ادیب کا منصب اور غضنفر

ادیب کا منصب اور غضنفر

(ناول مم کے حوالے سے)

پیغام آفاقی

بڑے ناولوں کا امتحان وہاں شروع ہوتا ہے جہاں لائبریری میں دستیاب کتابیں ساتھ چھوڑ جاتی ہیں اور تخلیق کار ممات و کائنات میں پنہاں امکانات کے وسیع آئینے میں انسانی زندگی کو دیکھنا شروع کرتا ہے اور ابھرنے والے چہرے کو کسی ایسے کردار کے حوالے سے پیش کرتا ہے جو کردار اس سے قبل کسی تاریخی یا ادبی مآخذ میں موجود نہیں ہوتا۔ جب ناول نگار ایسا کرنے میں کامیاب ہوتا ہے تو اوریجنل تخلیقات وجود میں آتی ہیں۔
اردو ناول نگاری کے تناظر میں اس بات کو واضح کرنا ضروری ہے کہ بدقسمتی سے ہم ان تخلیقات کو اہمیت دینے کے عادی ہیں جو ان وجوہات کی بنیاد پر ہماری سمجھ میں آجاتی ہیں کہ ان میں درآمد کیا ہوا مواد Content ہماری تاریخ ہمارے کھر یا ہمارے معاشرے میں موجود ہے اور اس بنا پر ہم اس ناول کو آسانی سے سمجھ سکتے اتنا ہی نہیں بلکہ ہم اس مواد کی اہمیت کو بھی ناول کی اہمیت میں جوڑ دیتے ہیں۔ ہمارے یہاں بدقسمتی سے ایک اور رویہ بھی قارئین کو مرغوب ہے کہ جہاں کہیں کسی ناول نگار نے مغرب کی کسی تکنیک کا استعمال کیا ہے، وہاں ہم اس کی اس تکنیک کو بہ نظر تحسین دیکھتے ہیں اور ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ تخلیق کے میدان میں کسی فن پارے کی قدروقیمت کا تعین ان معیاروں پر نہیں ہوتا جن معیاروں پر ٹیکنولوجی کے میدان میں ہوتا ہے۔ ٹیکنولوجی کے میدان میں کام کرتے رہنا ایک انجینئر کی طرح ہوتا ہے جس کے لیے پہلے سے موجود تمام علوم کا استعمال کرنے کی قدرت رکھنا ہی اس کے پیشہ ورانہ پختگی کا معراج ہوتا ہے. تخلیق میں ہمیں دیکھنا چاہیے کہ تخلیق کار نے خود ان علم میں کیا اضافہ کیا ہے؟ ہمارے نزدیک یہ بات زیادہ اہم نہیں ہے کہ پریم چند نے گورکی کے ناول ماں سے کیا سیکھا یا قرۃ العین حیدر نے ورجینا وولف سے کیا حاصل کیا۔ ہمارے نزدیک یہ بھی زیادہ اہم بات نہیں کے پریم چند نے گاندھیائی سلسلے سے اور قرۃ العین حیدر نے آریائی تہذیب کے خزانے سے کیا کچھ لیا۔ ہمارے نزدیک اہم بات یہ ہے کہ اپنے دور میں بدلتی ہوئی زندگی کو کسی فنکار نے کتنی کامیابی اور چابک دستی سے اپنے فن کا حصہ بنایا اور اسے انسانی قدروں کی آگ پر کتنا تپا کر دنیا کے سامنے پیش کیا۔ اردو کا اہم فکشن نگار منٹو ہمارے نزدیک اس لیے اہم ہے کہ اس نے جو کچھ پیش کیا وہ اس کا اپنا تھا اور ایسی ہی تخلیقات بڑا ادب کا مرتبہ رکھتی ہیں۔ اس معیار پر اردو کے پورے ادبی سرمایے کو از سر نو دیکھنے اور پرکھنے کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ اس کے بغیر ہم غلامی کے پروردہ نقال ذہنوں کی بنائی ہوئی آرا کے جال سے باہر نکل ہی نہیں سکتے اور آزاد قومیں تب آزاد ہوتی ہیں جب ان میں آزادانہ رائے قائم کرنے کی صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے اور یہی وہ مقام ہے جب انسان کے اندر وہ خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے جو اسے نئی نئی ایجادات اور نئی نئی تخلیقات سرزد کرواتی ہے۔ میں غضنفر کے ناول ‘مم` کو اسی روشنی میں دیکھنا چاہوں گا۔ جہاں یہ ناول اردو ناولوں کی کیا پوری ناول کی روایت سے الگ ایک نئی شان کے ساتھ ہمارے سامنے آیا ہے اور یہ اپنے انداز بیان اور ڈھانچے میں ناول کی پرانی ہئیت Form کی قطعی پرواہ نہیں کرتا بلکہ ناول کے کردار کے حوالے سے انسانی زندگی کو امکانات کے آئینے میں جس طرح دیکھتا ہے اسی طرح پیش کر دیتا ہے۔ یہ ناول انسان کے اس مسلسل سفر کے سر اور تال میں لکھا گیا ہے جس میں وہ روز ازل سے آزادی، خود اعتمادی اور خود مختاری کے لیے سرگرداں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کائنات کی جن قوتوں کا انکشاف مفکرین اور سائنس داں انسانی مقدر کی صعوبتوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے کرتے ہیں انھی کا استعمال مفاد پرستوں نے انسان کو اور بھی زیادہ طاقت ور آہنی زنجیروں میں قید کرنے کے لیے کرلیا ہے. اگر دیکھا جائے تو آج جہاں ایک طرف سائنس نے کائنات کے خزانے کو کھول کھول کر عام سے خاص آدمی کی زندگی تک پہنچایا ہے اور اس کی زندگی کو آسان تر اور بہتر بنایا ہے وہیں ایک عام آدمی کی آزادی پوری طرح صلب ہو کر چند ہاتھوں میں چلی گئی ہے۔ میڈیا سے لے کر ایٹمی بم تک اور مطالعہ زندگی سے لے کر نظام عالم تک ہر جگہ انسانوں کی زندگی ایک ایسے نظام کا حصہ بن گئی ہے کہ اس میں انسان اپنی مرضی سے نہ کچھ جان سکتا ہے اور نہ کچھ سوچ سکتا ہے اور نتیجتاً وہ جو فیصلے کرتا ہے وہ خود اس کے اپنے نہیں۔ بہ حیثیت ناول نگار غضنفر کو بدلی ہوئی دنیا میں انسانوں کی حیثیت تشویش میں ڈالتی ہے اور انسانی تہذیب کے لیے اسی تشویش کا مادہ غضنفر کو ایک قابل توجہ اور بڑا فن کار بناتا ہے. فن کار کا کام فلسفیانہ موشگافیوں میں نہیں، فن کار کا کام تفریح طبع کا سامان پیدا کرنا نہیں، فن کار کا کام مطالعہ کائنات نہیں بلکہ فن کار کا اصل کام انسانی زندگی کی بھٹی میں ایک ایک حقیقت کو پگھلا کر اسے زندگی کے لاوا میں تبدیل کرنا ہے. فن کار ٹھہرے ہوئے تخیل میں دھماکے کر تا ہے، فن کار انسان کو اذیت دینے والے تصورات کو للکارتا ہے، فن کار ناممکن کو ممکن کے سانچے میں ڈھال کر انسان کے اندر امید اور حوصلے کی آگ بھڑکاتا ہے۔ فن کار شکست خوردہ انسانوں کے ذہن کے اندر زندگی کی نئی رمق پیدا کرتا ہے۔ فن کار تاریک اور اداس فلسفوں کو ختم کر کے روشنی اور تازگی کے عالم کو وجود میں لاتا ہے، فن کار زندگی کا موذن ہوتا ہے، وہ زندگی کے اوپر کسی بھی طاقت کی فتح یابی سے انکار کا اعلان کرتا ہے. ناول مم کی کہانی فن کار کے اسی منصب کی شناخت کی کہانی ہے۔ یہ ناول بنیادی طور پر پوری نسل انسانی کو اپنا موضوع بناتا ہے۔ اس ناول کی بنیادی کہانی یہ ہے کہ کیسے کچھ لوگوں نے پانی کے اوپر قابض ہو کر عام انسانوں کی زندگی کی لگام اپنی مٹھی میں پکڑ رکھی ہے اور اپنی اس پکڑ کا استعمال وہ انتہائی سفاکی اور بے رحمی کے ساتھ انسانوں کو غلام و مجبور بنانے کے لیے کرتے ہیں، مگر اس ناول کا فن کار ناممکن کے سانچے میں ڈھال کر انسان کے اندر امید اور حوصلے کی آگ بھڑکاتا ہے اور یہ آگ آخر کار مگر مچھوں کے پیروں کے پنجے سے پانی کو سرکا دیتی ہے۔ مم کا کردار بے نظیر اس سفر میں اپنی حکمت عملی سے، جن لوگوں نے پانی پر پکڑ بنا رکھی ہے، ان سے نجات کا راستہ دریافت کرتا ہے۔ یہ دریافت ہی سائنسی ایجادات کی طرح ایک اوریجنل تخلیق کا تیور رکھتی ہے۔ اس کے لیے وہ ضروری قوت اپنے اندر کے چشمہ حیات سے حاصل کرتا ہے۔ انسانی صلاحیتوں کی تخلیق انسان کی خلاقی عظمت کی بھی قسم کھاتی ہے اور انسان کی بیکراں اور کبھی ناپید نہ ہونے والی قوت کی بھی۔ یہ ناول یہ یقین پیدا کر دیتا ہے کہ کائنات کی تمام طاقتوں پر قدرت حاصل کرنے والا بھی پوری زور آزمائی کے باوجود انسان کی اپنی اندرونی قوت تخلیق کو ہیچ نہیں دکھا سکتا اور یہ کہ گویا انسان کے اندر کائنات سے ان گنت گنا زیادہ کا ئناتیں موجود ہیں. یہاں یہ ناول انسان کے اس عام تصور کو Demolish مسمار کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے جس کو انسان کی بنیادی حقیقت مان کر اسے بار بار پنجروں میں بند کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ یہ ظاہر انسان پنجرے میں بند تو کیا جاتا ہے لیکن وہ پنجرے سے غائب ہونے کے ایسے راستے ڈھونڈ لیتا ہے کہ پنجرا صیاد کو منہ چڑاتا رہ جاتا ہے۔
روایتی ناولوں کے کردار چوں کہ ایسی اڑان نہیں بھرتے اس لیے اب وہ غالب کے بازیچہ اطفال بن
گئے ہیں۔
ناول کے فن کو ایک نئی زندگی حاصل کرنے کے لیے جہاد زندگانی میں مشعل کا کام کرنا ہوگا۔ بہت ممکن ہے کہ مغرب میں ناول کا ڈوبتا ہوا سورج اردو زبان کے اندر سے طلوع ہورہا ہو۔ اردو کے قارئین کو پوری خود اعتمادی کے ساتھ اپنے عہد کے اہم فن کاروں کو پڑھنا چاہیے اور اپنے ناولوں کو پورے آئینہ روزگار پر پھیلا کر ان کی گہرائی کو ناپنا چاہیے۔
(شایع شدہ : نیا ورق، جلد ١٣، شمارہ ٣٦، مارچ تا دسمبر ٢٠١١، ص ٩٠ تا ٩٣) 
پیغام آفاقی کا یہ افسانہ بھی پڑھیں:دستخط

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے