تعلیم نسواں کے ایک سچے حامی: علامہ راشدالخیری

تعلیم نسواں کے ایک سچے حامی: علامہ راشدالخیری

ڈاکٹر محمد اطہر مسعود خاں
غوث منزل،تالاب ملا ارم
رام پور 244901 یوپی
موبائل:9719316703

علامہ راشدالخیری کا اصل نام محمد عبدالراشد تھا۔ ان کی ولادت ۸۶۸۱ء میں دہلی میں ہوئی۔ان کے والد گرامی حافظ محمد عبدالواجد اپنے زمانے کے ایک زبردست عالم اور قابل احترام بزرگ تھے۔ ان کے خاندان میں ایک لمبے عرصے سے علم و ادب اور دین و مذہب کا چرچا تھا۔ اسی خاندان کے ایک بزرگ مولوی خیراللہ بہت مشہور صوفی اور ثقہ گزرے تھے۔ لہٰذا ان ہی پاک طینت اور روشن ضمیر بزرگ کی نسبت سے محمد عبدالراشد، راشدالخیری کے نام سے اردو دنیا میں مشہور و معروف ہوئے۔
محمد عبدالراشد کی ابتدائی تعلیم نہایت معمولی تھی۔اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کی طبیعت لکھنے پڑھنے میں بالکل نہیں لگتی تھی اور ان کا زیادہ تر وقت کھیل کود میں ضائع ہوا کرتا تھا۔ ان کے والدین اور گھر کے دیگر افراد ان کی نازیبا عاتوں اور حرکتوں کو پسند نہیں کرتے تھے۔ اس الجھن اور پریشانی سے نجات پانے کے لیے ان کی دلی خواہش تھی کہ یہ کھلنڈرا لڑکا کسی طرح سدھر جائے اور نیک چلنی کی راہ اختیار کرے اور خاندان کا نام نہ بھی روشن کرے تو کم سے کم کسی بدنامی کا تو موجب نہ بنے، لیکن قدرت بھی پردۂ غیب میں عجیب انتظام رکھتی ہے۔ اس لیے اس شرارتی لڑکے کو نہ صرف راہ راست پر لانے بلکہ ہزاروں لاکھوں افراد کو اس کا مداح اور پرستار بنانے کا پروردگار عالم نے غیب میں انصرام فرما رکھا تھا اور اب اس کے آشکارا ہونے کا وقت گویا آیا ہی چاہتا تھا۔
ہوا یوں کہ انھی دنوں عبدالراشد کے پھوپھا مولوی نذیر احمد ریاست حیدر آباد سے مستقل طور پر دہلی تشریف لے آئے۔ دراصل مولوی نذیر احمد کی علمی اور انتظامی صلاحیتوں اور قابلیت کی شہرت سن کر سر سالار جنگ نے ان کو حیدر آباد میں بلا لیا تھا اور آٹھ سو روپے مہینہ تنخواہ پر ان کا تقرر افسر بندوبست (ڈپٹی کلکٹر) کے عہدہ پر کر دیا تھا۔ چونکہ نذیر احمد ایک ایمان دار اور محنتی شخص تھے اس لیے ترقی کے منازل طے کرتے ہوئے آخر ایک روز، مالیات کے ایک اعلا عہدے پر فائز ہوئے۔ سچ ہے کہ اس زمانے میں ان کی تنخواہ سترہ سو روپے مقرر کی گئی تھی جو آج کے دور کے حساب سے یقیناً لاکھوں روپے پر بھاری ہے۔
بہرحال وہاں کئی سال ملازمت کرنے کے بعد ڈپٹی نذیر احمد سبک دوش ہو کر دہلی آئے تھے اور اب اپنا سارا وقت تعلیم و تدریس، تصنیف و تالیف اور علم و ادب کی خدمت کرنے میں صرف کرتے تھے۔ یہاں انھوں نے دیگر علمی خدمات کے علاوہ عورتوں کی فلاح و بہبود کے لیے بہت سے کام کیے اور خواتین کی سماجی دگرگوں حالت کے پیش نظر ابن الوقت، بنات النعش، مرأۃ العروس، توبۃ النصوح، رویائے صادقہ وغیرہ شہرہ آفاق ناول لکھے۔ ان کے کئی ناولوں میں معاشرہ کی اصلاح کا جذبہ بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔
غرض مولوی نذیر احمد جیسے عالم فاضل شخص اور قوم و ملت کا حقیقی درد رکھنے والے مصلح کی دہلی میں آمد عبدالراشد کے لیے ایک بے مثل تحفے اور نعمت غیر مترقبہ سے کم ثابت نہ ہوئی، یعنی عبدالراشد کو مولوی نذیر احمد کی سپردگی اور شاگردی میں دے دیا گیا اور حقیقت یہ ہے کہ ایسے عظیم استادوں کی شاگردی قسمت والے لوگوں کو ہی حاصل ہوتی ہے۔
چونکہ کہا جاتا ہے کہ ہیرے کی قدر جوہری ہی خوب جانتا ہے، اس لیے اس ناتراشیدہ ہیرے کی اہمیت اور صلاحیت کو مولوی نذیر احمد جیسے جوہری بلکہ صاحب نظر اور صائب الرائے، ابتدائی چند روز میں ہی خوب اچھی طرح جان گئے تھے۔ اس لیے انھوں نے محمد عبدالراشد کو ایسی اعلا تعلیم و تربیت سے نوازنا شروع کیا کہ تھوڑے ہی عرصے میں ان کے اندر زیادہ سے زیادہ علم و ادب حاصل کرنے اور قوم و ملت کی خدمت کرنے کا جذبہ موجزن ہو گیا اور مولوی نذیر احمد کے دامن فیض سے وابستگی کے باعث محمد عبدالراشد کی طبیعت پر کچھ ایسا اثر پڑا کہ اب وہ ہمہ تن اور ہمہ وقت لکھنے پڑھنے میں مصروف رہنے لگے۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ محمد عبدالراشد یعنی راشدالخیری کی اصل تعلیم و تربیت مولوی نذیر احمد کے دامن فیض سے ہی انجام کو پہنچی۔
اب راشد الخیری کو علم و ادب کا ایسا شوق ہو گیا کہ اس راہ کی صعوبتوں اور پریشانیوں کو برداشت کرنا بھی ان کو عین راحت محسوس ہونے لگا اور اس راہ کے کانٹے بھی ان کو پھولوں کی طرح سبک، نرم اور خوب صورت نظر آنے لگے۔ اس زمانے میں وہ ایک جگہ ملازمت بھی کرتے تھے، جو اب انھیں اپنے اعلا مقاصد کی راہ میں سد راہ نظر آنے لگی تھی۔ آخر انھوں نے اپنی زندگی کا ایک بہت اہم اور مشکل فیصلہ لیا اور ملازمت سے استعفیٰ دے دیا۔ اس کے بعد وہ کلی طور پر اصلاح معاشرہ اور علمی کاموں میں منہمک ہو گئے۔
علامہ راشدالخیری مولوی نذیر احمد کے حقیقی اور معنوی شاگرد تھے۔ یہی وجہ تھی کہ مشہور زمانہ استاد یعنی نذیر احمد کی اعلا سے اعلا خوبیاں اس ہونہار شاگرد کے رگ و پے میں سما گئی تھیں۔ مولوی نذیر احمد کی طرح علامہ راشدالخیری بھی عورتوں کی اصلاح و ترقی میں بہت دل چسپی رکھتے تھے۔ وہ اپنی ایک سے بڑھ کر ایک اعلا تحریر کے ذریعہ ساری عمر عورتوں کی سماجی حیثیت کو اوپر اٹھانے کی کوشش کرتے رہے۔
علامہ راشدالخیری کو عورتوں کی ذہنی، گھریلو اور معاشرتی کم زوریوں کو سمجھنے کا بڑا ملکہ حاصل تھا۔ وہ ان کے سکھ دکھ، آلام و مصائب، نفسیاتی الجھنوں اور ذاتی پریشانیوں کو جاننے کی بڑی مہارت رکھتے تھے۔ وہ سبھی عورتوں کو تعلیم یافتہ دیکھنا چاہتے تھے۔ ان کی کتابوں کے ہر صفحہ اور ہر سطر سے عورتوں کے لیے ان کا سچا خلوص نظر آتا ہے۔ ہمدردی، شفقت اور محبت ان کی ذات اور ان کی تحریروں کا نمایاں وصف ہے۔ وہ رسم و رواج، جن سے عورتوں کی سماجی زندگی برباد ہو جاتی ہے اور ان کا جینا اجیرن اور مشکل ہو جاتا ہے، ایسی رسموں کو وہ ترک کرنے کے حامی تھے۔ ان کی دلی آرزو تھی کہ مغربی اثرات سے سماج میں جو بے راہ روی نظر آرہی ہے، اس کو ہر صورت سے روکا جائے۔ انھوں نے قلم کو اپنا فریضہ سمجھ کر چلایا۔ وہ چاہتے تھے کہ ہندستان کی عورت مشرق کا ایک اعلا نمونہ ثابت ہو۔ اکبر الہ آبادی کی طرح علامہ راشدالخیری بھی عورت کو صرف چراغ خانہ کی مثل دیکھنا چاہتے تھے اور اس کو سبھا کی پری بنانے سے گریز کے حامی تھے۔ان کی خواہش تھی کہ ہندستان میں عورتوں کی نئی نسل اپنے اخلاق اور اعلا تعلیم سے آراستہ ہو کر دنیا کی عورتوں کی رہ بری کے لیے آگے آئے۔
علامہ راشدالخیری کی ادبی اور صحافتی زندگی کا باقاعدہ آغاز اس وقت ہوا جب وہ مشہور و معروف رسالہ ’مخزن‘ میں دل چسپی لینے اور اس میں مضامین لکھنے لگے۔ جس سے ان کی صلاحیتوں کی شہرت پورے ملک میں پھیل گئی۔ ان کی محنت اور کوششوں سے رفتہ رفتہ ایک ایسا وقت بھی آیا کہ جب وہ خود رسالہ ’مخزن‘ کے ایڈیٹر بن گئے۔ انھوں نے صحافت کی اس عظیم ذمہ داری کو برسوں تک نہایت خوش اسلوبی سے انجام دیا۔ علم و ادب سے محبت اور صحافت کے اس بے مثل تجربے کو بروئے کار لاتے ہوئے انھوں نے ایک دوسرا رسالہ ’عصمت‘ کے نام سے جاری کیا اور جیسا کہ نام سے ظاہر ہے یہ رسالہ خواتین اور نوجوان لڑکیوں کی تعلیم و تربیت اور اصلاح معاشرت کی غرض سے شائع کیا جاتا تھا۔ یہ رسالہ علامہ راشدالخیری کی کوششوں اور انتھک محنت کے باعث عرصۂ دراز تک شائع ہوتا رہا اور امکان ہے کہ شاید آج بھی کسی کی ادارت میں لاہور سے شائع ہوتا ہو۔ البتہ راشدالخیری کی وفات کے بعد اس رسالہ کی ادارت اور اس کی اشاعت کی ذمہ داری ان کے بے حد لائق و فائق فرزند رازق الخیری نے سنبھال لی تھی۔ یہاں یہ تذکرہ بھی ناگزیر ہے کہ مذکورہ رسالہ ’عصمت‘ کے علاوہ، دو دیگر رسالے ’تمدن‘ اور ’سہیلی‘ بھی علامہ راشدالخیری سے منسوب ہیں اور ان کی یادگار مانے جاتے ہیں۔
علامہ راشدالخیری ماضی کے اس شان دار دور کی درخشاں یادگار ہیں جب اردو ادب کے کئی ماہ و انجم اپنی نثری اور منظوم تحریروں کے ذریعہ پورے معاشرے کو عموماً اور خواتین کو خصوصاً نہایت اعلا تعلیم سے آراستہ دیکھنا چاہتے تھے، تاکہ یہ خواتین اپنے سماج، اپنے گھر اور اپنے خاندان کے بچوں کی بہتر سے بہتر تربیت کر سکیں۔ اس لیے یہ لوگ ہر صورت سے عورتوں کی فلاح و بہبود کے خواہاں تھے۔ اس سلسلے میں یوں تو کئی پاکیزہ صفت اور نیک طینت بزرگوں کے نام لیے جا سکتے ہیں لیکن خصوصی طور سے ہی دیکھا جائے تو سر سید احمد خاں، مولانا الطاف حسین حالی، خواجہ حسن نظامی، مولوی نذیر احمد، اکبر الہ آبادی، منشی پریم چند، مولانا عبدالحلیم شرر، علی عباس حسینی وغیرہ کئی ایسے قابل احترام قلم کار ہیں جنھوں نے اصلاح معاشرہ کو اپنی زندگی کا ایک اہم فریضہ سمجھ کر اس کے لیے کام کیا اور اپنے مضمونوں، ناولوں، افسانوں اور نظموں کے ذریعہ عورتوں کی سماجی حیثیت اور ان کو درپیش مسائل کی بابت لکھا۔ لہٰذا اردو ادب کے ان عظیم محسنوں اور ان کے بے مثال و بیش قیمت کارناموں اور ان کی اعلا تحریروں کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
١٩٣٦ء کا سال اردو ادب میں بہت نمایاں اور تاریخی اہمیت رکھتا ہے، کیونکہ اس سال ترقی پسند تحریک کا اولین اجلاس رفاہ عام کلب، لکھنؤ میں منعقد ہوا۔ جس میں اس دور کے اکابرین قلم کاروں اور مشاہیر ادب کے ساتھ مولانا حسرت موہانی نے بھی شرکت فرمائی اور کرسی صدارت پر اردو افسانے کے شہنشاہ منشی پریم چند جلوہ افروز ہوئے لیکن یہی ١٩٣٦ء کا سال اردو ادب میں اس دکھ کے لیے بھی یاد کیا جاتا ہے کہ اس سال اردو کے دو عظیم قلم کار ہم سے بچھڑ کر دور افق میں معدوم ہو گئے۔ اکتوبر ١٩٣٦ء میں پریم چند کا انتقال ہوا اور ان سے کئی ماہ پیشتر فروری ١٩٣٦ء میں، دہلی میں ملک و ملت کے عظیم اور سچے ہمدرد علامہ راشدالخیری ہم سے ہمیشہ کے لیے جدا ہو گئے۔ اس وقت موصوف کی عمر ٦٨ سال تھی۔ انھیں فیروز شاہ کوٹلہ کے جدید قبرستان میں دفن کیا گیا۔
علامہ راشدالخیری زود قلم واقع ہوئے تھے۔ اس لیے انھوں نے اپنی کتابوں کی شکل میں ایک بڑا ادبی خزانہ ورثے میں چھوڑا۔ سماجی، تاریخی، اسلامی اور اصلاحی مضامین کے علاوہ تقریباً ٨٠ کتابیں ان کی یادگار ہیں۔ ان کی کتابوں میں سمرنا کا چاند، صبح زندگی، شام زندگی، شب زندگی، نوحہ زندگی، ماہ عجم، عروس کربلا، زہرۂ مغرب، آمنہ کا لال، دلی کی آخری بہار وغیرہ بہت مشہور ہیں۔ ان کی کئی کتابوں نے عالمی شہرت بھی پائی۔
یہاں ضروری معلوم دیتا ہے کہ ان کے دستیاب سبھی ناولوں اور افسانوی مجموعوں کے نام درج کردیے جائیں:
ناول:
۱۔احسن و میمونہ (صالحات) ١٨٩٦، ۲۔منازل السائرہ ١٨٩٨ء، ۳۔صبح زندگی ١٩٠٧، ۴۔شام زندگی ١٩١٧،
۵۔ طوفان حیات ١٩١٧، ۶۔جوہر قدامت ١٩١٩، ۷۔بزم آخر ١٩١٨، ۸۔سنجوگ ١٩١٨،
۹۔شب زندگی ١٩١٩، ١٠۔نوحۂ زندگی ١٩٣١، ۱۱۔تربیت نسواں ١٩٢٣، ١٢۔سودائے نقد
١٣۔آمنہ کا لال ١٤۔یاسمین شام ١٩٢١، ١٥۔شاہین و دراج ١٩٠٨، ١٦۔محبو بۂ خداوند ١٩١١،
١٧۔ماہ عجم ١٩١٨، ١٨۔عروس کربلا ١٩١٩، ١٩۔منظر طرابلس ١٩٣٩، ٢٠۔تیغ کمال ١٩٢٣،
٢١۔شہنشاہ کا فیصلہ ١٩٢٩، ۲۲۔در شہوار ١٩٢١، ٢٣۔شہید مغرب ٢٤۔آفتاب دمشق ١٩١٨،
٢٥۔اندلس کی شہزادی ١٩٢٠، ٢٦۔امین کا دم واپسیں، ٢٧۔نوبت پنج روزہ، ٢٨۔تمغۂ شیطانی،
٢٩۔فسانۂ سعید ٣٠۔تائید غیبی ١٩٢٠ء، ٣١۔بنت الوقت ١٩١٨
افسانوی مجموعے:
۱۔نصیروخدیجہ ١٩٠٣ء، ۲۔جوہر عصمت، ۳۔سیلاب اشک، ۴۔نسوانی زندگی،
۵۔طوفان اشک، ۶۔قطرات اشک (افسانے اور مضامین) ١٩٢١
رضا لائبریری رام پور میں ان کی جو کتابیں موجود ہیں، ان کے نام ریسرچ اسکالرز کی سہولت کے لیے درج کیے جاتے ہیں:
ناول
۱۔چہار عالم ١٩٣٩، ۲۔صبح زندگی، ۳۔جوہر قدامت، ۴۔تائید غیبی ١٩٢٣،
۵۔ولایتی ننھی ١٩٤٢، ۶۔شاہین دراج ١٩٤٤، ۷۔سراب مغرب ١٩٤٥، ۸۔موؤدہ،
۹۔شام زندگی، ١٠۔سودائے نقد ١٩٣١، ۱۱۔منظر طرابلس ١٩٤٣، ١٢۔ماہ عجم، ١٣۔درشہوار ١٩٤٥، ١٤۔تیغ کمال، ١٥۔امین کا دم واپسیں ١٩٤٥، ١٦۔شب زندگی،
١٧۔عروس کربلا ١٩٤٦، ١٨۔تمغہ شیطانی
افسانوی مجموعے:
۱۔بساط حیات ١٩٤٢، ۲۔نشیب و فراز ١٩٤٢، ۳۔گرداب حیات ١٩٣٦
۴۔جوہر عصمت ۵۔ملکہ شہزاد ۶۔طوفان اشک ١٩٤٢
مجموعہ مضامین:
۱۔وداع خاتون ١٩٢٩، ۲۔قطرات اشک ١٩٤٤
۳۔قلب حزیں ١٩٣١ ۴۔لڑکیوں کی انشاء
نظم:
۱۔روداد قفس ١٩٢٢، ۲۔گرفتار قفس ١٩٣٤
تاریخ ہندوستان:
۱۔دلی کی آخری بہار ١٩٣٧
علامہ راشدالخیری کا شمار ہندستان کے ان نامور مصنفین میں ہوتا ہے جو اپنے ایک خاص اسلوب نگارش کے باعث سب سے منفرد سمجھے جاتے ہیں۔راشدالخیری، صاحب طرز ادیب تھے۔ داستان غم لکھنے اور رنج و الم کی تصویر کشی کرنے کی قدرت نے ان کو وہ ملکہ عطا فرمایا تھا جو اردو ادب میں آج تک کسی کو حاصل نہ ہو سکا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ’مصور غم‘ کے لقب سے مشہور ہوئے۔ یہ لقب ان کو ناول ’شام زندگی‘ لکھنے پر ملا تھا۔ یہ بھی واضح رہے کہ مذکورہ بالا فہرست میں جو نام دیے گئے ہیں وہ ان سبھی کتابوں کے پہلے ایڈیشن نہیں ہیں، کیونکہ ان کی کتابوں کے کئی کئی ایڈیشن شائع ہوتے تھے اور وہ بھی کئی کئی ہزار کی تعداد میں۔ ان کی بعض کتابوں کے دس دس، بیس بیس ہزار کے ایڈیشن ان کی زندگی میں ہی شائع ہوئے اور بہت جلد فروخت ہو گئے۔ صبح زندگی، شام زندگی اور شب زندگی ان کی وہ بے نظیر کتابیں ہیں جو ان کی تصانیف میں سب سے اہم مقام رکھتی ہیں۔ ہندستان کے سیکڑوں رسائل و جرائد اور ملک کے بے شمار مصنفین نے ان کتابوں کی تعریف و توصیف اور ستائش کی ہے۔
’صبح زندگی‘ میں ایک لڑکی کا بچپن، اس کی ابتدائی تعلیم، تربیت اور کنوار پنے کی پوری زندگی کی منظر کشی کی گئی ہے اور اس زندگی کا کوئی شعبہ یا دور ایسا نہیں جسے نظر انداز کر دیا گیا ہو۔ ’شام زندگی‘ میں اس لڑکی کی شادی سے لے کر اس کی وفات تک کے حالات بیان کیے گئے ہیں۔ انداز بیان اس قدر مؤثر اور دل گداز ہے کہ ایک ایک لفظ دل کے پار ہو جاتا ہے۔ ’شب زندگی‘ میں عالم بالا کی سیر کرائی گئی ہے اور زندگی کے اچھے اعمال کا اچھا بدلہ ملتے دکھایا گیا ہے اور اس خاندان کے زمین پر باقی بچ رہے افراد کے حالات تحریر کیے گئے ہیں۔ صبح زندگی، شام زندگی اور شب زندگی جیسی اعلا تصانیف کے بعد علامہ راشدالخیری نے ایک اور کتاب ’نوحہ زندگی‘ تصنیف کی۔ یہ کتاب شادی بیوگان پر لکھی گئی۔ جو بے جا رسوم مسلمانوں میں غلط طریقوں سے رائج ہو گئی تھیں، اس کتاب میں، ان کو ترک کرنے کی ترغیب دی گئی۔
کتاب ’جوہر قدامت‘ دو بہنوں کی پر لطف کہانی، دو لڑکیوں کی زندگی کے مفصل حالات اور دو عورتوں کی جگر خراش داستان پر مشتمل ہے۔ ان عورتوں میں سے ایک دور جہالت میں حسرت و یاس کی تصویر بنی ہوئی ہے اور دوسری، طرز جدید کی دل دادہ اور شیدا ہے اور فیشن و مغرب پرستی کی طرف ذہنی جھکاؤ رکھتی ہے۔اس کتاب کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آج سے تقریباً سو سال پہلے ہمارے معاشرے میں عورتوں کی کیا صورت حال تھی۔ ان کو کتنا سماجی مرتبہ حاصل تھا۔ ان کی وفاداری، ان کی محبت اور ان کی شوہر پرستی کی کیا حالت تھی اور مسلم گھرانوں میں اس وقت کیسے کیسے، گدڑیوں کے لعل موجود تھے لیکن اس کے باوجود ستم ظریفی یہ تھی کہ مغربی تہذیب و تمدن مسلم رہن سہن اور علم و ادب کو اپنی راہ پر لے جانے کی کوشش کر رہا تھا۔
مصور غم علامہ راشدالخیری کی ایک کتاب ’عروس کربلا‘ ہے۔ جس کا نام سطور بالا میں بھی آ چکا ہے۔ یہ کتاب اپنے اندر بڑا دردوالم رکھتی ہے کیونکہ ایک تو کربلا کے تایخی واقعات پہلے ہی کرب آمیز اور اور درد انگیز ہیں، دوسرے علامہ راشدالخیری کے قلم نے واقعات کربلا کی وہ تصویر کشی اور منظر نگاری کی ہے کہ اس کی مثال اردو نثر میں ملنی مشکل اور مفقود ہے۔ یہ کہنا شاید غلط نہ ہوگا کہ واقعات کربلا کے بیان میں، مرثیہ میں میر ببر علی انیس اور نثر میں علامہ راشدالخیری کی تحریر کا ہندستان اور اردو ادب میں کوئی ثانی نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ کافی عرصہ پہلے مصر کے مشہور عیسائی مصنف جرجی زیدان نے معرکہ کربلا کے حالات و واقعات ناول کے پیرائے میں بیان کیے تھے جس کا ترجمہ لکھنؤ میں ایک قلم کار نے کیا تھا لیکن علامہ راشدالخیری کی کتاب ’عروس کربلا‘ اپنے بیانیہ کے باعث اس اعلا کتاب پر بھی فوقیت لیے ہوئے ہے۔
کتاب ’موؤدہ‘ بھی علامہ راشدالخیری کی ایک ایسی تصنیف ہے جو اپنے موضوع کے لحاظ سے خاصی انفرادیت رکھتی ہے۔ اس کا موضوع یہ ہے کہ اسلام کے احکامات کو نظر انداز کرکے اور کلام الٰہی کے خلاف عمل کرتے ہوئے بہت سے مسلمان اپنی بیٹیوں کو ترکہ سے محروم کر دیتے ہیں۔ علامہ راشدالخیری نے یہ کتاب اسی خرابی کے انسداد کے لیے تصنیف کی اور اس میں بھی انھوں نے اپنا وہی مخصوص اسلوب نگارش اختیار کیا جو ان کی پہچان ہے۔ کتاب میں ایسا سوزوگداز ہے کہ پتھر سے پتھر دل انسان بھی اپنے آنسو نہ روک سکے۔بہرحال علامہ راشدالخیری کی مذکورہ بالا کتابوں کے نہایت مختصر تعارف کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ علامہ موصوف کو ہر حالت میں اور ہر صورت سے عورتوں اور لڑکیوں کی فلاح و بہبود مقصود تھی اور ان کی بیشتر تحریریں اسی خلوص پر مبنی تھیں۔
انقلاب ١٨٥٧ جس کو غدر کا بھی نام دیا گیا، اس کے حالات اور خونیں واقعات بہت سے قلم کاروں نے تحریر کیے۔ غالب نے اپنے خطوط کے ذریعے ١٨٥٧ء کے دل سوز حالات من و عن تحریر کیے، جن کی مدد سے برسوں بعد ایک کتاب ’١٨٥٧ء کی کہانی غالب کی زبانی‘ ترتیب دی گئی۔ خواجہ حسن نظامی نے ’بیگمات کے آنسو‘ جیسی معروف کتاب لکھی جس میں بہادر شاہ ظفر کی بیگمات اور ان کے خاندان کی دیگر خواتین کی حالت زار کا بڑے د ل گداز پیرایے میں بیان کیا۔ علامہ راشدالخیری کا قلم بھی غدر کے خونچکاں حالات سے بہت متاثر ہوا تھا۔گورے فرنگیوں کے کالے کرتوتوں اور نہتے مسلمانوں کے قتل عام سے ان کا دل بہت رنجیدہ تھا۔
چونکہ ان کی پیدائش غدر کے گیارہ سال بعد یعنی ١٨٦٨ء میں ہوئی تھی۔ اس لیے ان حالات کے بارے میں انھوں نے بڑے ہوکر بہت کچھ پڑھا اور جو لوگ ان حالات سے متاثر ہوئے تھے ان سے مل کر بھی انھوں نے بہت سی معلومات یکجا کیں۔ لہٰذا ’غدر کی ماری شہزادیاں‘ کے عنوان سے ان کی تصنیف منظر عام پر آئی۔ جس کا ایک ایک لفظ گویا دکھ درد اور رنج و الم میں ڈوبا ہوا ہے، بلکہ یوں لگتا ہے کہ انھوں نے اپنے قلم کو سیاہی کے بجائے اپنے آنسوؤں اور خون جگر میں ڈبو کر یہ داستان غم لکھی ہے۔ لال قلعہ پر قبضہ کے بعد شاہی خاندان کی شہزادیاں محلات سے نکل کر جنگلوں اور دور دراز کے گاؤں میں نکل گئی تھیں۔ سیاہ قلب اور بد باطن گوروں کے ہاتھوں ان معصوم شہزادیوں پر مصیبتوں کے جو پہاڑ ٹوٹے اور انھیں در در کی جس طرح ٹھوکریں کھانی پڑیں ان کا تفصیلی حال مصور غم علامہ راشدالخیری نے اپنی مذکورہ تصنیف ’غدر کی ماری شہزادیاں‘ میں اپنے مخصوص انداز میں بیان کیا ہے۔ ان نازک اندام، سبک خرام، معصوم اور بے گناہ شہزادیوں کی حالت زار پڑھ کر کلیجہ منھ کو آتا ہے، دل غم سے بھر جاتا ہے اور آنکھیں اشک بار ہو جاتی ہیں۔ذیل کی سطروں میں علامہ راشدالخیری کی تحریر بطور نمونہ نہایت اختصار کے ساتھ پیش کی جاتی ہے:
داستان شہزادی گوہر آرا بیگم
”بچوں نے پھر رونا شروع کیا اور بھوک سے بلکنے لگے۔مگر ہو ہی کیا سکتا تھا؟ آخر ماموں جان گاؤں کی طرف گئے اور خدا جانے بھیک مانگ کے یا اپنی داستان مصیبت سنا کر چار روٹیاں اور دو گنٹھیاں پیاز کی لے کر آئے اور ٹکڑا ٹکڑا سب کو دیا۔ ہم سب نے سوکھی روٹیوں کا ایک ایک ٹکڑا کھایا۔ بریانی اور متنجن میں بھی وہ مزہ نہ ہوگا جو اس وقت کے ٹکڑے میں آیا۔ کھا پی کے آگے بڑھے، بچوں کے پاؤں سوج گئے تھے اور خون نکل آیا تھا۔“
داستان شہزادی قمر آرا بیگم
”آگے بڑھی تو چھوٹا ننھا کہنے لگا: ’ہم تو تھک گئے اور بھوک بھی لگ رہی ہے۔‘ میں اپنی افراتفری میں روٹی لانا بھول گئی تھی، نہیں تو دو روٹیوں میں گھی لگا کر نمک ڈال لیتی۔ اس کو بہلاتی پھسلاتی چلی جا رہی تھی اور دل ہوا ہو رہا تھا کہ موئے گیدڑوں کی آوازیں آنی شروع ہوئیں۔ چاند کی شروع تاریخیں، گھنٹہ دو گھنٹہ کی بہار دکھا کر چندا ماموں نے بھی ساتھ چھوڑا۔ اب ہم تین دم، جنگل کا سناٹا اور ہوا کا فراٹا، برقع میں جو ہوا بھری تو پھول کر کپا ہو گیا۔ بہتیرا ٹھیک کرتی ہوں مگر وہ ایک قدم آگے نہیں بڑھنے دیتا۔ خدا خدا کرکے برقع اتارا اور چلی۔ اب جو دیکھتی ہوں تو چھوٹا زمین پر بیٹھا منھ بسور رہا ہے کہ روٹی دو۔ میں نے بہتیرا ہی سمجھایا، بڑے ننھے نے چمکارا مگر وہ قبضہ میں کہاں؟ مچل گیا، چلانے لگا۔ یہ بھی خدا کا شکر تھا کہ کوئی سننے والا نہ تھا۔ آخر وہ تڑپ تڑپ کر سو گیا تو بڑے نے پیٹھ پر لادا اور آگے بڑھے۔“
داستان شہزادی مظفر سلطان
”میں بچوں کو ساتھ لے کر باہر آگئی۔ اب چاروں طرف اندھیرا گھپ تھا۔ آگے آگے میں اور پیچھے پیچھے میرے دونوں بچے بھاگے چلے جا رہے تھے۔ مجھ کو اپنی جان کی پروا نہ تھی۔ بچوں کے دھڑکے نے نیم جان کر دیا تھا۔جسم کی تمام قوت جمع ہو کر ٹانگوں میں آگئی تھی اور شفقت مادری اس توسن کو مہمیز کر رہی تھی۔ بچے بھوک کے مارے رو رہے تھے۔ میں تو خیر دن بھر کی بھوکی پیاسی اعمال کو بھگت اور تقدیر کو رو رہی تھی۔ معصوم بچے نہ معلوم کس گناہ میں پکڑے گئے تھے کہ تن کو چیتھڑے، نہ پیٹ کو ٹکڑا۔ پاؤں کے چھالوں سے پانی اور خون بہہ رہا تھا مگر دھجی تک میسر نہ تھی کہ پٹی باندھ دیتی۔ رات جس نے اپنی زندگی میرے بچوں کے ساتھ رہ نمائی کے لیے وقف کر دی تھی، دم توڑ چکی تھی اور دن ہم خانماں بربادوں کے استقبال کو آگے بڑھا۔ سلیم بخار میں مبتلا ہوا اور فرخ سر پکڑ کر بیٹھ گئی۔ میں نے اپنی پھٹی ہوئی رضائی املی کے نیچے بچھائی اور دونوں بچوں کو وہاں لٹا کر فرخ کا سر دبانے بیٹھ گئی۔“
مصور غم علامہ راشدالخیری کی تحریروں پر یہ الزام بھی لگایا جاتا ہے کہ وہ اپنے طرز بیان، اسلوب نگارش یا انداز تحریر کو زیادہ سے زیادہ مؤثر بنانے کے لیے سوز و گداز کے ذریعے رنج و الم کی کیفیتوں اور حالتوں کو بہت بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کے ناول اور افسانے سوز دروں، رنج و محن، درد و کرب اور بے کیف الم میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ کچھ لوگوں کو اسی وجہ سے ان کی اس طرح کی تحریریں مصنوعی، غیر فطری اور سطحی معلوم دیتی ہیں، لیکن یہ بات اس لیے ناقابل قبول ہو سکتی ہے کہ کسی مضمون اور موضوع کی مناسبت سے تخلیق میں غم و الم کی فضا پیدا کر دینا خود اپنے آپ میں ایک فن کی حیثیت رکھتا ہے اور ان کی اسی روش اور ان کے طرز نگارش کی وجہ سے ملک و قوم اور علم و ادب کے پرستاروں نے ان کو ’مصور غم‘ کے خطاب سے سرفراز کیا اور اس خطاب سے نہ صرف ہندستان بلکہ پوری دنیا میں اس قدر مشہور ہوئے کہ ان کی کسی تحریر کے ساتھ ان کا نام نہ بھی لکھا جائے اور صرف ’مصور غم‘ تحریر ہو تب بھی آسانی سے پتہ چل جاتا ہے کہ یہ تحریر و تخلیق علامہ راشدالخیری کی ہے۔ وہ اپنے اسلوب اور تخلیقات میں موضوع کی ندرت کے باعث ادب میں منفرد حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ مختصر جملوں سے اپنی تحریر کو اس طرح سجاتے اور مزین کرتے ہیں کہ ان کی خوبی کی داد دینی پڑتی ہے۔
پھر دلی کی شان دار ٹکسالی اور بامحاورہ زبان نے اسے اور بھی اثر انگیز بنا دیا۔ دلی کی دھلی منجھی زبان اور بیگمات و شہزادیوں کی شائستہ اور نفیس گفتگو نیز بادشاہوں، رئیسوں، امیروں اور گھریلو عورتوں کی بات چیت کے بیان پر ان کو عبور حاصل تھا۔ دلی کے روزمرہ اور محاوروں کا استعمال جس طرح میر امن کی داستان باغ وبہار، میر حسن کی مثنوی سحرالبیان، مرزا اسداللہ خاں غالب کے خطوط، سرسید احمد خاں کے مضامین، مولوی نذیر احمد کے ناولوں اور خواجہ حسن نظامی کی تصنیفات میں نظر آتا ہے، وہی رنگ آمیزی ہمیں علامہ راشدالخیری کی تحریروں میں بھی دکھائی دیتی ہے۔
وہ اپنی تحریروں میں پیچیدگی اور انداز بیان میں دشوار پسندی سے گریزاں ہیں۔ چونکہ عام طور سے وہ اپنی نگارشات میں خواتین کو مخاطب کرتے ہیں اور کسی نہ کسی موضوع کے تحت سماج میں عورتوں کی صورت حال اور ان کے مسائل کو اجاگر کرتے ہیں۔ اس لیے ان کے ناول، افسانے اور مضامین ہندستان کی پردہ نشین خواتین میں بے حد مقبول ہوئے۔
یہاں اس بات کا تذکرہ کرنا دل چسپی سے خالی نہ ہوگا کہ باوجود تحریروں میں نہایت سوز و گداز کے، علامہ راشدالخیری نے طنز و مزاح میں بھی اپنے قلم کے جوہر دکھائے۔ ان کے کئی ناول جیسے نانی عشو، لال بھجکڑ، ولایتی ننھی وغیرہ ان کی شگفتہ و مزاحیہ تحریروں اور ان کے دل کش و دل چسپ انداز بیان کا بہترین نمونہ ہیں، لیکن حقیقت یہی ہے کہ علامہ راشدالخیری ایسے قلم کار تھے جنھوں نے اپنی المیہ تحریروں سے نہ صرف اپنی ہم عمر نسل کو متاثر کیا بلکہ آنے والی نسلوں پر بھی اثر انداز ہوئے۔ ان کی تخلیقات کی مقبولیت کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوسکتا ہے کہ آج کی جدید ترین تعلیم اور نئے نئے علوم کے وجود میں آنے کے باوجود ان کی تحریروں کی مقبولیت اور پسندیدگی میں کمی نہیں آئی ہے۔ سدا بہار تخلیقات کی یہی خوبی ہوتی ہے کہ ان کی تروتازگی ہمیشہ برقرار رہتی ہے۔ لہٰذا یہی بات علامہ راشدالخیری کی تصنیفات کی بابت بھی کہی جا سکتی ہے۔
علامہ راشدالخیری بنیادی طور پر نثر نگار تھے اور اسی سے ملک کے اندر ان کی شہرت اور پہچان ہوئی تھی، لیکن اپنے تصورات، اپنے پیغام اور اپنے دل کی بات کو انھوں نے نظم کا بھی جامہ پہنا کر قارئین تک پہنچایا اور یہاں بھی ان کی مخاطب، خواتین اور لڑکیاں بالیاں ہی ہیں۔ ان کے منظوم کلام کی تحقیق و جستجو مجھے کچھ زیادہ نہیں کرنی پڑی کیونکہ ان کی نظموں کے دو مجموعے رضا لائبریری میں موجود ہیں۔ ان میں کا ایک مجموعہ، میری ذاتی کتابوں میں بھی موجود ہے اور اس وقت یہی مجموعہ میرے پیش نظر ہے۔ اس مجموعہ کا نام ہے ’روداد قفس‘۔ اس کتاب کے ناشر کی حیثیت سے ان کے بیٹے محمد عبدالر ازق الخیری کا نام درج ہے، جنھوں نے اس کتاب کو دسمبر ١٩٢٢ء میں عبدالحمید کے ’حمیدیہ پریس دہلی‘ میں چھپوا کر شائع کیا۔ یہ اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن ہے. یعنی ظاہر ہے اس کتاب کی اولین اشاعت کافی برس پہلے ہوئی ہوگی۔ کتاب کا سائز ڈیمائی یعنی ۸/۲۲×١٨ ہے اور قیمت صرف چھ آنے ہے۔صفحات کی تعداد محض ٤٢ ہے۔ کتابت نستعلیق اور نہایت خوب صورت ہے اور ہر صفحہ پر سطروں کی تعداد ٢١ ہے۔ کتاب کا کاغذ زمانے کے سردوگرم جھیل کر اگرچہ کچھ پیلا پڑ گیا ہے لیکن دبیز ہونے کے باعث آج بھی جان دار ہے۔ کاپی رائٹ کے تحت کتاب ’روداد قفس‘ کے جملہ حقوق محمد عبدالرازق الخیری کے نام درج ہیں۔سرورق سادہ اور اس کا رنگ گلابی ہے۔
علامہ راشدالخیری کی مذکورہ کتاب کا موضوع بھی عورتوں اور لڑکیوں کی تعلیم و تربیت اور نصیحت ہے۔ ہر نظم میں اصلاح کا پہلو مد نظر رکھا گیا ہے۔ ’رودادقفس‘ میں نظموں کی کل تعداد ١٦ ہے۔ جن میں ایک حمد اور ایک لوری بھی شامل ہے۔ کتاب کی ابتدا بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کے بعد، حمد باری تعالیٰ سے ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ مصنف کی یہ ہدایت اور نصیحت بھی درج کی گئی ہے: ”یہ حمد بچیوں کو حفظ یاد کرنی چاہیے۔“ اس حمد میں اشعار کی تعداد ١٩ ہے۔ اشعار نہایت سادہ، سلیس اور اثر انگیز ہیں۔ ذیل میں اس حمد سے چند اشعار بطور نمونہ درج کیے جاتے ہیں:
حمد جناب باری رکھو زباں پہ جاری
باقی ہے بس وہی اب فانی ہے ما سوا سب
کافی ہے وہ اکیلا باقی ہے سب جھمیلا
وہ خالق جہاں ہے وہ رازق جہاں ہے
حاکم ہے بحروبر کا مالک ہے خشک و تر کا
فرش زمیں اسی کا عرش بریں اسی کا

ہر چیز میں نہاں ہے ہر چیز میں عیاں ہے
سب سے قریب تر ہے سب سے عجیب تر ہے
ممکن نہیں کسی سے تعریف اس کی لکھے
توصیف اس خدا کی کیا لکھے مشت خاکی
حمد باری تعالیٰ کے بعد پہلی نظم کا عنوان ’مامتا‘ ہے۔ اس میں ایک واقعہ کو نظم کیا گیا ہے۔ واقعہ یوں ہے کہ ایک عادل بادشاہ کے پاس دو عورتیں ایک بچے کو لیے دربار میں حاضر ہوئیں۔ دونوں میں سے ہر ایک کا یہ دعویٰ تھا کہ بچہ اس کا ہے۔ بادشاہ نے غور کرنے کے بعد اپنا فیصلہ سنایا اور ایک صندوق میں بچے کو بند کرکے ندی میں ڈلوا دیا۔ یہ دیکھ کر ان دونوں میں سے ایک عورت بچے کو بچانے کے لیے ندی میں کود پڑی۔ غرض بادشاہ نے یہ صورت حال دیکھ کر حکم دیا کہ یہ بچہ اس عورت کو دے دیا جائے کیونکہ یہی اس کی حقیقی ماں ہے۔ لہٰذا بچے کو ندی میں سے نکال کر اس کی ماں کے حوالے کر دیا گیا اور دوسری عورت کو سخت سزا دی گئی۔
علامہ راشدالخیری دراصل اس واقعہ کے ذریعے لڑکیوں کو یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ ماں کی مامتا اپنی اولاد کے ساتھ کس قدر زیادہ ہوتی ہے۔ یہ نظم تین قطعات کی شکل میں ٣٢ اشعار پر مشتمل ہے۔ نظم لکھنے کا مقصد اور موضوع آخری قطعہ سے پوری طرح واضح ہو جاتا ہے۔ اس قطعہ کے چند اشعار ذیل میں ملاحظہ فرمائیں:
تم نے دیکھا؟ کیسی کودی دوڑ کر مامتا کا ایسا ہوتا ہے اثر
جان کا اپنی نہیں بالکل خیال لیکن اس بچہ کا تھا از بس ملال
ماں کے رشتہ سے بڑا رشتہ نہیں ماں سے بڑھ کر چاہنے والا نہیں
جاگنا راتوں کو بچہ کے لیے اور پھرنا گود میں لے کر اسے
بے مزہ ہو کچھ اگر بچہ کا جی پھر نہ پوچھو اس کے دل کی بے کلی
اور بچہ دودھ پیتا ہو اگر اور اس کے پیٹ میں ہو کچھ کسر
یا اگر ہو جائے بچہ کو زکام تو اسے دنیا کی سب چیزیں حرام
کھانے میں پینے میں دن میں رات میں جاگنے میں سونے میں ہر بات میں
الغرض ہر وقت ہے اس کو خیال یہ نہ ہو تکلیف پائے میرا لال
علامہ راشدالخیری لڑکیوں سے اس قدر اور اس انداز کی محبت کرتے ہیں، جیسے کوئی نہایت شفیق باپ اپنی بہت پیاری بیٹیوں کو دل وجان سے چاہتا ہے اور ان کی فلاح و بہبود کی اسے ہر وقت فکر سوار رہتی ہے۔ علامہ راشدالخیری کی نظم ’چراغ سحری‘ بھی اسی مقصد کو پیش نظر رکھ کر لکھی گئی ہے۔ مذکورہ نظم انتہائی درد انگیز ہے اور علامہ موصوف لڑکیوں کو اس بات کی ہدایت کرتے ہیں کہ وہ اپنے والدین کی اطاعت اور خدمت کریں اور والدین بھی خاص طور سے وہ، جو بوڑھے ہو چکے ہوں۔ اس نظم کے شروع میں مصنف کی طرف سے درج ذیل نوٹ بھی لگا ہوا ہے:
”نہایت بد نصیب ہیں وہ لڑکیاں جو ماں باپ جیسی چیز کی قدر نہیں کرتیں۔ ان کو خوب اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ اگر یہ ناخوش دنیا سے اٹھ گئے تو وہ دنیا میں مشکل سے خوش رہیں گی۔ رہا قیامت کا فیصلہ، وہ الگ!“
نظم ’چراغ سحری‘ نہایت سلیس اور سادہ ہے اور اس کا پیغام دل پر براہ راست اثر کرتا ہے۔ نظم میں اشعار کی تعداد ١٧ ہے۔ چند اشعار بطور نمونہ حاضر ہیں:
ما باپ جیسی نعمت، دولت ہے یہ غنیمت
چومو قدم تم ان کے، مہماں ہیں چند دن کے
دروازۂ دعا ہیں، محبوب کبریا ہیں
بے مکر و بے ریا ہیں، سو جان سے فدا ہیں
ہو درد سر تمھیں گر، بن جائے ان کی جاں پر
کھانا انھیں مصیبت، سونا انھیں قیامت
عاشق ہیں اور سچے، ہیں دوست اور اچھے
ان سے رفیق زیادہ، بس نام ہے خدا کا
ان کو تمھاری صورت، سچ مچ ہے ایک نعمت
بھوکے نہیں تمہارے، ہیں مامتا کے مارے
طاقت پہ پھولنا مت، وہ وقت بھولنا مت
کچھ زور تھا نہ طاقت، تھی گود ماں کی جنت
میٹھی زباں سے بولو، دل ان کے ہاتھ میں لو
کچھ دن کی بات ہے یہ، یوں سمجھو رات ہے یہ
مصور غم علامہ راشدالخیری کی تحریروں کی یہ خوبی ہے کہ وہ چھوٹی چھوٹی گھریلو باتوں کو بھی نظم کا جامہ پہنا دیتے ہیں۔ کچی عمروں میں، بہن بھائیوں میں، آپس میں شاید ہر گھر میں جھگڑے ہوتے ہیں لیکن ان جھگڑوں میں کس قدر پیار پوشیدہ ہوتا ہے، یہ بیان کرنے کی قطعی ضرورت نہیں۔ اس کو تو صرف محسوس کیا جا سکتا ہے۔ اس ضمن میں علامہ موصوف کی ایک نظم ’حسن سیرت‘ کا تذکرہ کرنا ضروری معلوم دیتا ہے۔ اس نظم کا موضوع یہ ہے کہ دو بہن بھائی آپس میں گھر میں کھیل رہے ہیں۔ اتنے میں دونوں کو گھر میں کہیں رکھا ہوا ایک آئینہ مل جاتا ہے۔ دونوں اس میں اپنی صورت دیکھتے ہیں۔ لڑکا ہنسنے لگتا ہے کہ میں گورے رنگ کا ہوں اور میری بہن کالی ہے۔ وہ اپنی بہن کو چڑاتا ہے۔ بہن روتی ہوئی جا کر ماں سے شکایت کرتی ہے۔ ماں اپنے دونوں لاڈلے بچوں کو بلا کر اس قدر مامتا اور پیار سے سمجھاتی ہے کہ اس کو پڑھ کر قاری کو یقینا اپنا بچپن یاد آجاتا ہے اور اس کی آنکھیں چھلک پڑتی ہیں۔ اس نظم میں اشعار کی تعداد محض ٢١ ہے، لیکن اس کے باوجود نظم میں پورے واقعہ کو بہت ہی خوب صورتی سے سمیٹ لیا گیا ہے۔ نظم بہت پیاری اور اثر انگیز ہے اور بچوں کی تربیت کا ایک بہترین نمونہ پیش کرتی ہے۔ لہٰذا اس نظم سے نمونہ بطور چیدہ چیدہ، چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
ایک لڑکی کا ذرا کالا تھا رنگ اور اس کے بھائی کا گورا تھا رنگ
کھیلتے تھے مل کے وہ دونوں بہم کچھ نہیں تھا ان کے دل کو رنج و غم
آئی پھر وہ روتی ہوئی ماں کے پاس اور یوں کہنے لگی ہو کے اداس
بھائی کو بلوا کے اما جان ابھی کہہ دو آئینہ نہ دیکھیں وہ کبھی
ماں نے اس کی جو بہت تھی ہوشیار پونچھ کر آنچل سے آنسو کرکے پیار
اس کی ٹھوڑی کو پکڑ کر یہ کہا کون ایسی صورت کو کہتا ہے برا
کرو بیٹی ہمیشہ نیک کام تاکہ ہو دونو جہاں میں نیک نام

صورت اچھی گر نہیں تو شرم کیا سیرت اچھی چاہیے اے با حیا
اور پھر بلوا کے لڑکے سے کہا تم کو دعویٰ ہے بہت کچھ حسن کا
کیوں ہنسے تھے بہن کی تم شکل پر کیا برائی اس میں آئی تھی نظر
یہ جو صورت ہے تمہاری چاند سی ہے انھیں باتوں سے کچھ کچھ ماند سی
اور جس کو اچھی صورت دے خدا اس کو بھی کچھ حق نہیں ہے فخر کا
شرم بھی جائز ہے بے شک فخر بھی یہ نہیں ممکن مگر بیٹا کبھی
کام اچھے کرکے اے میرے چاند اپنی صورت کو لگاؤ چار چاند
علامہ موصوف کی کئی نظموں کا موضوع یہ ہے کہ لڑکی بیاہ کر اپنی سسرال جا رہی ہے۔ اپنی سہیلیوں، اپنے بہن بھائیوں اور ماں باپ سے رخصت ہو رہی ہے۔ دل غم سے بھرا ہوا ہے، آنکھیں اشکبار ہیں۔ ڈولی میں بیٹھی ہوئی دلہن کن تصورات، نئی زندگی کے کن خوش کن خیالات اور کیسے نادیدہ خدشات سے دوچار ہے، اس کی انھوں نے سچی تصویر کشی کی ہے۔
شادی کے بعد لڑکیاں کن تکلیف دہ مسائل سے دوچار ہوتی ہیں۔ ان کی سسرال کے لوگ کیسے ہیں۔ خود لڑکی کے شوہر کا برتاؤ اس کے ساتھ کیسا ہے۔ ساس نندوں کی طعنہ آمیزی کا اس کے دل پر کتنا رنج ہے۔ اپنے مائیکے کے کچے آنگن میں نیم یا املی کے پیڑ کے نیچے پاؤں ٹکنی کھیلنے کے بچپن اور بے فکری کے وہ دن اسے کس طرح یاد آتے اور تڑپاتے ہیں۔ ساون کے جھولے اور پکوان اس کے دل پر کیسے کچوکے لگاتے ہیں۔ شوہر کے گھر لڑکی کن پریشانیوں میں مبتلا ہے۔ شوہر کی پہلی بیوی اس کے ساتھ کیسا برتاؤ کرتی ہے۔ اس کے اپنے بچے اسے کس طرح تنگ کرتے اور ستاتے ہیں۔ وہ میلے چیکٹ پھٹے پرانے کپڑوں میں گیلی لکڑیوں اور اپلوں سے مٹی کے چولہے پر کس دقت اور پریشانی سے روٹی پکا رہی ہے۔شوہر اور بچوں کو کھانا کھلا کر وہ خود ہانڈی پونچھ کر باسی روٹی سے کس طرح اپنا پیٹ بھرتی ہے، کیونکہ تازہ روٹی تو ختم ہو چکی ہے۔ غرض مصور غم علامہ راشدالخیری ان سارے واقعات کی ایسی بہترین منظر کشی کرتے ہیں کہ سب کچھ ایک فلم کی طرح آنکھوں کے سامنے سے گزرتا نظر آتا ہے۔ ان کی ایک طویل نظم ’صدائے راشد‘ کے درج ذیل اشعار بھی نہایت پردرد ہیں اور سو سال پہلے کے ہمارے معاشرے اور معاشرے میں عورتوں کی عام صورت حال پر روشنی ڈالتے ہیں:
دولت کبھی کی تھی گئی، حشمت کبھی کی تھی لٹی
پردہ کے دم سے کچھ بھرم باقی رہا تھا قوم کا
مونچھوں کو دے کر پیچ و خم، پھرتے تھے چھیلا بن کے ہم
گھر میں دوپٹہ ہے پھٹا، اس کا پتہ چلتا نہ تھا
وہ دور آخر ہو چکا، جوہر وہ ملیا میٹ ہوئے
لیکن نہیں تعلیم سے، اس کو ہے مطلق واسطہ
تعلیم کا حکم عام ہے اسلام میں، کچھ شک نہیں
لاریب اس میں امتیاز، ہر گز نہیں ہے مرد کا
لیکن یہ لغزش ہو گئی، بے شک ہوئی بے شک ہوئی
تعلیم نسواں میں مسلمانوں نے مذہب تج دیا
اب یہ نتیجہ پر خطر، جو کچھ کہ ہے پیش نظر
انجام اس غفلت کا ہے، لیکن ابھی ہے ابتدا
اسلام دین اللہ ہے، آؤ جھکادو اپنا سر
آتا ہے ورنہ وقت وہ، روؤگے سر ہاتھ دھر
اس طرح علامہ موصوف کی منظومات اور نثری تحریروں سے ان کے دور کے سماج کی اصلی تصویر ہمارے سامنے آجاتی ہے۔ غالباً اسی لیے ادب کو سماج کا آئینہ بھی کہا جاتا ہے۔ وہ عورت کی پس ماندگی سے بہت غم زدہ نظر آتے ہیں اور اس کا حل بھی وہ جانتے ہیں کہ عورتوں اور لڑکیوں کی یہ ابتری تعلیم  کے ذریعے ہی دور ہو سکتی ہے۔ اس لیے علامہ راشدالخیری اپنی ساری زندگی ملک و قوم کی پیاری بیٹیوں کی فلاح و بہبود کے لیے کوشش کرتے رہے۔ ان کی ہر تحریر سے جو خلوص ظاہر ہوتا ہے وہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ وہ عورتوں کی خوش حالی اور ترقی کے دل و جان سے خواہاں تھے۔
آج سے سو ڈیڑھ سو سال پہلے عورتوں کی معاشرتی صورت حال کیا تھی، اس کا اندازہ تو ہم صرف کتابوں کے مطالعہ سے ہی لگا سکتے ہیں، لیکن آج خواتین کی بہتر حالت اور زندگی کے ہر شعبہ میں ان کی کامیابی اور ترقی دیکھ کر ہم خود سمجھ سکتے ہیں کہ ہمارے ان عظیم محسنوں کی کوششیں یقیناً کامیاب ہوئیں۔ ان کے زمانے کی اور آج کے دور کی سماجی حالت میں یقیناً زمین آسمان کا فرق ہے۔ خواتین کی ترقی، خوش حالی، تعلیم اور زندگی کے ہر شعبہ اور ہر میدان میں ان کی شمولیت اس بات کی گواہ ہے کہ اردو ادب کے وہ عظیم فن کار اپنے مشن میں مکمل طور پر سرخرو ہوئے جنھوں نے اپنی ساری عمریں وطن کی بیٹیوں کی فلاح و ترقی کی نذر کر دی تھیں۔
زندہ جاوید تحریریں وہی ہوتی ہیں جو طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی اپنی جاذبیت، دل کشی، رعنائی، ادبی حیثیت، مقصد اور اپنے پیغام کو برقرار رکھتی ہیں۔ تعلیم نسواں کے حوالے سے مصور غم علامہ راشد الخیری اپنی ساری زندگی جدوجہد کرتے رہے۔ ہمارا سچا خراج عقیدت اپنے اس محسن کو یہی ہوگا کہ ہم ان کی تحریروں کا زیادہ سے زیادہ مطالعہ کریں اور زندگی کے جن شعبوں میں ہم ان کے پیغام اور مقصد تک پہنچ سکتے ہیں، وہاں تک پہنچنے کی کوشش کریں۔
Dr. Mohd. Athar Masood Khan
Ghaus Manzil, Talab Mulla Iram
Rampur 244901 U.P.
Mob:9719316703
(٢٧/مئی ٢٠١٥ء)
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں: ’دو گز زمین‘ (افسانوی مجموعہ) اور ڈاکٹر محمد اطہر مسعود خاں

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے