۔“
”آپ چوٹ کررہی ہیں؟“
جواب میں پروین کھلکھلا کر ہنس پڑی۔
”گزشتہ ملاقات کو کتنا عرصہ بیت گیا لیکن ایسا محسوس ہورہا ہے جیسے کل ہی کی بات ہے۔“
معاذ کے اس جملے پر پروین اداسی سے مسکرائی اور نہایت کرب انگیز لہجے میں کہنے لگی۔
”رب نے جھوٹ سے منع کیا ہے. پھر کیوں جھوٹ بولتے ہو؟ ہجر کی لمبی و سیاہ راتوں کو گن گن کر گزرا گیا ہے۔۔۔۔
یاسیت میں ڈوبی غزلوں کا ہر مصرع اس بات کا گواہ ہے!“
یہ سن کر معاذ دکھ سے مسکرایا۔ ڈھیر ساری باتیں انھوں نے دروازے میں کھڑے کھڑے ہی کرلی تھیں۔ شاید دونوں ہی اس ملاقات کے سحر میں تھے۔
باہر برف گر رہی تھی۔ پروین نے آتش دان میں لکڑیوں کو سلگایا۔ اس کے باوجود کمرے کی یخ بستہ خنکی میں کوئی فرق نہیں آرہا تھا۔ شاید دونوں کے وجود میں ماضی برف بن کر جم گیا تھا۔
”آتش دان کے قریب اس صوفے پر بیٹھ جائیں“
پروین نے آتش دان میں لکڑیوں کا اضافہ کرتے ہوئے اشارہ کیا۔ وہ اٹھا اور آتش دان کے قریب صوفے پر بیٹھ گیا۔ دونوں نے وہیں بیٹھ کر خاموشی سے ڈنرکیا۔ اس کے بعد پروین نے کافی بنائی اور کافی کی چسکیوں کے دوران شاعری پر بات چیت ہونے لگی۔ اشعار پر تبصرے بھی ہوئے لیکن ذراسی دیر میں وہ پروین کی غزل گنگنانے لگا۔ پروین پر ایک سحر طاری ہوا۔ گویا خود کا کلام پہلی بار سن رہی تھی. ہر لفظ دل اور روح کی گہرائیوں میں پیوست ہوتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔
دنیا و مافیہا سے بے خبر، سلگتے وجود کے اطراف شاعری کی کئی کتابیں پھیلی ہوئی تھیں۔ ان کتابوں سے کوئی کتاب اٹھا کر جب وہ معاذ کو دینے لگتی اس دوران لمس کا ننھا سا شبنمی قطرہ جو دل پر چھائے ریگستان کو چھو کر اسے سیراب کرنے کی کوشش کرتا۔۔۔
پروین جب شاعری سے اکتاگئی تو اس نے پہلو بدلتے ہوئے بنا کسی تمہید کے سوال کیا۔
”شریکِ حیات کی یاد آتی ہے؟ “
پروین کے اچانک سوال پر معاذ چونکا!
”کچھ یادیں صرف یادیں نہیں بلکہ زندگی کا اثاثہ ہوتی ہیں جیسے آپ کے ساتھ گزرے مسوری کے وہ حسین لمحات ۔۔۔۔
کچھ یادیں ایسی بھی ہوتی ہیں جو سوائے درد اور زخموں کے کچھ نہیں دیتیں۔ شریکِ حیات سے منسلک یادیں تو صرف زخموں سے پُر ناسور بنی ہوئی ہیں۔“
پروین نے اسے غم کے دریا میں غوطہ زن پاکر نہیں چھیڑا اور چپ چاپ سنتی رہی۔
”بے وفا چاہتیں ! “
وہ اپنی زندگی کی کتاب کے اوراق اُلیٹتے ہوئے گہرے کرب سے بول رہا تھا۔
پروین دھیرے سے بھیگی پلکوں کی جھالر اٹھاتے ہوئے نم آواز میں گویا ہوئی۔
” چاہتیں کبھی بے وفا نہیں ہوسکتیں !“
”ممکن ہو لیکن میری بد نصیبی کہہ لیں کہ تقدیر کی سیاہی نے اس المیہ کو میری پیشانی پر پیوست کردیا۔ آزمائش کی بھٹی میں جل رہا ہوں۔ ایک آگ کا دریا ہے جس میں ڈوب چکا ہوں مگر اب دم گھٹ رہا ہے۔“
معاذ کی آنکھیں چھلک گئیں۔ پروین بس خاموش نگاہوں سے اسے دیکھتی رہی۔
”اختلاف اور نفرتیں زیادہ ہوں تو محبت کی دلیلیں کارآمد ثابت نہیں ہوتیں۔ ایسے میں خاموشی کے دریا میں خود کو غرق کردینا چاہیے. نفرت اور اختلاف کی آگ خود بہ خود بجھ جائے گی، سو میں نے خاموشی کی چادر تان لی، تقدیر کے فیصلوں کے آگے کبھی لب کشائی نہیں کی لیکن اب تھک گیا ہوں“
آتش دان کی دھیمی تپش محسوس کرتے ہوئے پروین نے پہلو بدلا اور نہایت سنجیدگی سے استفسار کیا۔
”علاحدگی کی کوئی وجہ؟ مناسب سمجھیں تو اس غم میں اپنا شریک بنائیں۔ کیونکہ دکھ بانٹنے سے کچھ کم ہوتے ہیں ۔“
”صحت کے کچھ مسائل تھے ۔“
معاذ شرمندگی سے نظریں چرانے لگا۔
”اوہ! “
خواہ مخواہ اس نے معاذ کی دکھتی رگ پر انگلی رکھی تھی۔ وہ شرمندگی محسوس کرنے لگی۔
” علاج کی کچھ ضرورت تھی سب ٹھیک ہوسکتا تھا لیکن اس نے انتظار نہیں کیا اور صرف چند ہفتوں میں خلع کا تقاضہ کردیا۔ دنیا کے سامنے مجھے اتنا رسوا کیا کہ میں کئی مہینوں تک اپنا چہرہ چھپائے بیٹھا رہا۔“
” اوہ۔“
”پروین ! تم بتاؤ ، تم نے شادی کیوں نہیں کی ؟ “
معاذ آپ سے تم پر اتر آیا اور نہایت اپنائیت سے سوال کیا تھا۔ معاذ کے اس سوال پر پروین دھیرے سے اٹھی اور پانی کی بوتل اٹھائی۔ پیاس سے اس کا گلا خشک ہو رہا تھا۔ باہر برف میں تیزی آگئی تو پروین نے بوتل تھامے ہوئے آتش دان کے قریب پہنچ کر اس میں مزید لکڑیاں ڈال دی۔
کھڑکیوں کے گلاس پر کمرے کی حرارت اور باہر کی خنکی کے باعث بھانپ کے قطرے ایک عجب انداز میں رقص کرتے دکھائی دیے۔ خاموشی بوجھل ہونے لگی تو پروین نے بوتل کے اطراف انگلیوں کی گرفت تنگ کرلی۔گلے کو تر کیے بنا جیسے خود کو سزا دیتی ہوئی معاذ کے سوال کا جواب دینے کی کوشش کی. 
” زندگی میں کئی مواقع آئے، کئی ایک نے قدموں میں دل بچھایا لیکن اس دل نے کہیں قرار نہیں پایا۔ کیونکہ وہ کسی اور کی امانت تھا۔“
معاذ خاموش دھڑکتے دل کے ساتھ سن رہا تھا۔ پروین کچھ توقف کے بعد سوزِ جگر میں ڈوبی آواز میں گویا ہوئی۔
” آپ نے اپنے پڑوس میں کبھی ایک نگاہ بھی نہیں ڈالی۔جب کہ میں گھنٹوں اسی امید میں کھڑی رہتی کہ وقت کا کوئی مہربان لمحہ ایسا ضرور آئے گا کہ آپ کی نگاہ ِعنایت ہوگی۔ لیکن افسوس۔۔۔۔۔ “
پروین جیسے روح سے چمٹی ہجر کی چنگاریاں کو بجھانے کی کوشش کرتی، بوتل ہونٹوں سے لگا کر گھٹا گھٹ پانی پی گئی۔ معاذ ہونقوں کی مانند دیکھتا رہا. ایسا لگا جیسے اسے سانپ سونگھ گیا ہو۔ جب بوتل ختم ہوئی تو وہ ہولے ہولے رونے لگی۔
معاذ دھیرے سے اٹھا اور پروین کو تھام لیا۔
”یہ عجیب داستانِ محبت ہے۔ تم مجھے دن رات دیکھتی رہی، مجھ سے محبت کرتی رہی، جب کہ میں تم کو بِنا دیکھے، تم سے عشق کرنے لگا۔ تمھاری شاعری میری روح میں سرایت کرگئی“
کچھ توقف کے بعد وہ گہری سانس لیتا ہوا دوبارہ لب کُشاہوا۔
” تمام راز عیاں ہونے کے باوجود ہم ادھورے ہیں، ادھوری محبتیں ہیں۔ کیونکہ ہماری تقدیر کا لکھا بھی ادھورا ہے!
اگر ہم ایک ہوئے بھی تو شاید تمھاری تشنگی کم نہ ہوگی۔ ہوسکتا ہے، نا آسودہ خواہشات تمھارے دامن میں ایسی محرومیاں اور قنوطیت بھر دیں، جس کے باعث تم ہوش وخرد سے بے گانہ پاگل وحشی بن جاؤ۔ کیونکہ میں ایک ادھورا انسان ہوں، میرے پاس زندگی کے سب رنگ کچے ہیں اور میں کچے رنگوں کی محبت میں بھلا کیسے مبتلا ہوسکتا ہوں؟“
”یہاں کوئی مکمل نہیں، ہر انسان کسی نہ کسی اعتبار سے ادھورا ہوتا ہے!“
پروین نے سسکاری کے درمیان کہا۔
”پیار، محبت، عشق ان سب پر میرا کوئی حق اور اختیارنہیں۔“
معاذ کی آواز بھراگئی۔
”کون کہتا ہے؟“
پروین ہولے سے چیخی۔
” یہ کہو کون نہیں کہتا؟“
وہ کرب سے مسکرایا۔
” جب ہم نے اتنے سال ایک تصوراتی خاکے میں مقید، محبت کی ہے، تو کیا اسے حقیقت پا کر محض ادھورا جان کر کنارہ کشی اختیار کرلیں۔۔۔؟ جب کہ زندگی نے ایک عرصے تک تہی دامن رکھا تو بھلا آگے کی کیا پرواہ کریں؟“
معاذ کی آنکھوں کے گوشے بھیگنے لگے۔
”جسموں کی پیاس عشق کے آگے ایک حقیر سی شے ہے۔ اگر بجھ گئی تو عشق کہیں دور کھڑا رہ جائے گا، پھر معشوق اسے زندگی بھر تلاش کرتا رہے گا۔۔!“
”فیصلے آسمان سے اتر رہے ہیں تو انھیں کسی دلائل سے شرمندہ نہ کریں!“
پروین کی سسکاری ابھری۔ معاذ نے مسکرانے کی کوشش کی تو پروین نے آگے بڑھ کر اس کی پلکوں سے گرتے ہوئے آنسو اپنی انگلیوں کی پوروں میں جذب کر لیے۔
”روح کی پیاس بجھانا چاہتی ہوں جو پتا نہیں کتنی صدیوں سے پیاسی ہے۔“
وقت کا فیصلہ ہے جو شاید ایک عرصے بعد ان کے قدموں سے خود ہی آکر لپٹ گیا یا شاید محبت کے سمندر کی تیز لہریں، ویران جزیروں سے ٹکرا کر انھیں سیراب کرنا چاہتی تھیں۔ دونوں نے سوچا۔
” یادوں کی مزار پر دیپ جلا کر زیست کو روشنی بخشی نہیں جا سکتی بلکہ حقیقت کی پگڈنڈیوں پر شمع جلاکر زندگی میں اجالا ضرور پھیلایا جا سکتا ہے!“
***
تبصرہ : کچے رنگوں کی محبت
ناہید طاہر
مبصر: نثارانجم
ہجر اور احساس محرومی کی سلگتی ساعتوں کا رومانی اظہار مکالموں میں شگفتہ پھولوں کی لڑی کی طرح اس طرح پرو دیا گیا ہے کہ قاری طوالت سے بےخبر بہترین رومان آور مکالموں اور پر فریب مناظر میں کھو جاتاہے۔
یک طرفہ محبت کے کچے رنگ میں رومان، ہجر اور وصال کے سارے پکے رنگ مل جاتے ہیں۔
رومان ، یاسیت اور خیالی وصال کی یہ منظر کشی دیکھیں، رومانی نا آسودہ اور بر انگیجتہ جذبات کی کیسی خوب صورت نقاشی کی گئی ہے۔
"اکثر وہ خیالوں کی مہکتی راتوں میں معاذ کے ساتھ ایک زندگی جی لیتی، احساس کے دھویں کو ڈائری میں تحلیل کرنے کی کوشش کرتی۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ وہ ایک شاعرہ بن کر دنیا کے سامنے ابھر آئی"
رومان اور کیف آور سر مستی کی touch therapy والی یہ تصویر دیکھیں، مانو پیاسے جملوں کو محبت کا گھڑا پلا دیا گیا ہو۔
"کوئی کتاب اٹھا کر جب وہ معاذ کو دینے لگتی اس دوران لمس کا ننھا سا شبنمی قطرہ جو دل پر چھائے ریگستان کو چھو کر اسے سیراب کرنے کی کوشش کرتا"
جذبات کی انگیٹھی میں دہکتے الاؤ اور زندگی پر طاری جمود کی ترجمانی میں یہ منظر نگاری کتنا برمحل ہے دیکھیں۔۔۔۔
"پروین نے آتش دان میں لکڑیوں کو سلگایا۔ اس کے باوجود کمرے کی یخ بستہ خنکی میں کوئی فرق نہیں آرہا تھا۔ شاید دونوں کے وجود میں ماضی برف بن کر جم گیا تھا۔"
"دنیا و مافیہا سے بے خبر، سلگتے وجود کے اطراف شاعری کی کئی کتابیں پھیلی ہوئی تھیں۔"
ہجر درد کے پھول، اور یاسیت کے دکھ کے پس منظر میں لذت وصال کی دھیمی آنچ پر پکتے ہوئے پروین کے فلسفہ عشق کی یہ تڑپ اور عمل کا تضاد دیکھیں کیسے جگر پارہ پارہ ہوتا ہے۔
"جسموں کی پیاس عشق کے آگے ایک حقیر سی شے ہے۔ اگر بجھ گئی تو عشق کہیں دور کھڑا رہ جائے گا، پھر معشوق اسے زندگی بھر تلاش کرتا رہے گا۔۔!"
"پروین جیسے روح سے چمٹی ہجر کی چنگاریاں کو بجھانے کی کوشش کرتی، بوتل ہونٹوں سے لگا کر گھٹاگھٹ پانی پی گئی. "
فلسفہ محبت کے اس لطیف جذبے میں عشق کی تشنہ کامی کا احساس نا آسودہ جذبوں طرح گھلا ہوا ملتا ہے دیکھیں.
"روح کی پیاس بجھانا چاہتی ہوں جو پتا نہیں کتنی صدیوں سے پیاسی ہے۔"
“اگر ہم ایک ہوئے بھی تو شاید تمھاری تشنگی کم نہ ہوگی. "
جسم کے فطری تقاضے  اور جذبہ عشق کے کوہکنی احساس کی تمثیل میں یہ بیانیہ نظر نواز ہو کتنی خوب صورت تمثیل ہے۔
"کھڑکیوں کے گلاس پر کمرے کی حرارت اور باہر کی خنکی کے باعث بھانپ کے قطرے ایک عجب انداز میں رقص کرتے دکھائی دیے. "
بزم افسانہ کے ایونٹ کے موضوع پر کھرا اترتا افسانہ ہے۔ طوالت کے باوجود مطالعاتی حسن کے وصف سے مزین بھی ہے۔ جس میں رومانی کسک ہے، ہجر کا درد اور یاسیت بھی ۔
ایک کامیاب رومانی افسانے پر مبارک باد
***
نثار انجم کا یہ تجزیہ بھی پڑھیں:شب خون

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے