علیم اسماعیل: افسانوی ادب کا جگمگاتا ستارہ

علیم اسماعیل: افسانوی ادب کا جگمگاتا ستارہ

مصطفیٰ جمیل، بالاپور
(سابق رکن مہاراشٹر اسٹیٹ اردو ساہتیہ اکادمی)

ناندورہ میں میرے دوست اور معروف شاعر جناب قدرت ناظمؔ کے دوسرے مجموعۂ کلام ’قوسِ قزح‘ کی رسمِ اجرا کے پروگرام میں مجھے شرکت کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔ 18 دسمبر 2022 کو رسم اجرا میرے ہاتھوں طے تھا، اس کے بعد شعری نشست کا انعقاد ہوا۔ اس محفل میں ایک نوجوان میری بغل میں انتہائی سنجیدگی سے خاموش بیٹھا تھا۔ جو پروگرام میں مہمان خصوصی تھا۔ تعارف ہوا تو معلوم ہوا کہ یہ ہمارے علاقے کا افسانہ نگار علیم اسماعیل ہے۔ علیم اسماعیل کے اکثر خوب صورت افسانے میں نے روزنامہ انقلاب اور ممبئی اردو نیوز میں پڑھے تھے۔ اس کے علاوہ چند ادبی جرائد میں بھی ان کے افسانے، افسانچے نظر سے گزرے تھے۔
ناندورہ ضلع بلڈانہ کا روحانی اور ادبی مرکز رہا ہے۔ یہاں حضرت شاہ صوفی علی سرمست قلندر اور حضرت عنایت اللہ شاہ چشتی صابری کے مزارات ہیں۔ ناندورہ ہی میں حضرت بسم اللہ خان بسملؔ اور حضرت نیرنگؔ، استاد شعرا گزرے ہیں۔ بسملؔ ناندوری نے تو مدراس میں مشاعرہ کی صدارت فرمائی تھی۔ مرحوم نیرنگؔ ناندوری کے ’جشن نیرنگؔ` میں ناچیز موجود تھا. ناندورہ کے آسمان ادب پر ان دنوں کئی جگمگاتے ستارے نظر آرہے ہیں۔ نوجوان شعرا کی رہ نمائی قدرت ناظمؔ فرما رہے ہیں اور اسی طرح نثر کے میدان میں بھی نئے لوگ ابھر رہے ہیں۔ جس میں علیم اسماعیل ابھرتے ہوئے افسانہ نگار بھی ہیں۔ اس تقریب میں علیم اسماعیل نے اپنے افسانوں کا تازہ مجموعہ بنام ’رنجش` مجھے بڑے خلوص سے پیش کیا اور اس مجموعہ کے تعلق سے چند سطور لکھنے کی خواہش ظاہر کی۔ افسانوں کے اس مجموعہ ’رنجش` میں تقریباً اکیس مختصر افسانے اور پانچ افسانچے موجود ہیں۔
اس مجموعے کا پہلا افسانہ چھُٹّی علیم اسماعیل کے حوصلہ مند قلم سے لکھا گیا ایسا افسانہ ہے جو خاندان کے بڑے بیٹے کی کہانی ہے جس کا دردمند دل افرادخانہ کے علاوہ سماج کے غریب مفلس لوگوں کی خدمت کے لیے بےقرار رہتا ہے۔ وکالت جیسے مقدس پیشے سے وابستہ رہنے کی وجہ سے وہ غریب اور ضرورت مند لوگوں کے مقدمات لڑتا ہے اور انھیں انصاف دلاتا ہے۔ وہ اچانک ایسی بیماری میں مبتلا ہو جاتا ہے جس سے زندہ رہنا ناممکن ہے۔ اسے اسپتال میں داخل کروایا جاتا ہے۔ بستر مرگ پر تنہائیوں کے اندھیروں میں وہ اپنی بیوی اور بچوں کے تابناک مستقبل کے خواب دیکھتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اسے اسپتال سے جلد چھُٹّی مل جائے لیکن اس کا یہ خواب، خواب ہی رہ جاتا ہے۔ علیم اسماعیل نے نہ جانے کس دل اور گردے کے ساتھ اس افسانے کو لکھا ہے کہ پڑھنے والا محسوس کرتا ہے کہ اس افسانے سے اس کا گہرا ربط ہے۔
افسانہ ’ادھورے خواب` خوش حالی کی زنجیروں میں قید ہو کر وطن سے ہجرت کرتا، اپنوں سے دوری، مقدس رشتوں کی تڑپ کا بہترین نمونہ ہے۔ اسی طرح افسانہ ’ریجیکٹ` اور ’منٹو` پڑھنے والے کے دل میں اتر جاتے ہیں۔ ’جنون‘ بھی خوب صورت کہانی ہے۔
اردو ادب کے شعری اور نثری میدان میں مختلف تجربات ہوئے ہیں۔ افسانچہ بھی اسی صف میں آتا ہے۔ علیم اسماعیل نے اس مجموعے میں پانچ عدد افسانچے بھی شامل کیے ہیں۔ افسانچہ کو شروع میں کئی نام دیے گئے، جیسے منی افسانہ، ایک سطری کہانی، پاپ کہانی وغیر معروف افسانچہ کار جوگیندر پال نے سب سے پہلے لفظ ’منی‘ کو رد کیا اور اب یہ افسانچہ کہلانے لگا، جو عوام میں بے حد مقبول ہوا۔
علاقہ ودربھ میں علیم اسماعیل کے علاوہ میں نے غنی غازی، مرحوم ڈاکٹر ایم آئی ساجد، شیخ رحمن آکولوی، طفیل سیماب، وکیل نجیب، مرحوم م۔ناگ، طارق کولھا پوری، رونق جمال اور ڈاکٹر اشفاق احمد کو پڑھا ہے۔ علیم اسماعیل کے ساتھ رفیع الدین مجاہد، ریحان کوثر اور حسین قریشی کے افسانچوں کے مجموعے بھی شائع ہو کر سامنے آئے ہیں۔ علیم اسماعیل کا تخلیقی ذہن اپنے اطراف معاشرے میں مختلف اقدار کی پامالی، طاقت ور کی کمزور پر برتری، سیاسی، سماجی، علمی و ادبی اقدار کا بکھراؤ، نفرت اور انتشار کے شعلوں میں جلتے خاندانی رشتے اور سیاسی رہ نماؤں کے مفاد پرستانہ کرداروں کو دیکھتا ہے۔ ایک حساس قلم کار ہونے کے ناطے علیم اسماعیل ان تمام سماجی بیماریوں کا اظہار اپنے افسانوں اور افسانچوں میں اس خوب صورت انداز سے کرتا ہے کہ قاری انھیں پڑھ کر محسوس کرنے لگتا ہے کہ علیم اسماعیل کی ان تخلیقات سے اس کا گہرا ربط ہے۔
علیم اسماعیل نے کہا ہے کہ میں نے جن موضوعات پر قلم اٹھایا ہے وہ میں نے نہیں چنے بلکہ ان موضوعات نے مجھے مجبور کیا ہے کہ میں ان پر لکھوں۔ اردو ادب میں افسانے میں بھی کئی نشیب و فراز دیکھنے میں آئے ہیں اور ہر دور میں افسانے کو مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔ معاشرے میں جب بھی کوئی تبدیلی رونما ہوتی ہے تو شاعر یا ادیب اسے اپنی تخلیق کا موضوع بناتا ہے۔ تخلیق کار ہمارے معاشرے کا ہی فرد ہوتا ہے، اس لیے اس کی شعری یا نثری تخلیق پر معاشرے کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ علیم اسماعیل کے افسانوں اور افسانچوں کو پڑھ کر مجھے یوں محسوس ہو رہا ہے کہ ان کا مستقبل تابناک ہے اور یہ معروف افسانہ نگار ثابت ہوں گے۔ آخر میں ایک بات عرض کرنی ہے کہ ادب کی تجربہ گاہ میں ان دنوں جو تجربات ہو رہے ہیں اُن میں علیم اسماعیل بھی اپنی تخلیقات کے عنوانات کے انتخاب کے لیے ذرا محنت کریں. میری نیک دعائیں علیم اسماعیل کے ساتھ ہیں.
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں :افسانچے کا فن- ایک مطالعہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے