عیدِ سعید

عیدِ سعید

طفیل احمد مصباحی

رحمت کا ہے دروازہ کھُلا عید کا دن ہے
پڑھ صلِّ علیٰ، صلِّ علیٰ عید کا دن ہے

پھر دیپ محبت کا جَلا عید کا دن ہے
ہر نقشِ عداوت کو مٹا عید کا دن ہے

ہر آن برستی ہے گھٹا رحمتِ رب کی
اللہ کی مخصوص عطا عید کا دن ہے

کر سنتِ آقا پہ عمل، بھول جا رنجش
آ لگ جا گلے، ہاتھ مِلا عید کا دن ہے

” دوگانہ" ادا کر کے بصد عجز و تواضع
کر شکرِ خداوند ادا عید کا دن ہے

رکھ پیشِ نظر اسوۂ سرکارِ دو عالم
سینے سے یتیموں کو لگا عید کا دن ہے

بیواؤں، غریبوں کا رہے خیال ہمیشہ
بھر پیٹ انھیں کھانا کھلا عید کا دن ہے

کر صدقہ و خیرات، غریبوں کی خبر لے
کر مفلس و بیکس کا بَھلا عید کا دن ہے

کر ترکِ تعلق سے اے ہمدم مرے توبہ
روٹھے ہوئے بھائی کو منا عید کا دن

دُھل جائے گی سب مَیل ترے رنج و الم کی
دریائے مسرّت میں نہا عید کا دن ہے

جو رب سے ڈرے اصل میں ہے عید اسی کی
رکھ یاد نہ ہو پائے خطا، عید کا دن ہے

ہر چھوٹے بڑے کیوں نہ ہوں پھر شاد اے احمدؔ
اسلام کا تہوار بڑا عید کا دن ہے !!
***
صاحب نظم کی گذشتہ نگارش:رباعیاتِ شوقؔ نیموی : ایک تعارفی جائزہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے