عجیب ڈھنگ سے کٹی ہوئی انگلی

عجیب ڈھنگ سے کٹی ہوئی انگلی

وسیم احمد علیمی
ریسرچ اسکالر، شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی

وہ دن بھی عجیب دن تھا۔ ایک فقیر میرے گاؤں کے قبرستان میں آکر یوں لوٹ پوٹ زار و قطار رویا کہ آس پاس ایک حشر برپا ہوگیا۔ قبرستان کے گنجان و ویران درختوں سے ٹکراکر اس کی آہ و بکا جب دور کھیتوں میں بکریاں چر ارہے بچوں کے کانوں سے ٹکرائی تو ان کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ انھیں لگا کوئی مردہ زندہ ہو اٹھا ہے۔ چرواہے بچوں کو لگا ہو نہ ہو جمرو چچا (ضمیرالدین موذن) اپنی قبر میں چیخ رہا ہو جس کو کل ہی دفنایا گیا تھا۔
بچے ڈھیلوں پر لڑکھڑاتے ہوئے شیشم کے درختوں کی اس قطار کی طرف بھاگے جس کے اس پار آبادی شروع ہوتی ہے اور جہاں سے قبرستان نظروں سے اوجھل ہوجاتاہے۔ بچے ہانپتے کانپتے بھاگے اور ان کے پیچھے ممیاتی ہوئی بکریاں۔ قبرستان کے گھنے جنگلوں کو چیرتی ہوئی فقیر کی ماتمی آواز بکریوں کی ممیاہٹ سے مل کرجب ہوا میں تحلیل ہوئی تو ماحول اور بھی پر اسرار ہوگیا۔ ہلکی سی ہوا چلی، پر ہجوم درختوں میں ایک دوسرے کی رگڑ سے ایک کچکچاہٹ کی آواز پیدا ہوئی۔ معلوم ہوتا تھا کہ یہ سبھی پرانے درخت فقیر کی گریہ و زاری پر مکروہ ہنسی ہنس رہے ہیں۔ ظاہر ہے جن کے سایے میں صدیوں سے مردے ہی مردے مدفون ہوتے آئے ہوں ان کو کسی کے نوحہ پر فحش ہنسی آنی کون سی تعجب کی بات ہے۔ مجھے تو لگتا ہے انسان کی موت کا ماتم صرف انسان ہی کرتا ہے، سنسار کی دوسری سبھی چیزیں خوشی سے جھوم اٹھتی ہیں، جب کسی آدم ذات کے جسم سے روح کا پرندہ نکل کر بھاگتا ہے۔جمرو موذن کی ہی مثال لے لیجیے۔ اس کی قبر پر بھر بھری مٹی کا کوہان، چار مرجھائے پھول، بیر کے کانٹے اور اطراف کے لمبے لمبے پیڑ کتنے گہرے اور شانت ہیں۔جمروموذن کی موت نے ان کو ذرہ برابر پُر ملال نہیں کیا۔ قبرستان کے دکھنی سرحد پر کھڑے کجھور کے وہ دونوں درخت تو نہ جانے کب سے یوں ہی بے حس کھڑے ہیں۔ کوئی مرے کوئی جیے ان کو کچھ فرق نہیں پڑتا۔میں نے کہا نا کہ انسان کی موت کا نوحہ صرف انسان ہی کرتا ہے۔ وہ بھی سب نہیں۔ صرف وہی لوگ جو کھجور کے درخت نہیں ہیں۔ لیکن وہ فقیر کھجور کا درخت نہیں تھا۔ وہ کون تھا، اس کا کیا نام تھا، کس دیس کا رہنے والا تھا، جمرو اس کا کیا لگتا تھا کسے خبر۔اس فقیر کے شجرۂ نسب کے بارے میں صرف ایک بات عقیدے کی حد تک مستحکم تھی اور وہ یہ کہ فقیر کھجور کا درخت نہیں تھا۔
(۲)
گرد آلود، سوختہ جاں، غموں سے نڈھال وہ فقیر قبرستان سے نکل کر جب آبادی کی طرف گیا تو گلی کوچے کے اوباش بچے اس کے پیچھے ہو لیے۔ کوئی کنکری مار گلی میں چھپ جاتا تو کوئی اس کی نقل اتارتے ہوئے بد معاشی سے کھل کھلا کر ہنسنے لگتا۔ وہ کوئی پروفیشنل فقیر نہیں تھا۔ اس لیے آدابِ دریوزہ گری سے بے بہرہ تھا۔ مثلا مسلمانوں کے محلے میں جانا ہے تو کیا کہنا ہے اور ہندوؤں کے محلے میں جانا ہے تو کون سی صدا لگانی ہے۔ وہ ہر دروازے پر ایک نو سکھیے فقیر کی طرح بس وہی ایک بے تُکی بچوں والی لائن دہراتا تھا۔
سیل کبڈی آس لال
مر گیا پرکاش لال
غم مناؤ سالِ سال
بھیک لٹاؤ تھالے تھال
بڑوں کا پتہ نہیں مگر گاؤں کے بچوں کا ایک جھنڈ دھیرے دھیرے فقیر کے کورَس میں شامل ہو گیا۔ فقیر ایک لائن کہتا اور بچے مزے لے لے کر ’بھیک لٹاو تھالے تھال‘ گاتے ہوئے اس کے پیچھے شرارت سے بھاگنے لگتے۔یوں تو وہ سوالی بن کر آیا تھا مگر اس کی بے چین نظریں دو مٹھی چاول یا چند سکے کی طلب گار بالکل نہیں تھیں۔ گرد و پیش کی چیزوں کو جس قدر پیاسی نگاہوں سے وہ دیکھ رہا تھا اس سے ایسا لگتا تھا کہ وہ صدیوں سے اس آبادی کو جانتا ہے اور کسی گمشدہ گوہرِ آب دار کی تلاش میں ہے۔
منہ تکا ہی کرے ہے جس تِس کا
حیرتی ہے یہ آئینہ کس کا
ایک گھر کے باہر جب اس نے ’سیل کبڈی آس لال‘ والی لائن دہرائی اور ایک ننھی بچی سوپ میں بھیک کا چاول لے کر گھر سے باہر نکلی تو فقیر نے اس بچی کو سراسر نظر انداز کر دیا۔ بچی اس کے آگے بھیک لے کر کھڑی ہے اور وہ رحمت میاں کے گھر کے پیچھے کھڑے اس فلک بوس اوج بن عنق کی گردن کی طرح لمبے موبائل ٹاور کو گھور رہا ہے۔ ٹاور کی ماہیت فقیر کو کسی دراز قد ناریل کے پیڑ جیسی لگی جو اَب شاید باید ہی اس علاقے کے کہیں کسی گاؤں میں موجود ہو۔ ٹاور کی بلندی پر نصب شدہ ریڈیو ایکٹیو مشینیں فقیر کو ناریل کے پیڑ سے لٹکتا ہوا چنچل پرندوں کا جھولا معلوم ہوا، ایسا لگا کہ ہلکی ہلکی میٹھی سہانی ہوا میں پرندے کا آشیانہ دھیمی رفتار میں ڈول رہا ہے اور آس پاس پرندے پھدک رہے ہیں۔ ’’انکل لیجیے نا!‘‘ بچی کمال ادب سے فقیر کا دامن کھینچ کر بولی اور فقیر کی نگاہ سے پورا منظر اچانک غائب ہو گیا۔ سامنے پھر وہی دیو قامت ٹاور کھڑ اتھا۔ اس کے افق پر دور دور تک کسی پرندے کا گزر نہیں تھا۔ یہ منظر تو بس ماضی کا ایک دھندلا سا عکس تھا جو اس فقیر کی تاریک کھوپڑی کے اندر یادوں کے سمندر میں بے یارو مددگار ڈوب رہا تھا۔وہ ڈوبٹتا ہوا ماضی کا عکس کبھی کبھی دونوں ہاتھ گرداب سے باہر نکال کر لہراتا اور مایوسی سے چیختا ’’بچاؤ۔۔۔بچاؤ‘‘ لیکن وہاں ڈوبتی ہوئی یادوں کے سوا کوئی اور دوسری مخلوق نہیں تھی۔
فقیر خراماں خراماں ’’سیل کبڈی آس لال‘‘ گاتے ہوئے دوسرے دروازے پر کھڑا ہو گیا۔ اس کی آواز اب گہری اور بھاری ہورہی تھی جس میں تھکاوٹ، مایوسی اور نوحہ کے ملے جلے راگ نے ایک کشش پیدا کر دی تھی۔آواز سن کر ہر گھر سے کوئی نہ کوئی بھیک لے کر یوں باہر نکلنے لگا تھا گویا فقیر کی فریاد نہیں کوئی آفر ہے۔
(۳)
اب فقیر گاؤں کی اس ڈیوڑھی پر تھا جو گاؤں کے واحد غیر منقسم خاندان کی بوسیدہ حویلی تھی۔ دو سو سوا دو سو آبادی پر مشتمل اس گاؤں کے تقریبا ہر گھر میں بٹوارے کی بد چلن شہزادی نے اپنی ہوس کا جھنڈا گاڑ دیا تھا۔ یہی ایک تنہا خاندان تھا جس پر بٹوارے کی ناگن اپنا سب حربہ آزماکر ہار مان چکی تھی۔ آگے کے درجنوں گاؤں اور محلوں کو جوڑنے والی سڑک کے دونوں کنارے بسا ہوا یہ گاؤں دھیرے دھیرے اپنا چولی کرتا بدل رہا تھا۔ یہی سڑک جو کبھی اپنے اوپر سیر کرنے والوں کے لیے مٹی کی سوندھی خوشبو، بارش کے دنوں میں بدن پر مٹی کے بتاشے اور گرمی کے دنوں میں دھول دھکڑ کی سوغات لٹاتی تھی اب ایک دم بے جان تارکول کی سیاہ دبیز چادر کے نیچے خود سپردگی کی حالت میں چپ چاپ لیٹی ہوئی تھی۔ چھوٹے چھوٹے بچے جو کبھی گاؤں کی گلیوں میں کت کت، گلی ڈنڈا، لکا چھپی اور دھول دھپہ کیا کرتے تھے وہی بچے اب بے رحم جوانی کے چوکھٹ پر ناک رگڑنے کو تیار ہو رہے تھے۔ ان کے بالوں کا رنگ بوڑھی بکریوں کے بد رنگ روؤں کی طرح کر دیا گیا تھا۔ ان میں سے اکثر کے زانو اور پنڈلی کے سنگم کا کپڑا مضحکہ خیز انداز میں پھٹا ہوا تھا جس سے اندر کا ننگا جسم بے شرم بِلے کی طرح باہر تکا کرتا تھا۔ ان میں سے بعض کی جیبوں میں ایک عجیب قسم کا لمبی ہیئت والا غبارہ بھی دریافت ہوا تھا جیسے ان کے مخصوص اعضا نے زہریلے سانپوں کی طرح اپنی کینچلی اتار پھینکی ہو۔ گاؤں کے آٹھ دس سالہ مال دار بچوں کو گلی نکڑ پر کھیلے جانے والے کھیلوں سے ناقابل بیان حد تک نفرت ہوگئی تھی۔ اب یہ بچے چمچماتی اسکرینوں پر انگلیوں کے ایک معمولی لمس سے ہزاروں دشمنوں کو بھون ڈالنے کے قائل اور شیدائی تھے۔ غرض گاؤں کے بوڑھے جسم و جان میں دھیرے دھیرے نئی تہذیب کا خول چڑھ رہا تھا۔ نئی تکنیکوں اور ایجادات کا غبار آلود ہالہ گاؤں کے پرانے منظر کو دھندلا کرنے لگا تھا۔
(۴)
’’سیل کبڈی آس لال‘‘
فقیر کی صد اکریم منزل کی ڈیوڑھی پر گونجی۔ کریم منزل گاؤں کی سب سے قدیم، ثروت مند اور عزت دار گھرانے کی حویلی تھی۔ حویلی کی محراب نما پرانی دیواریں اوردیواروں سے لٹکتی بیلوں کے پرے کائیاں حویلی کی قدامت بیان کرنے کو کافی تھیں۔
حویلی کے ایک تنگ و تاریک کمرے میں خاندانِ کریمی کا آخری تاج دار بوڑھا بسترِ مرض پر عمر کی آخری سانسیں گن رہا تھا۔ وہ اتنا ہی بوڑھا تھا جتنی بوڑھی وہ حویلی۔ لیکن رعب ایسا کہ آج بھی خاندان کے سبھی فرد ایک اشارے پر سامنے حاضر ہو جائیں۔ فقیر کی آوز جیسے ہی بوڑھے کے پردۂ سماعت سے ٹکرائی وہ یک لخت اٹھ بیٹھا۔ گویا کسی ولیِ کامل نے مدفونِ قدیم پر قُم باذن اللہ کی پھونک مار دی ہو۔ فقیر کی صدا صاف ہونے لگی تھی۔
سیل کبڈی آس لال
مر گیا پرکاش لال
غم مناو سال سال
بھیک لٹاؤ تھالے تھال
نہ جانے بوڑھے کی سماعت اور فقیر کی صدا میں کیا تعلق تھا، اس کی آواز بوڑھے کے بدن میں زندگی پھونک رہی تھی۔ اپنے بیڈ پر مہینوں سے مردہ لاش کی طرح پڑے رہنے والے اس مضمحل جسم میں فقیر کی صدا سے حرکت پیدا ہو گئی تھی۔ فقیر کی صدا مزید صاف اور قریب ہو گئی۔ بوڑھا ہمہ تن گوش ہو گیا۔
سیل کبڈی آس لال
مر گیا پرکاش لا ل
بوڑھا فقیر کی صدا کی طرف کسی کشش ثقل کی مانند کھینچا چلا گیا۔ اس کے کم زور اور لاغر جسم میں جان سی پڑ گئی۔ بوڑھے کو معجزانہ طور پرچلتا دیکھ کر افراد خانہ کو حیرت تو ہوئی مگر انھوں نے کسی رد عمل کا اظہار نہیں کیا۔ بوڑھے کو فقیر تک جانے دیا گیا۔بوڑھے کو دیکھ کر فقیر نے بھی کسی خاص جذبے کا اظہار نہیں کیا۔ دونوں کی نظریں ملیں۔ بوڑھا فقیر کو ایک والہانہ نظروں سے دیکھے جا رہا تھا جیسے وہ اسے صدیوں سے جانتا ہو۔ بوڑھا ڈگمگاتے قدموں سے فقیر کی جانب بڑھا، دونوں کی دھڑکنیں تیز ہوگئیں۔ قریب تھا کہ بوڑھا گر پڑتا مگر فقیر نے آگے بڑھ کر سنبھالا دیا۔ دونوں وہیں ڈیوڑھی کے قریب ایک قدیم نامکمل چھوٹی اُٹھان والی شکستہ دیوار پر بیٹھ گئے۔ بوڑھا ابھی تک فقیر کو حیرت زدہ نظروں سے گھور رہا تھا۔ ماضی کا بوڑھا مجسمہ فقیر کے وجود میں کوئی گم شدہ یاد تلاش کر رہا تھا۔ بوڑھے کے ہونٹوں پر ایک قسم کی کپکپی تھی۔
’’بیٹے! ابھی۔۔۔تم۔۔۔کیا صدا لگا رہے تھے؟‘‘ بوڑھے نے لرزتے لبوں سے سوالیہ جملہ ادا کیا۔
بوڑھے کے اٹپٹے سوال سے فقیر کو ذرا بھی حیرت نہیں ہوئی۔ گویا وہ پہلے سے واقف تھا کہ یہ نیم جاں لاش یہی دریافت کرنے بسترِ مرض سے اٹھ کر اس کے پاس آئی ہے۔
’’کیا چچا جان!۔۔۔میری صدا میں اپنا ماضی ٹٹولنے کی کوشش کر رہے ہیں؟‘‘
’’نہیں بیٹا!۔۔۔ماضی کا پرستار کون ہے اب اس دنیا میں۔ماضی سے گریزاں لوگ مستقبل کے تعاقب میں بے حال ہیں۔ وقت کی پیہم لہریں انسان کو ہر لمحے نئی دنیا میں غرقاب کرتی چلی جارہی ہیں۔‘‘
’’لیکن آپ تو ابھی تک ماضی میں ہی تیر رہے ہیں۔‘‘
’’کیسا ماضی بیٹا! نئے انگاروں کے شور میں ماضی کا راکھ کب کا بجھ چکا ہے۔ لیکن تمھاری یہ صدا نہ جانے کیوں یادوں کا سِرا پیچھے۔۔۔بہت پیچھے لیے جا رہی ہے۔‘‘
’’آخر ایسا کیا ہے اس بے تکی فریاد میں چچا جان؟‘‘
فقیر کے سوال سے بوڑھا گہری سوچ میں ڈوب گیا۔آنکھیں موند لیں۔ گردن جھکا کر کچھ سوچنے لگا۔ اور پھر گہری لمبی سانس لے کر فقیر سے یوں مخاطب ہوا۔
’’بیٹا! تمھیں لگتا ہوگا میں یہاں اس بوسیدہ کائی زدہ دیوار پر تمھارے ساتھ بیٹھ کر باتیں کر رہا ہوں، لیکن میں یہاں نہیں ہوں، یہ بوڑھا وجود جو تمھارے سامنے ہے میرا عکسِ موہوم ہے۔ میں نہیں ہوں۔‘‘
فقیر بوڑھے کی فلسفیانہ باتیں سن کر دھیرے دھیرے متاثر ہو رہا تھا۔ بوڑھے کی گفتگو میں اس کی دل چسپی بڑھنے لگی تھی۔ لیکن بوڑھے کی کچھ باتیں فقیر کی سمجھ سے پرے تھیں۔
عکس موہوم، موجود، لاموجود
فقیر نے دوبارہ دریافت کیا۔
’’آپ کی باتیں تو اپنی جگہ درست ہیں لیکن اگر آپ یہاں نہیں ہیں تو پھر کہاں ہیں؟ اور یہ عکس موہوم کا فلسفہ کیا ہے؟ ان سب باتوں کا میری اس بے تکی صدا سے کیا تعلق؟‘‘
’’تعلق تو بہت گہرا ہے بیٹا، لیکن پہلے تم یہ بتاو کہ دریوزہ گر تو اس قسم کی صدائیں نہیں لگاتے۔ یہ تک بندی تم نے کہاں سے سیکھی؟‘‘
بوڑھے کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ جھریاں زدہ پیشانی پر سوالیہ نشان ابھر آیا۔ بوڑھے کا سوال جینون تھا۔ فقیروں کی صدائیں ایسی تک بندیوں پر مشتمل نہیں ہوتیں۔ فقیر کچھ پل کے لیے خیالوں میں گم ہو گیا۔ شاید وہ اپنے حاشیۂ ذہن کے کسی تاریک سے تاریک گوشے میں بوڑھے کے جینون سوال کا جواب ڈھونڈ رہا تھا۔ فقیر تھوڑی دیر تک چپ رہا۔ ساکت و جامد۔ اپنے سینے پر آبشار کی چوٹ برداشت کرتے رہنے والے کسی پتھر کی طرح لاجواب مگر صابر و شاکر۔ کیا بوڑھے کا سوال واقعی فقیر کے کلیجے پر آبشار کی چوٹ بن کر برس پڑا تھا۔ شفاف مگر جاں گُسل۔ فقیر اپنے سینے پر ہاتھ پھیرنے لگا۔ ماضی کی بے شمار یادیں جھیل کے لا متناہی قطروں کی طرح اس کے سینے پر مچلنے لگیں۔
اچھا جانے دو۔۔۔بس یہ بتا دو۔۔تم کس دیس کے باسی ہو۔۔۔پہلے تو کبھی ادھر نظر نہیں آئے۔
بوڑھے کا گذشتہ سوال ہی کیا کم تھا کہ اب ایک اور گراں بار سوال کر بیٹھا۔
’جہاں دھڑ، وہیں گھر‘ فقیر نے جھنجلا کر کہا۔
’ارے بیٹا! یہ تو کہاوت ہے۔ تم ہو کون۔ نام پتہ بتاؤ۔چہرے مہرے سے تو دیکھے بھالے لگتے ہو۔‘
بوڑھے کا سوال سن کر فقیر کا دل مچل اٹھا۔ دل کی بات زبان تک آنے ہی والی تھی کہ اس نے خود کو روک لیا۔قریب تھا کہ وہ اپنا رازِ سربستہ اگل دے لیکن فقیر اس کے لیے مناسب وقت کا منتظر تھا (شاید کہانی کے کلائیمیکس کا) اس لیے اس نے جواب کو سوال اور سوال کو جواب بنا نے کی کوشش کی۔
’’آپ یہی جاننا چاہتے ہیں نا کہ یہ تک بندی میں نے کہاں سے سیکھی۔ تو پہلے میرے ایک سوال کا جواب دیجیے۔‘‘
فقیر کی یہ شرط بوڑھے کو ناگوار گزری۔ وہ خاموشی سے زمین کی طرف دیکھتا رہا۔ معاف کیجیے گا میں آپ کو یہ بتانا بھول گیا، جب سے یہ دونوں محو گفتگو ہیں بوڑھے کے چاروں بیٹے باری باری حویلی سے باہر نکل کر دور سے ہی انھیں دیکھ کر واپس چلے گئے ہیں۔
ناگواری میں ہی سہی بوڑھے نے فقیر کی شرط مان لی۔
پوچھو۔۔۔پہلے تم ہی پوچھ لو سب۔ بوڑھے نے اکتائے ہوئے لہجے میں کہا۔
نہیں چچا! آپ دل چھوٹا نہ کریں۔ چلیں پہلے آپ کے ہی سوال کا جواب دیے دیتا ہوں۔ آخر آپ عمر میں بڑے ہیں۔گاؤں کے بزرگ ہیں۔ آپ کی منشا کے خلاف جانا مہنگا بھی پڑ سکتا ہے۔
بھئی اب بتا بھی دو۔۔۔اپنی اس تک بندی کا قصہ۔ بوڑھے کی بے تابی بڑھ گئی۔
فقیر نے اپنا جھولا جھنکٹا اتار کر سامنے رکھ دیا۔ آنکھیں موند کر گہری سانس لی اور داستان گوئی کے لیے تیار ہو گیا۔ لیکن اس سے پہلے فقیر نے بوڑھے کی مکمل توجہ حاصل کرنے کے لیے اپنی ہمہ دانی ثابت کرنے کی کوشش کی۔ اور بجائے جواب دینے کے ایک بار پھر سوال کر بیٹھا۔ (اس کہانی کا سب سے اہم سوال)
”چچا! آپ کے گاؤں کے جمرو موذن جو کل اللہ کو پیارے ہو گئے وہ مادر زاد اندھے تھے یا کسی حادثے کی وجہ سے اندھے ہوئے تھے؟“
فقیر کا سوال سن کر بوڑھے کی آنکھوں سے حیرت کا دھواں اٹھنے لگا۔ پیشانی کی جھریاں مزید گہری ہو گئیں۔ من ہی من سوچنے لگا واقعی یہ فقیر بڑا اللہ والا ہے۔ ضرور اس کے قبضے میں کوئی جِن ہے جو اس کو لوگوں کے ماضی کے بارے میں باخبر کردیتا ہوگا یا ہو سکتا ہے کسی پرانی قبر سے چلہ کاٹ کر آیا ہے۔ بوڑھا اپنے خیالوں میں الجھ گیا اور فقیر بوڑھے کی الجھن سے لطف اندوز ہونے لگا۔ گویا اس کو اسی لمحے کا انتظار تھا۔ اس وقت فقیر کی حالت ٹھیک اس جادو گر کی طرح تھی جو اپنا شعبدہ دکھا کر اپنے گرد دائرے میں کھڑے لوگوں کی تالیوں سے خوش ہوتا ہے۔
’’کہیے بابا! جمرو موذن کی بینائی اور اندھے پن کا کوئی قصہ یاد ہے آپ کو یا میری بے تکی صدا کا راز جاننے میں کوئی دل چسپی نہیں رہی؟‘‘
فقیر نے بوڑھے کو خیالات کے خندق سے باہر نکالنے کی کوشش کی۔ بوڑھا چمک اٹھا۔ ایسا لگا کسی نے گہری نیند میں سو رہے شخص کا دونوں بازو پکڑ کر اچانک جھنجوڑ دیا ہے۔ بوڑھا بول پڑا۔
ارے جمرو بے چارہ۔۔۔دل کا دھنی اور قسمت کا بڑا کنگال تھا۔ ماں کے شکم سے اندھا نہیں آیا تھا وہ۔ اس نے اچھی بھلی دنیا دیکھی تھی۔ وہ بے چارہ تو یعقوب تھا یعقوب۔ جو اپنے نور نظر یوسف کی جدائی میں رو روکر اندھا ہوا تھا۔
’’کاش اس یعقوب کو اس کی قمیصِ یوسف کی کوئی دھجی نصیب ہوجاتی۔‘‘ فقیر نے قطع کلامی کی کوشش کی۔ بوڑھے نے کسی تعجب کا اظہار نہیں کیا کیوں کہ وہ پہلے ہی اس کو پہنچ الفقیر تسلیم کر چکا تھا۔
لیکن چچا! جمرو کس کے غم میں روکر اندھا ہواتھا۔ وہ تو بے اہل و عیال تھا نا؟ فقیر نے کریدنے کی کوشش کی۔
ارے نہیں! جمرو موذن کسی زمانے میں صاحب آل اولاد تھا۔ تھا تو وہ غریب لیکن قسمت سے اس کو سراپا حسن، سیمیں بدن، روپہلی مورت کسی گلزارِ ارم کی بکاؤلی جیسی بیوی ملی تھی۔ بوڑھا جمرو کی بیوی کا حلیہ ایسے کھینچنے لگا جیسے کوئی ماہر مصور اپنے شاہ کار کا تعارف پیش کرتا ہے۔
لیکن اس کے حسن میں کھونٹ تھا۔ حسن کا نشہ ایسا چڑھا کہ گاؤں کے ایک نچلی ذات کے کافر سے منہ کالا کرواتے ہوئے پکڑی گئی۔ جمرو یہ صدمہ برداشت نہ کر سکا۔ خون گرم تھا۔ بیوی کو ذبح کر کے گاؤں سے بھاگ گیا۔ کچھ دن کے بعد خبر آئی کہ جمرو جیل میں عمر قید کی سزا کاٹ رہا ہے۔
لیکن چچا! اس کہانی میں تو یوسف کی جدائی اور یعقوب کی بینائی کا کوئی ذکر ہی نہیں ہے۔ شاید درازگیِ عمر کی وجہ سے آپ کاحافظہ کم زور ہو چکا ہے۔ یہ گاؤں کی سب سے مشہور کہانی ہے۔ قطعی ہے یا فرضی وہ آپ جانیں اور آپ کا ایمان جانے۔ لیکن کہانی ادھوری نہ رہے اس لیے ذرا غور کیجیے کہ اس جمرو یعقوب کی کہانی میں مرکزی کردار یوسف کیوں غائب ہے؟
فقیر کی باتیں سن کر بوڑھے کی آنکھوں میں سرخ شعلے بھر گئے۔ بوڑھے کی حیرت اچانک غصے میں بدل گئی۔بوڑھے نے اپنی پوری قوت دونوں ہاتھوں میں جمع کر کے فقیر کے کاندھے کو زور سے ہلایا اور عاجز آکر بولا ’’تم تو بڑے انتر یانی ہو۔۔۔تمھی بتاؤ۔۔۔اگر یہ قصہ فرضی اور نامکمل ہے تو اصل واقعہ کیا ہے؟‘‘
فقیر کو اس بار بھی بوڑھے کے غیض و غضب اور جاہ و جلا ل پر کوئی تعجب نہیں ہوا۔ بوڑھے کی ہر حرکت پر فقیر کا رد عمل اتنا نارمل تھا جیسے بوڑھے کی پوری زندگی خود فقیر کی لکھی ہوئی کہانی کا کردار ہو۔ فقیر نے آستین چڑھا لی۔ اور بوڑھے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہانی سنانے لگا۔
چچا! آپ کی کہانی بہت پھیکی اور بے لطف ہے۔ کہانی یہاں سے شروع ہوتی ہے:
وہ ایک سیاہ کالی رات تھی۔ شاید اماوس کی رات۔انسانوں کی پوری آبادی نیند کی نگری میں تھی۔ صرف شیطانوں کی ٹولیاں حرکت میں تھیں۔ جمرو اسی شام روزی کمانے شہر گیا تھا۔ انسانوں میں یہ بات صرف اس کی اہلیہ اور بیٹے کو معلوم تھی۔ جمرو کی اہلیہ اپنے بارہ سالہ بیٹے کو سینے سے لگائے شوہر سے جدائی کے غم میں سسک رہی تھی۔ اچانک گھر کی کال کوٹھری میں ایک دھمک پیدا ہوئی۔ پھر قدموں کی آہٹ دھیرے دھیرے قریب آنے لگی۔ جمرو کی اہلیہ اور بیٹا دونوں سہم گئے۔ پھر اچانک کسی ظالم و جابر پنجے نے دونوں کا منہ دبوچ لیا۔ جمرو کی شریک حیات تاریکی میں بن پانی کے مچھلی کی طرح تڑپنے لگی۔ اس کا بیٹا بھی اندھیرے میں ہاتھ پاؤں چلانے لگا۔ اتفاق سے اس کے ہاتھ کی ایک انگلی اس ظالم سایہ کی ناک میں گھس گئی۔ وہ سایہ تڑپ اٹھا۔ لیکن سایے نے بچے کی دوسری انگلی اپنے دانتوں سے پکڑ لی۔ جب بچے نے ناک میں گھسی انگلی کو حرکت دینی شروع کی تو ظالم سایہ غصے میں آگیا اور اس نے دانت تلے دبی ننھی سی انگلی بے رحمی سے چبا ڈالی۔ خون کا ایک فوارہ پھوٹا اور بچہ بے ہوش ہو کر زمین پر گر پڑا۔ اس کے بعد اندھیرے میں چارپائی پر کچھ دیر تک سایہ حرکت کرتا رہا۔ کچھ لمحے بعد حسن اتفاق سے کاشانۂ ظلمت میں جگنو کی روشنی ظاہر ہوئی۔ اس جلتی بجھتی مدھم روشنی میں بے ہوش بچے کی نگاہوں نے اپنی ماں کا عریاں جسم دیو ہیکل سایے کے نیچے بے یارو مددگار دیکھا۔ وہ بچہ دوڑ کر اس بن بلائے مہمان کے بال نوچنے لگا مگر اس ظالم سایے نے اپنے ایک ہاتھ سے اس بچے کا حلق دبا دیا۔ جب اس کے گمان میں وہ بچہ مر چکا تو اس نے اس ننھی جان کو وہیں پٹخ دیا۔ گوشۂ ظلمت میں جگنوؤں کی تعداد بڑھنے لگی۔ تاریکی قدرے کافور ہوئی اور ظالم نے جگنوؤں کی ٹمٹماتی روشنی میں اپنے نیچے پڑے عریاں جسم کا گلا کاٹ دیا۔ جگنو کی روشنی میں چارپائی کے نیچے خون کا رنگ عجیب بے تکا تھا۔ میری اس بے تکی صدا کی طرح۔ پھر ظالم نے اپنا لباس زیب تن کیا۔ اس نے گردن بریدہ لاش کو بھی اتارا ہوا لباس پہنا دیا۔ بچے کو مردہ گمان کرکے یوں ہی چھوڑ کر چلا گیا۔ صبح ہوئی تو بچے کی لاش غائب تھی۔ گاؤں میں ایک حشر برپا تھا۔ ایک ہی رات کسی نے جمرو کی بیوی اور غریب تیلی پرکاش لال دونوں کا قتل کیا تھا۔ فقیر نے بوڑھے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’’دونوں قتل کا رہسیہ شاید آپ نے ہی سلجھایا تھا۔ آپ نے ہی معاملے کی تفتیش کرنے آئی پولیس کی ٹیم کو بتایا تھا کہ جمرو کی جورو پرکاش لال سے ناجائز تعلقات رکھتی تھی اس لیے جمرو اس رات اپنی جورو اور پرکاش لال کو موت کے گھاٹ اتار کر بھاگ گیا۔ اور جمرو کے گم شدہ بیٹے کی تلاش ہوئی تو آپ نے بتایا تھا کہ جمرو نے اسے بھی کہیں مار پھینکا ہے۔ اس واقعہ کے بعد جمرو کو عمر قید کی سزا ہوئی۔ آپ کی کہانی میں جو یوسف مفقود تھا وہ اب اس کہانی میں مرکزی کردار بن کر ابھرا ہے۔ دراصل جمرو جیل کی کال کوٹھری میں اپنے بیٹے کو یاد کرکے روتا رہا۔ یہاں تک کہ تیس سال کی طویل مدت میں اس کی آنکھیں بہہ گئیں۔ جب جمرو تیس سال بعد جیل سے رہا ہوکر آیا تو وہ اندھا ہو چکا تھا۔ لیکن اس یعقوب کا یوسف اب بھی لاپتہ تھا۔ گاؤں والوں نے آپ کے مشورے سے ایک قاتل پر ہمدردی کی۔ اور اس اندھے کو گاؤں کی مسجد میں موذن رکھ لیا تاکہ بدلے میں کچھ پیسے مل جائیں اور وہ اپنی بھوک مٹا سکے۔ وہ اندھا موذن دس سال تک اذان دیتا رہا۔ کل سے وہ رقت آمیز اذان کی صدا مسجد کے میناروں سے آنی بند ہوگئی ہے۔ تب جاکر میری یہ بے تکی صدا گاؤں میں گونجی ہے۔
فقیر کی کہانی سن کر بوڑھے نے فقیر کو دل ہی دل میں ولیِ کامل تسلیم کر لیا۔ کیوں کہ اماوس کی رات میں وقوع پذیر ہونے والی اس کہانی کا سچ یا تو خدا جانتا ہے یا وہ بوڑھا۔
بوڑھے نے آواز لگاکر اپنے بیٹے سے پانی اور تیل منگوایا تاکہ ولیِ کامل سے دم کرواکر گھر میں رکھے اور آنے والی بلاؤں کا دفاع کر سکے۔ فقیر نے بلا تامل پانی اور تیل میں دم کر دیا۔ اور بوڑھے سے رخصتی کی اجازت مانگی۔ بوڑھا اپنی خمیدہ کمر کے بل کھڑ اہوا اور کپکپاتی ہونٹوں سے گویا ہوا ’’سناہے ولیِ کامل مستجاب الدعوات ہوتے ہیں۔ دعا کیجیے گا میرے نا مۂ اعمال سے گناہوں کے کچھ ابواب مٹ جائیں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے بوڑھے نے فقیر کا داہنا ہاتھ تھام لیا اور ولیِ کامل جان کر نہایت عقیدت سے بوسہ دینے کی کوشش کی۔ لیکن بوسہ کی تکمیل سے قبل ہی بوڑھے کے تمام بدن میں جھرجھری طاری ہوگئی۔ بوڑھے کی نگاہوں نے دیکھا فقیر کے داہنے ہاتھ کی ایک انگلی عجیب ڈھنگ سے کٹی ہوئی تھی۔ ایسا لگتا تھا کسی زمانے میں وہ انگلی دانتوں تلے چبائی گئی ہے۔ ٹھیک جمرو کی کہانی میں اس کے بیٹے کی انگلی کی طرح۔ بوڑھے کا بدن رعشہ انگیز ہو گیا۔ قریب تھا کہ گر پڑتا لیکن فقیر نے سنبھالا دیا۔ اور اپنا منہ بوڑھے کے کان کے پاس لے جا کر بولا ’’میں ولی کامل ہوں نہ مستجاب الدعوات، ایک معصوم بچے کی انگلی چبانے کا گناہ تو نامۂ اعمال سے مٹ سکتا ہے۔ لیکن جمرو کی بیوی اور بے قصور پرکاش لال کے قتل کا گناہ، پھر ان دونوں کے قتل کی تہمت بے قصور جمرو پر اور پھر تیس چالیس سال تک جمرو کی اندھی آنکھوں سے بہنے والے لا متناہی آنسوؤں کا گناہ کسی کے نامۂ اعمال سے کیسے مٹے گا؟“
اتنا کہہ کر فقیر اپنے مخصوص انداز میں صدا لگاتا ہوا چلا گیا.
سیل کبڈی آس لال
مر گیا پرکاش لال
کچھ لمحے قبل فقیر کی یہی صدا بوڑھے کے لیے اتنی پر کشش تھی کہ اسے اپنے تنگ و تاریک کمرے سے باہر کھینچ لائی تھی لیکن اب وہی صدا بوڑھے کے لیے اتنی ناگوار ہوگئی تھی کہ اس نے اپنی لرزتی انگلیوں کی پوروں سے اپنے کان بند کر لیے تھے۔
*
(شائع شدہ : ’ترجیحات‘ شمارہ ، جنوری 2023 صفحہ نمبر 211 تا 222، جلد سوم، شمارہ ۱)
***
صاحب افسانہ کی گذشتہ نگارش :ناگری خط میں اردو کا ادبی سرمایہ’بونسائی‘ ہو کر رہ جائے گا

شیئر کیجیے

One thought on “عجیب ڈھنگ سے کٹی ہوئی انگلی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے