چھین کر ہر شرافت حیا لے گئی

چھین کر ہر شرافت حیا لے گئی

جون زیدی

چھین کر ہر شرافت حیا لے گئی
وقت کی موج سب کچھ بہا لے گئی

امن کی جھونپڑی ایکتا کا محل
نفرتوں کی ہوا سب اُڑا لے گئی

روشنی بانٹتا تھا پڑوسی کو جو
اک دیا تھا اُسے بھی ہوا لے گئی

تیری یادوں سے اللہ بچائے مُجھے
نیند آنکھوں کی میری چرا لے گئی

زندگی سُرخ رو تُجھ کو کیسے کروں
عمر بھر کی کمائی دوا لے گئی

خود کو میں نے تراشا نہیں دوستو
زندگی جیسے چاہی بنا لے گئی

موت کا شکریہ جون تو کر ادا
زندگی سے تُجھے جو چھوڑا لے گئی
***

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے