فلسفہ خیر و شر

فلسفہ خیر و شر

"علمِ فلسفۂ و اخلاقیات اور جدید نفسیات کی روشنی میں، ایک نئے مشترک بیانیے "سَین تھسیس" کے ساتھ"

محمود الحسن عالمی

خیر و شر کے معنوں یا مجموعی فہم سے ہم سبھی کسی نہ کسی قدر تو ضرور آگاہ ہیں کہ ہماری رُوزمرہ زندگیوں میں ہمیں نہ صرف آئے روز یہ الفاظ سُننے کو ملتے ہیں بلکہ اِنھی الفاظ سے ہر صبح و شام ہمارا عملی سطح پر شدید واسطہ بھی پڑتا ہے اور ہم اِنھی الفاظ کے سحر تلے ہر آن منفی یا مثبت طور پر لیکن بالضررو متاثر ہوتے ہیں۔
رائج العام اور آسان عمومی فہم کے مطابق "خیر" کے سیدھے سادھے مطالب اچھائی، نیکی، سچ، فلاح، بہتری، صفائی اور بھلائی کے ہے، چاہے پھر وہ آپ کے اپنے ساتھ کی جائے یا دوسروں کے ساتھ۔ اِسی طرح رائج العام اور آسان عمومی فہم کے مطابق "شر" کے صریح و واضح مطالب برائی، بدی، گندگی، خرابی، گناہ، جرم، جھوٹ اور فتنہ و فساد کے ہے، چاہے پھر اِس کا دائرہ کار آپ کی اپنی ذات ہو یا دیگر انسانیت۔ اب میرے محترم قارئین! جب ہم خیر و شر کے اِنھی دو الفاظ کو عمومی فہم سے ذرا سا اُوپر اُٹھا کر بطورِ اِک اصطلاح کے بولتے ہیں تو اِس سے مراد مذہب، فلسفہ، اخلاقیات اور نفسیات میں "اچھے و بُرے" کی بحث پر مبنی اِک نہایت وسیع و جامع اصطلاح کے بنتی ہے۔ عرض یہ کہ خیر و شر کی اصطلاح ہر شعبۂ علم میں جا کر اپنی ایک الگ اور مخصوص پہچان قائم کر لیتی ہے۔ یعنی مذہب و اخلاقیات کے شعبہ ہائے علوم میں یہ”نیک و بد اور ثواب و گناہ" کی مذہبی/ اخلاقی مسائل پر مبنی ایک علمی بحث کی نوعیت اختیار کر لیتی ہے۔ علمِ نفسیات میں "اچھے اور بُرے کے نفسیاتی تصور" کا روپ دھار لیتی ہے اور بالآخر علمِ فلسفہ میں جا کر یہ”فلسفۂ خیر و شر" سے مُتعلق ہوجاتی ہے جو کہ ہماری آج کی اِس تحریر کا بنیادی موضوع و مقصود بھی ہے لیکن میرے محترم قارئین! آپ یہ ہرگز خیال نہ فرمائیے گا کہ میری یہ تحقیق صرف علمِ فلسفہ و اخلاقیات کے دائرہ علم کے ضمن میں فلسفۂ خیر و شر پر مبنی ہے بلکہ آگئے میرے پیش کردہ مشترک بیانیے "سَین تھسیس" میں آپ فلسفے کی کارفرمائی کے ساتھ ساتھ جدید علمِ نفسیات کی مبادیاتی سائنس کا کردار بھی ملاحظہ فرمائیں گے۔لہذا آپ میری اِس نئے مشترک بیانیے”سَن تھیسس" پر مبنی تحریر کو فلسفے اور جدید علم نفسیات کی مبادیاتی سائنس کی باہمی کارفرمائی پر مبنی ایک طالب علمانہ تحقیق و تخلیق کے طور پر لیجئے گا نہ فلسفیانہ یا متعصب اخلاقی تصورات پر مبنی ایک روایتی تحقیق و تحریر کے۔ بہرحال کیونکہ میری آج کی تحریر جدید نفسیات کی مبادیاتی سائنس اور علم فلسفہ و اخلاقیات کے تحت فلسفۂ خیر و شر کو بیان کرتی ہے لہذا درج  بالا خیر و شر کی عمومی تعریفوں کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ممتاز عقلیت پسند فلسفی باروخ اَسپینوزا (1632–1677) کی وہ چند خصوصی تعریفیں ملاحظہ فرمائیں  جو میرے خیال میں خیر و شر کے تصور کو بیک وقت اخلاقی، فلسفیاتی اور نفسیاتی سطح پر نہایت دُور اندیشی، عمدگی تدبر اور حقیقت پسندانہ انداز میں ہمارے سامنے پیش کرتی ہیں۔ اسپنوازا اپنی مایہ ناز تصنیف ”اخلاقیات“میں فرماتے ہیں:
”خیر اور شر کا علم خوشی یا غم کے تاثر کے سوا کچھ نہیں ہے جہاں تک ہم اِس کے بارے میں جان سکے ہیں۔“(1)
”خیر کے تصور کو جہاں تک میں سمجھا ہوں، خیر وہ ہے کہ جو یقینی طور پر ہمیں فائدہ پہنچا سکے۔ اِسی طرح شر عین اِس کے برعکس وہ ہے  جو ہمارے اس فائدے کی راہ میں روڑے اٹکائے کہ جہاں تک میں شر کے تصور کو سمجھ سکا ہوں۔“(1.1)
"استدلال کی منطق کی رُو سے ، آگر ہمارے پاس خیر پر مبنی دو راستے ہیں تو ہم اِن دونوں راستوں میں سے بھی اُس خیر کے راستے کا انتخاب کریں گے  جو دوسرے سے زیادہ اچھا اور عظیم ہے۔ عین اِسی طرح اگر ہمارے پاس شر پر مبنی دو راستے ہیں تو ہم اِن راستوں میں سے اُس شریر راستے کا انتخاب کریں گے  جو کم شر انگیز اور نقصان دہ ہے۔“(1.2)
”کوئی بھی چیز ہماری فطرت کے مشترکات کے ذریعے ہرگز شر نہیں ہوسکتی ہے، لیکن جہاں تک کوئی چیز ہمارے لیے شر ہے وہ ہر صورت میں ہمارے خلاف ہے۔“ (1.3)
"اگر انسان(حیوانی جبلی سطح پر) آزاد پیدا ہوا ہے تو سمجھ لیجیے کہ وہ تب تک آزاد ہے کہ جب تک وہ خیر اور شر کے تصور سے آگاہ نہیں ہے۔“ (1.4)
قارئین محترم! فلسفۂ خیر و شر کا جامع فہم ملاحظہ فرمانے کے بعد، اب آ جائیے فلسفۂ خیر و شر کے اِس بنیادی سوال پر کہ خیر و شر کا اِس دنیا میں نظریاتی اور عملی ہر دو لخاظ سے کیا کردار ہے اور اُس کردار کے تحت ہمیں اپنی زندگیوں میں فکری و عملی سطح پر کیا رد عمل اپنانا چاہیے؟ تو اِس سوال کے سلسلے میں یہ چند بنیادی باتیں ملاخطہ فرما لیجیے کہ فلسفۂ خیر و شر کے ضمن میں عام طور پر دو مختلف مکاتیب ہائے فکر کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ جن میں سے ایک مکتب فکر کو "فلسفۂ قنوطیت" اور دوسرے کو "فلسفۂ رجائیت" کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔
فلسفۂ قنوطیت کے نزدیک دنیا ہر لحاظ سے برائی کا منبع اور ہمہ پہلو سراپا شر ہے. یعنی یہ فلسفہ  دنیا سے نااُمیدی، ناانصافی، نفرت، مایوسی، اور رنج و الم کے حصول کا فلسفہ ہے جب کہ اِس کے عین برعکس فلسفۂ رجائیت دنیا سے اُمید پروری، توقعات، عدل و انصاف، محبت اور شادمانی و مسرت کے حصول کا فلسفہ ہے اور دنیا کو ہمارے سامنے ہر لحاظ سے اچھائی کا منبع اور ہمہ پہلو سراپا خیر کے طور پر مُتعارف کرواتا ہے۔ اب جیسا کہ آپ اِس مقامِ فکر پر یہ بات بخوبی طور پر ملاحظہ فرما سکتے ہیں کہ فلسفۂ خیر و شر کے ضمن میں یہ دونوں ہی مکاتیب ہائے فکر اپنے اپنے نظریات کو لے کر انتہا پسندانہ زاویۂ نگاہ رکھے ہوئے ہیں اور اِس دنیا میں ایک دوسرے کے نظریاتی وجود کو کسی بھی طور پر ہرگز تسلیم کرنے کو تیار نہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ اِنھی انتہا پسندانہ اختلافات سے گھبرا کر فلاسفۂ کرام کے ایک طبقے نے اِن دونوں کے درمیان اِک مصالحانہ/ درمیانی راہ تجویز کی ہے  جسے "اصلاحیت" کا نام دیا گیا ہے. اسے آسان فہم الفاظ میں محتصراً کچھ یوں بیان کیا جاسکتا ہے:
” کہ یہ دنیا نہ تو بہت برُی یعنی سراپا شر ہے اور نہ ہی بہت اچھی یعنی سراپا خیر ہے بلکہ بس ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ یہ بتدریج بہتری کی طرف جا رہی ہے اور یہ بتدریج بہتری یہ ہے کہ انسان انسانی شر، ثقافتی خرابیوں اور اخلاقی برائیوں کو عالمی بھائی چارے اور باہمی فلاح جیسے آفاقی جذبات سے ختم کر سکتا ہے۔باقی جہاں تک فطری برائیوں یا قدرتی شر (یعنی زلزلے، سیلاب اور وبائی بیماریوں کی تباہ کاریوں) کا تعلق ہے تو اِسے بھی انسان اپنی زبردست ذہنی قوت "انٹلیجنس پاور" کی مدد سے، منصوبہ بندی اور حفظ ما تقدم کی تکنیکوں کو بروئے کار لاتے ہوئے قابو میں لا سکتا ہے۔“
اب آگر آپ فلسفۂ خیر و شر کے ضمن میں پیش کردہ مصالحانہ/ درمیانی راہ کے دعوے دار اِس مشترک بیانیے "اصلاحیت" کی تعریف کو فلسفہ رجائیت کی تعریف پر پیش کرتے ہوئے ذرا غور و تفکر سے کام لیں تو آپ کو یہ فکری تحریک”اصلاحیت" بھی واضح طور پر رجائیت کی طرف اپنا بھرپور، غالب رحجان رکھتی نظر آئے گئی. حتیٰ کہ میں اگر اِسے اِسی غالب رحجان کی وجہ سے فلسفۂ رجائیت کی ہی ایک تجدیدی شکل کہہ دوں تو شاید یہ بھی غلط نہ ہوگا کہ اِس تحریک میں بھی ہمیں "دنیا کی بتدریج بہتری" کے نام پر دنیا سے اُمید پروری پر مبنی فلسفۂ رجائیت صاف طور پر اُبھرتا دکھائی دیتا ہے اور "دنیا کی بتدریج بہتری" کے بیان سے فطری و اخلاقی برائیوں پر قابض ہونے کی ترغیب ملنے کی وجہ سے فلسفۂ قنوطیت بھی واضح طور پر دبتا محسوس ہوتا ہے۔ لہذا ہم "اصلاحیت"  کی فکری تحریک کو بھی ہرگز درمیانی راہ یا مصلحانہ روش کے نام پر ایک مشترک بیانیے "سینتھیس" کے طور پر ہرگز پیش نہیں کرسکتے ہیں۔
اب میرے محترم قارئین! جب میں نے فلسفۂ خیر و شر کے ضمن میں اِن تینوں مکاتیب ہائے فکر پر سنجیدہ غور و فکر کیا تو مجھے اِس حوالے سے اپنے سامنے، یہ درمیانی راہ/ مصلحانہ روش اُبھرتی نظر آئی  جسے میں نے "دو سطحی توازنیت" کا مشترک بیانیہ "سن تھیسس" قرار دیا ہے۔
دراصل انسان کا خیر و شر، اچھائی و برائی اور نیکی و بدی وغیرہ سے دو سطحوں پر واسطہ پڑتا ہے یعنی ایک اُس کی اپنی ہی ذات کے باطن میں نفسیاتی دنیا کے حوالے سے، جسے ہم انفرادیت کا نام دے سکتے ہیں کہ اِس میں انسان کے ذاتی خیالات و افکار اور جذبات و احساسات موجود ہوتے ہیں اور اِسی طرح دوسری طرف خارجی دنیا کے کردار کے حوالے سے کہ اِس خارجیت میں بکھرے ماحول کو ہم اجتماعیت کا نام دے سکتے ہیں. یہ اجتماعیت خوارج میں پھیلی اشیا و واقعات اور شخصیات کی مرہون منت ہوتی ہے۔ اب انفرادی سطح پر باطنی نفسیاتی دنیا کا معاملہ کیونکہ ہر انسان کے لیے ہر لمحہ متغیر، متحرک اور نفسیاتی اعتبار سے جدا جدا ہے لہذا انفرادیت کے حوالے سے ہم مسئلہ خیر و شر میں کوئی ایک قطعی اصول ہرگز کھڑا کر ہی نہیں سکتے ہیں کہ ہر انسان کے لیے اُس کے باطنی خیالات و افکار اور جذبات و احساسات کے تحت، چند لمحے یا چند دن بہت اچھے یعنی سراپا خیر بن کر آتے ہیں اور چند دن یا چند لمحے بہت بُرے یعنی سراپا شر بن کر آتے ہیں۔ لہذا سراپا خیر والے دِنوں یا لمحات میں کسی بھی انسان کو دنیا کا رجائیت بھرا پہلو ہی ہر جاہ نظر آئے گا اور عین اِسی طرح سراپا شر والے دِنوں/ لمحات میں ہر انسان کو دنیا کا قنوطیت بھرا پہلو ہی ہر جا نظر آئے گا۔ پھر اِس کی اِک آخری دل چسپ صورت یہ بھی ہے کہ باطنی شخصیت میں اکثر لمحات/ دِنوں میں انسان خود میں خیر و شر کی کسی ایک قوت کی حاکمیت یا غلبہ محسوس کرنے کی بجائے، خود کو شر کے غلبے اور خیر کے مَلبے کے درمیان اِک کھینچا تانی کی صورت حال میں محسوس کرتا ہے تو ایسی صورت میں سیدھی سی بات ہے کہ اُس انسان کو نہ تو یہ دنیا صرف سراپا شر محسوس ہوگی اور نہ ہی صرف سراپا خیر، بلکہ وہ اِس حوالے سے اِک عجیب سی کشمکش میں مبتلا ہوتے ہوئے، کبھی اِدھر کا اور کبھی اُدھر کا سا ہو کر رہ جائے گا۔ یعنی کبھی چند لمحے یا دن اُسے کسی فکر، خیال یا جذبے میں سے اپنے من ہی من میں نفسیاتی سطح پر رجائیت کا تاثر اُبھرتا دیکھائی دے گا اور دوسرے ہی لمحے اُسے اُسی فکر، خیال و جذبے سے یا کسی نئے فکر و جذبے سے قنوطیت بھرا تاثر اُبھرتا محسوس ہوگا۔
جب کہ اب جہاں تک انسان کے خارج میں پھیلے ماحول یعنی خارجی اشیا و واقعات اور شخصیات سے جُڑے خیر و شر کا تعلق ہے تو خارجی ماحول کے کردار کے اعتبار سے اجتماعی سطح پر تو یہ دنیا نہ ہی زیادہ اچھی ہے اور نہ ہی بہت برُی یعنی نہ سراپا خیر ہے اور نہ ہی سراپا شر، بلکہ یہ دونوں قوتیں نہایت بے ترتیب تسلسل کے ساتھ خارجی ماحول پر غالب رہنے کی مسلسل اور شاید نہ ختم ہونے والی جنگ میں رہتی ہے اور ہمیں کچھ معلوم نہیں کہ کب کون سی قوت خارجی ماحول پر قابض آتے ہوئے، اجتماعیت کا روپ دھار کر، قنوطیت یا رجائیت میں بدل جائے۔ یعنی خارجی ماحول میں اشیا، واقعات و شخصیات کے مثبت یا منفی کردار پر فلسفۂ خیر و شر کا دارومدار ہے کہ یہ اشیا و واقعات اور شخصیات وغیرہ ایک انسان کو اپنی اچھائی یا خیر سے متاثر کرتے ہوئے اُسے رجائیت کا پیغام دیتی ہے کہ یا پھر اُسے اپنی بُرائی یا شر سے متاثر کرتے ہوئے اُس پر قنوطیت کی کیفیت طاری کر دیتی ہے۔
اب جہاں تک اِس سوال کا تعلق ہے کہ اِس نئے مشترک بیانیے "دو سطحی توازنیت" کے تحت ہمیں اپنی زندگیوں میں عملی سطح پر مسئلہ خیر و شر سے کیسے نپٹنا چاہیے تو بھئی اِس حوالے سے ہمیں سب سے پہلے یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ فرد کی باطنی شخصیت سے جُڑے انفرادی خیالات و افکار اور جذبات و احساسات کسی نہ کسی سطح پر، خارجی ماحول میں موجود اشیا و واقعات اور شخصیات وغیرہ کے ساتھ نہایت مضبوطی سے پیوست ہوتے ہوئے اُسے منفی یا مثبت طور پر لیکن بالضررو متاثر کرتے ہیں. عین اِسی طرح خارجی ماحول میں موجود اشیا و واقعات اور شخصیات وغیرہ کا کردار جو اجتماعیت کو جنم دیتا ہے فرد کی انفرادیت کے علم بردار باطنی خیالات و افکار اور جذبات و احساسات کے ساتھ نہایت مضبوطی سے پیوست ہوتے ہوئے اُسے خیر یا شر کی ضرر کے ساتھ ضرور متاثر کرتی ہیں۔ اب اِس لاحاصل بحث میں پڑے بغیر کہ کون کتنا، کب اور کس کو متاثر کرتا ہے۔ یہ بات کم از کم ہمارے لیے قابل ہضم اور متفق علیہ ہوسکتی ہے کہ باطنی اور خارجی ماحول دونوں ہی کسی قدر ہمارے دائرہ اختیار میں ہے بھی اور کسی قدر نہیں بھی۔ لہذا جہاں تک باطنی و خارجی ماحول ہمارے دائرہ اختیار میں ہے ہمیں اِس سلسلے میں” بتدریج بہتری" کے فلسفۂ اصلاحیت کی طرف ہی گامزن ہونا چاہیے لیکن جہاں باطنی و خارجی ماحول ہمارے دائرہ اختیار میں نہیں رہتا کہ گویا ہم اُس کے سامنے بالکل بے اختیار و بے بس ہو جاتے ہیں وہاں ہمیں دنیا سے خیر کی متوقع اُمید کے ساتھ ساتھ، شر کے متوقع حصول کے لیے بھی پوری طرح سے ہمہ وقت چاق و چوبند تیار رہنا چاہئے.

★★★

1.”Ethics” by Benedict de Spinoza, Part IV Of Human Bondage or of the Strength of the Affects Definitions ,translated by W.H. White,Preposition no:8
1.1.Same As Below……Preposition’s No:1+2,
1.2.Same As Below……Preposition No:65,
1.3.Same As Below……Preposition No:30,
1.4.Same As Below……Preposition No:68.
***
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش:فن لینڈ کا تعلیمی نظام

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے