حکیم حکمت اللہ بقائی

حکیم حکمت اللہ بقائی

ارم رحمٰن
لاہور، پاکستان

جب رضیہ سلطانہ آپا بیوہ ہو کر گھر پہنچیں تو سارے گھر میں جیسے کہرام مچ گیا. عدت تو سسرال میں پوری کرکے آئی تھیں لیکن میکے آکر بھی جو سب سے لپٹ لپٹ کر روئیں کہ جیسے آنسؤں کی سرکاری نل کھل گئی ہو کہ ایک گھنٹہ ہے جتنا استعمال کر لو ورنہ بعد میں ایک قطرہ نہیں ملے گا. 
ماشاءاللہ سے ایک نہ دو پورے آٹھ کالے پیلے پکے رنگ کے بچے گھر میں داخل ہوئے تو لگا کہ ہمارا گھر پاکستان میں نہیں افریقہ میں ہے، وہ بھی خالص امریکی ریڈ انڈینز یا ویسٹ انڈیز کی ٹیم کی طرح، جنھیں کالی آندھی کا نام دیا گیا تھا. اب رضیہ آپا کے بچوں کو دیکھ کر لگ رہا تھا کہ ان کے لیے ہی رکھا گیا ہوگا، پتلے دبلے پیارے پیارے آبنوسی بچے کہ ایک دوسرے سے اتنی مماثلت کہ سمجھ نہ آئے کون کون ہے. اوپر سے فائدہ، اپنی طرح کے ہم رنگ پورے محلےمیں دور سے پہچانے جائیں، گرمیوں کے موسم میں عدت ختم ہوئی، ادھر اپریل شروع ہوگیا اور بچے بنیان نکر میں، ہمارے گھر آن دھمکے. 
گھر جتنا بھی بڑا ہو لیکن اس جم غفیر کے لیے کم ہی پڑتا، خیر ایک ہی صف میں سب فرشی دریوں پر چادر بچھا کر لم لیٹ ہو جاتے، کھانے کے وقت اس طرح لگتا کہ دسترخوان پر ٹڈی دل کا حملہ ہوگیا ہے. منٹوں میں سب صاف، حیرت کی بات یہ تھی کہ دیکھنے میں فاقہ مست مگر خوراک میں ہر بار اضافہ، کمال کی ٹریننگ تھی آپا کی. ایک آواز پر ہراول دستے کی طرح سامنے ہاتھ باندھے کھڑے ہوجاتے اور اگر کہیں جانا ہو تو بس آپا کا ایک اشارہ ہوتا اور ساری فوج یلغار کے لیے تیار ہو جاتی، آپا کے بچوں کا ایکا دیکھ کر محلے والوں نے شادی بیاہ پر بلانا چھوڑ دیا کہ جہاں بھی جاتے، نو کا آنکڑہ ہی جاتا، اماں بی بڑے لاڈ سے کہتیں ارے رضیہ بچوں کو ساتھ لے جا یتیموں کا دل خوش ہوگا لیکن کبھی نہ سوچتیں کہ بچے تو خوش ہوں گے مگر باقی سب غمگین، اتفاق سے یکے بعد دیگرے رشتے داروں میں تین چار شادیاں ہوئیں اور دو تین محلے میں، اور بچوں کے تابڑ توڑ حملوں نے سب کے دانت کھٹے کردیے، بے چارے اہل محلہ نے اپنا بھی تو دفاع کرنا تھا، لہذا قلعہ بند ہوگئے. 
شادی کارڈ میں موٹے مارکر سے لکھ دیتے
"محترم جناب ظہیرالدین بابر صاحب آپ واحد شخص ہیں جن کی تشریف آوری ہمارے لیے باعث افتخار ہوگی"
اس طرح کے جملے کا مطلب واضح تھا کہ دیگر اہل خانہ کو ہمراہ لانے سے گریز کیجیے !
ہمارے ابا کو مغلیہ سلطنت سے بہت لگاؤ تھا، ان کے چشم تصور میں وہ خود کو مغلیہ سلطنت کا بادشاہ اول ظہیرالدین بابر ہی سمجھتے. کیونکہ وہ اس کے ہم نام تھے. نام کا کچھ تو اثر ہونا ہی تھا، اس لیے مجھ سمیت اپنے پانچ بیٹوں کے نام نصیرالدین ہمایوں
جلال الدین اکبر ،
نورالدین جہانگیر ،
شہاب الدین محمد خرم شاہ جہان
اور پھر ہم محی الدین اورنگ زیب عالم گیر،
فل سٹاپ،
لیکن تینوں بہنیں بڑی تھیں. ان کے نام رضیہ سلطانہ، نیر سلطانہ رکھے. لیکن چھوٹی آپا کا نام رکھنے کا وقت آیا تو ابا جی کو شاید اداکارہ صبیحہ بہت پسند آگئیں تھیں، ان کے نام پر ہی صبیحہ نام رکھا، اللہ جانے حقیقت کیا تھی. لیکن جب بھی چھوٹی آپا کو بڑے پیار سے نام لے کر پکارا کرتے تو اماں جل بھن کر مزید کوئلہ ہوجایا کرتیں اور ایسے موقع پر ابا جی ان کا جلال دیکھ کر سہم جایا کرتے، اماں کا نام رانی کی نسبت سے جھانسی کی رانی کہہ کر پکارا کرتے، اماں چڑتیں تو سر جھکا کر مسکرانے لگتے. 
ہم سب بھائی ابا جی کے نقش قدم پر چل نکلے تھے. ابا جی نے اپنی پسند کی شادی کی تھی. اپنے ابا یعنی ہمارے دادا سے بغاوت کرکے. جیسے پانی پت میں دہلی سلطنت کے آخری سلطان ابرہیم لودھی کو شکست دے کر مغلیہ سلطنت کی بنیاد رکھی تھی. ہمارے ابا کا نام جتنا بڑا اور رعب دار تھا، رشتے داروں اور محلے والوں نے مختصر کرتے کرتے”بابر" سے”بابو" کر دیا اور ابا جی بابو کے نام سے بدنامی کی حد تک مشہور ہوگئے تھے
کہ اگر کوئی دوسرے شہر سے ملنے آتا تو بابر کے نام سے جاننے والاملتا ہی نہیں تھا، لیکن بابو کے نام پر سارا محلہ مہمانوں کو گھر کی چوکھٹ تک چھوڑنے آتا. لہذا نام کی تختی پر پورے نام کے ساتھ ذرا مزید موٹے الفاظ میں "بابو" لکھنا پڑا. 
ابا جی نے کسی عزیز رشتےدار کی شادی پر ایک لڑکی پسند کرلی اور پھر ڈٹ گئے اور ہماری اماں بنا کر ہی دم لیا، اور ہمارے دادا دادی کا چاند جیسی بہو لانے کا خواب چکنا چور کردیا، جب ہماری اماں پوری بتیسی نکال کر کھلکھلا کر ہنسا کرتیں تو دادی جھٹ بولتیں کہ شکر ہے چلو ہماری بہو کی کوئی چیز تو سفید ہے، تب ابا جی شرما کر ٹہوکا دیتے کہ ارے اماں تمھاری بہو چاند ہے، چودھویں کا نہ سہی اماوس کا ہی سہی. 
اماں تھیں بھی ہنسوڑ اور ایسی باتیں سن کرتو اماں لال دوپٹے کا پلو منہ میں دبا کر خوب ہنسا کرتیں، ماشاءاللہ ہمارے اماں ابا میں شدید محبت تھی. جب ہی تو محبت کے ثبوت کے طور پر آٹھ نشانیاں زمانے کو دیں، اور ہماری بڑی آپا جو رنگ روپ میں اماں کی ہوبہو نقل تھیں، اس لیے اولاد پیدا کرنے میں بھی ان کی روایت کو قائم رکھا اور شاید روایت توڑ ثابت ہوتیں مگر دولہے بھیا ہی دم توڑ گئے اور شادی کے اٹھارہ سال بعد ایک عدد بیوہ اور آٹھ بچے چھوڑ گئے، وہ بھی بہت رنگین مزاج واقع ہوئے تھے اور ہمیشہ دولہا بھیا ہی پکارے اور کہلوائے گئے. جب بھی ان کو دولہا بھائی کہا جاتا تھا تو جھٹ شیروانی سے رومال نکال منہ ناک پر رکھ لیا کرتے. یہ بھی خوب حرکت تھی، سمجھ نہیں آتا تھا کہ شرما رہے ہیں یا بدبو سے ناک پر رومال رکھا. خیر مرحوم کی قبر کے کتبے پر بھی آپا نے رورو کر "احتشام الدین کاکڑوی المشہور و معروف دولہے بھیا" ہی لکھوایا. 
الغرض گھر کھچاکھچ بھر گیا تھا. بچے بھی ایسے کہ جہاں ایک بچہ جاتا باقی بھی وہاں پہنچنا فرض گردانتے، اڑوس پڑوس میں ایک کے ساتھ آٹھ کی نفری بالکل فری پہنچ جاتی، اب محلے میں شادی تو خیر کیا میلاد اور ختم پر بھی دعوت نامہ آنا بند ہوگیا اور ہمارے خاندان میں اتنی رواداری تو تھی کہ بن بلائے کہیں نہ جاتے تھے، شام کو ایک پلیٹ بریانی یا زردے کی گھر پہنچ جایا کرتی اور سب بچے بڑے، چاولوں کے دانے گن گن کر کھا لیا کرتے. 
اللہ کی شان نرالی کہ آپا کے بیوہ ہونے سے پہلے دونوں بہنوں کے تو کیا بلکہ چاروں بھائیوں کے بھی ہاتھ پیلے ہوچکے تھے. سب کی شادیاں پے در پے ہوتی گئیں. جس ترتیب سے دنیا میں آئے اسی ترتیب سے شادی شدہ بنتے گئے. بس ہم ہی رہ گئے تھے کنواروں کے سردار، اوپر سے بےروزگار. وہ تو شکر ہے کہ انگلش میں ماسٹرز کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے، کیونکہ اب گھر کی جو صورت حال تھی وہ گھر نہیں بلکہ چڑیا گھر بن چکا تھا. ہر کونے کھدرے سے کوئی نہ کوئی بچہ نکل پڑتا، آپا کے پانچ بیٹے اوپر تلے پھر تین چھوٹی بیٹیاں تھیں، ابھی جس عمر میں تھیں اس میں چھوٹا سا نکر ہی کافی ہوتا ہے. 
بس ننگ دھڑنگ چھوٹے چھوٹے جانگیوں میں بچوں نے اپریل سے لے کر ستمبر تک چھ ماہ گزار دیے، کپڑوں کی بچت لیکن سارا خرچہ خوراک پر لگتا. 
ہمارے بڑے چاروں میں سے تین بھائیوں نے ایک ساتھ ہی کاروبار میں ساجھے داری کی اور ایک بڑا مکان مل کر بنوایا، تین منزلہ اور تینوں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ منتقل ہوگئے، شاہ جہان بھائی کاریگر بندے تھے، بحرین جانے میں کامیاب ہوگئے اور بیوی بھی ساتھ لے گئے. ابا کو باقاعدگی سے معقول رقم بھیجا کرتے. باقی تین بھائیوں کا گھر پاس ہی تھا اور اباجی کی منظوری سے بنوایا تھا اور فرنٹ پر بڑا بڑا چمکیلی دھات سے لکھوا دیا: 
ماشاءاللہ، ھذا من فضل ربی، وہی پہچان بن گیا تھا بابو جی کے گھر پہنچنے کے لیے، گھر بالکل قریب تھا، اس لیے سب خوش تھے، ہر وقت کا گھڑی پھیرا لگا رہتا. بھابیاں کچھ نہ کچھ پکاکر ہم تینوں کے لیے بھیجتی رہتیں، لیکن اب وہ بھی کچا راشن ہی ڈالوادیتے کہ پکا خود لو، ہر روز دیگ نہیں پکا سکتے. 
ایک بات اچھی تھی سب بھائیوں کی کہ بچوں کا اسکور تین سے آگے نہیں بڑھنے دیا. خیر سے دونوں بہنوں نے جوش میں چھے چھے کر ڈالے لیکن آپا کے بیوہ ہونے کا سن کر شاید اس تعداد پر ہی قناعت کر گئیں. 
مجھے تو اب فکر ہوگئی تھی کہ جلدی سے نوکری ملے اور میں گھر سے باہر نکلوں. یہ گھر نہیں رہا تھا بلکہ مچھلی منڈی بن چکا تھا. ہر وقت کی کچر مچر شورغل ہنگامے، چیخ پٹخ توڑ پھوڑ، عجیب سی وحشت ہونے لگی تھی. میں نوکری ڈھونڈنے کے بہانے گھر سے باہر وقت گزارنے لگا تھا. میں ڈھونڈتا بھی تھا، یہ بات نہیں کہ جھوٹ بولتا، لیکن پھر بھی کافی کافی دیر گھر سے باہر گزارتا. کبھی دوستوں کے ساتھ، کبھی لائبریری، کبھی کسی ڈھابے پر، جب تک اس کا مالک خود نہ اٹھا دیتا. 
سب بڑے بھائی مجھے کچھ نہ کچھ جیب خرچ دے دیا کرتے تھے. 
میرا گزارا ہورہا تھا لیکن میں رش سے پریشان تھا. گرمیاں ختم ہوئیں تو سب نے سکھ کا سانس لیا، سوکھے کالے بچوں کے تن ڈھنپ گئے، ورنہ ایک چڈی میں سموئے بچے دیکھ دیکھ کر طبعیت اوب چکی تھی، لیکن کرتے بھی کیا، گرمی بھی تو غضب کی پڑا کرتی ہے. 
اب اکتوبر کا آغاز ہورہا تھا، موسم بدل رہا تھا، بچوں کے ننگے پھرنے کے دن گئے، تن پر کپڑے آئے، گرمیوں کی چھٹیاں بھی ختم ہوچکی تھیں، بڑے بچوں نے اسکول جانا شروع کردیا، شام کو اسکول کا کام کرتے اور تھک کر جلدی سوجایا کرتے، چھوٹے بھی اسی بہانے ان کے ساتھ دبک جایا کرتے، کافی سکون ہوگیا تھا لیکن موسم بدلنے سے کسی کو بخار کسی کو کھانسی رہنے لگا. اب اماں کو میرے گھر واپس آنے کا انتظار رہنے لگا کہ شام کو میں گھر پہنچوں اور بیمار بچے کو ڈاکٹر کے پاس لے جاؤں دوا لانے کے لیے، میں نے بھی محلے کے نزدیکی مطب میں لے جانا شروع کردیا. 
آخر کو یہ بھی تو حکیم صاحب تھے، جن کی دکان کے باہر بورڈ پر جلی حروف میں لکھاہوا تھا:
جناب محترم حکیم حکمت اللہ بقائی
جو دیتے ہیں شفا بخش دوائی
یہاں ہر بیماری کا تسلی بخش علاج کیا جاتاہے
جو ایک بار مطب ائے
پھر کہیں اور نہ جائے
اللہ جانے یہ بورڈ مطب کے لیے بنوایا گیا تھا یا کسی موٹر مکینک کی ورکشاپ کے لیے. 
یا پھر حکیم صاحب نے بورڈ والے کو کوئی ایسی دوا دی ہوگی کہ اس کا انتقام بورڈ والے نے اس طرح سے لیا، خیر جو بھی ہو، میرے گھر سے صرف پانچ منٹ کے فاصلے پر تھا اور اوقات کار بھی انتہائی مناسب، شام پانچ تا دس بجے. 
مجھے جلد ہی ایک پرائویٹ کمپنی میں نوکری مل گئی اور میں نے سکھ کا سانس لیا، کیونکہ صبح آٹھ بجے ہی گھر سے نکل جاتا، شام 6 بجے تک گھر سے دور رہنا اور پھر شام کو کھانا کھا کر سو جانا، تھکن ہوتی تھی جلد نیند آجایاکرتی. 
لیکن اب ہر شام گھر پہنچ کر اماں کے کاموں کی لسٹ تیار رہا کرتی اور آپا کا ایک عدد بچہ جو کبھی نزلہ زکام یا بخار کا شکار ہو جاتا. 
پہلے ننگے تھے مگر چنگے تھے لیکن اب یہ کپڑے پہننے کا موسم شاید راس نہیں آیا تھا. 
مجھے ہفتے میں دو تین بار مطب کے چکر لگانے پڑتے تھے. 
ایک دن ہفتے کی شام میں وقت سے پہلے ہی گھر پہنچ گیا اور گھر پہنچتے ہی ابا نے کہا برخوردار کچھ دیر ہمارے پاس بھی بیٹھ جایا کیجیے. اگرچہ میں دوستوں کے ساتھ فلم دیکھنے کا پلان بنانے کے موڈ میں تھا مگر چاروناچار بیٹھنا پڑا. 
حالانکہ ابا جی بھی سارا دن بھائیوں کے ساتھ ان کے کاروبار میں مستقل شریک رہا کرتے تھے، لیکن اس رات جب انھوں نے پیار سے پوچھا تو میں بھی بیٹھ گیا. روزگار کی ساری روداد سنی اور بولے "میاں ! کوئی لڑکی بھی دیکھ رکھی ہے تو بتا دو" میرے تو پسینے چھٹ گئے "نہیں ابا ابھی تو پیسے کمانے ہیں، گھر بنانا ہے، ابھی کہاں"
ابا زیر لب مسکرائے اور بولے وہ سب ہوتا رہے گا، ویسے بھی ہم سب ہیں نا، برخوردار شادی کی عمر ہوگئی ہے آپ کی. 
میں نے دل ہی دل میں سوچا کہ اس گھر میں جگہ ہے کسی اور کے رہنے کی، ابھی شادی کل کو بچے، 
میں نے سوچا تو کپکپا کے رہ گیا
ابھی شاید وہ مزید کچھ فرماتے
اماں کی آواز سنائی دی
ارے محی الدین اورنگ زیب عالم گیر
اتنے لمبے نام کے اختتام تک ان کا سانس پھول چکا تھا اور تب تک میں پہنچ بھی گیا. 
"جی اماں"، میں نے سعادت مندی سے پوچھا. 
"ارے بیٹا چھوٹی گڑیا کو بخار ہے ذرا حکیم صاحب کو دکھا آ". 
آپا کا سب سے چھوٹا نمونہ دو سالہ بیٹی گڑیا بخار میں تپ رہی تھی، اسے اچھی طرح لپیٹ کر مطب جا پہنچا. 
ویسے ہفتے میں تین دن تو اکثر میں اپنے کسی بھانجے یا بھانجی کے ساتھ 7 سے 8 بجے تک حکیم صاحب کے مطب پر ہی ملا کرتا تھا. اور ان کے حکمت کدہ کے کئی معجون، کشتے، مقویات اور جڑی بوٹیوں سے واقفیت ہوگئی تھی. ایک خاص قسم کی خوشبو مطب میں پھیلی ہوا کرتی تھی، جیسے جوشاندہ اور قہوے کا فضا میں چھڑکاؤ کیا گیا ہو، میری ناک اس کی عادی ہوگئی تھی اور شاید میں بھی حکیم صاحب کا، مطب کی خاموشی میں بہت پرسکون رہتا تھا، آج میں 5 بجے ہی جا پہنچا. وہ بھی جیسے ابھی پہنچے ہوں اور دکان کھولنے میں مصروف تھے، مجھے دیکھ کر آنکھوں میں شناسائی کی چمک ابھری. 
دکان کھلی، ان کے بعد میں اندر داخل ہوا. وہی خاص بو، ایک بھبھکے کی طرح ناک کے نتھنوں میں گھسی، بیٹھتے ہی ہم نے گڑیا کو پیش کیا اور انھوں نے نبض چیک کرتے ہی ایک پڑیا سی دی کہ بچی کو ابھی کھلاؤ، وہ کھلانے کے بعد پھر گویا ہوا، 20 منٹ بیٹھنا ہوگا دوسری دوا کھلا کر پھر جانا، میری گود میں گڑیا خاموش لیٹی تھی، میں نے حسب عادت دائیں بائیں دیکھنا شروع کردیا، کیونکہ مجھے وہاں رکھی دواؤں کے عجیب و غریب نام پڑھنا اچھا لگتا تھا. جب کہ حکیم صاحب کسی رسالے یا جریدے کو انہماک سے پڑھنے میں لگ گئے تھے کہ اچانک میری نظر ایک دوا پر پڑی، اس پر لکھاتھا "معجون شباب"، میں نے فوراً بے اختیاری میں پوچھ لیا، حکیم صاحب یہ کس مرض کی دوا ہے؟ حکیم صاحب نے مجھ پر ایسی نگاہ ڈالی کہ میں نے سہم کر نظریں جھکا لیں اور کھسیانہ ہوکر دل ہی دل میں خود کو کوسنے لگا، معذرت کہنا چاہا مگر حلق سے آواز ہی نہ نکلی کہ یکایک کرسی ہلی، میں نے چونک کر دیکھا تو حکیم صاحب اپنی جھالر نما مونچھوں کے نیچے جو پتلے سے ہونٹ تھے ان کے پھڑ پھڑانے سے مونچھوں کے بال اڑنے لگے اور دبی دبی ہنسی ایک قہقہے میں بدل گئی اور ان کے سارے کالے پیلے میلے دانت یکے بعد دیگرے گنتی میں آگئے. 
لیکن ان کے ہنسنے سے میں بھی ہنس پڑا اور پہلی بار حکیم صاحب کو غور سے دیکھا. وہ گوری رنگت متناسب بدن اور درمیانے قد کے معقول انسان لگے اور قہقہے کے باوجود ڈراونے نہیں لگ رہے تھے. ان کی ہنسی نے ان کی ہیبت ختم کردی، ابھی ماحول میں ہنسی گونج رہی تھی کہ اچانک جیسے مطب میں نور پھیل گیا. ایک جواں سالہ خوبرو دوشیزہ جسے دیکھ کر میں ہکابکا رہ گیا، مجھے ایسے محسوس ہوا کہ کوئی انارکلی، منچلی، دیکھ کر جسے کھل گئی دل کی کلی، گل و گلزار، گل بہار، ٹھنڈی ٹھار، میری نظر اس پر جم گئی، میں ہونقوں کی طرح تکنے لگا، گڑیا میری گود میں اونگھ رہی تھی، ابھی اگلی دوا میں وقت تھا، اس لیے مجھے بیٹھنے سے کوئی روک نہیں سکتا تھا. مجھے بھی لگا وقت یہیں تھم جائے، ٹھہر جائے، پہلی بار کوئی لڑکی بحالت بخار و نڈھال اتنی اچھی لگ رہی تھی کہ کوئی لڑکی مجھے شادی بیاہ کے موقع پر بھی میک اپ تھوپ کر دل کو نہیں بھائی تھی. اس کے ساتھ ایک عمر رسیدہ خاتون بھی تھیں، جنھیں میں یکسر فراموش کرچکا تھا. وہ دونوں خواتین میرے سامنے کرسیوں پر براجمان ہوگئیں، کوئی ایک دم اتنا پیارا بھی لگ سکتا ہے اور سارے کا سارا لگ سکتا ہے، میں دم بخود تھا اور شاید بلکہ یقیناً میری آنکھوں کے ساتھ میرا منہ بھی کھل گیا ہوگا، کیونکہ مجھے واپس ہوش میں لانے کے لیے حکیم صاحب کو مصنوعی کھانسی کا سہارا لینا پڑا. وہ زور سے کھنگارے، میری نظر حکیم صاحب پر ہڑی، وہ ںڑی بڑی آنکھیں مزید بڑی کرکے مجھے گھور رہے تھے، جب کہ وہ نازک اندام بیمار حسن نیم مدہوشی میں اپنے ساتھ آئی خاتون کے کندھے پر سر ٹکائے آنکھیں موندے پڑا تھا، اس حسینہ ماہ جبینہ کو خبر تک نہ ہوئی اور ادھر میری کایا ہی تلپٹ ہوگئی تھی، اس نے اگرچہ مجھے نہیں دیکھا لیکن اس کی اس بے توجہی کی وجہ اس کی بیماری تھی، ورنہ میں بھی کوئی کم حسین نہیں تھا، اچھے خاصے قد کاٹھ کے ساتھ کسرتی بدن، گندمی رنگت اور اب تو برسر روزگار بھی، یہ سب سوچ کر ہی میں نے سینہ پھلا لیا اور بالکل سیدھا ہو کر بیٹھ گیا. 
حکیم صاحب نے ان سے بات کرنے سے پہلے مجھے گڑیا کے لیے ایک دوا دی کہ یہ کھلا دو پھر بیس منٹ بعد بتانا، میری خوشی سے بانچھیں کھل گئیں، جنھیں بڑی مشکل سے قابو کیا، مجھے وہاں مزید بیٹھنے کا موقع مل گیا، گڑیا کے ماتھے پر ہاتھ رکھا تو بخار کم محسوس ہوا، پھر دوا کھلائی اور اسے تھپکنے لگا لیکن نگاہیں اس نازنینہ پر ہی جمی تھیں. 
حکیم صاحب نے لڑکی کے ماتھے پر ہاتھ رکھا، پھر نبض چیک کی، بعد ازاں گالوں کو تھپتھپایا اور ساتھ بیٹھی عورت سے بے تکلفی سے کہا، خیرالنساء لیجیے یہ دوا کھلائیے پھر 20 منٹ تک انتظار کرتے ہیں، 20 منٹ تک وہ خیرالنساء سے گھریلو قسم کی باتیں کرتے رہے اور میں گڑیا کو تھپتھپاتا رہا، جب انھوں نے 20 منٹ بعد گڑیا کو چیک کیا تو بخار واقعی کافی کم ہوچکا تھا بلکہ اس کے جسم پر ہلکا سا پسینہ بھی آرہا تھا، پھر انھوں نے دو دن کی دوا دی اور کہا پرسوں آکر دکھانا. 
ابھی میں اٹھا نہیں تھا کہ حکیم صاحب نے اس جواں سال لڑکی کے کندھے پر ہاتھ رکھا، پھر آنکھیں کھول کر چیک کیں تو میرا ماتھا ٹھنکا کہ واہ جی اتنی بے تکلفی اور ایسا تفصیلی معائنہ، خیر مجھے چارو ناچار اٹھنا پڑا، میں ڈھیلے قدموں سے اٹھا، لیکن فوراً ہی حکیم صاحب کی آواز کانوں میں پڑی کہ جائیے آپ اس بچی کو پرسوں اسی وقت مطب لائیے گا اور یہ سننا تھا کہ میرا دل جھوم اٹھا اور میں خوشی خوشی گھر کو بھاگا، لیکن پرسوں آنے اور انارکلی کو دیکھنے کا بہانہ مل گیا تھا، اس وقت مجھے لگا کاش میرا نام اورنگ زیب نہیں، شاہ جہان ہوتا، پھر خیال آیا شاہ جہاں بھائی نے بھی تو اپنے لیے انارکلی پسند کی تھی، اس لیے اورنگ زیب نام ہی ٹھیک ہے. 
عجب بے چینی تھی، مشکل سے دن گزرا کیونکہ اتوار تھا اور دفتر سے مجھے بھی چھٹی تھی، خیر میں بچوں کے ساتھ کھیلتا کودتا رہا اور گڑیا پر مجھے بہت پیار آرہا تھا، سارا دن میں اسے گود میں لیے لیے پھرتا رہا، بچے خوش تھے کہ آج تو چھوٹے ماموں بات بے بات دانت نکال رہے ہیں، پیر کی صبح دفتر گیا، جیسے تیسے کام کیا، مگر دل تو بے قابو تھا، پھر بھی کام میں وقت جلدی گزرگیا، شام ہوتے ہی گھر پہنچا، دیکھا تو گڑیا بھلی چنگی کھیل رہی تھی، میں نے آپا سے کہا اسے تیار کردیں حکیم صاحب کو دکھانا ہے. آپا بڑے پیار سے بولیں ارے نہیں بھیا یہ تو دو دن کی دوا سے بالکل ٹھیک ہوگئی ہے، دیکھو کیسے کھیلتی پھر رہی ہے؟
ارے نہیں آپا ایک بار دکھانے دو، چھوٹی بچی ہے، اس لیے کھیل رہی ہے، پھر بخار ہوگیا تو… 
آپا نے ایک لمحے سوچا کہ چلو ٹھیک ہے اور کپڑے بدلے اور میں نے گود میں اٹھایا اور تیزی سے باہر نکل گیا. 
ارے اورنگ زیب، شاید امی کی آواز تھی، مگر میں دروازے سے باہر نکل چکا تھا اور واپس جانے سے گھبرا گیا کہ انارکلی چلی نہ جائے، لیکن قسمت کی دیوی مہربان تھی، میں جب پہنچا تو لڑکی اور اس کے ساتھ وہ خاتون پہلے سے موجود تھیں، لیکن لگتا ہے ابھی پہنچے تھے وہ لوگ بھی، کیونکہ حکیم صاحب اس لڑکی کو ہی چیک کر رہے تھے. 
میں نے داخل ہوتے ہی سلام کیا اور اس بار لڑکی کی نظر بھی مجھ سے ٹکرائی. آج وہ پہلے سے بہتر اور زیادہ حسین لگ رہی تھی. مجھے دیکھ کر نظریں جھکا لیں، سلام کا جواب حکیم صاحب نے خوش اخلاقی سے دیا اور کہا کیا حال ہے بچی کا؟ گڑیا میری گود میں چہک رہی تھی، جی ماشاءاللہ بہتر ہے. اچھا دیکھتے ہیں. اور ہھر اس لڑکی کو ایک دوا پلائی کہ بیس منٹ رکو لیکن جب انھوں نے گڑیا کو چیک کیا، نبض پکڑی تو گڑیا ہنس پڑی، تو وہ بھی مسکرانے لگے، کہنے لگے پیاری بچی ہے اور اب اسے دوا کی ضرورت نہیں، آپ اسے لےجا سکتے ہیں، "جی" میری بوکھلاہٹ واضح تھی. ارے بھائی ہم نے کہا بچی کو دوا کی ضرورت نہیں. 
جی وہ تو ٹھیک ہے لیکن ہم نے کچھ پوچھنا تھا. 
میں نے بات بنیادی. پتہ نہیں کیسے جھوٹ منہ سے نکل گیا، کیونکہ اس لڑکی کو بیٹھا چھوڑ کر جانا میرے بس میں نہیں تھا. 
جی پوچھیے. 
ارے محترم پہلے خواتین کو فارغ کردیجیے میں بعد میں پوچھ لوں گا، حکیم صاحب نے میری طرف ایسے دیکھا جیسے میرے جھوٹ کو پکڑ لیا ہو اور میرے ماتھے پر جیسے پسینہ آگیا ہو. 
حکیم صاحب ٹھٹکے اور پھر گویا ہوئے: 
ارے برخوردار پوچھیے یہ خواتین تو ہمارے گھر کی ہیں. یہ میری بیٹی زیب النساء اور یہ میری بہن خیرالنسا،
یہ تفصیل سنتے ہی میرے بچے کھچے اوسان بھی خطا ہوگئے اور میں ایک دم اٹھ کھڑا ہوا. 
کچھ خاص نہیں حکیم صاحب پھر کبھی، اجازت دیجیے اللہ حافظ. 
رٹو طوطے کی طرح جملے بولے اور یہ جا وہ جا، حکیم صاحب کیا سمجھے کیا نہیں، کچھ نہیں پتہ لیکن میں مطب سے باہر نکل چکا تھا، ایک ہفتہ جیسے تیسے گزر گیا، میں روز دفتر سے گھر جا کر پوچھتا سب بچے ٹھیک ہیں، جانا ہے کسی نے حکیم صاحب کے پاس۔ عجیب سا اطمینان تھا کہ وہ لڑکی حکیم صاحب کی بیٹی ہے اور اگر میں اس لڑکی کا رشتہ مانگوں گا تو یقیناً مجھے مایوسی نہیں ہوگی. مجھ میں کیا کمی تھی، لیکن بات کیسے کی جائے، اللہ کرے اس کی بات پہلے سے کہیں پکی نہ ہو، میں اسی ادھیڑ بن میں تھا کہ کس طرح حکیم صاحب کے دل میں جگہ بناؤں کیا کروں؟ کیسے اماں کو بتاؤں؟ کہ دسویں دن میں کافی دیر سے گھر پہنچا تو دیکھا کہ آپا بخار میں تپ رہی ہیں. بچوں کا جمگھٹا چارہائی کے گرد لگاہوا ہے اور اماں ہلکے ہلکے روتے ہوئے ماتھے پر سادہ پانی کی پٹیاں کر رہی ہیں، مجھے دیکھتے ہی بولیں ارے اورنگ زیب بھاگ کر جا حکیم صاحب کو لے آ، تیری آپا بخار میں پھک رہی ہے، جا شاباش جلدی جا، ابھی تو 8 بجے ہیں وہ دکان پر ہوں گے. 
اماں دکان ہی کہا کرتی تھیں، جیسے قصائی یا حلوائی کی دکان پر بھیج رہی ہوں. 
آپا کو یوں بے سدھ پڑا دیکھ کر شاید دکھ ہوتا مگر حکیم صاحب کے پاس جانے سے دل کی کلی کھل اٹھی، کہ شاید زیب انساء بھی ہو، پھر دل سے دعا نکلی اللہ نہ کرے کہ وہ بیمار ہو، کاش یہ دعا آپا کے لیے بھی نکلتی، میں فوراً مطب پہنچا اور خوش قسمتی سے حکیم صاحب اکیلے تھے. 
میں نے مؤدبانہ طریقے سے سلام عرض کیا تو انھوں نے مسکرا کر جواب دیتے ہی پوچھا کہ آج کوئی چھوٹا پیس نہیں ساتھ. 
خیر ہے. 
ان کی خوش مذاقی دیکھ کر مجھے بہت اچھا لگا. 
میں نے بصد احترام عرض کیا:
جی چھوٹا پیس نہیں آج بڑا پیس بیمار ہے، یعنی بچوں کی اماں، میری آپا. 
حکیم صاحب بہت کھل کر ہنسے، پھر ان کی جھالر نما مونچھیں ان کے کھل کر ہنسنے سے پھڑپھڑائیں، 
فرمانے لگے میاں تم مذاق اچھا کر لیتے ہو، ویسے طور اطوار سے بھی معقول لگتے ہو. 
ویسے کرتے کیا ہو؟ میں نے تعلیم بتائی اور دفتر میں کام. اسی اثنا میں حکیم صاحب اپنی ضروری چیزیں سمیٹ چکے تھے اور پھر مجھے پکڑاتے ہوئے کہا کہ لو میاں یہ پکڑو ہم مطب بند کر دیتے ہیں. 
واپس گھر ہی جائیں گے. 
پھر ہم دونوں میرے گھر چلے گئے. 
بہت رکھ رکھاؤ سے حکیم صاحب کھنگارے اور پردے کا کہلوایا. 
مگر پردہ کرتا کون؟ اماں تو ستر کے پیٹے میں تھیں اور آپا اپنے آپ سے بے حال. غرضیکہ حکیم صاحب نے بہت تفصیلی معائنہ کیا، اور وہی دوا کا طریقہ، پہلی ڈوز دی اور بیس منٹ انتظار کا کہا اتنی دیر میں اماں نے چائے بنا ڈالی، دو انڈے بھی ابال دیے، حکیم صاحب نے بیس منٹ میں سب بچوں سے نام اور جماعت پوچھی، انڈہ کھایا اور چائے پی، دوسرا انڈہ انھوں نے آپا کو کھلانے کو کہا، بیس منٹ تک بڑا بیٹا پٹیاں کرتا رہا پھر آپا نے آنکھیں کھولیں تو انھیں حکیم صاحب نے اپنی نگرانی میں انڈہ کھلوایا اور نیم گرم دودھ پلوایا. 
جب کھا پی چکیں پھر دس منٹ بعد دوسری دوا دی، اور کہا
تیسری ڈوز ایک گھنٹے بعد کھا کر سو جائیے گا، باقی دوا کا شیڈول اگلے دن کا بنا دیا. 
ایک گھنٹے کی بیٹھک نے انھیں ہم سے اور ہمیں ان سے مانوس کردیا. اچھے خاصے بھلے مانس لگ رہے تھے، پھر میری خوشی کی انتہا نہیں رہی کہ انھوں نے کہا مجھے گھر چھوڑ آؤ، اندھے کو کیا چاہیے دو آنکھیں، 
چشم ما روشن، دل ما شاد، خراماں خراماں چل پڑے، حکیم صاحب کے گھر نہیں، انارکلی کے گھر جانے کی خوشی تھی. چند گلیاں چھوڑ کر ہی گھر تھا. 
اندر آنے کو کہا مگر میں نے معزرت کرلی کہ ابھی بہت دیر ہوگئی صبح دفتر بھی جانا ہے. 
جب میں سلام کرکے مڑنے لگا تو ذرا اونچی آواز میں بولے کل رات 8 بجے مجھے مطب سے لینے آجانا. اگلے دن آٹھ بجے پھر مطب جا پہنچا. سلام دعا ہوئی، دیکھا تو حکیم صاحب پہلے سے ہی تیار تھے، مجھے مختلف عرقیات اور جڑی بوٹیوں سے بھرا بکس پکڑایا اور پھر اسی طرح مطب بند کیا اور ساتھ چل دیے. 
آج تو آپا کافی بہتر تھیں، حکیم صاحب کی آمد کا سن کر دوپٹہ اچھی طرح لپیٹ، سنبھل کر ٹیک لگا کر بیٹھ گئیں، حکیم صاحب نے بھی نام نہاد زنان خانے میں داخل ہوکر نظریں جھکا لیں اور سلام میں پہل کی. آپا کا پتہ نہیں اماں نے جواب بہ آواز بلند دیا، پھر وہی مریضہ کا حال دریافت کیا، وہی دوا، پھر بیس منٹ انتظار، اماں کا آج چائے کے ساتھ رنگ برنگے بسکٹ لانا اور بڑے پیار سے پیش کرنا، ہلکی پھلکی گفتگو ہوئی اور ایک دم اماں کو یاد آیا کہ کل تو حکیم صاحب کو فیس دینا ہی بھول گئے تھے، تو بہت ندامت اور خجالت سے آپا کے پلنگ پر رکھے اپنے پاندان کو کھولا اور مڑا تڑا کتھا لگا پانچ سو کا نوٹ نکالا اور حکیم صاحب کی طرف بڑھایا کہ حکیم صاحب معذرت یہ رکھ لیجیے،
حکیم صاحب نے بھی وضع داری نبھائی، نوٹ خاموشی سے پکڑا اور جواب میں آداب کہا اور اس انداز میں کہا کہ میری ہنسی چھوٹ گئی کہ فیس نہیں جیسے سلامی دی گئی ہو. 
پھر سب پچھلے دن کی طرح ہوا، میں گھر چھوڑ آیا. 
اگلے دن جب میں نے آپا کا حال بہتر دیکھا تو میں رک گیا کہ چلو آج کا ناغہ کیے لیتےہیں، آپا نے بھی مثبت انداز میں سر ہلایا، لیکن ساڑھے آٹھ بجے دروازہ زور سے بجا، میں نے کھولا تو سامنے حکیم صاحب بتیسی نکالے کھڑے تھے، میں ہڑبڑا گیا. 
آئیے آئیے محترم،
کیوں میاں آج لینے کیوں نہیں آئے؟
آپا بہتر تھیں اس لیے، میں نے جھٹ جواب دیا. 
اتنا اونچا بولا کہ سب الرٹ ہوگئے کہ حکیم صاحب آگئے. 
حکیم صاحب نے باقی دو دنوں سے زیادہ خوش مزاجی کا مظاہرہ کیا. 
آپا بھی طبعیت کی بحالی کا مظاہرہ کرتے ہوئے شرمائے جارہی تھیں. جب حکیم صاحب نے نبض پکڑی تو لجا کر چھوئی موئی بن گئیں، جیسے نبض چیک نہ ہو رہی ہو دولہا نے رونمائی کے موقع پر کلائی دابی ہو. 
بس اسی لمحے جیسے ہم سب خاموشی سے سمجھ گئے. اماں نے ان دونوں کو دیکھا، پھر میں نے، پھر اماں نے اور میں نے ایک دوجے کو دیکھا، بات بن گئی تھی، وہ بھی بہت دل چسپ انداز میں، حکیم صاحب نے کوئی عرق نکالا اور آپا کو پینے کو دیا، پھر کہا 30 منٹ بعد دوسرا پلا کر ہی جاؤں گا. 
اماں بھی پاس بیٹھ گئیں اور آج اماں نے حکیم صاحب کو بیٹا کہہ کر مخاطب کیا تو حکیم صاحب بھی بالکل لڑکوں کی طرح شرمانے لگے، اور اماں کے ذاتی سوالوں کے استفسار پر بتایا کہ ان کی عمر پچاس سال ہے. ایک بیٹی ہے زیب النساء، جس کی عمر 21 سال ہے، ایم اے انگلش کیا ہے اور انھیں رنڈوا ہوئے دوسال ہوگئے. 
بچی کبھی پھپھو کے گھر رہتی ہے، کبھی خالہ کے، اتنی سی داستان تھی اور میری تو خوشی دیدنی تھی کہ زیب النساء کا نام ہی میرے نام جیسا نہیں بلکہ اس نے مضمون بھی میرا والا پڑھا، میں آن کی آن میں شیخ چلی کی طرح بہت آگے بڑھ گیا. اماں نے بھی تیس منٹ میں تیز گام چلا ڈالی. ہم سب کے بارے میں بتا کر آپا کے بارے میں تفصیلی دکھ بیان کرنے لگیں، لیکن آپا کے چہرے پر دکھی ہونے کے آثار بالکل نہیں تھے، بلکہ لگ رہا تھا حکیم صاحب بردکھوے کے لیے آئے ہیں، تیس منٹ پورے ہوئے، دوسرا عرق آپا کے حلق میں انڈیلا گیا، پھر تیس منٹ بیٹھے اور اس سے پہلے اٹھتے کہنے لگے جناب بابو صاحب تو بہت شریف النفس انسان ہیں، اگرچہ ملاقات کم ہی ہوئی مگر سب جانتے ہیں، ماشاءاللہ آپ کا گھرانہ بہت اچھا اور تمیزدار ہے. 
اگر ممکن ہوسکے تو کل میں بابو جی سے ملنا چاہوں گا. 
یعنی موصوف اگلے دن پھر آئیں گے، انھوں نے مریضہ کو مزید ادویات لکھ دیں، بلکہ پڑیوں اور عرق کی شکل میں پکڑا دیں. 
پچھلے دنوں کی طرح آج کا دن بھی خیر سے گزرا. 
اگلے دن حکیم صاحب نئی پوشاک پہنے، تازہ تازہ سر اور داڑھی پر خضاب لگائے، پورے وجود کو عطر سے مہکائے ٹھیک آٹھ بجے گھر میں داخل ہوئے. اباجی جی یوں تو روز 9 بجے بھائیوں کی دکان سے آتے تھے، آج اماں کے کہنے پر جلدی گھر پہنچ گئے. 
حکیم صاحب بڑی متانت سے ابا جی سے ملے، پھر جب آپا کے کمرے میں میلے کا سماں تھا، آپا اور ان کے سارے بچے اماں، ابا، میں اور حکیم صاحب، کچھ دیر ایک دوسرے کا حال احوال پوچھتے گزرا کہ اچانک حکیم صاحب اٹھے اور ابا اماں کی طرف دیکھ کر سر جھکاکر بولے "ہمیں اپنی فرزندی میں لے لیجیے"
ایک دم بالکل خاموشی چھا گئی، سب سن کر سن ہوگئے، پھر اچانک ابا جی مسکرا کر کھڑے ہوئے اور حکیم صاحب کو گلے لگا کر بولے:
مبارک ہو آپ کو ہم نے فرزندی میں قبول کیا. 
ادھر آپا شرماہٹ اور خوشی سے دہری ہوئی جارہی تھیں، اوپر سے حکیم صاحب کی گھبراہٹ اور چہرے کے تاثرات بہت دل کش لگ رہے تھے، اماں نے بھی سر پر ہاتھ پھیرا اور میں بھی کس کر لپٹ گیا، کیونکہ میرا تو دہرا رشتہ بننے کی امید تھی، پھر کچھ لمحے توقف کے بعد گویا ہوئے کہ بابو جی آپ اپنی بیٹی سے پوچھ کر بتا دیجیے گا. 
حالانکہ سب واضح تھا لیکن رسماً یہ بات کہہ کر انھوں نے اپنی مروت اور رواداری دکھادی. سب بہت خوش ہوئے. آپا کا جواب تو ان کے چہرے سے عیاں تھا لیکن واقعی ان سے پوچھنا مناسب تھا. 
میں جب گھر چھوڑ کر آیا تو بچے تو سب سونے لیٹ چکے تھے، آپا اماں اور ابا سر جوڑے بیٹھے تھے. 
میں نے بھی استفہامیہ اندازمیں دیکھا تو سب مسکرانے لگے اور آپا کا رنگ چمکنے لگا، وہ ہنستے ہوئے واقعی بالکل نوجوان لڑکی لگ رہی تھیں، جب کہ وہ 40 کے پیٹے میں تھیں، اس رات تو مجھے بھی اچھی نیند آئی لیکن اگلے دن میں نے دفتر سے آتے ہی اماں کو پکڑ لیا اور اکیلے کمرے میں لے آیا. 
اماں نے مجھے اتنا سنجیدہ دیکھ کر بھانپ لیا کہ کچھ بہت ہی خاص بات ہے، وہ بھی خاموشی سے اٹھ کر ساتھ چلی آئیں. 
” کیا بات ہے میرے اورنگ، میرے بچے" بہت شدید لاڈ میں وہ مجھے اورنگ کہتی تھیں. 
میں نے کہا اماں دیکھیے حکیم صاحب ابھی تو آپا سے شادی کرنے کے متمنی ہیں لیکن ان کے بچوں کی ذمہ داری اٹھا سکیں گے یا نہیں یہ بھی بات طے کرنی ہوگی؟
میں نے ایسی بات کی کہ اماں بھی حیران ہوگئیں اور بولیں”بات تو تیری ٹھیک ہے اورنگ، واقعی ابھی جوش ہے کل کلاں کو بچوں کو گھر سے نکال دیا یا ساتھ لے کر ہی نہ گیا تو کیا ہوگا؟
اماں کے معصوم جھریوں زدہ چہرے پر تفکر کے سائے منڈلانے لگے. 
وہ بالکل چپ ہوگئیں. 
پھر میں بولا. 
اماں ایک حل ہے، اس رشتے کو پکا کرنے اور بچوں کو مستقل آپا کے ساتھ رکھنے کا. 
ارے وہ کیا؟ بتا تو، اماں چونک کر بولیں. 
اماں بس آپا کا حکیم صاحب سے نکاح کرتے وقت ایک شرط رکھ دینا. 
اماں منہ کھولے مجھے تک رہیں تھیں اور اشارے سے پوچھا ” کیا”
اماں حکیم صاحب سے کہنا آپا کے نکاح کے دن اپنی بیٹی زیب النساء کا نکاح اورنگ زیب سے کرنا ہوگا، ایسا کرنے سے یہ رشتہ بہت مضبوط ہوجائے گا. 
میں نے اماں کے کندھے جوش سے دبائے اور مسکرا کر بولا، "دیکھ لینا"
اس طرح انھیں یہ رشتہ بہ خوبی نبھانا پڑے گا. 
اماں نے شاید کچھ دیر ذہن ہر زور ڈالا پھر میری طرف دیکھ کر مسکرا دیں، میری بالائیں لیں اور ایسا منہ بنایا جیسے ان کا اورنگ بہت دور کی کوڑی لایا تھا..
***
ارم رحمان کی یہ تخلیق بھی پڑھیں:آوازیں

شیئر کیجیے

One thought on “حکیم حکمت اللہ بقائی

  1. بہت عُمدہ رواں کہانی! مزیدار۔ انارکلی غالباّ جہانگیر کی محبوبہ تھی؟ معجون شباب کا ذکر دوبارہ نہیں ہوا۔ میَں توقع کرتا رہا کہ اختتام اسی پر ہو گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے