دیوارِ گریہ

دیوارِ گریہ

ثناء ادریس

چھوٹے سے روشن دان سے مزین اس اندھیرے کمرے میں بند ہوئے سکینہ کو آج دو سال مکمل ہو چکے تھے۔ اس بات کا اندازہ اسے کمرے کی دیواروں پر کوئلے سے لگائی ہوئی لکیروں کو گننے کی صورت ہوا۔ کمرے کی تین دیواروں پر ترتیب سے لکیریں کھینچ کر حساب کتاب کیا گیا تھا جب کہ چوتھی دیوار بالکل خالی تھی۔ آج بھی وہ اسی خالی دیوار کے ساتھ سر ٹکائے بے آواز اپنے ناکردہ گناہوں کی معافی طلب کر رہی تھی۔ وہ گناہ جو اس سے کبھی سرزد ہی نہیں ہوا تھا۔ لیکن پاداش میں اس کی زندگی کے خوب صورت ماہ و سال بے رنگ کر دیے گئے۔
” دیکھو! آج دو سال مکمل ہوگئے ہمارے ساتھ کو." سکینہ نے دیوار سے سر ٹکائے دھیمی آواز میں کہا۔ اس آس پر کہ اس کے آنسوؤں کی نمی سے اس دیوار کی سختی کم ہو چکی ہوگی اور وہ اس کا درد محسوس کرے گی۔
"خدارا! اب تو کچھ بول دو۔ میرے کان آواز کو ترس گئے ہیں۔" سکینہ کسی محبوبہ کی طرح اپنے محبوب کے شانے سے لگی اس کی بے اعتنائی کا شکوہ کررہی تھی۔
” کہتے ہیں جب دو لوگ ساتھ رہیں تو ان میں محبت پیدا ہو جاتی ہے۔ کیا تمھیں مجھ سے محبت نہیں ہوئی؟" سکینہ دیوار پر محبت سے ہاتھ پھیرنے لگی۔
"کیا تم بھی مجھے قصور وار سمجھتی ہو؟
باخدا میں بے گناہ ہوں۔ ان دو سالوں کی رفاقت میں کیا تم مجھے اب بھی پہچان نہیں پائیں؟" سکینہ سسکیاں بھرنے لگی مگر دیوار کسی انا پرست محبوب کی طرح بے حسی کا لبادہ اوڑھے اپنی بے اعتنائی سے سکینہ کی روح چھلنی کرتی رہی۔ سکینہ نے پڑھا تھا کہ دیوارِ گریہ یا دیوارِ برق کے سامنے اپنی التجائیں رکھی جائیں تو سنوائی ہو جاتی ہے۔ مگر اس کی دیوارِ گریہ تو ساری التجائیں رد کرتی آ رہی ہے۔ کیا اس کو مجھ پر رحم نہیں آتا؟ یہ بات سکینہ اپنے دل میں سوچتی۔
گھنٹوں دیوار سے خود کلامی کے بعد سکینہ کے ہونٹوں پر پیاس کی شدت سے پپڑیاں جمنے لگیں۔ اس نے اندھیرے کے باوجود درست سمت میں قدم اٹھائے اور پانی کے مٹکے تک جا پہنچی۔ مٹکے کا ڈھکن ہٹاتے ہی گندے پانی کی بدبو اس کی ناک سے ٹکرائی۔ پندرہ دن پہلے بدلے گئے پانی میں اب کائی کے ساتھ بدبو پیدا ہو چکی تھی۔ مگر سکینہ کے لیے یہی پانی آبِ حیات تھا. اس نے مٹکا ترچھا کیا تو پانی اس کی سطح سے لگا ہوا تھا. بہ مشکل ہونٹوں کو تر کر سکی اور تھک کر وہیں زمین پر دوزانوں بیٹھ گئی۔ اسے اس کمرے کے ہر کونے سے واقفیت تھی۔ وہ بنا ٹکرائے درست سمت کا تعین کر سکتی تھی۔ ان دو سالوں میں اس نے ان چار دیواروں کا جتنا طواف کیا اگر خدا کے گھر کی چار دیواروں کا کیا جاتا تو لوگ اسے ولی مان لیتے۔ لیکن وہ تو گناہ گار تھی۔
اندرون سندھ کے ایک گاؤں سے تعلق رکھنے والی سکینہ نے بڑی محنت اور دل جمعی سے اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا اور خاندانی روایات کو توڑتے ہوئے شہر کی ایک بڑی یونی ورسٹی پہنچ گئی۔ یہاں تک پہنچنے میں اسے کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اس نے کبھی کسی سے ذکر تک نہ کیا۔ وہ صرف اتنا جانتی تھی کہ اس نے جس مقصد کے لیے اپنی روایات سے بغاوت کی ہے اسے حاصل کرنے کے لیے مزید محنت اور استقامت کی ضرورت ہے۔ ایڈمیشن ہوتے ہی اسے یونی ورسٹی کے ہاسٹل میں کمرہ بھی مل گیا۔ لیکن جگہ کی کمی کی وجہ سے اسے یہ کمرہ ایک دوسری لڑکی کے ساتھ شئیر کرنا پڑا اور یہی بات سکینہ کے لیے پریشانی کا باعث تھی۔ اس کی روم میٹ کا تعلق لاہور کے ایک متوسط گھرانے سے تھا مگر وضع قطع سے محسوس ہوتا کہ وہ ایلیٹ کلاس سے تعلق رکھتی ہے۔ سکینہ اور اس کے مزاج اور رہن سہن میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ یہی بات کئی بار ان کے درمیان تنازعے کا باعث بنی جس کی وجہ سے وہ لڑکی سکینہ سے برملا مقابلے پر اتر آئی۔ کئی بار درخواست دینے کے بعد آخر انتظامیہ نے اس لڑکی کا کمرہ بدل دیا اور یوں سکینہ کی زندگی میں سکون آیا۔
لیکن یہ سکون تب عارضی ٹھہرا جب یونی ورسٹی کے ایک اوباش لڑکے کے نام کے ساتھ سکینہ کے نام کے پوسٹر پوری یونیورسٹی میں بانٹے گئے۔ وہ جو ایسی کسی بھی سرگرمی کی متحمل نہ تھی پوری یونی ورسٹی میں مجرموں کی طرح محسوس کرنے لگی۔ بات گردش کرتے ہوئے انتظامیہ تک جا پہنچی۔ سکینہ اور اس لڑکے کو کمیٹی کے سامنے پیش ہونے کا حکم جاری ہوا۔ کمیٹی کے سامنے سکینہ نے اس معاملے سے لاتعلقی کا اظہار کیا کہ وہ اس لڑکے کو جانتی تک نہیں مگر اس لڑکے نے سب کے سامنے اس بات کو قبول کیا کہ وہ اور سکینہ ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں اور شادی کرنا چاہتے ہیں۔ سکینہ حیران پریشان اس جھوٹ کو سن رہی تھی کہ تبھی کمیٹی کے ایک ممبر نے فیصلہ سنایا کہ دونوں طلبہ کے گھر والوں کو معاملے سے آگاہ کیا جائے۔ اس طرح یونی ورسٹی کی ساکھ خراب ہوگی۔ سکینہ نے لاکھ منت سماجت کی کہ اس کا اس لڑکے سے کوئی تعلق نہیں مگر کمیٹی ممبران نے اس کی ایک نہ سنی اور ان کے گھر والوں کو تفصیل کے ساتھ خط بھیج دیا گیا۔ سکینہ جانتی تھی کہ یہ بات اس کے گھر اور خاندان کے علم میں آئی تو اس کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا۔ روتی دھوتی سکینہ جب بورڈ روم سے باہر نکلی تو اس کی پرانی روم میٹ اور وہی لڑکا ہاتھ پر ہاتھ مارے اپنی کامیابی کا جشن منا رہے تھے۔ سکینہ کو دیکھتے ہی اس لڑکے نے اسے آنکھ مار کر اپنی جیت کا اشارہ دیا۔
دو دن بعد سکینہ پنچایت کے سامنے مجرموں کی طرح سر جھکائے کھڑی تھی۔ پنچایت نے اس سے نہ کوئی سوال کیا اور نہ ہی صفائی کا موقع دیا. دو ٹوک سزا سنا کر اپنے خدا کی نظر میں سرخ رو ہوگئے۔ سکینہ نے بھی کوئی واویلا نہیں مچایا کیونکہ وہ جانتی تھی کہ یہاں اس کی سنوائی ناممکن ہے۔ سر تسلیمِ خم کیے وہ اس کال کوٹھڑی میں داخل ہوگئی جو اس کے لیے سزا کے طور پر منتخب کی گئی تھی۔ لیکن جاتے جاتے وہ اپنے باپ اور بھائی سے مخاطب ہوئی:
” آپ کی یہ اونچی شان اور سر پر رکھی دستار میری دی ہوئی بھیک ہے۔ بھر لیں جب تک آپ اس بھیک سے اپنا پیٹ بھر سکتے ہیں۔ میں اپنا معاملہ خدا کی عدالت میں پیش کرتی ہوں۔ جو خدا آپ کا ہے وہی میرا ہے۔ خدا بہترین انصاف کرنے والا ہے۔"
کال کوٹھڑی کا زنگ آلود دروازہ ایک جھٹکے سے کھلا۔ دروازہ کھولنے والے کی ناک سے عجیب بدبو ٹکرائی اور اس نے ناک پر کپڑا رکھ لیا۔ کمرے میں اندھیرے کے باعث کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ ایک دو بار سکینہ کو پکارنے پر بھی جب کوئی جواب نہ ملا تو اس شخص نے دوسروں کو آوازیں لگانی شروع کر دیں اور ساتھ ہی حکم دیا کہ ٹارچ لائی جائے۔ اندر قدم رکھتے ہی متلی کی کیفیت محسوس ہوئی۔ کمرے کے چاروں طرف ٹارچ کی روشنی مارنے والے نے اپنے ساتھی سے سوال کیا۔
"بھاگ تو نہیں گئی؟"
” یہاں سے تو وہ مر کر ہی نکلتی، بھاگنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ادھر ہی پڑی ہوگی غور سے دیکھو۔" کہنے والا سکینہ کا باپ تھا۔
روشنی لکیروں سے خالی دیوار پر جا ٹھہری۔ گٹھری نما کوئی چیز سر جھکائے زمین سے لگی تھی۔ دونوں نے اندر کی جانب قدم بڑھائے اور گٹھری کو چھوا۔
"سکینہ!" اس کے باپ نے پیر کی ٹھوکر سے اسے ہلایا۔
” ڈراما کر رہی ہے۔ اٹھ بد بخت۔"
” مر تو نہیں گئی۔ بدبو بھی کتنی آ رہی ہے جیسے کوئی مردار بند ہو کمرے میں۔" دوسرے شخص نے کہا۔
” جاؤ کمرے کے لیے بلب لاؤ روشنی کریں۔" سکینہ کے باپ کا حکم پاتے ہی وہ شخص بھاگا بھاگا گیا اور بلب لا کر کمرے میں لگا دیا۔
کمرہ روشن ہوتے ہی دونوں ڈر کر دو قدم پیچھے ہٹ گئے۔ سکینہ جو نجانے کتنے دنوں سے اپنی زندگی کی آخری سانسیں پوری کر چکی تھی اس پر مکھیاں بھنبھنا رہی تھی اور چونٹیاں اس کے جسم کے حصوں پر اپنا حق سمجھ کر کھا رہی تھیں۔ دونوں نے ایک دوسرے کو معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ دیکھا اور مونچھوں کو تاؤ دیتے کمرے سے باہر نکل گئے۔ اس رات بنا غسل اور جنازے کے سکینہ کو قبرستان سے دور ویرانے میں دفن کر دیا گیا۔ یہ رات جشن کی رات تھی۔ اس رات سکینہ کے گھر سے ملحق حجرے میں شراب و شباب کی محفل جمی جہاں مردوں نے اپنی عزت بچ جانے کا جشن منایا۔ سکینہ کی کال کوٹھری اسی حجرے کے پچھلے حصے میں تھی۔ رقص و سرور کی محفل جاری تھی کہ ایک دھماکے کی آواز پر سب لوگ پچھلے حصے کی طرف بھاگے۔ کال کوٹھری کی تین دیواریں جن پر کوئلے سے لکیریں کھینچی گئی تھی وہ سر اٹھائے کھڑی تھیں۔ جب کہ چوتھی دیوار اپنے محبوب کی جدائی میں زمین بوس ہوچکی تھی۔
( ختم شد )
***
ثناء ادریس کی گذشتہ تخلیق :خواب فروش

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے