کہانی انکل اور وقت کا تصور

کہانی انکل اور وقت کا تصور

ٖ طیب فرقانی
کانکی، اتر دیناج پور، مغربی بنگال
موبائل: 62943380

Abstract:
kahani Uncle is one of the best novel in Urdu language pened by renowned Urdu fiction writer, poet and critic Ghazanfar. In this article I have focussed to find out that how the novel Kahani Uncle is meaningful to our contemporary era and the concept of time depicted in this novel.

کہانی انکل تجربہ پسند ناول نگار غضنفر کا ناول ہے۔ ١٩٩٤ میں شائع اس ناول کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسے غضنفر نے اپنے شایع شدہ افسانوں کو جمع و ترتیب دے کر ناول بنایا ہے۔ لیکن یہ آدھا سچ ہے۔ غضنفر کا خیال ہے کہ ”بنا کسی جدت کے جس میں ہر طرح کا تجربہ بھی شامل ہے اچھا اور اوریجنل ادب پیدا ہوہی نہیں سکتا اور ادب و فن کے میدان میں وہی قابل ذکر اور بڑی حد تک کامیاب رہے جنھوں نے جدت سے کام لیا اور لیک سے ہٹ کر ادب تخلیق کیا۔“ (۱)
لیک سے ہٹ کر ادب تخلیق کرنے کے عمل کے تحت ہی کہانی انکل وجود میں آیا۔ غضنفر نے اپنے ایک مضمون میں اس ناول کے تخلیقی عمل پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے:
”اس طرح میں نے کہانی انکل میں بھی پلاننگ سے کام لیا۔ اس ناول کے بنیادی خیال (Idea) کو Support کرنے کے لیے اپنے کچھ شایع شدہ افسانوں کا انتخاب کیا۔ ان کے درمیان ایک ربط Coherence پیدا کرنے کی کوشش کی۔ ایک ایسے کردار یعنی سوتر دھار کی تخلیق کی جسے تخلیقی مفکر کا نام دیا جاسکتا ہے۔۔۔کہانی انکل میں شامل کہانیوں کو مجھے نئے سرے سے لکھنا پڑا اور کہانی کے مخاطب کے پیش نظر بول چال کی زبان اور روز مرہ پر خاص توجہ دینی پڑی۔“ (۲)
اس پوری گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ کہانی انکل ناول خوب سوچ سمجھ کر لکھا گیا ناول ہے جس میں جدت و ندرت ہے۔ اس ناول میں شامل کہانیاں غضنفر کے شایع شدہ افسانے تو ہیں لیکن ان افسانوں میں زبان و بیان سے لے کر آغاز و ارتقا اور عنوانات میں بھی بہت سی ترمیمات کی گئیں۔ اس طرح اسے بہ طور ناول تخلیق کیا گیا نہ کہ افسانوں کا مجموعہ۔ یہ بات کہنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ کہانی انکل ناول کو بہ طور ناول پڑھا جائے تبھی اس کے معنی کا سرا ہاتھ آتا ہے۔ ہوا یہ ہوگا کہ جنھوں نے غضنفر کے افسانے پہلے سے پڑھ رکھے ہوں ان کے لیے یہ تجربہ سرسری نظر میں غیر متاثر کن رہا ہو۔ ناول کا طریقۂ تخلیق اس کی فکری و فنی خوبیوں سے صرف نظر کرنے پر مجبور کر رہا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ لکھنے والوں نے ناول کی تکنیک پر زیادہ باتیں کیں اور فکر و فن پر ان کی توجہ کم گئی۔ چنانچہ قیصر اقبال لکھتے ہیں:
”کہانی انکل بھی کچھ اسی نوعیت کی کہانیوں کا مجموعہ ہے۔ جسے مصنف نے ناول کا نام دیا ہے۔ ناول سے متعلق عام طور پر یہی بات کہی جاتی ہے کہ یہ اپنی دیگر صفات کے ساتھ وقت اور سماج کی تمام تر کیفیات کا ترجمان بھی ہوتا ہے۔ اس اعتبار سے غضنفر نے کہانی سنانے والے ایک کہانی انکل کی زبانی بچوں کو مختلف حکایات، کہانیاں اور تمثیلات کی مدد سے علامتی پیرایے میں وہ سب کچھ بتانے کی کوشش کی ہے جو واقعات کی شکل میں ہمارے ملک اور معاشرے میں وقوع پذیر ہورہے ہیں اور عالمی سطح پر سیاسی چالبازیوں اور سازشوں کی صورت میں تاریخ کا حصہ بنتے جارہے ہیں۔“(۳)
قیصر اقبال نے اسے کہانیوں کا مجموعہ کہا۔ لیکن اسے صرف کہانیوں کا مجموعہ کہنا درست نہیں۔ کیوں کہ اس میں کہانی انکل کی کہانی بھی ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ یعنی کہانی انکل جو کہانیاں سناتا ہے وہ غضنفر کی وہ ترمیم شدہ کہانیاں ہیں جو پہلے سے شایع شدہ ہیں۔ اس پہلو پر ہم آگے روشنی ڈالیں گے کہ غضنفر کی ان کہانیوں میں انتخاب و ترتیب کی کیا صورتیں ہیں۔ اور معنی کی سطح پر ان کی ترتیب و انتخاب میں کیا ربط ہے؟ پہلے ایک اور بیان دیکھ لیں:
”کینچلی کے بعد غضنفر ایک تیسرا تجربہ ”کہانی انکل“ کی شکل میں کرتے ہیں۔ اس تجربے میں غضنفر نے اپنے دونوں سابقہ ناولوں کی روح کو یکجا کردیا ہے۔ یہاں ”پانی“ کی علامتی، داستانی اور تمثیلی فضا بھی ہے اور ”کینچلی“ کا راست بیانیہ بھی۔ اس ناول میں شاعر غضنفر بھی ناول نگار کے ساتھ ساتھ نظر آتا ہے۔ ناول کے مختلف عنوانات پر مشتمل باب گویا ایک غزل کے مختلف اشعار ہیں جن میں مختلف رموز و علائم اور تمثیلی کرداروں کے ذریعہ گردوپیش کے اہم مسائل کو آئینہ دکھایا گیا ہے۔“ (۴)
اس بیان میں تین نکتے ہیں:
(۱) ناول میں نیا تجربہ ہے۔ یعنی ناول غضنفر کے تجرباتی ذہن کی پیداوار ہے۔
(۲) اس میں اسلوب کی دونوں شکلیں ایک ساتھ جمع ہوئی ہیں: راست بیانیہ اور علامتی، داستانی اور تمثیلی بیانیہ
(۳) ناول کے ابواب ایک غزل کے مختلف اشعار ہیں۔
ناول کے مطالعے کے بعد اول الذکر دو نکتوں سے کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن تیسرے نکتے کو ہو بہو تسلیم کر لینے میں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا غزل کے کسی شعر کی طرح ناول کے کسی ایک باب کو الگ کردیں تو یہ ناول ویسے ہی برقرا رہے گا جیسے غزل برقرار رہتی ہے؟ میرا خیال ہے اس ناول کی بڑی کم زوری یہی ہے کہ اگر کسی باب کو الگ کردیں تب بھی ناول برقرار رہتا ہے۔ لیکن سارے ابواب کے ساتھ ایسا نہیں ہے۔ چنانچہ ایسا ہوا کہ کہانی انکل کے نئے ایڈیشن (آبیاژہ مرتبہ ڈاکٹر رمیشا قمر) میں ایک باب شایع نہیں ہوسکا اور ناول برقرا رہا۔ کوئی خلا محسوس نہیں ہوا۔ لیکن اگر کہانی کمیشن یا کہانی کا دھندا ابواب کو نکال دیں تو ناول ٹوٹ جائے گا۔ بے معنی ہوجائے گا۔
وہاب اشرفی اور پیغام آفاقی نے کہانی انکل کے مرکزی کردار میں غضنفر کو تلاش کیا ہے۔ وہاب اشرفی اپنی بات ”شاید“ کے ساتھ کہتے ہیں۔ جب کہ پیغام آفاقی زور دے کر کہتے ہیں۔ ساتھ ہی لکھتے ہیں:
”ناول ”کہانی انکل“ اس زاویہ سے اردو کا ایک ایسا چونکا دینے والا ناول ہے جس کی مثال دوسری زبانوں میں بھی سامنے کہیں موجود نہیں۔ اس ناول کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں کہانی کار ایک کردار بن کر ابھرا ہے۔ اور کہانی کی قوت کو ایسی تاریخی، فکری اور ترسیلی قوت کی طرح پیش کرتا ہے جو بذات خود کہانی کا موضوع ہے۔“ (۵)
مجھے نہیں معلوم کہ کہانی انکل کی مثال دوسری زبانوں میں موجود ہے یا نہیں۔ کیوں کہ اتنے بڑے دعوے کی تصدیق و تکذیب کے لیے دوسری زبانوں کے اہم ناولوں اور ان کی روایت کا مطالعہ ضروری ہے۔ پیغام آفاقی سے یہ بعید نہیں کیوں کہ وہ خود اہم ناول نگار تھے۔ لیکن میری نظر سے اکبر رضوی کی وہ تفصیلی تحریر گذری ہے جس میں انھوں نے سلمان رشدی کے ناول ”ہارون ایند دی سی آف اسٹوریز“ اور غضنفر کے ناول کہانی انکل کی کچھ مماثلتیں تلاش کی ہیں۔ یہ تحریر ہندی میں ہے۔ عنوان ہے: فنٹاسی، یتھارتھ اور کتھا جیون کا سنگھرش۔ اس تحریر میں اکبر رضوی غضنفر کے ناول کو حقیقت پسندانہ رویے کی وجہ سے سلمان رشدی کے ناول پر ترجیح دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ لیکن چوں کہ دونوں میں کہانی اور کہانی گو موجود ہے اور دونوں میں کہانی کا تعلق بچوں سے ہے اور دونوں میں چپ نہ بیٹھ کر بولنے کی قوت پیدا کرنے پر زور ہے، دونوں ناولوں میں کہانی بیان کنندہ کی بیویاں رزق میں تنگی کی شکوہ کناں ہیں لیکن جد و جہد زندگی میں کہانی انکل امید کی کرن بنا جاتے ہیں، چنانچہ وہ مماثلت کے چند پہلوؤں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”ظاہر ہے کہ رشدی ”گپیوں“ کی آزادی کے طرف دار ہیں، نہ کہ بے قابو، بے رحم حکومت اور سینسرشپ والی ”چُپوں“ کی دنیا کے۔ یہ الگ بات ہے کہ ناول اپنے اختتام تک خواب آگیں فوق حقیقت کی زمین پر اتر آتا ہے۔۔۔یہاں امتزاج پر زورہے۔ جد و جہد کا انکار ہے۔ جب کہ کہانی انکل آخری لمحے تک جد و جہد کرتا رہتا ہے۔“ (ہندی سے ترجمہ)
معلوم ہونا چاہئے کہ سلمان رشدی کا مذکورہ ناول غضنفر کے ناول کہانی انکل سے چار برس قبل شایع ہوا تھا۔ اس لیے ممکن ہے کہ قصہ گو کا  کردار ان کے پیش نظر رہا ہو۔ لیکن وہ قصے یا کہانیاں جو ناول میں پیش کیے گئے اور ان کا حقیقت پسندانہ رویہ غضنفر کو رشدی سے ممتاز کرتا ہے۔
کہانی انکل میں شامل کہانیوں کے انتخاب اور ترتیب پر نگاہ کریں تو محسوس ہوتا ہے کہ غضنفر فکشن کے اپنے عصری منظر نامے سے غیر مطمئن ہیں۔ اور وہ نہ صرف کہانیوں کی روش کو بدلنا چاہتے ہیں بلکہ کہانیوں سے ایک خاص قسم کا کام لینا چاہتے ہیں۔ وہ کہانی کو پر قوت بنانا چاہتے ہیں۔ وہ ان مسائل کو فن کے چاک پر رکھنا چاہتے ہیں جو بولتے ہوں۔ اس بول میں شور شرابہ نہ ہو لیکن ہمارے سماج، معاشرہ، سیاست اور استحصال کی اصل شکل سامنے آجائے۔ یہی وجہ ہے کہ کہانی انکل کی سوچ جب کہانی کی طرف مڑتی ہے تو یہ صورت حال نظر آتی ہے:
”کہانی جس کی ہر گھر کو ضرورت تھی،
کہانی جو چولھے میں جھلس رہی تھی،
کہانی جو بلغموں کے ہمراہ گلے میں پھنسی پڑی تھی،
کہانی جو ٹھیلے کے ساتھ الٹ گئی تھی،
الٹے ہوئے ٹھیلے سے ٹکرا کر سوچ کا رخ کاروبار کی جانب بھی مڑنے لگا،
دھیرے دھیرے اب اس کی سوچ کے دائرے میں
کہانی اور کاروبار دونوں سمٹ آئے۔“(۶)
یہاں غضنفر فکشن کے نقاد کے طور پر ابھرتے ہیں۔ پہلے جملے میں وہ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا کہانی کے بغیر ہم زندہ رہ سکتے ہیں؟ ہماری زندگی میں کہانی کی کیا اہمیت ہے؟ دوسرے جملے سے ہمارا ذہن ان باصلاحیت خواتین کی طرف جاتا ہے جو کہانیاں لکھ سکتی تھیں لیکن ان کو امور خانہ داری کی مصروفیت نے مواقع سے محروم رکھا۔
تیسرے جملے سے ہمارا ذہن اس تہذیب کی طرف جاتا ہے جس میں بڑی بوڑھیاں اپنے پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں کو با مقصد کہانیاں سنایا کرتی تھیں۔ لیکن اب وہ تہذیب قریب المرگ ہے۔ اور کہانی کی ضرورت باقی ہے۔ ایک خلا ہے۔ عام آدمی سڑکوں پر مجبور پھر رہا ہے۔ روزگار کے مواقع کم سے کم ہیں اور غریب پھل سبزی بیچنے والوں کے ٹھیلے سرمایہ داروں، نوکر شاہوں اور فرقہ پرستوں کے ذریعے الٹ دیے گئے ہیں۔ ایسے میں کیوں نہ کہانی کو روزگار سے جوڑ کر اسے نئی شکل دی جائے۔ لیکن اب کہانی کیسی ہو؟ اس سوال کا جواب بھی غضنفر اس شکل میں دیتے ہیں:
”اس نے اپنے حافظے کی طرف دھیان دیا مگر اس کے حافظے میں ایسی کوئی بھی کہانی موجود نہیں تھی جسے وہ بچوں کو سنا پاتا۔ اس نے اپنی لکھی ہوئی کہانیوں پر نظر دوڑائی تو وہاں بھی کوئی کہانی دکھائی نہ دی۔ وہ ساری کہانیاں پڑھے لکھے لوگوں کے لیے لکھی گئی تھیں جن کی باتیں گاڑھی، پیچیدہ اور فلسفیانہ اور زبانیں ادق، علمی اور مفکرانہ تھیں۔“ (۷)
یعنی کہانیوں کا پورا نظام ہی مشکوک نظر آیا۔ یہیں پر یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ کہانی انکل کیا اپنی کہانیاں بچوں کے لیے تلاش کر رہا تھا یا یہ ناول نگار کی تکنیک ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کہانی انکل میں پیش کردہ کہانیاں صرف بچوں کے لیے نہیں ہیں۔ کیوں کہ وہ بچوں کے لیے نہیں لکھی گئیں۔ ورنہ پورے ناول کو ادب اطفال میں شامل کرنا پڑے گا۔ اتنا ضرور ہے کہ یہ کہانیاں بچوں کے لیے بھی اتنی ہی کار آمد ہیں جتنی بڑوں کے لیے۔ کیوں کہ ان کہانیوں میں معنی کی الگ الگ سطحیں موجود ہیں۔
کہانی انکل راتوں رات کہانی کہانی سنانے والا نہیں بن جاتا بلکہ اس نے اس سے قبل کہانیاں لکھ کر شایع کروائی ہیں۔ وہ رسائل و جرائد کا مطالعہ کرتا ہے۔ اس کی فکر جمہوری ہے اور لبرل نظریے کی حامل۔ اس کی کتابوں کی دکان جب فرقہ پرستی کی آگ میں جھلس جاتی ہے تو اس میں سقراط، مارکس، لینن، کبیر، گاندھی، نہرو، کافکا، ایلیٹ کی کتابیں بھسم ہوجاتی ہیں۔ یعنی اس نے دنیا بھر کے ادبا و فلاسفہ کو پڑھ رکھا ہے۔ ان ادبا میں مختلف ”ازم“ کی جھلکیاں ہمیں نظر آتی ہیں۔ لیکن ان تمام طرح کے فلسفے اس کی زندگی کی کایا نہیں پلٹ سکے۔ اور اسے زندگی کے میدان کارزار میں خود اترنا پڑا۔ کہانی سنانے کے پیشے سے قبل اس نے جو کہانی لکھی اس میں قابلیت و صلاحیت کا احترام کرنے کے بجائے رشوت خوری، بے ایمانی اور چاپلوسی کی بنا پر ترقی کرتی اور آگے بڑھتی دنیا پر طنز ملتا ہے۔ انھی دنوں  اس نے بے روزگاری کے مسائل پر روشنی ڈالتی ایک نظم پڑھی:
”اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے ڈگریاں / ان کے چہروں پر تھیں کتنی شادابیاں / اور آنکھوں میں کیسی چمک تھی مگر / آج چہروں کی رونق لٹائے ہوئے / اور آنکھوں میں ویرانیوں کا سمندر لیے / دوڑتے پھر رہے ہیں ادھر سے ادھر / راستے میں کبھی یہ تمنا / کہ رکشے کی پینڈل پکڑ لیں / کبھی خوانچے کو سروں پر اٹھا کر / مکانوں میں پھیری لگانے کی خواہش / کبھی آرزو/ شو برش، بوٹ پالش لیے بیٹھ جائیں / مگر کیا کریں / ہاتھ میں ڈگریاں“ (۸)
یعنی کہانی انکل کو صورت حال بدلنے کے لیے خارجی اور داخلی دونوں عوامل تیار کرتے ہیں۔ لیکن کیا کہانی کار کا یہ کام ہے کہ وہ صورت حال کو بدلنے کی تدبیریں بتائے؟ ناول نگار اس سوال سے باخبر ہے۔ وہ جانتا ہے کہ وہ رومانی ناول نہیں لکھ رہا ہے۔ اس لیے اس نے اصل صورت حال کو پوری فنی چابک دستی سے پینٹ کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ اصل صورت حال اور متعلقہ مسائل کیا ہیں؟
پہلی کہانی ”باہر کی بھیڑیں“ سیاسی چالبازیوں کی چکی میں پستی اقلیت کا مسئلہ پیش کرتی ہے۔ دوسری کہانی ”ٹھپے والا سانڈ“ سیاست کے زیر اثر پنپنے والی فرقہ پرستی کے مسئلے کو پیش کرتی ہے۔ کہانی ”گدھوں کے سینگ“ دلتوں کے مسائل پر مکالمہ قائم کرتی ہے۔ کہانی ”فقیری سنگ ریزہ“ اس لالی پاپ پر طنز ہے جو سیاسی ہتھ کنڈوں کے لیے پیش کیے جاتے ہیں۔ کہانی ”کوا اور کلہاڑی“ کسانوں کے مسائل پر روشنی ڈالتی ہے۔ کہانی ”سپیرا سانپ“ سادہ لوح انسانوں کو جھانسا دینے والوں پر طنز کرتی ہے۔
یہ وہ چار پانچ بڑے مسائل ہیں جن پر توجہ دینا اہم اور ضروری ہے۔ اور یہ بھی ہے کہ اگر ان پر توجہ دی گئی، انھیں روشنی میں لا یا گیا تو کئی ایسے لوگوں کو بڑا نقصان پوسکتا ہے جو برسوں سے سامنت وادی، سرمایہ داری اور فرقہ پرستی کے جال میں پھنسا کر ملک کے ایک بڑے حصے کو اپنی عقل اور ذہنی برتری کی بنا پر غلام بنائے رکھنے کی کوشش کرتے آئے ہیں۔ اس لیے ان کے ذریعے کہانی کمیشن کا لانا ضروری سمجھا گیا۔ چنانچہ:
”کمیشن کی بیٹھک میں کہانیوں کو بار بار سنا گیا، ان پر باہر اندر دونوں جانب سے غور کیا گیا، انھیں مختلف سطحوں پر پرکھا گیا، لفظوں کو تخلیقی نظر سے پڑھا گیا، جملوں کو تنقیدی نگاہ سے دیکھا گیا، عبارتوں کو تجزیاتی پیمانوں سے جانچا گیا، استعاروں کو ادھیڑا گیا، علامتوں کی پرتوں کو کھرچا گیا، تلمیحوں کو پھیلایا گیا، تمثیلوں کو تمثالا گیا، تجریدوں کو ابھارا گیا، بین السطور کو بھرا گیا، معانی کی تہوں میں اترا گیا، اور رپورٹ میں لکھا گیا، ”یہ کہانیاں سادہ دکھائی دیتی ہیں، مگر سادہ نہیں ہیں، یہ بے حد گمبھیر اور بہت گہری ہیں، اور ان کی گہرائیوں میں بہت کچھ پوشیدہ ہے، لہذا کمیشن کی رائے میں، یہ سب کی سب لائق ضبط ہیں۔ اگر ان پر پابندی عائد نہیں کی گئی تو یہ نہایت خطرناک، مضر اور مہلک ثابت ہوسکتی ہیں۔“(۸)
کہانی کمیشن کے ذریعے غضنفر ان اداروں پر بھی طنز کرتے ہیں جن کو ان مسائل سے زیادہ زلف و رخسار اور کاکل کو سلجھانے والی کہانیاں اور ادب پسند ہیں۔ اور وہ ایسے ہی ادبا و شعرا کو انعامات و اعزازات سے نوازتی ہیں جو مسائل کی طرف توجہ نہ دلا کر فوق حقیقیت باتوں کو مصالحہ لگا کر پیش کرتے ہیں۔ اس طرح وہ اصل کہانیوں سے صرف نظر کرتے ہیں۔
کہانی انکل کے سامنے صرف اپنے ملکی مسائل نہیں ہیں بلکہ اس کی نظر بین الاقوامی سیاست پر بھی ہے۔ کہانی ”پھولی ہوئی لومڑی“ ایسی ہی کہانی ہے جس میں استعاروں، تشبیہوں، رمز و کنایہ اور علامتوں کی مدد سے یورپی اور ایشیائی سیاست میں ”بپوتی“ قائم کرنے والوں کا چہرہ بے نقاب کرنے کی ایسی کوشش ملتی ہے جس میں مذکورہ کہانیوں کے سب عناصر شامل ہوگئے ہیں۔
چھٹی کہانی ”گائے اور راکشش“ کرونی کیپیٹل ازم پر طنز کرتی ہے۔ اور MSMs یعنی چھوٹے چھوٹے کاروبار کرنے والوں کو نگلتی کارپوریٹ کے مسائل سے آگاہ کرتی ہے۔ کہانی ”سپنا بوٹی“ انسان کو عقل استعمال نہ کرکے ڈھونگ، اندھی عقیدت اور غلو کی طرف جانے والی راہوں کے خطرات سے آگاہ کرتی ہے۔ اس کہانی کو خاص ناول کے لیے لکھا گیا ہے اور پیغام یہ ہے کہ ان تمام مذکورہ مسائل سے نمٹنے کا طریقہ یہی ہے کہ انسان ”دلیل پسند“ اور”ترک وادی“ بنے۔ اور دلیل سے بات کرنا خطرے سے خالی نہیں۔ اس لیے آخر کار کہانی انکل کی زبان کاٹ لی جاتی ہے۔ زبان بندی کا یہ سلسلہ بند نہیں ہوسکتا۔ یہ ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہوتا رہتا ہے۔ زبان امر ہے۔ اس کا جسم مرجاتا ہے۔ آتما زندہ رہتی ہے۔ یعنی ”تدوال ایام“ ایک اٹل حقیقت ہے۔ جو آج صاحب مسند ہیں کل نہیں ہوں گے۔ یہی سلسلۂ روز و شب ہے۔ اس میں وقت ایک قوی عنصر و عامل ہے۔
کوئی بھی فن پارہ کسی زمان میں ہی لکھا جاتا ہے۔ اس کی قرات کا دورانیہ بھی ہوتا ہے اور کہانیوں میں بھی زمانے یا وقت کا تعین ناگزیر ہے۔ ہم یہاں یہ دیکھنے کی کوشش کریں گے کہ کیا کہانی انکل میں زمانہ یا وقت کے تصور پر کسی خاص زاویے سے نظر ڈالی جاسکتی ہے؟
وقت ایک پیچیدہ امر ہے۔ مذاہب، اساطیر اور فلسفہ میں وقت کے تصور کے حوالے سے بہت سی گفتگو ملتی ہے۔ اس سلسلے میں ناہید قمر کا تحقیقی مقالہ ”جدید اردو فکشن میں تصور وقت“ ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ پروفیسر ابو بکر عباد (دہلی یونی ورسٹی) کا ایک مقالہ ”فکشن کے نظام میں وقت کا تصور“ میرے پیش نظر ہے۔ اس کے چند بیانایات درج کرکے اپنی گفتگو درج کرتا ہوں۔ وہ لکھتے ہیں:
”وقت کا نہ تو کوئی ٹھوس جسم ہے نہ ظاہری شکل، نہ اس کے آغاز اور انجام کی خبر ہے اور نہ ہی اس کی عمر کا اب تک کوئی صحیح تعین ہوسکا ہے۔ چاہے تو یوں کہہ لیں کہ یہ کوئی مجسم نہیں مجرد شے ہے۔“(۹)
”وقت کے بارے میں سائنس دانوں کے ایک بڑے طبقے خاص طور سے نیوٹن کا نظریہ ہے کہ یہ ماضی سے مستقبل کی طرف رواں ہے۔ بدھ ازم اورہندو ازم میں اسے کال چکر یا پہیے کی طرح سے ایک دائرے میں گھومتا ہوا بتایا گیا ہے۔ قرآن میں وقت کا تصور اس لحاظ سے بے حد دل چسپ اور فکر انگیز ہے کہ قرآن وقت کے زمانی تصور کے بجائے وقت کے یونی ورسل تصور کا نظریہ پیش کرتا ہے۔“(١٠)
فکش میں وقت کو تین زاویوں سے دیکھا جاتا ہے۔ کہانی میں بیان کردہ عرصہ، متن کا وقفہ، بیان کرنے کا وقت۔ انگریزی میں کہیں تو ڈسکورس ٹائم، اسٹوری ٹائم، نیریٹیو ٹائم۔ کہانی انکل حال سے شروع ہوتا ہے۔ لیکن جلد ہی وہ ماضی کی طرف لوٹ آتا ہے۔ کہانی انکل کے ساتھ ماضی میں پیش آمدہ واقعات، روزگار کا چھن جانا، کہانی کی اشاعت وغیرہ کا تذکرہ نکل آتا ہے پھر وہ حال کی طرف لوٹ آتا ہے۔ اور بچوں کو کہانیاں سنانے کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ ان کہانیوں کے متن کا وقفہ مختصر ہے حتی کہ ناول کے متن کا عرصہ بھی مختصر ہے لیکن ڈسکورس کا عرصہ متعین نہیں ہے۔ مثلا پہلی کہانی جو بچوں کو سنائی گئی ”باہر کی بھیڑیں“ یوں ختم ہوتی ہے:
”البتہ بھیڑیں اس کے اندر نہ آسکیں۔
وہ کہانی ہی میں سہمی پڑی رہیں۔“
دوسری کہانی یوں ختم ہوتی ہے:
”سینگوں کی نوکیں اس کے ذہن میں چبھنے لگیں۔
درد سے دماغ کی نسیں پھٹنے لگیں۔“
تیسری کہانی:
”دونوں منظروں کو دیر تک دیکھتے رہنے کے بعد اس کی آنکھیں اگلی کہانی کی تلاش میں آگے بڑھ گئیں۔“
ان مثالوں سے یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ بیان کردہ واقعات میں تسلسل باقی ہے۔ لیکن کہانی سنانے والا چپ ہوگیا ہے۔ یعنی اس کے آگے بھی کہانی موجود ہے۔ اسی طرح ناول کا اختتام مستقبل کی طرف اشارے پر ہوتا ہے۔ کہانی انکل کی زبان کٹ جانے کے بعد بچوں کے منھ میں زبان آنا مستقبل کی طرف اشارہ ہے۔ یعنی وقت کا ایک غیر مختتم سلسلہ۔ جو حال، ماضی اور مستقبل سے مربوط ہے۔ سب سے اہم بات یہ کہ کہانی بیان کرنے کا وقت متن میں موجود نہیں۔ اس کا فائدہ یہ ہے  کہ کسی بھی زمانے میں جب استحصال کی کہانی ابھرے گی تو غضنفر کی کہانیاں اور ناول کہانی انکل با معنی رہے گا۔ غضنفر کے فن کا یہ پہلو بہت اہم ہے۔ مثلا روزگار کا مسئلہ، فرقہ پرستی کا مسئلہ، اندھی عقیدت کا مسئلہ جمہوری حکومتوں میں جب بھی بڑا ہواگا، کہانی انکل ہمیں یاد آئیں گے۔ کہانی کے کچھ حوالے تو ایسے ہیں کہ لگتا ہے غضنفر مستقبل دیکھ رہے تھے۔ مثلا کہانی کمیشن اور کہانی انکل کی زبان کا کاٹا جانا۔ بولنے کی آزادی کو جس طرح کچلا جارہا ہے۔ ایسی صورت حال میں کہانی انکل بے حد با معنی ہوجاتا ہے۔ کہانی انکل کے سلسلے میں وہاب اشرفی کے ایک بیان پر اس مضمون کا اختتام کرتا ہوں۔ وہ لکھتے ہیں:
”کہانی انکل کو اکثر لوگوں نے سرسری طور پر لیا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ کہانی والا غضنفر ایک کردار کی صورت میں سامنے آتا ہو۔ لیکن در اصل یہ مم کا پیش خیمہ ہے جس میں اس نظام کے خلاف پرچم لہرایا گیا ہے جو استحصال سے عبارت ہے۔ بچے تو استحصال کا مفہوم نہیں سمجھتے لیکن کہانی کی بنت میں ایسا انداز اختیار کیا گیا ہے کہ اس کی کہانی آٹھ سے اسی برس کے بچوں کے لائحہ عمل کا منظرنامہ بن جاتی ہے۔ لہذا کہا جاسکتا ہے کہ غضنفر استحصال کو انتہائی fluid بناکر پیش کرتے ہیں۔ ان کے یہاں crude واقعات سہل بن جاتے ہیں۔“(۱۱)
حوالہ جات:
(۱) آبیاژہ (غضنفر کے ناول)، مرتبہ رمیشا قمر،ص:١٦، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی، ٢٠٢١
(۲) فکشن سے الگ، غضنفر، ص:۶۶، مکتبہ جامعہ نئی دہلی، ٢٠٢١
(۳) کہانی انکل:ناول کی ایک نئی شکل، مشمولہ غضنفراردو فکشن کی ایک معتبر آواز،مرتبین: ڈاکٹر محمد انوار،آصف ابرار، ص:١٢٥،عصری سنگ میل پبلی کیشنز پٹنہ، ٢٠٠٦
(۴)کہانی انکل: ہمارے غضنفر مشمولہ غضنفراردو فکشن کی ایک معتبر آواز،مرتبین: ڈاکٹر محمد انوار،آصف ابرار، ص:١٢٩،عصری سنگ میل پبلی کیشنز پٹنہ، ٢٠٠٦
(۵)کہانی انکل:ناول نگار خود مرکزی کردار، مشمولہ غضنفراردو فکشن کی ایک معتبر آواز، مرتبین: ڈاکٹر محمد انوار، آصف ابرار، ص: ١٢٣،عصری سنگ میل پبلی کیشنز پٹنہ، ٢٠٠٦
(۶)،(۷)،(۸)آبیاژہ،ص:١٨٣،ص:١٨٣، ص: ٢٢٥
(۹)،(١٠)فکشن کے نظام میں وقت کا تصور، ابو بکر عباد، ادبی میراث ڈاٹ کام
(۱۱)غضنر ایک نئے ذہن کا ناول نگار، سہ ماہی سمت، ویب زین، اعجاز عبید، جولائی ٢٠١٧
***
طیب فرقانی کی گذشتہ نگارش : کتاب: غضنفر شناسی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے