کتاب: منزل ہے جن کی ستاروں سے آگے

کتاب: منزل ہے جن کی ستاروں سے آگے

تصنیف: تسنیم جعفری
تبصرہ: قانتہ رابعہ، گوجرہ، پاکستان 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
تاریخ کسی بھی قوم کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے. جو قوم اپنے ماضی اور تاریخ کو فراموش کر دیتی ہے, اس کا حال اس شخص جیسا ہوجاتا ہے جس کی یاداشت کھو جائے.
ماضی میں وہ شخص کتنا ہی بڑا دانشور, یا اہم کردار رہا ہو محض حافظہ کی رخصتی سے وہ دیوانہ اور پاگل سمجھا جانے لگتا ہے. ہر کام میں اس کی رائے لینے والوں کے نزدیک بھی وہ دو کوڑی کا نہیں رہتا۔
انفرادی سطح پر ہو یا قومی سطح پر, ماضی کو یاد رکھنے والے, اپنی تاریخ کو یاد رکھنے والے, ہمیشہ سرخرو رہتے ہیں. کتاب: منزل ہے جن کی ستاروں سے آگے، انھی تابناک ہستیوں کے متعلق ہے جنھوں نے زندگی کے کسی نہ کسی شعبے میں انسانیت کا سر فخر سے بلند کیا۔
اہم بات یہ ہے کہ ان سب کا تعلق صنف نازک اور پاکستان کی سر زمین سے ہے. اسلام میں علم کی طلب میں خواتین یا مردوں کی تخصیص نہیں ہے، یہ بہ طور انسان سب پر علم کے دروازے کھول کر ان میں سے گزرنے کی صرف تلقین ہی نہیں کرتا بلکہ لازم قرار دیتا ہے۔
اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ کہ اللہ نے آخری کتاب کی پہلی تعلیم شرک سے بیزاری، بے حیائی یا حرام خوری سے بچنے کی تاکید کی بجائے صرف اور صرف اقراء کی دی. پڑھنے کا تعلق علم سے ہے اور العلم نور، کہہ کر ثابت کر دیا گیا جس دین کا آغاز روشنی کی تعلیمات سے ہوگا تو ساری جہالتیں اور تاریکیاں خود ہی دور ہوجائیں گی۔
کتاب میں ڈاکٹر فاطمہ جناح سمیت ان پینتالیس خواتین کا تذکرہ ہے جو اپنے علم کی روشنی سے اپنے علاقے کو ہی نہیں پورے ملک میں منور کر چکی ہیں اور بین الاقوامی سطح پر ان کے علم کی کرنیں پھیل چکی ہیں۔
یہ خواتین جن کے تذکرے سے کتاب کے ایک سو تیس صفحات مزین ہیں، ان تھک محنت، حوصلے سے کام لیتے ہوئے اس مقام تک پہنچی ہیں کہ ان کا نام اپنے اپنے شعبوں میں ان کی شناخت بن چکا ہے. ان میں سے کوئی پاکستان کی پہلی دندان ساز معالج (ڈینٹسٹ) ہیں تو کوئی پہلی نیوکلیر فزسٹ (پروفیسر ہاجرہ خان)، کوئی پہلی مائیکرو بیالوجسٹ (ڈاکٹر رابعہ حسن) ہے تو کوئی زرعی سائنس داں (فرزانہ پنہور)، کوئی ماہر خلا باز (آسٹرو فزسٹ) ہے، تو کوئی وائس چانسلر، کوئی آئی ٹی ایکسپرٹ، الغرض یہ پینتالیس خواتین نہیں پینتالیس روشن ستارے ہیں، جنھوں نے ان تھک محنت سے عورت کو مجبور یا بے بس نہیں سمجھا بلکہ تعلیم ایک مشن کے تحت حاصل کی، ان کے دماغ تحقیق میں کسی بھی مرد سے کم نہیں، بلکہ کچھ شعبہ جات میں وہ مرد سے بھی آگے نکل سکتی ہے۔
ڈاکٹر فاطمہ جناح ہوں یا نسیمہ ترمذی، پروفیسر ہاجرہ خان ہوں یا ڈاکٹر نرگس مالوالا؛ یہ سب کے لیے ایک مثال ہیں. ان میں سے صرف چند ایک کے حالات زندگی کتاب میں شامل ہیں، باقیوں کے بارے میں تعلیمی سرگرمیاں اور سرٹیفیکیٹ اعزازات کا تذکرہ ہے. ان میں سے وہ خواتین بہ طور خاص قابل مثال ہیں جو ناساز گار حالات کے باوجود جنونی جذبے سے حصول علم میں مشغول رہیں اور وہ بھی جنھوں نے ثابت کیا کہ عورت اگر آگے بڑھنا چاہے تو بچے اور ان کی ذمہ داریاں بھی پاؤں کی زنجیر نہیں بن سکتیں. ان میں  وہ خواتین بھی شامل ہیں جنھوں نے سائنسی مضامین کے ساتھ ساتھ ادب اور اس کی دونوں اصناف سے بھی دل چسپی برقرار رکھی. ایک نہیں بہت سے نام ہیں مگر ڈاکٹر نسیمہ ترمذی کا نام بہ طور خاص لینا چاہوں گی کہ روزنامہ جنگ کے ادارتی صفحہ پر ان کے کالم کی الگ ہی شان تھی. اردو ادب کے نامور گھرانے سے تعلق نے انھیں ادب پرور بنائے رکھا۔ ایک سوال کے جواب میں نسیمہ ترمذی بتاتی ہیں:
"عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ سائنس داں مذہب سے دور ہوتا ہے. اگر میں بیالوجسٹ نہ ہوتی تو اتنی مضبوطی اور استحکام میرے ایمان میں نہ ہوتا، جتنا اب ہے. میں اپنے طور پر بہت سی اسلامی کتب کا مطالعہ کرتی ہوں، لیکن وہ سچائی اور یقین جو مجھے ان ننھے منے آبی حیوانات سے حاصل ہوتا ہے جن پر ہم ریسرچ کرتے ہیں وہ کہیں اور سے نہیں ملتا."
ان کے علاؤہ بینا گوئندی، فرخندہ منظور، تسنیم زہرہ جبیں، جیسی مایہ ناز سائنس دانوں کا بھی ادب سے تعلق ڈھکا چھپا نہیں ہے۔
یہ کہنا کہ بڑے شہروں کے تعلیمی اداروں سے بڑی شخصیات پیدا ہوتی ہیں، اس کتاب سے غلط ثابت ہوا. صدف احمد ( آئی ٹی ایکسپرٹ اور روبوٹکس کلب کی بانی) کا تعلق شیخورہ اور گل شہناز کا تعلق جنوبی پنجاب کے نسبتاً کم معروف علاقے کہروڑ پکا سے ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر شہناز گل جنھیں لورئیل انٹر نیشنل فیلو شپ ایوارڈ مل چکاہے. یہی نہیں وہ پہاڑی علاقے جہاں مرد بھی زیور تعلیم سے آراستہ نہیں ہوتے وہاں سے ڈھیروں خواتین نے سائنسی علوم میں مہارت حاصل کی اور ملک کا نام پوری دنیا میں بلند کیا۔
پاکستانی نژاد خاتون سائنس داں راکٹ انجینئر حبا رحمانی ریاضی میں سو میں سے ایک سو پانچ نمبر لے چکی ہیں وہ کہتی ہیں:
"بچپن ہی سے مجھے آسمان بہت خوب صورت لگتا تھا، مجھے یاد ہے کہ جب میں اپنے والدین کے ساتھ ساحل سمندر کی سیر کر رہی ہوتی تھی یا صحرا کی ریت پر چل رہی ہوتی تھی تو میری نظر اوپر آسمان پر ہوتی تھی. میں چاند ستاروں کو دیکھتی رہتی تھی اور نیل آرمسٹرانگ جیسے خلا نوردوں کے بارے میں سوچتی رہتی تھی، جنھوں نے چاند پر قدم رکھا، تبھی مجھے سائنس اور فلکیات سے دل چسپی ہوگئی.
حباء کہتی ہیں سترہ سال کی عمر میں مجھے اپنی فیملی سے دور فلوریڈا آنا پڑا تو پتا چلا کہ زندگی کتنی سخت ہے لیکن وہ میرے لیے چیلنج تھا، مجھے سب کچھ سیکھنا پڑا، کھانا پکانا بھی سیکھا. پہلے سمیسٹر میں فزکس اور کیلکیولس میں اچھے نمبر نہیں آئے کیونکہ کویت  اور یہاں کے طریقہ تعلیم میں فرق تھا. میں دل برداشتہ تو ہوئی لیکن لائبریری میں زیادہ وقت گزارنے لگی، جہاں فزکس کی کتب پڑھا کرتی. آہستہ آہستہ میری پوزیشن بہتر ہونے لگی اور وہ وقت بھی آیا جب مجھے ریاضی میں سو میں سے سو نمبر دے کر پانچ نمبر بونس میں دیے گئے۔
یہ سب خواتین اپنی معاشرتی اقدار کا خیال رکھنے والی اور اپنے قریبی رشتوں کے لیے خاص تعلق رکھنے والی ہیں۔
ان سب سے سیکھنے کے لیے بہت کچھ ملتا ہے. گو کہ زیادہ تر کے حالات زندگی گوگل سے لیے گئے ہیں لیکن اتنا بھی قابل رشک یے. یہ مردوں کے شانہ بہ شانہ کام کرتے ہوئے ان سے اگے نکل کر خواتین کے لیے ہی نہیں مردوں کے لیے بھی قابل تقلید مثال بن گئی ہیں۔
اس کتاب کی مرتبہ مایہ ناز ادیبہ اور سائنس کی معلمہ محترمہ تسنیم جعفری ہیں. اردو ادب میں معاشرتی اصلاح کے لیے ان کی کتب اور ناول ان کا بہترین تعارف ہیں. موصوفہ نے بہت سے اعزازات کے ساتھ یو بی ایل لٹریری ایوارڈ بھی جیتا ہوا ہے. جس کام کا بیڑہ اٹھاتی ہیں اسے بہ خوبی پایہ تکمیل تک پہنچا کر مثال قائم کرتی ہیں۔
خوب صورت سرورق، عمدہ طباعت کے ساتھ یہ کتاب کچھ کر گزرنے کے شوقین طلبہ و طالبات کے لیے یہ  بہترین تحفہ ہے. پریس فار پیس فاؤنڈیشن، اس کی پوری ٹیم، پروفیسر ظفر اقبال صاحب اور محترمہ تسنیم جعفری صاحبہ مبارکباد کے مستحق ہیں، جنھوں نے اس تاریخ کو تاریخ کا حصہ بنایا۔
***
قانتہ رابعہ کی گذشتہ نگارش :کتاب: گونگے لمحے (افسانوی مجموعہ)

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے