ناگری خط میں اردو کا ادبی سرمایہ’بونسائی‘ ہو کر رہ جائے گا

ناگری خط میں اردو کا ادبی سرمایہ’بونسائی‘ ہو کر رہ جائے گا

ڈاکٹر رضوان احمد
شعبۂ لسانیات، قطر یونی ورسٹی

انگریزی سے ترجمہ: وسیم احمد علیمی

جرمنی نے 1996 میں جرمن زبان بولنے والے دوسرے ملکوں کے باہمی اتحاد سے بعض الفاظ کے ہجے میں تبدیلی کے نفاذ پر اتفاق کیا تاکہ کچھ تنافر لفظی کو ختم کیاجا سکے اور اسکولی بچوں کے لیے زبان سیکھنے کا عمل آسان ہو لیکن اس اقدام کی علمی اور ادبی حلقے میں نہ صرف تنقید ہوئی بلکہ اس کو جرمنی کی آئینی عدالت میں قانونی مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ مصنفین، اساتذہ اور دوسرے باشعور لوگوں کی ایک جماعت بہ شمول نوبل انعام یافتہ ادیب گُنٹر گراس نے اس اقدام کے خلاف دستخطی مہم کا آغاز کیا۔ ایک پروفیسر نے بھی عدالت میں مقدمہ دائر کیا کہ اس ہجے کی اصلاح سے اس کے اور اس کی اسکول جانے والی بیٹی کے بنیادی حقوق کی پامالی ہوئی ہے۔ گرچہ عدالت نے اس کیس کو خارج کر دیا لیکن اس احتجاج سے ہمیں یہ سبق ضرور ملتاہے کہ اہل زبان ہجے کو تاریخی رموز اور اپنی تہذیبی شناخت تصور کرتے ہیں اور ان کوششوں کے خلاف بھی آواز بلند کرتے ہیں جن کا ہدف ہجے کی مشکلات کو آسان کرنا ہوتی ہے۔ اگر ہجے میں تبدیلی کے خلاف لوگ احتجاج کرتے ہیں تو کسی زبان کے رسم الخط بدلنے کی بات پر اہل زبان کا برہم ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں کیوں کہ رسم الخط کے برعکس ہجے میں تبدیلی سے تو صرف چند ہی الفاظ متاثر ہوں گے۔
حال ہی میں اردو کو ناگری رسم الخط میں لکھنے کا مسئلہ پھر سرخیوں میں آیا ہے۔ پہلے یہ بحث حاشیے میں تھی کہ اردو کو ناگری رسم الخط اختیار کر لینا چاہیے لیکن اب یہ بحث مرکزی دھارے کی توجہات میں شامل ہے۔ ان دنوں اردو ناگری کو اردو کے احیا اور فروغ کی علامت کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے اور اس کی توجیہ یہ بیان کی جارہی ہے کہ اردو جب ناگری میں لکھی جائے گی تو اس سے اردو کے قارئین میں توسیع ہوگی اور ہندی بولنے والوں تک اس کی رسائی ممکن ہو سکے گی۔ دوسری دلیل یہ دی جاتی ہے کہ رسم الخط سے کسی زبان کی شناخت قائم نہیں ہوتی۔
’لفظ بنیا دی ہے اور تحریرثانوی‘ اس تصور کا سرا ساختیاتی لسانیات کے علم برداروں سے وابستہ ہے جن میں فردینند دی ساسیور بھی شامل ہیں، جنھوں نے بیسوی صدی کے آغاز میں یہ تصور پیش کیا کہ تحریر کا وجود تو صرف تقریرکی ترجمانی کے لیے ہے۔ اس تصور کے مطابق تحریر کا درجہ نہ صرف ثانوی ہو جاتاہے بلکہ لفظ کی ترجمانی کرنے کے اعتبار سے تحریر سماجی طور پر غیر جانب دار بھی قرار پاتی ہے۔ چونکہ اس نظریے کے تحت تحریر یا رسم الخط کی حیثیت محض ایک آلے کی ہے، اس لیے رسم الخط کو بھی مرضی کے مطابق ترک کیا جا سکتا ہے۔ تحریر کے تعلق سے یہ تصور اب بلکل متروک ہو چکا ہے. کیوں کہ تحریر، رسم الخط یہاں تک کہ ہجے بھی سماجی اعمال ہیں جن کی جڑیں قوموں کی تاریخ اور ان کی شناخت سے وابستہ ہیں۔
ہندستان کے وہ لوگ جو زبان کی تعمیر اور اس کی شناخت میں رسم الخط کی اہمیت کو خاطر میں نہیں لاتے انھیں ریاست گوا میں بولی جانے والی کونکنی زبان کا مسئلہ سمجھنا چاہیے۔ یہ زبان ناگری اور رومن رسم الخط میں لکھی جاتی ہے۔ ہندو حضرات ناگری رسم الخط کی حمایت میں ہیں جب کہ رومن رسم الخط کو عیسائی باشندوں کی تائید حاصل ہے۔ رسم الخط کے پیچھے شناخت اور نظریہ کا دخل اس قدر مستحکم ہے کہ ناگری استعمال کرنے والے رومن رسم الخط اور اس کے استعمال کرنے والوں کو مستند نہیں سمجھتے جب کہ کونکنی زبان کو ناگری رسم الخط میں لکھنے کی روایت قدیم نہیں ہے۔
اب اردو کی طرف لوٹتے ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ اردو جملہ ’میں ٹرین سے آج رات پٹنہ جا رہا ہوں‘ اگر ناگری رسم الخط میں لکھ دیا جائے تو ہندی جاننے والے بھی پڑھ سکیں گے۔ لیکن اردو یا ہندی میں سے کسی بھی زبان کو اس عمومی سطح تک محدود نہیں کیا جا سکتا۔ دونوں زبانوں کی ثقافتی جڑیں کافی گہری ہیں جن سے ان کے قواعد، الفاظ، پیکر تراشی وغیرہ وابستہ ہیں جنھیں اہل زبان مختلف حکمت عملی کے ساتھ الگ الگ سیاق و سباق میں استعمال کرتے ہیں۔ اگر ان متون کو ناگری میں بھی لکھ دیا جائے تب بھی وہ ہندی والوں کے لیے قابل فہم نہیں ہوں گے۔ اسی طرح ہندی کے بے شمار متون ایسے ہیں جنھیں اردو رسم الخط میں تحریر کردینے سے اہل اردو کے لیے قابل فہم نہیں بنایا جا سکتا۔ مثال کے طور پر شررؔ کا یہ شعر ملاحظہ فرمائیں:
معجزہ وہ جو مسیحا کا دکھاتے جاتے
کہہ کے قُم قبر سے مردے کو جلاتے جاتے
اس شعر کو سمجھنے کے لیے اس کے تہذیبی اور تاریخی پس منظر کو سمجھنا ضروری ہے۔ مسیحا کے لقب سے ملقب عیسی علیہ السلام کے معجزہ اور ان کی مردہ جلانے کی کہانی کو جانے بغیر یہ شعر سمجھنا نا ممکن ہے۔ اسے صرف ناگری میں لکھ دینے سے شعر کے معانی نہیں کھلیں گے۔
حالاں کہ یہ بھی ابھی یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ اردو کو ناگری رسم الخط اختیار کر لینے سے اس کے قارئین میں حقیقتا توسیع ہوگی۔ لیکن اس عمل سے ایک ایسا تجرباتی شگاف ضرور پیدا ہوگا کہ وہ لوگ جو اردو زبان کو صرف ناگری یا رومن میں پڑھنا سیکھتے ہیں وہ اردو رسم الخط میں موجود وسیع و عریض ادبی دنیا سے بے گانہ رہ جائیں گے۔ مزید یہ کہ اردو بولنے والے صرف ہندستان تک ہی محدود نہیں ہیں۔ بر صغیر اور دنیا کے مختلف خطوں میں اردو بولنے والے ناگری رسم الخط والی اردو میں ظاہر ہونے والے لسانی اور ثقافتی تجربات سے بے گانہ رہ جائیں گے۔
مجھے اعتراف ہے کہ بے شمار خوش نیت لوگ جو اردو سے نابلد ہیں، اردو کے حسن سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں۔ میں انھیں یقین دلانا چاہتاہوں کہ وہ ناگری میں اردو لکھ پڑھ کر صرف ’بونسائی‘ (Bonsai) اردو کا ہی تجربہ حاصل کر سکتے ہیں جس کی حیثیت صرف ایک مصنوعی طور پر تراشے ہوئے درخت کی سی ہے اور جسے ناسمجھ گاہکوں کو لُبھانے کے لیے گلدان میں رکھ دیا گیا ہے۔ زبان و ادب کا ذوق سلیم رکھنے والا ایک ہوشیار قاری کبھی بھی اردو کی مکمل گلستاں کو چھوڑ کسی مصنوعی گلدان پراکتفا نہیں کرے گا۔
٭٭٭انگریزی مضمون کی پی ڈی ایف
Wasim Ahmad Alimi
S-2/22, 3rd Floor,
Jogabai Ext. Jamia Nagar Nagar, Okhla
Delhi, 110025
Mobile: 7835961294
صاحب ترجمہ کا یہ ترجمہ بھی پڑھیں: کیا ہر دو زبانوں کا عالم مترجم بھی ہے؟

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے