’دو گز زمین‘ (افسانوی مجموعہ) اور ڈاکٹر محمد اطہر مسعود خاں

’دو گز زمین‘ (افسانوی مجموعہ) اور ڈاکٹر محمد اطہر مسعود خاں

ڈاکٹر ٹی.آر.رینا
ایف-٢٣٧ لوئر ہری سنگھ نگر
رہاڑی کالونی، جموں ١٨٠٠٠٥
موبائل: 9419828542
اردو افسانے کے آغاز سے متعلق ابھی تک کوئی تاریخی اور حتمی فیصلہ نہیں ہو پایا ہے لیکن چند محققین نے ١٨٧٠ء کے قریب کی چند نثری تخلیقات میں اس کے نمونے تلاش کیے ہیں۔ بیسویں صدی کے آغاز میں افسانہ اپنے فن اور تکنیک کے لحاظ سے ابھر کر سامنے آتا ہے۔راشدالخیری، سجاد حیدر یلدرم اور منشی پریم چند کے ہاں ہمیں افسانے کی مختلف صورتیں نظر آتی ہیں جو دھیرے دھیرے مستحکم ہوتی جاتی ہیں۔ ابتدائی دور میں افسانے پر داستانی رنگ چھایا ہوا تھا مگر بعد میں اس کی جگہ حقیقت نگاری نے لے لی جس میں ہمیں معاشرے کا پورا عکس دکھائی دینے لگتا ہے۔ ترقی پسند تحریک کے آغاز ١٩٣٦ء تک پہنچتے پہنچتے افسانے نے وہ تمام مدارج طے کر لیے جو دنیا کے کسی بھی افسانوی ادب میں ہمیں نظر آتے ہیں۔
منشی پریم چند کو افسانے کا موجد یا امام کہا جاتا ہے۔انھوں نے اس کے فن، ہیئت اور اسلوب کو بام عروج پر پہنچا دیا۔ بیسویں صدی کی پہلی چھے دہائیوں میں (جس میں ترقی پسند تحریک اور ہندستان کے بٹوارے کا عہد بھی شامل ہے) افسانوی ادب میں قابل قدر اضافہ ہوا۔ اس عہد کو ہم افسانوی ادب کا سنہرا دور بھی کہہ سکتے ہیں۔ زمانے کے ساتھ ساتھ اس میں کچھ نئی صورتیں بھی واضح ہوئیں، مگر ایک چیز ان افسانوں میں مشترک رہی اور وہ ہے اس کا کہانی پن۔ ١٩٦٠ء کے بعد جدیدیت اور مابعد جدیدیت نے افسانے کی ہیئت، اسلوب اور زبان و بیان کو بدل کر رکھ دیا۔ اس عہد میں بے راہ رو افسانہ نگار منظر عام پر آئے جو فن افسانہ نگاری سے قریب قریب کورے تھے۔ چند فن آگاہوں نے بھی فن افسانہ نگاری کی پابندی کو لازم نہیں سمجھا۔اس دوران افسانوی ادب کا ایک وافر ذخیرہ جمع ہو گیا۔جسے پڑھنے اور سننے والوں کے پلے کچھ نہیں پڑتا تھا۔کہانی پن افسانے سے مفقود ہو چکا تھا۔
١٩٧٤ء کے دوران ایک بچہ ادبی پردے پر نمایاں ہوتا ہے، جس نے ابھی تک لڑکپن کی سرحد کو پار نہیں کیا تھا اور نہ ہی جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تھا۔ جوں جوں وہ جوان ہونے لگتا ہے توں توں اس کے قلم کی جولانیوں میں پختگی آنے لگتی ہے اور وہ بہ یک وقت افسانہ نگار، مقالہ نگار، تخلیق و تحقیق نگار، تنقید نگار، انٹرویو نگار اور بچوں کے ادب نگار کے طور پر اپنے نام کو ادبی دنیا سے متعارف کروا لیتا ہے۔ میری مراد اطہر مسعود خاں رام پوری سے ہے۔ جن کے افسانوں کا کینوس وسیع ہے۔ہمارے موجودہ معاشرے کا کوئی ایسا موضوع نہیں جس پہ انھوں نے اپنا قلم نہیں اٹھایا۔ قلم کار کی سب سے بڑی خوبی یہ ہوتی ہے کہ اس کا مطالعہ گہرا ہو اور وہ اپنا ذہن، آنکھ اور کان کھلے رکھے۔ اپنے آپ کو ایک موضوع سے باندھ کر نہ رکھے، ورنہ اس کا ذہن ایک محدود دائرے میں مقید ہو کر رہ جائے گا اور اس کے سوچنے اور تجزیہ کرنے کی صلاحیت مفلوج ہوکر رہ جائے گی۔ راقم نے اپنے استاذی مرحوم پروفیسر عابد پیشاوری کو اکثر لکھتے دیکھا تھا۔ سامنے ٹی.وی پر میچ چل رہا ہے، ریڈیو سے کمنٹری سنی جا رہی ہے، سگریٹ خود تیار کرکے کش لگا رہے ہیں، چائے کی چسکی لی جا رہی ہے اور آپ سے باتیں بھی ہو رہی ہیں، قلم ہے کہ برابر چلا جا رہا ہے۔ ہم نے ایک بار پوچھ لیا: ”حضور!بہ یک وقت یہ سارے کام کیوں کر ممکن ہو رہے ہیں؟“ انھوں نے صرف اتنا کہا: ”قلم کار کو اپنے تمام دریچے کھلے رکھنے چاہئیں۔“ یہ بات اطہر مسعود خاں پر فٹ (ٹھیک) بیٹھتی ہے۔
وہ ’دو گز زمین‘ مرتبہ عائشہ چاند کے مقدمہ کے صفحہ ٢٣ پر یوں رقم طراز ہیں:
”شور و شغب، مہمانوں کی آمد و رفت، بچوں کا جھگڑا قضیہ، عورتوں کی باتیں، لڑکیوں کے قہقہے، ریڈیو اور ٹی.وی کی آوازیں، ان سب چیزوں کے درمیان بھی میں اسی طرح دل چسپی، توجہ اور انہماک سے لکھتا ہوں، جس طرح کبھی یک سوئی میں لکھنے کا موقع میسر آجائے۔“
ہر قلم کار کے اندر ایک تنقید نگار چھپا ہوتا ہے (اطہر مسعود کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہے)۔ اگر اس کے اندر تنقید نگار نہ ہو تو اس کا ادب عالم وجود میں آہی نہیں سکتا۔ اگر کسی طرح آ بھی گیا تو اس کی کوئی کل سیدھی نہیں ہوگی۔ لکھنے کے بعد ہر قلم کار اپنی تحریر پر ایک طائرانہ نظر ضرور ڈالتا ہے جب وہ اسے صاف (فیئر) کر رہا ہوتا ہے۔ یہی اصل میں وہ وقت ہوتا ہے جب ایک قلم کار خود اپنا نقاد بن جاتا ہے۔ مولانا محمد حسین آزاد جن کے قلم سے ’آب حیات‘ منظر عام پر آئی تھی۔ پروفیسر عابد پیشاوری کو ان کی کچھ پرانی تحریریں ہاتھ لگی تھیں۔ جن میں انھوں نے اپنی تحریروں کے بعض جملوں کو کئی کئی بار لکھا اور قلم زد کیا تھا۔ تبھی تو ان کی تحریر کے انداز کو کوئی قلم کار آج تک چھو نہیں سکا ہے۔ انھوں نے کوئی گپ بھی ہانکی تو اس انداز سے کہ اسے حقیقت بنا کر پیش کر دیا۔
اطہر مسعود خاں کا مطالعہ یک طرفہ نہیں بل کہ چو طرفہ ہے۔ انھوں نے ادب کی ہر صنف کے علاوہ سائنس، فلکیات اور مذہب اسلام کے ہر پہلو کا غور سے مطالعہ کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے افسانوں میں ڈپٹی نذیر احمد کے ناولوں کی طرح اخلاقی رنگ چھایا ہوا ہے۔ ان کے افسانے انسانی زندگی کی صحیح عکاسی کرتے ہیں بل کہ پورے معاشرے کی عکاسی کرتے ہیں۔ جن میں ہر قسم کی برائیوں کو بڑی بے باکی سے منظر عام پر لایا جاتا ہے۔ بعض اوقات ہلکے قسم کا طنز بھی استعمال کر جاتے ہیں جس سے افسانوں کے کہانی پن کی دل چسپی اور قاری کا تجسس بڑھ جاتا ہے۔
اطہر مسعود خاں ایک حساس دل رکھتے ہیں جو اپنے وطن، قوم اور مذہب کے لیے ہر وقت دھڑکتا رہتا ہے۔ ان کے اندر درد و کرب چھپا ہوا ہے۔ قومی یک جہتی کا احساس ہے۔ منافرت سے نفرت ہے۔ قومی ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی حالات بھی انھیں متاثر کرتے رہتے ہیں اور ایسے ہی جذبات ان کے افسانوں میں نظر آتے ہیں۔ خاص طور سے انھیں اپنے ہم مذہب والوں سے کسی قسم کی بد سلوکی پسند نہیں۔
اطہر مسعود کے افسانوں کے پلاٹ اور کردار کسی ایک طبقے سے وابستہ نہیں۔ ان میں ادنا سے ادنا اور اعلا سے اعلا درجے کے سماج میں رونما ہونے والے واقعات اور کرداروں کو دیکھا جا سکتا ہے۔ انھیں اپنے افسانوں کے لیے کرداروں کا انتخاب، ان کی جذبات نگاری، ان کی مکالمہ نگاری، ان کی منظر نگاری کا فن اچھی طرح آتا ہے۔ ایک افسانہ نگار کے لیے ایک اچھا اداکار ہونا لازمی ہے تاکہ وہ اپنے کرداروں کی اداکاری کے ذریعے قاری کے ذہنوں کو اپنی گرفت میں لے سکے۔ افسانہ نگار جب کسی افسانے کی تخلیق کر رہا ہوتا ہے تو اسے اس افسانے کا مرکزی کردار خود بننا ہوگا، اس کے دکھ درد اور اس کی خوشی و مسرت کو اپنے اوپر طاری کرنا ہوگا، تبھی تو وہ کردار جان دار محسوس ہوگا۔
افسانے کے مرکزی کردار ایک یا دو سے زیادہ نہیں ہونے چاہئیں کیوں کہ پوری کہانی انھی کے گرد گھومتی ہے۔ثانوی کردار چار چھے ہو سکتے ہیں مگر ان سے متعلق تفصیل کم سے کم ہو اور ضمنی کرداروں کا ذکر اشارتاً ہونا چاہیے۔ اطہر مسعود اس فن میں ماہر نظر آتے ہیں۔
اطہر مسعود خاں کا ادبی سفر جدیدیت سے شروع ہو کر علامتی، تجریدی اور مابعد جدیدیت سے ہوتا ہوا آج کے دور میں داخل ہوتا ہے۔ انھوں نے بیسویں صدی سے قبل اور بیسویں صدی کے آغاز سے ١٩٣٦ء تک کے سنہری افسانوی ادب کے ساتھ ساتھ ترقی پسند تحریک کے افسانہ نگاروں کی تخلیقات کا بھی خوب مطالعہ کیا ہے۔مگر انھوں نے کسی بھی تحریک کو اپنے اوپر مسلط نہیں ہونے دیا۔ انھوں نے اپنے لیے ایک الگ راہ منتخب کی جسے ہم صرف ان کی ہی رہ کہہ سکتے ہیں۔ سماج اور معاشرے میں رونما ہونے والے چھوٹے چھوٹے واقعات اور حادثات کا انھوں نے گہرا مطالعہ اور مشاہدہ کیا۔انھی چیزوں کو انھوں نے اپنے افسانوں کا موضوع بنایا۔ان کے اسلوب، ان کی تکنیک، ان کی زبان و بیان نے ان کے افسانوں کو انفرادیت عطا کر دی۔ ان کے سبھی افسانے حقیقت پر مبنی ہیں۔ بعض اوقات انھوں نے علامتوں کے ذریعے اپنے افسانوں میں سسپنس پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہی سسپنس قاری کے ذہن کو اپنے قبضے میں کر لیتا ہے اور اسے افسانے کے اختتام تک لے جاتا ہے۔ یہی فن کار کی سب سے بڑی خوبی ہے لیکن ان کے تمام افسانوں میں ایک چیز مشترک ہے اور وہ ہے ان کا کہانی پن۔ ابتداے آفرینش سے ہی انسان کہانی سے جڑا ہوا ہے۔ کہانی ہی انسانی روح کی غذا ہے۔ وہ اسی کے ذریعے ذہنی سکون اور آسودگی حاصل کرتا ہے۔ جب کبھی وہ کوئی اچھی کہانی سن یا پڑھ لیتا ہے تو وہ اس کے ذہن پر نقش ہو جاتی ہے اور وہ برسوں بعد بھی اسے یاد کرکے لطف حاصل کرتا رہتا ہے۔ مثال کے طور پر راقم یہاں تین چار افسانہ نگاروں کے نام مع ان کی کہانیوں کے درج کرنے پر اکتفا کرتا ہے۔

منشی پریم چند کا ’کفن‘، سعادت حسن منٹو کا ’ٹھنڈا گوشت‘، کرشن چندر کا ’کالو بھنگی‘  اور راجندر سنگھ بیدی کا ’لاجونتی‘۔ اسی فہرست میں ہم ایک اور نام شامل کرتے ہیں اور وہ ہے اطہر مسعود خاں کا افسانہ ’دوگززمین‘۔ اطہر مسعود خاں کے مطالعے نے ان کے پاس الفاظ کا ایک وافر ذخیرہ جمع کر دیا ہے۔ جسے یہ موقع و محل کے مطابق اپنے افسانوں میں استعمال کرتے ہیں۔یہ الفاظی ذخیرہ ہندی، اردو، فارسی، عربی اور انگریزی زبانوں کا ہے۔
افسانوی مجموعہ ’دوگززمین‘ کے افسانوں کے عنوان سنسکرت، ہندی، فارسی، عربی اور انگریزی زبانوں سے منتخب کیے گئے ہیں۔ مثلاً: گرہن سنسکرت زبان کا لفظ ہے۔ سنپولیا، جونک اور گھر ہندی زبان کے الفاظ ہیں۔ادھوری کشش ہندی اور فارسی زبان کا مرکب ہے۔ درد کا رشتہ، دو گز زمین اور شگون فارسی الفاظ ہیں۔اصلاح، قیمت اور کفن عربی زبان کے الفاظ ہیں۔ اوور ٹیک، اوور ڈائٹنگ، بزنس، ٹیوشن فیس، کلنک اور نگیٹو انگریزی زبان کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ اسی طرح اپنے افسانوں میں محمد اطہر مسعود خاں نے اردو اور انگریزی کے ساتھ ہندی زبان کے الفاظ کا بھی کھل کر استعمال کیا ہے۔ مثال کے طور پر یہ الفاظ- دیالو، انیائے، اندھیر، ممتا، شیتل، بھرشٹ، مہاراج، بھائی سمان، گروجی وغیرہ۔ اطہر مسعود کو ترجمہ نگاری کے فن میں بھی مہارت حاصل ہے۔ ان کے افسانوی مجموعے ’دوگززمین‘ میں ’کلنک‘ اور’نایاب تحفہ‘ ہندی اور انگریزی ادب سے مستعار لی ہوئی کہانیاں ہیں۔ پہلی رمیش اپادھیائے کی ہندی کہانی ’شاپ مکتی‘ ہے اور دوسری او.ہنری کی انگریزی کہانی ’The Gift of Magai‘ہے۔
ان کہانیوں کو اطہر مسعود نے ترجمہ نگاری کے ذریعے وہ جامہ پہنایا ہے کہ ان کے اختتام تک اس بات کا بالکل احساس نہیں ہوتا کہ یہ ان کی اپنی تخلیقات ہیں یا ترجمہ کے ذریعے دوسری جگہ سے اخذ کی گئی ہیں۔ اطہر مسعود نے اگر ان کے آخر میں خود ان کی نشان دہی نہ کی ہوتی تو یہ انھی کی حقیقی کہانیاں معلوم ہوتیں۔ ترجمہ نگاری کا فن سب سے مشکل فن ہے۔ جب تک فن کار دونوں زبانوں میں مہارت نہیں رکھتا تب تک وہ اپنے کام کے ساتھ انصاف نہیں کر سکتا اور نہ ہی ترجمہ میں originality پیدا کر سکتا ہے۔ انیسویں صدی کی آخری تین دہائیوں سے لے کر آج تک ہندستانی مصنفین نے ترجمہ نگاری کے ذریعے ادب کی ہر صنف کو مالامال کیا ہے اور اردو فکشن کا نام سرفہرست ہے۔
اردو جاسوسی دنیا کی دو نامور شخصیتوں ابن صفی اور تیرتھ رام فیروزپوری کو ہم کبھی نہیں بھلا سکتے جنھوں نے سیکڑوں انگریزی کہانیوں کو اردو میں منتقل کر دیا اور اپنی زندگیاں اسی فن کے لیے وقف کر دیں۔ترجمہ نگاری کا فن صدیوں پرانا ہے، خاص طور سے ہر مذہب کی مقدس کتب کا۔
راقم نے ’دوگززمین‘ کے سبھی بیالیس افسانوں کو اول تا آخر پڑھا ہے۔ ان سبھی افسانوں کی کہانیاں ہمارے معاشرے کے کسی نہ کسی طبقے سے جڑی ہوئی نظر آتی ہیں۔ اس مجموعے کی پہلی کہانی کا عنوان ہے’ادھوری کشش‘۔ اس میں ایک مے خوار کے دل و دماغ کی نفسیاتی کشمکش کی حالت کا منظر پیش کیا گیا ہے۔ جو دوستوں کے کہنے پر توبہ کرتا ہے، قسم لیتا ہے، وعدہ کرتا ہے مگر شام کے وقت جب وہ اس اڈے کے پاس سے گزر کر آگے نکل جاتا ہے تو فاتحانہ انداز میں اس کی قوت ارادی پھر مغلوب ہو جاتی ہے اور وہ بے بال و پر کے پنچھی کی طرح واپس آکر اسی کی آغوش میں گرتا ہے۔
’اوورٹیک‘ میں منظر تو اخباری رپورٹ کی ہی طرح کا ہے مگر محافظ قوم کے کردار کو بڑی خوبی سے قلم بند کیا گیا ہے۔
’اوورڈائٹنگ‘ میں شاعروں کو اپنا کلام سنانے کا خبط یا ہیضہ ہے جو لاعلاج ہے۔
’بٹوارہ‘ میں انسان اپنی انسانیت بھول چکا ہے۔ ایشور یا خدا کو مختلف نام دے کر خانوں میں تقسیم کر دیا ہے اور یہی حال عبادت گاہوں کا ہے۔
’بزنس‘: مندروں اور مسجدوں سے بعض انسانوں نے جوتے اٹھانے کا بزنس شروع کر رکھا ہے۔
’پس آئینہ‘: مذہب اسلام کے مولویوں کی ذہنی کیفیت کا نقشا پیش کیا گیا ہے۔ وہ مرنے والے کے لواحقین کے ہاں وعظ کرنے جاتے ہیں۔ ان کی حیثیت دیکھ کر دام وصول کرتے ہیں مگر کھانے میں انھیں مرغ ضرور چاہیے۔
’پس منظر-پیش منظر‘: بیٹے نے ماں کو گھر سے نکال دیا۔ عرصے بعد اسی بیٹے کو جب وہ باپ بنا تو اسی کے بیٹے نے اسے گھر سے نکال دیا۔ شہروں میں اولڈ ایج ہوم اس کی زندہ مثالیں ہیں۔ ’ترکی بہ ترکی‘: مرغی کے انڈے بیچنے والے کا تکیہ کلام پیش کیا گیا ہے۔
’تقابلی مطالعہ‘: اچھا طنزیہ مختصر افسانہ ہے۔ ساس اور ماں کی ذہنیت کا مقابلہ کیا گیا ہے۔
’تماش بین‘: واقعی پر لطف افسانہ ہے۔ جس میں مذہب اسلام سے تعلق رکھنے والی نوجوان نسل اور پڑھے لکھے لوگوں کی پول کھولی گئی ہے جنھیں نماز جنازہ بھی نہیں آتی اور قبرستان میں نمازیوں سے الگ کھڑے نظر آتے ہیں۔
’تھپڑ اور چپت‘: ضدی بچہ رو رہا ہے۔ باپ دس روپے دیتا ہے، وہ اور روتا ہے۔ باپ ایک تھپڑ مارتا ہے، بچہ اور بھی زور سے چلاتا ہے۔ آخر مجبوراً باپ کو اسے سو کا نوٹ دینا پڑتا ہے اور تب وہ خاموش ہوتا ہے۔
’ٹیوشن فیس‘: آج کے معاشرے میں ٹیوشن ایک فیشن و بزنس بن چکا ہے۔ انگلش میڈیم والے سب سے زیادہ فیس لیتے ہیں نسبتاً ہندی اور اردو مضامین کے مقابلے۔
’جونک‘: امریکن جنگ عراق میں شروع ہوئی جس نے وہاں کا سارا تیل چوس لیا اور اتنی قلت پیدا کر دی کہ نئی نویلی دلھن کو جہیز کی خاطر جلانے کے لیے تیل نہیں ملتا۔
’خوش پوشاکی‘: پھل بیچنے والا ایک ماہر نفسیات کی طرح گاہک کا لباس دیکھ کر دام وصول کرتا ہے۔
’داد بیداد‘: مشاعرے میں داد دینے کا عجیب منظر پیش کیا گیا ہے۔ ایک احمق شخص اسٹیج پر پہنچ کر شاعر کو کلمہ کی قسم دے کر بار بار وہی غزل پڑھنے کے لیے کہتا ہے۔
’درد کا رشتہ‘: بہترین افسانہ ہے جس میں انسانیت اپنے عروج پر دکھائی دیتی ہے۔ کسی دوست کا اپنے دوست کے لیے اتنا حساس دل آج کے دور میں ناپید ہے۔ وہ دوستی ہی کیا جو ایک دوسرے کے حالات سے باخبر نہ ہو۔ آج کے مشکل دور میں اکثر لوگ اپنا ہاتھ کھینچ لیتے ہیں۔ اس افسانے کا مرکزی کردار اس لیے شرمندہ ہے کہ اسے اپنے دوست کی اصل حالت کی آج تک خبر ہی نہیں تھی۔
’دو گز زمین‘: شہر میں جہیز کے خلاف زبردست مہم چلائی جا رہی ہے۔ بڑے بڑے پوسٹر مختلف مقامات پر چسپاں کیے جا رہے ہیں۔ انھی میں سے ایک پوسٹر کے سامنے ایک بھکاری نے اپنی بیٹی کی شادی کے عوض جہیز میں اپنا ٹھیہ یعنی دو گز زمین ایک نوجوان بھکاری کو دے دی کیوں کہ یہاں کی آمدنی اچھی ہے اور وہ بوڑھا فقیر، نوجوان کے ٹھیے پر چلا گیا یہاں کی آمدنی معمولی سی ہے۔ معاشرے میں پھیلی ہوئی اس بدعت کا شکار اونچے طبقے سے لے کر بھکاری تک سبھی ہیں۔ یہ افسانہ اطہر مسعود کے گہرے مطالعے اور فکر و فن کا اعلا نمونہ ہے۔ جہیز جیسی لعنت کی جڑیں سماج میں اس قدر گہری پھیل چکی ہیں کہ انھیں کاٹنا مشکل ہی نہیں نا ممکن سا ہو گیا ہے۔
’سگ گزیدہ‘: افسانہ نگار نے ایک شریف انسان کا الیکشن میں کھڑے ہونے کو کتے کے کاٹنے کے مترادف قرار دیا ہے کیوں کہ یہ کام بیشتر مقامات پر چوروں، ڈکیتوں، قاتل و غارت گروں کا ہو کر رہ گیا ہے۔ جنھیں ہمارے ملک کا قانون تحفظ مہیا کیے ہوئے ہے۔
’سنپولیا‘: افسانہ نگار نے آج کی نوجوان نسل پر اچھا وار کیا ہے۔ وہ اپنے آرام کی خاطر بزرگوں کو مکان کے دروازے کے پاس رہنے کے لیے مجبور کر دیتے ہیں تا کہ وہ رات بھر کھانستے اور جاگتے رہیں اور وہ اولادیں آرام کی نیند سو سکیں۔
’شر +نگار‘: اصل میں شِر نگار رس ہے جو سنسکرت اور ہندی شاعری کی ایک صنف ہے۔ افسانہ نگار نے اردو والے پر طنز کرتے ہوئے اس کی سندھی وِچھید کر دی ہے شر +نگار۔
’شگون‘: دو نوجوان رکشہ والے ایک بزرگ کے سامنے اپنی ہتھیلی پر بہت سے نوٹ رکھتے ہیں اور اسے اپنی مرضی سے کرایہ اٹھانے کے لیے کہتے ہیں۔ وہ ان میں سے ٢٠ روپے کا نوٹ اٹھاتا ہے۔ وہ نوجوان اسی ٢٠ نمبر پر سٹہ لگانے کا ارادہ بنا لیتے ہیں. یعنی سٹہ کھیلنے والے بھی شگون وچار پر وشواس رکھتے ہیں۔ سماج میں پھیلی برائیوں کے لیے کیا کیا طریقے اپنائے جاتے ہیں۔
’غربت کانفرنس‘: بین الاقوامی سطح پر منعقد ہونے والی کانفرنسوں کا خوب مذاق اڑایا گیا ہے۔ اس کانفرنس میں بڑے بڑے ملکوں کے سربراہ شرکت کر رہے ہیں۔ لاکھوں ڈالر خرچ کیے جا رہے ہیں۔ کانفرنس میں شامل مندوبین نے کبھی کسی غریب کو دیکھا ہی نہیں ہے۔ کانفرنس کے اختتام پر ان سبھی حضرات کو ایک نمایش گاہ میں لے جایا جاتا ہے۔ جس کی باہر سے اچھی سجاوٹ کی گئی ہے۔ جب یہ مندوبین اندر داخل ہوتے ہیں تو دنیا بھر کے غریب عوام کے رکھے ہوئے برتنوں میں ان کے کھانوں کو دیکھ کر ابکائیاں لیتے ہوئے باہر بھاگتے ہیں۔ افسانہ نگار بین الاقوامی معاملات پر بھی گہری نظر رکھے ہوئے ہیں اور ایسے معاملات پر اچھی گرفت کرنے کا ہنر انھیں آتا ہے۔
’قیمت‘: افسانہ نگار کا یہ افسانہ نہایت مختصر یعنی آدھے صفحے کا ہے۔ اس میں افسانہ نگار نے مختلف حادثات میں مرنے والوں کی زندگیوں کا معاوضہ الگ الگ مقرر کیا ہے، مثلاً محبت میں جان دینے والوں اور خود کشی کرنے والے غریب کسانوں نیز امریکن کمپنی یونین کاربائیڈ کے اثرات سے مرنے والوں اور ملک کے مختلف شہروں میں فسادات سے مرنے والوں (صرف مسلمانوں) کا معاوضہ کچھ نہیں۔ جب کہ بس، ریل، ہوائی جہاز اور اندرا گاندھی کے مرنے پر ہوئے فسادات میں مرنے والوں کے لیے معاوضہ بالترتیب دس ہزار، پچاس ہزار، دو کروڑ (فی کس) اور اجتماعی طور پر اربوں روپے مقرر کیا گیا ہے۔ افسانہ نگار نے ملکی حکومت کی طرف سے انسانی زندگیوں کی درجہ بندی کرنے پر اچھی گرفت کی ہے۔ بعض افسانوں میں افسانہ نگار کا دل اپنے ہم مشربوں کے لیے بڑی بے تابی سے دھڑکتا ہوا نظر آتا ہے۔
’کاغذی کشکول‘: افسانہ نگار نے اپنے ساتھ پیش آئی ہوئی حقیقت کو افسانے کی زینت بنایا ہے کہ کس طرح بہت سے ادبی رسائل معاوضہ لے کر خصوصی شمارے شائع کرتے ہیں۔ ملکی سیاست کی طرز پر آج کل ادبی سیاست بھی زوروں پر ہے۔ بہت سے قلم کاروں کو ان کی ادبی خدمات کے سلسلے میں نہیں بل کہ ادبی گروہ بندیوں کی خدمات کے سلسلے میں انعامات کی تقسیم کی جاتی ہے۔ اتنا ہی نہیں بل کہ ملکی سیاست ادب میں بھی گھس آئی ہے۔ راقم نے بہت عرصہ پہلے ایسے ہی ایک واقعے کا ذکر اپنے مضمون ’پروفیسر جگن ناتھ آزاد: چند یادیں‘ میں کیا تھا جو ہفت روزہ ’ہماری زبان‘ نئی دہلی کے شمارے میں شائع ہوا تھا۔ یہ شمارہ پروفیسر جگن ناتھ آزاد کی وفات کے بعد خصوصی طور پر ان کی یاد میں شائع کیا گیا تھا۔
’کتاب میں کیا ہوتا ہے‘: موجودہ نسل کتابوں میں لکھی ہوئی باتوں پر عمل نہیں کرتی بل کہ بزرگوں کو اپنے [لیے] ایک بوجھ سمجھتی ہے۔
’کچی آگ‘: اس افسانہ میں مرکزی کردار موجودہ نسل کی ایک لڑکی ہے جو کھلاڑی ہے، خوب صورت ہے اور بے باک بھی۔ افسانہ نگار کے ایک دوست اس لڑکی کو دیکھ کر فکر انگیز لہجے میں کہتے ہیں: ”اس کے پاس نسوانیت اور شرم و حیا کے علاوہ سبھی کچھ ہے۔“
ٖٓ افسانہ نگار نے اس جملہ کو کہنے والے کردار سے، یہ بھی پہلے کہلوایا ہے: ”اور ہاں یہ تو تم نے ایک نظر میں ہی اندازہ لگا لیا ہوگا کہ ابھی اس کی عمر ہی کیا ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ اتنی پیاری سی لڑکی تو یہاں رہ کر کچھ اور بھی…….“
افسانہ نگار نے یہ جملہ صرف اسی نسوانی کردار کے لیے ادا کیا ہے جس کو وہ بخوبی جانتے بھی ہیں اور وہ ان کے سامنے کا ہی ایک کردار ہے۔
’کفن‘: منشی پریم چند کے افسانے ’کفن‘ کو لے کر اطہر مسعود خاں نے اپنے افسانے کے ساتھ اچھا انصاف کیا ہے۔ منشی پریم چند کے افسانے کا ماحول ١٩٣٦ء سے قبل کا ہندستانی ماحول ہے جب کہ اطہر مسعود خاں کے افسانے کا ماحول اکیسویں صدی کی پہلی دہائی کا ہے۔وہاں گانو کا منظر ہے، یہ شہر کا منظر ہے۔ وہاں کی زندگی نہایت سادہ، ریا کاری سے مبرا ہے۔ جب کہ شہری زندگی میں ریا کاری اور مکاری نے ہر طرف اپنا جال پھیلا رکھا ہے۔
منشی پریم چند کے افسانے کے تین کردار ہیں. گھیسو، اس کا بیٹا مادھو رام اور مادھو کی بیوی بدھیا۔ جو درد زہ ہونے کی وجہ سے بچے کی پیدایش سے قبل ہی تڑپ تڑپ کر مر جاتی ہے۔ گانو کے لوگ ان غریب چماروں کی خستہ حالت دیکھ کر روپے جمع کرکے کفن لانے کو کہتے ہیں۔ یہ دونوں باپ بیٹا روپے لے کر قریب کے قصبے میں جاتے ہیں۔ وہاں حلوائی کو کچوریاں تلتے ہوئے دیکھ کر بھوکے ہونے کی وجہ سے اندر گھس کر خوب سیر ہو کر کھاتے ہیں، شراب پیتے ہیں۔ خوش ہو کر ناچتے ناچتے بے ہوش ہو کر گر پڑتے ہیں۔ گرنے سے پہلے مرنے والی کو دعائیں دیتے ہیں کہ اس کی وجہ سے انھوں نے آج پیٹ بھر کھایا ہے۔ وہ سیدھی سورگ جائے گی۔ سماج میں پھیلی برائیوں کے لیے کیا کیا طریقے اپنائے جاتے ہیں. 
اطہر مسعود خاں کے افسانے میں بھی تین کردار ہیں۔ دو نئی عمر کے لڑکے اور ایک ماں۔ جس کی لاش ایک سفید چادر سے ڈھکی ہوئی ہے۔ بچے دونوں پاس بیٹھے رو رہے ہیں۔ دفتر اور ادھر ادھر جاتے ہوئے لوگ جمع ہو گئے ہیں۔دھیرے دھیرے لوگ لاش کے قریب روپے ڈالنا شروع کرتے ہیں۔ کوئی بھی لاش کا چہرہ نہیں دیکھتا۔ اگر کوئی لاش کے پاس جاتا ہے تو لڑکے اور زور سے لاش کے ساتھ چمٹ کر رونے لگتے ہیں۔ دیر کے بعد لوگ جانا شروع ہو جاتے ہیں۔ پاس کھڑے لوگوں سے یہ دونوں لڑکے کہتے ہیں کہ اگر آپ تھوڑی دیر کے لیے یہاں رکے رہیں تو بڑی مہربانی ہوگی۔ ہم کفن اور دوسرا سامان لے کر ابھی آتے ہیں۔ انھیں گئے ہوئے دو گھنٹے سے بھی زیادہ کا وقت ہو گیا۔ کچھ اور لوگ بھی سرک گئے۔ آخر ہمت کرکے دو آدمیوں نے لاش پر سے کپڑا ہٹایا۔ وہاں اصلی لاش کے بجائے مصنوعی لاش، گندھی بوریاں رکھ کر بنائی گئی تھی۔ وہ دونوں لڑکے اچھے ڈراما باز تھے۔آج کی فلمی دنیا اور ٹیلی ویژن نے نوجوان نسل کو بغیر محنت کے روپے کمانے کے کئی ہنر سکھائے ہیں۔ ساتھ ہی اخلاقی گراوٹ میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ایسے واقعات بہت سے شہروں میں حقیقت میں ہوئے ہیں۔ کہانی حقیقت پر مبنی ہے۔ زبان و بیان کا اچھی طرح استعمال کیا گیا ہے۔ قاری کا ذہن آخر تک منہمک رہتا ہے۔
’کلنک‘: نہایت اچھا افسانہ ہے۔ جس بچے نے بچپن میں کتیا کے بچوں کی آنکھوں میں آک کے پتوں کا دودھ ڈال کر انھیں اندھا کرکے مار دیا تھا۔ بڑے ہو کر وہ آنکھوں کا مشہور ڈاکٹر بنا اور اپنے پچھتاوے کے لیے اب وہ دوسروں کو آنکھوں کی روشنی دیتا پھرتا ہے۔ حالاں کہ یہ کہانی رمیش اپادھیائے کی ہندی کہانی ’شاپ مکتی‘ کا اردو ترجمہ ہے۔ جیسا کہ افسانہ نگار نے اس کے آخر میں خود لکھا ہے۔ مگر افسانہ نگار نے ترجمے کا حق ادا کر دیا ہے۔ عمدہ اسلوب و بیان سے موقع و محل کے مطابق کرداروں کے جذبات کی صحیح عکاسی کی گئی ہے۔
’گرہن‘: افسانے کا عنوان اسم با مسمیٰ ہے۔ یہ سنسکرت لفظ ہے۔ جس کے معنی ہیں گہن یا کالا سایہ۔ افسانہ نگار نے موجودہ دور کے ایک سیاست دان کے تمام برے اعمال کا ذکر کیا ہے۔ جس نے اپنے مفاد کی خاطر اپنے عوام کو ہی نہیں بل کہ اپنے ملک کو بھی نہیں بخشا۔ وہ کون سا جرم ہے جس کا وہ مرتکب نہیں ہوا۔ اس نے انسانوں کے علاوہ عبادت گاہوں کو بھی برباد کیا۔ وہ جیل کاٹ کر باہر آیا ہے۔ اب اس نے برے کاموں سے توبہ کر لی ہے۔
افسانہ نگار نے آخر میں اس کردار سے توبہ کروائی یعنی اس میں سدھار ہواہے۔ مگر آج کے بعض سیاست دان ایسے ہیں جو ریاستوں کے سربراہ ہیں۔ جیل کاٹ کر باہر آنے کے باوجود ان میں کوئی ذہنی تبدیلی نہیں آئی۔ وہ پہلے سے بھی زیادہ سیاست میں سرگرم ہیں۔ ہمارے ملک کا قانون انھیں تحفظ بخشے ہوئے ہے۔ یہ کیسی ستم ظریفی ہے؟
’گل بلائی زیشن‘: اس افسانے میں مدرسوں کے استادوں کی ناقص معلومات کی عکاسی کی گئی ہے۔ جو لفظ گلو بلائی زیشن globalizationکا تلفظ گل بلائی زیشن کرتے ہیں۔
’گھر‘: اس مختصر افسانے میں گھر کے اندر ٹی.وی پر عریاں و نا مہذب اشتہار دیکھ کر ہمیں شرم نہیں آتی۔جب کہ اسی گھر میں نماز پڑھتے ہوئے شرم آتی ہے۔افسانہ نگار کے اندر ڈپٹی نذیر احمد جیسی خوبیاں نظر آتی ہیں۔ جو اپنے معاشرے کو سدھارنا چاہتا ہے۔ جس کی نظروں میں ہمیشہ اخلاقی قدریں گردش کرتی رہتی ہیں۔
’مچھلی بازار‘: سرکاری دفاتر میں ملازمین کی بد نظمی کا نقشا پیش کیا گیا ہے۔ جس کا جب جی چاہتا ہے آتا ہے اور اپنی مرضی سے چلا جاتا ہے۔ کوئی بھی کام کرنے کو راضی نہیں۔ ایسا ہی منظر راقم نے سری نگر کے سکریٹریٹ میں خود دیکھا ہے۔ یہ افسانہ غیر ذمہ داری اور اخلاقی گراوٹ کی اچھی مثال ہے۔
’نادیدہ آنچ‘: رفو اس افسانے کا مرکزی کردار ہے۔ جو اپنے میاں کی وفات کے بعد اپنے دو بچوں کے ہوتے ہوئے بھی فراز کے بچے کو اس کی ماں کی ممتا دیتی ہے اور ہمیشہ اسے چھاتی سے لگائے رکھتی ہے۔ فراز اور اس کے گھر کو سنبھالتی ہے۔ مگر معاشرے کا جو کوئی فرد ان کے گھر آتا ہے، وہ رفو کو بچے کی سوتیلی ماں کہہ کر مخاطب ہوتا ہے۔ رفو کا دل ’سوتیلی ماں‘ کا لفظ سن سن کر ٹوٹ جاتا ہے۔ وہ سمجھنے لگتی ہے کہ یہ بچہ بھی بڑا ہو کر اسے ’سوتیلی ماں‘ ہی کہے گا۔ اب وہ اسے اپنے کندھے پر ڈالے رکھتی ہے۔ مانو ایک بوجھ اٹھائے ہوئے ہے۔ اس افسانہ کا سب سے اہم پہلو یہی ہے کہ جہاں لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ رفو کو اس بچے سے محبت ہے اور وہ اسی وجہ سے اسے ہر وقت اپنے کندھے پر ڈالے رکھتی ہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ وہ بچے کو اس لیے ہر وقت اپنے کندھے سے لگائے رکھتی ہے کہ اسے اس سوتیلے بچے کی شکل نظر نہ آئے۔ کہانی کا اختتام نہایت چونکانے والا ہے۔
ہمارا معاشرہ بھی کیسا ہے جس نے سوتیلی ماں، سوتیلا باپ، بیوہ اور رنڈوا جیسے الفاظ اخذ کرکے انسانی رشتوں کو داغ دار کر دیا ہے۔
’نایاب تحفہ‘: بھلے ہی افسانہ نگار نے او.ہنری کی انگریزی کہانی’The Gift of Magai‘ کا ترجمہ کیا ہے، مگر اس میں افسانے کے وہ تمام لوازمات موجود ہیں جو قاری کو اول تا آخر باندھے رکھتے ہیں۔ اس کی وجہ افسانہ نگار کی زبان، خوب صورت الفاظ کا مناسب انتخاب اور جملوں کی ادائیگی ہے۔ ڈیلا اور جم ایک دوسرے سے بے حد پیار کرتے ہیں۔ آمدنی مناسب نہیں۔کرسمس کے تہوار کے لیے تحفے خریدنے کے لیے ڈیلا اپنے بال بیچ کر جم کی گھڑی کے لیے چین خرید لاتی ہے۔ ادھر جم اپنی گھڑی بیچ کر ڈیلا کے بالوں کے لیے clips خرید لاتا ہے لیکن حقیقت میں دونوں ان تحفوں کا استعمال نہیں کر سکتے۔ دل کو چھونے والے جذبات کی عکاسی کی گئی ہے۔
’نقش بر آب‘: افسانہ نگار نے بہت سے نامور ادیبوں کی حقیقی زندگی سے پردہ اٹھایا ہے جو ہر سال ایک نئی کتاب تیار کر دیتے ہیں۔ افسانہ نگار ایک ایسے نامور ادیب کے گھر اچانک چلا جاتا ہے جو دس سالوں میں گیارہ کتابوں کا مصنف ہو چکا ہے۔ کیا دیکھتا ہے کہ بہت سی پرانی کتابیں اس کے سامنے فرش پر بکھری پڑی ہیں اور وہ قینچی لیے ان میں سے تراشے نکال کر ایک کتاب ترتیب دے رہا ہے۔ ایسے ادیب کے ادب میں کتنی جان ہوگی۔ اس کا فیصلہ افسانہ نگار نے قاری پر چھوڑ دیا ہے۔ سرقہ یا چوری اسی کا نام ہے۔ آج کل بعض یونی ورسٹیوں کے ریسرچ مقالوں کے لیے اسی فن کا استعمال کیا جاتا ہے۔
’نگیٹو‘: اس افسانہ میں دھرم پری ورتن یعنی تبدیلی مذہب پر خوب طنز کیا گیا ہے۔
’نیا پیسہ‘: اس کہانی میں ان لوگوں پر چوٹ کی گئی ہے جن کے پاس نئی نئی دولت آئی ہے اور انھوں نے اس کے زعم میں عزت و شرافت کی ساری حدیں پار کر لی ہیں۔ہمارے خیال کی تائید اس افسانے کا آخری جملہ اس طرح کرتا ہے: ”بیٹا! دیکھیے دروازے پر آپ کا ماسٹر بہت دیر سے کھڑا آپ کو آواز دے رہا ہے۔“
’وہ ورق تھا دل کی کتاب کا‘: ایک جوان بیٹی کے ہوتے ہوئے باپ دوسری شادی کرتا ہے جس سے جوان بیٹی کی روح زخمی ہو جاتی ہے اور وہ اپنی ماں کو یاد کرکے زار و قطار روتی ہے۔ مگر معاشرے کی روایات کے آگے وہ مجبور ہے۔
’ہرا زخم‘: دو گز زمین کے مجموعے کا آخری افسانہ ہے۔جس میں ایک نئی شادی شدہ عورت کو فساد کے دوران زخمی حالت میں میٹرنٹی وارڈ میں داخل کیا جاتا ہے۔اس کے ہاں پہلی اولاد ہونے والی ہے۔ سینئر ڈاکٹر سیما اسے دیکھ کر اور جونیر لیڈی ڈاکٹرس ہدایت کرکے گھر چلی جاتی ہے۔ رات کو وہ ماں بن جاتی ہے۔ اس کے ہاں بیٹا پیدا ہوتا ہے۔ اس کا دودھ نہیں اترتا۔ صبح ڈاکٹر سیما کو اس کی اطلاع دی جاتی ہے۔ زچہ درد سے چلا رہی ہے، اسے نیند کا انجکشن دیا جاتا ہے۔ اچانک اس کے جسم سے کپڑا سرک جاتا ہے۔ ڈاکٹر سیما یہ منظر دیکھ حیرت زدہ ہو جاتی ہے کہ فسادیوں نے اس کی دونوں چھاتیوں کو ریت ڈالا تھا۔ افسانہ نگار کو عورت سے ہمدردی ہے اور فسادیوں کی بربریت سے نفرت! یہی اس افسانہ کا خاص موضوع ہے۔ اطہر مسعود خاں ایک اچھے افسانہ نگار ہیں۔ ان کی گرفت قابل داد ہے۔ یہ قاری کی ذہنی نفسیات کو پہچانتے ہیں۔ انھوں نے اپنے افسانوں کے عنوانات بھی حروف تہجی سے رکھے ہیں۔
’دو گز زمین‘ میں بیالیس افسانوں کے ساتھ آٹھ انشائیے اور دو ڈرامے بھی شامل ہیں۔ اطہر مسعود کو ہر صنف ادب کے ساتھ انصاف کرنا آتا ہے۔ ان کا دل نہایت نرم و نازک ہے جو ہر وقت اپنے معاشرے میں پھیلی ہوئی بدعتوں کے لیے دھڑکتا رہتا ہے۔ اپنے انشائیوں کے عنوانات کے ساتھ انھوں نے ان تمام بری باتوں کو منسلک کیا ہے جنھیں روز ہماری آنکھیں دیکھتی ہیں اور ہم ان کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ فن کار اپنے معاشرے کا فرد ہوتا ہے ساتھ ہی ایک ماہر سرجن بھی۔ جو اپنے قلم کے نشتر سے فاسد مادے کے مقام پر کٹ لگا کر اس کی صفائی کر دیتا ہے۔ اطہر مسعود خاں نے اس کام کو بڑی چابک دستی سے انجام دیا ہے۔
اطہر مسعود خاں اشاریہ سازی کے فن میں بھی ماہر ہیں۔ یہ کام نہایت ہی مشکل اور جان لیوا ہے۔ راقم کو اس کام کا تلخ تجربہ ہے کیوں کہ اپنے ایم.فل کے مقالے کے لیے میں نے رسالہ ’زمانہ‘ کان پور کا وضاحتی اشاریہ مرتب کرنے کا ارادہ کیا تھا۔ اس وقت مجھے کل دو سو پچاس رسالے دستیاب ہوئے تھے جو ١٩٠٤ء سے ١٩٤٨ء پر مشتمل تھے۔ یہ بات ٧٩-١٩٧٨ء کی ہے۔ جب کہ ہماری ریاست جموں و کشمیر میں نہ تو بازار میں اردو کمپوزنگ و ٹائپ کا انتظام تھا اور نہ ہی زیراکس کی سہولت تھی۔ کسی کاتب کا ملنا اور بھی دشوار تھا۔ راقم نے مقالے کی تین کاپیاں سیاہی سے لکھی تھیں۔ کاربن کا بھی استعمال نہیں کیا تھا۔ اطہر مسعود نے ماہنامہ’نیا دور‘ لکھنؤ کا اشاریہ دو جلدوں میں مرتب کیا ہے۔ جو ١٩٥٥ء سے ٢٠٠١ء تک کے ماہناموں اور ٥٦١ شماروں پر مشتمل ہے۔ اس اشاریہ کو رام پور رضا لائبریری نے ٢٠٠٩ء میں بڑے اہتمام سے شائع کیا ہے۔ اس اشاریہ کا مقدمہ رضا لائبریر ی کے او.ایس.ڈی ڈاکٹر وقارالحسن صدیقی کا تحریر کردہ ہے۔ اشاریہ نیا دور کی بابت اطہر مسعود خاں ’دو گز زمین‘ کے مقدمہ میں صفحات ٢٣ و ٢٤ پر یوں رقم طراز ہیں:
”پی. ایچ.ڈی کے لیے میری تحقیق کا موضوع نہایت وسیع اور طویل تھا، اس کے لیے مجھے کئی ہزار صفحات لکھنے کے علاوہ کم و بیش ٢٥ ہزار کارڈوں کو بھی لکھنا پڑا تھا…….میرا تحقیقی مقالہ دو جلدوں میں ١٦٦٤ صفحات پر شائع ہوا۔ اس کے لیے کس قدر لکھنا پڑا ہوگا اس کا بہ خوبی اندازہ صرف وہ حضرات لگا سکتے ہیں جو تحقیقی کاموں کی دشواریوں سے واقف ہوں۔“
اطہر مسعود خاں نے اسی پر اکتفا نہیں کرلیا۔ انھوں نے اب ماہنامہ ’نیا دور‘ لکھنؤ کے ۲۰۰۲ء سے ٢٠١٥ء تک کے شماروں کا اشاریہ بھی مرتب کر لیا ہے۔ راقم کی ٹیلی فون پر ان سے، اس متعلق گفتگو ہوئی ہے۔ انھی کی ایک شاگردہ ایمن تنزیل ان کی نگرانی میں ’ایوان اردو‘ دہلی کا اشاریہ مرتب کر رہی ہیں۔ جو دہلی اردو اکادمی کا ماہنامہ ہے۔ ماہناموں کے اشاریے ادبی تحقیق میں بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ پرانے اور نئے ریسرچ اسکالروں کی یہ رہنمائی کرتے ہیں۔ اشاریہ اٹھاؤ اپنے مطلب کی چیز کو دیکھو اور فوراً وہاں پہنچ جاؤ۔ اشاریے اسکالروں کو در در بھٹکنے، وقت اور روپیا برباد کروانے سے بچاتے ہیں۔
راقم اشاریے کی اہمیت کی اپنی ایک مثال آپ کے سامنے پیش کرتا ہے۔ اسی سال (٢٠١٤ء) ماہ جولائی میں مجھے دہلی جانے کا اتفاق ہوا۔ مجھے اپنے تحقیقی کام سے متعلق مواد کی تلاش تھی۔ میں غالب انسٹی ٹیوٹ پہنچا۔ ڈائرکٹر ڈاکٹر رضا حیدر سے ملاقات ہوئی۔ میں نے اپنے آنے کا مقصد ان کے سامنے پیش کیا۔ انھوں نے فوراً لائبریرین کو بلوایا اور میرے سامنے ڈاکٹر فاروق انصاری کا مرتب کردہ اشاریہ غالب نامے کا، رکھ دیا۔آدھے گھنٹے کے اندر میں نے اپنے مطلب کی چیزوں کی فہرست بنا ڈالی۔ انھوں نے لائبریرین سے کہا کہ ’غالب نامہ‘  کے وہ تمام شمارے ان کے سامنے رکھ دو۔ لائبریرین نے اس پر عمل کیا۔ قریب دو گھنٹے کے اندر اندر راقم نے ان مقامات میں پرچیاں ڈال دیں۔ ڈاکٹر رضا حیدر کے حکم کے مطابق ان تمام صفحات کے زیراکس بننے لگے۔ماہ رمضان تھا، تین بجے چھٹی ہو گئی۔ دوسرے دن وہ سارا کام انھوں نے پاس کھڑے ہوکر تیار کروایا۔ مجھے اسی شام واپس آنا تھا، ریزرویشن تھا۔ کوئی چار مضامین باقی رہ گئے تھے۔ انھوں نے کاغذ پہ لکھ کر اپنے پاس رکھ لیے اور مجھے واپس جانے کے لیے کہہ دیا۔ میں شکریہ ادا کرنے کے بعد چلا آیا۔ قریب بیس دن کے اندر انھوں نے بچے ہوئے صفحات کے زیراکس بنوا کر بھیج دیے۔ آپ خود اندازہ کر سکتے ہیں کہ میرا کتنا وقت اور روپیا بچا۔
راقم دور افتادہ علاقہ جموں کا باشندہ ہے۔ یہاں ادبی سرگرمیاں کم سے کم اور لائبریری سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ذاتی طور پر میرے پاس سات ادبی رسالے (فکر و تحقیق، اردو دنیا، ایوان اردو، رہنمائے تعلیم، تحریر نو، نوائے ادب اور اردو ادب) اور دو اخبار (ہماری زبان اور صدائے اردو) آتے ہیں۔ میرے ایک کرم فرما جناب مہر الٰہی ندیم (علیگ) علی گڑھ یو نی ورسٹی کی لائبریری سے وابستہ ہیں۔ وہ اکثر ادبی اشاریوں کو دیکھتے رہتے ہیں۔ یہاں بھی کوئی چیز انھیں میرے مطلب کی نظر آتی ہے فوراً اس کا زیراکس بنوا کر بہ ذریعہ رجسٹرڈ ڈاک بلا معاوضہ روانہ کرتے ہیں۔ مجھے کام کرنے میں کتنی مدد ملتی ہے آپ اس کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ میں شکریے کے علاوہ انھیں کیا پیش کر سکتا ہوں۔ راقم اس وقت اس کتاب میں کمپوز ہوئے چند الفاظ کی صورتوں سے متعلق گفتگو کرنا چاہتا ہے۔جنھیں جنوری ١٩٤٤ء میں ناگ پور میں منعقد ہونے والی اردو کان فرنس میں اردو اصلاح کمیٹی نے بدل دیا تھا اور بعد میں انجمن ترقی اردو(ہند)اور انجمن ترقی اردو (پاکستان) نے قبول کر لیا تھا۔ آج بھی ان اداروں کے تحت جو کتابیں شائع ہوتی ہیں ان کے املا پر خاص طور سے توجہ دی جاتی ہے. مثلاً: اعلیٰ، ادنیٰ، صغریٰ، کبریٰ، دعویٰ، تقویٰ، عقبیٰ، مصطفیٰ، وسطیٰ، عیسیٰ وغیرہ۔ یہ طریقہ عربی میں رائج ہے کہ لفظ کے آخر میں ی لکھی جاتی ہے اور پڑھا الف جاتا ہے۔ انجمن ترقی اردو (ہند) کے سکریٹری مولوی عبدالحق کے زمانے میں یہ طے ہوا تھا کہ ایسے سبھی لفظوں کو اب ی کے بجائے الف سے لکھا جائے۔ اس کے بعد رشید حسن خاں کی ١٩٧٤ء میں ’اردو املا‘ نامی کتاب شائع ہوئی جس میں املا کمیٹی کی سبھی سفارشات کو یک جا کر دیا گیا تھا۔ ترقی اردو بورڈ نے اس کی مختصر صورت ’املا نامہ‘ شائع کی۔ ان میں اوپر درج لفظوں کو اس صورت میں بدل دیا جو اب رائج ہے: اعلا، ادنا، کبرا، دعوا، تقوا، عقبا، مصطفا، وسطا اور عیسا۔ اسی کتاب میں درج ذیل الفاظ کا املا یوں کمپوز ہوا ہے: گنجائش، فرمائش، ستائش، پیدائش، آلائش، زیبائش اور افزائش۔ اس قبیل کے سبھی لفظ فارسی کے حاصل مصدر ہیں، جن میں ی جزو لفظ ہوتی ہے۔ اس لیے ’ش‘ سے قبل ایسے لفظوں میں ’ی‘ لکھی جائے گی نہ کہ ہمزہ، مثلاً: گنجایش، فرمایش، ستایش، پیدایش، آرایش، زیبایش اور افزایش۔
یہ چند الفاظ ہیں جنھیں ملا کر لکھا گیا ہے۔ اس میں یہ دو الگ الگ لفظ ہیں: بلکہ، چونکہ، جبکہ، کیونکہ، حالانکہ۔ انھیں ہمیشہ الگ الگ لکھیں، مثلاً: بل کہ، چوں کہ، جب کہ، کیوں کہ اور حالاں کہ۔ اسی طرح کر دیگا اور کردیگی، کو بھی کر دے گا اور کر دے گی، لکھیں۔علیحدہ اور علیحدگی کو بھی اب علاحدہ اور علاحدگی کی صورت میں لکھنا چاہیے۔ کتاب کے صفحہ ٢٣٩ پر ’چائے‘ لفظ آیا ہے اور اس سے قبل’گائے‘ لفظ بھی نظروں سے گزرا ہے۔ یہ دونوں تین حرفی لفظ ہیں، ساتھ ہی اسم بھی، مثلاً: گاے دودھ دیتی ہے۔ اس میں (گ،ا،ے) تین حرف ہیں۔ اگر اسے گائے دودھ دیتی ہے، لکھا جائے تو گاے کی صورت کو بگاڑ دیا گیا۔ دوسری طرف ’گائے‘ یعنی حمید گانا گائے۔ اس جملے میں ’گانا‘ مصدر ہے۔ اس سے ’گائے‘ فعل بنے گا۔ اسی طرح: اس نے چاے پی۔ یہاں ’چاے‘ (چ،ا،ے) تین حروف ہیں۔ دوسری صورت میں: چائے حمید جائے یا اسلم۔ اس جملے میں ’چائے‘ چار حرفی ہے یعنی (چ-ا-ء-ے)۔ ’گزشتہ‘ کی جگہ ’گذشتہ‘ لکھنا چاہیے۔ کیوں کہ فارسی مصادر گذشتن اور گذاشتن میں ’ذال‘ ہے۔ اس لیے گذشتہ، سرگذشت اور در گذر لکھنے چاہئیں۔ صفحہ ٧٨ پر ’ہٹہ کٹہ‘ ہے۔ اس کا املا ہٹا کٹا ہونا چاہیے۔ کتاب میں زیادہ طرح ان چند الفاظ کا املا یوں درج ہے: انہوں، انہیں، جنہوں، جنہیں، تمہیں۔ اس روشنی میں اب انھوں، جنھوں، جنھیں اور تمھیں، درست لکھنا چاہیے۔ یہاں درست کا مطلب یہ نہ لیا جائے کہ پہلے والا املا غلط ہے، نہیں اب وہ چلن میں نہیں۔ اب تمہارے اور تمہاری کی جگہ تمھارے اور تمھاری ہونا چاہیے۔ لیجئے، کیجئے، پیجئے، پوجئے، جیسے لفظوں کے آخر میں دو ’ی‘ آتی ہیں اور یہ تعظیمی فعلوں کی صورتیں ہیں۔ ایسے فعلوں پر ہمزہ نہیں آئے گا۔ انھیں یوں لکھیے: لیجیے، کیجیے، دیجیے، پیجیے، پوجیے وغیرہ۔ البتہ اطہر مسعود خاں نے ان الفاظ کا املا اسی طرح لکھا ہے۔ اردو اور زبانوں کے علاوہ انگریزی کے الفاظ کو بھی صوتی ٹکڑوں میں لکھیے، مثلاً: یونی ورسٹی، کان فرنس، پار لی منٹ، ٹیلی فون، ٹیلی ویژن وغیرہ۔
مضمون زیادہ ہی طویل ہو گیا ہے۔ مطالعے کے دوران جہاں جہاں میری نظر رکی میں نے ان کی نشان دہی کر دی ہے۔ ادب میں کسی کی رائے کے ساتھ متفق ہونا نہ ہونا ادبی سوچ کو بڑھاوا دیتا ہے۔ آخر میں، میں یہ کہہ کر اپنے قلم کو روکتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ محمد اطہر مسعود خاں کے قلم کی رفتار کو ہمیشہ قائم رکھے،آمین!
(٢٦/مئی ٢٠١٥) 
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں : ڈاکٹر محمد اطہر مسعود خاں کی اشاریہ سازی پر ایک نظر

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے